صندوق( تابوت) سکینہ
تابوت سکینہ مسلمانوں کے لئے صرف ایک صندوق جتنی اہمیت رکھتا ہے اور قرآن میں اس کے بارے میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ اسکو اس وقت فرشتوں نے اٹھایا ہوا
ہے مزید اسکے بارے میں قرآن اور حدیث میں خاموشی ہے
-
لیکن تابوت سکینہ یہودی مزہب میں بہت اہمیت کا حامل ہے اور اسے انتہائ مقدس سمجھا جاتا ہے- عیسائیت میں بھی یہ اہمیت کا حامل ہے اور اسکا ذکر انکی کتابوں میں بھی ملتا ہے
-
یہودیوں اور عیسائیوں کے نظریے کے مطابق تابوت سکینہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداکے کہنے پر بنایا تھا اور اس میں وہ پتھر کی لوحیں لاکر رکھیں تھیں جو انکو خدا نے کوہ سینا پر دی تھیں اور جن میں یہودی مزہب کی تعلیمات بیان کی گئ تھیں- مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں حضرت موسی کا اعصا، اور من بھی رکھا گیا تھا جو کہ بنی اسرایئل کے لوگون کے لئے اللہ تعالی نے آسمان سے نازل کیا تھا
-
یہ بہت مقدس تابوت شمار کیا جاتا تھا اورہمیشہ مزہبی رہنما اسکو اٹھایا کرتے تھے اور اسکی حفاظت کے لئے فوج کا ایک دستہ بھی ہمیشہ ساتھ رہتا تھا نیز یہ بنی اسرائیل کے نزدیک فتح اور برکت کی علامت تھا- اسکو جنگوں کے دوران لشکر سے آگے رکھا جاتا تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس تابوت کی برکت کی وجہ سے جیت ہمیشہ بنی اسرایئل کی ہی ہو گی
-
جب بنی اسرائیل اللہ کے احکامات کی نافرمانی کرنے لگے اور کھلم کھلا وہ کام کرنے لگے جن سے اللہ نے انہیں منع کیا تھا تو یہ تابوت ان سے ایک جنگ کے دوران کھو گیا اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا- یہ تابوت حضرت طالوت کے زمانے میں واپس مل گیا اور اسی بارے میں قرآن میں بھی ارشاد ہے،"ان لوگوں سے انکے نبی نے کہا کہ طالوت کے بادشاہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق واپس آ جائے گا جس میں تمہارے رہ کی طرف سے تسکین قلب کا سامان ہے اور وہ کچھ اشیاء بھی ہیں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون چھوڑ گئے تھے اسکو فرشتے اٹھا کر لائیں گے اور بلاشبہ اسمیں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو
"-
یہ تابوت جب تک مشرکین کے پاس رہا تب تک اسکی وجہ سے ان پر مشکلات نازل ہوتی رہیں اور آخر کار تنگ آکر انہوں نے اسے ایک بیل گاڑی پر رکھ کر اپنے علاقے سے باہر نکال دیا اور فرشتوں نے اس بیل گاڑی کو ہنکا کر واپس بنی اسرایئل تک پہنچا دیا اور غالبا"اسی بات کی طرف قرآن پاک میں بھی اشارہ کیا گیا ہے
-
حضرت داؤد کے زمانے تک اس تابوت کو رکھنے کے لئے کوئ خاص انتظام نہیں تھا اور اسکے لئے پڑاؤ کی جگہ پر ایک الگ خیمہ لگا دیا جاتا تھا- حضرت داؤد نے خدا کے حکم سے خدا کا گھر بنانا شروع کیا جو عین اس مقام پر ہے جہاں آج مسجد اقصیٰ موجود ہے-لیکن یہ عالی شان گھر آپ کے بیٹے حضرت سلیمان کے عہد میں مکمل ہوا اور اسکو ہیکل سلیمانی کے نام سے جانا جاتا ہے- اس گھر کی تعمیر کے بعدتابوت سکینہ کو یہاں پورے احترام کے ساتھ رکھ دیا گیا- اور اس طرح یہ مقام یہودیوں کا مقدس ترین مقام بن گیا
-
بعد کے زمانے میں ہونے والی جنگوں نے اس ہیکل کو بہت نقصان پہنچایا لیکن بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اس کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور اسکو آگ لگا دی ، وہ یہاں سے مال غنیمت کے ساتھ ساتھ تابوت سکینہ بھی لے گیا تھا- اس تباہی کے نتیجے میں آج اصلی ہیکل کی کوئ چیز باقی نہیں ہے-
ان تمام تباہیوں کے نتیجے میں تابوت سکینہ کہیں غائب ہو گیا اور اسکا کوئ نشان نہیں ملا- آج بھی بہت سارے ماہر آثار قدیمہ اور خصوصا"یہودی مزہب سے تعلق رکھنے والے ماہر اسکی تلاش میں سرکرداں ہیں تاکہ اسکو ڈھونڈ کر وہ اپنی اسی روحانیت کو واپس پا سکیں جو کبھی ان کو عطا کی گئ تھی-
تابوت سکینہ کی موجودہ جگہ کے بارے میں مختلف لوگ قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں کچھ کے نزدیک اس کو افریقہ لے جایا گیا، ایک مشہور ماہر آثار قدیمہ ران وائٹ کا کہنا ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ میں موجود ہے اور کچھ لوگوں کے مطابق اسکو ڈھونڈنے کی کوشش انگلینڈ کے علاقے میں کرنی چاہیے- بہرحال کوششیں جاری ہیں لیکن تاحال انہیں ناکامی کا سامنا ہے
تابوت سکینہ مسلمانوں کے لئے صرف ایک صندوق جتنی اہمیت رکھتا ہے اور قرآن میں اس کے بارے میں صرف یہ بیان کیا گیا ہے کہ اسکو اس وقت فرشتوں نے اٹھایا ہوا
ہے مزید اسکے بارے میں قرآن اور حدیث میں خاموشی ہے
-
لیکن تابوت سکینہ یہودی مزہب میں بہت اہمیت کا حامل ہے اور اسے انتہائ مقدس سمجھا جاتا ہے- عیسائیت میں بھی یہ اہمیت کا حامل ہے اور اسکا ذکر انکی کتابوں میں بھی ملتا ہے
-
یہودیوں اور عیسائیوں کے نظریے کے مطابق تابوت سکینہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے خداکے کہنے پر بنایا تھا اور اس میں وہ پتھر کی لوحیں لاکر رکھیں تھیں جو انکو خدا نے کوہ سینا پر دی تھیں اور جن میں یہودی مزہب کی تعلیمات بیان کی گئ تھیں- مزید یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اس میں حضرت موسی کا اعصا، اور من بھی رکھا گیا تھا جو کہ بنی اسرایئل کے لوگون کے لئے اللہ تعالی نے آسمان سے نازل کیا تھا
-
یہ بہت مقدس تابوت شمار کیا جاتا تھا اورہمیشہ مزہبی رہنما اسکو اٹھایا کرتے تھے اور اسکی حفاظت کے لئے فوج کا ایک دستہ بھی ہمیشہ ساتھ رہتا تھا نیز یہ بنی اسرائیل کے نزدیک فتح اور برکت کی علامت تھا- اسکو جنگوں کے دوران لشکر سے آگے رکھا جاتا تھا اور یہ سمجھا جاتا تھا کہ اس تابوت کی برکت کی وجہ سے جیت ہمیشہ بنی اسرایئل کی ہی ہو گی
-
جب بنی اسرائیل اللہ کے احکامات کی نافرمانی کرنے لگے اور کھلم کھلا وہ کام کرنے لگے جن سے اللہ نے انہیں منع کیا تھا تو یہ تابوت ان سے ایک جنگ کے دوران کھو گیا اور انہیں شکست کا سامنا کرنا پڑا- یہ تابوت حضرت طالوت کے زمانے میں واپس مل گیا اور اسی بارے میں قرآن میں بھی ارشاد ہے،"ان لوگوں سے انکے نبی نے کہا کہ طالوت کے بادشاہ ہونے کی علامت یہ ہے کہ تمہارے پاس وہ صندوق واپس آ جائے گا جس میں تمہارے رہ کی طرف سے تسکین قلب کا سامان ہے اور وہ کچھ اشیاء بھی ہیں جو حضرت موسیٰ اور حضرت ہارون چھوڑ گئے تھے اسکو فرشتے اٹھا کر لائیں گے اور بلاشبہ اسمیں تمہارے لئے بڑی نشانی ہے اگر تم ایمان رکھتے ہو
"-
یہ تابوت جب تک مشرکین کے پاس رہا تب تک اسکی وجہ سے ان پر مشکلات نازل ہوتی رہیں اور آخر کار تنگ آکر انہوں نے اسے ایک بیل گاڑی پر رکھ کر اپنے علاقے سے باہر نکال دیا اور فرشتوں نے اس بیل گاڑی کو ہنکا کر واپس بنی اسرایئل تک پہنچا دیا اور غالبا"اسی بات کی طرف قرآن پاک میں بھی اشارہ کیا گیا ہے
-
حضرت داؤد کے زمانے تک اس تابوت کو رکھنے کے لئے کوئ خاص انتظام نہیں تھا اور اسکے لئے پڑاؤ کی جگہ پر ایک الگ خیمہ لگا دیا جاتا تھا- حضرت داؤد نے خدا کے حکم سے خدا کا گھر بنانا شروع کیا جو عین اس مقام پر ہے جہاں آج مسجد اقصیٰ موجود ہے-لیکن یہ عالی شان گھر آپ کے بیٹے حضرت سلیمان کے عہد میں مکمل ہوا اور اسکو ہیکل سلیمانی کے نام سے جانا جاتا ہے- اس گھر کی تعمیر کے بعدتابوت سکینہ کو یہاں پورے احترام کے ساتھ رکھ دیا گیا- اور اس طرح یہ مقام یہودیوں کا مقدس ترین مقام بن گیا
-
بعد کے زمانے میں ہونے والی جنگوں نے اس ہیکل کو بہت نقصان پہنچایا لیکن بابل کے بادشاہ بخت نصر نے اس کو مکمل طور پر تباہ کر دیا اور اسکو آگ لگا دی ، وہ یہاں سے مال غنیمت کے ساتھ ساتھ تابوت سکینہ بھی لے گیا تھا- اس تباہی کے نتیجے میں آج اصلی ہیکل کی کوئ چیز باقی نہیں ہے-
ان تمام تباہیوں کے نتیجے میں تابوت سکینہ کہیں غائب ہو گیا اور اسکا کوئ نشان نہیں ملا- آج بھی بہت سارے ماہر آثار قدیمہ اور خصوصا"یہودی مزہب سے تعلق رکھنے والے ماہر اسکی تلاش میں سرکرداں ہیں تاکہ اسکو ڈھونڈ کر وہ اپنی اسی روحانیت کو واپس پا سکیں جو کبھی ان کو عطا کی گئ تھی-
تابوت سکینہ کی موجودہ جگہ کے بارے میں مختلف لوگ قیاس آرائیاں کرتے رہتے ہیں کچھ کے نزدیک اس کو افریقہ لے جایا گیا، ایک مشہور ماہر آثار قدیمہ ران وائٹ کا کہنا ہے کہ یہ مشرق وسطیٰ میں موجود ہے اور کچھ لوگوں کے مطابق اسکو ڈھونڈنے کی کوشش انگلینڈ کے علاقے میں کرنی چاہیے- بہرحال کوششیں جاری ہیں لیکن تاحال انہیں ناکامی کا سامنا ہے
Comment