حکایت شیخ سعدی شیرازی
ملک عرب میں ڈاکووں کے ایک گروہ نے پہاڑ کی چوٹی پر ٹکھانہ بنا لیاتھا اور قافلوں اور عوام کو بہت پریشان کرتے لوٹ لیتے اور جو بھی اُن کو پکڑنے کی کوشش کرتا ناکام ریتا۔ بادشاہ نے ایک ہو نہار جاسوس کو اُن پر مقرر کیا جس کی مخبری پر آخر کار اُن کو پکڑ لیا گیااور بادشاہ نے سب کے قتل کا حکم دے دیا۔ اُن میں ایک کم عمر بھولی بھالی صورت کا لڑکا بھی تھا۔ وزیر کو اس کی صورت بھلی لگی اور سفارش کرنے لگا کہ اس لڑکے کی بُری صحبت کی وجہ سے یہ غلط کاموں میں پڑ گیا ہے اگر اچھا ماحول اور تعلیم و تربیت ملے تو یہ سنور سکتا ہے۔ بادشاہ کو یہ بات پسند نہ آئی اور اس نے کہا کہ فطرت بدلا نہیں کرتی یہ ٹھیک نہیں کہ آگ بجھا کر انگارہ چھوڑ دیا جاے۔ مگر وزیر نے اصرار کیا اور بادشاہ نے نہ چاہتے ہوئے بھی اس کو چھوڑ دیا اور اچھی تربیت کا انتظام بھی کیا۔ کچھ دن وہ لڑکا ٹھیک رہا پھر غلط لوگوں میں بیٹھنے لگا اور ایک دن نیک دل وزیر اور اس کے بیٹوں کو قتل کر کے تمام سامان لوٹ کے بھاگ گیا۔ بادشاہ کو خبر ملی تواس نے بہت افسوس کیا اورکہ جوبداصل ہیں بہترین تربیت سے بھی ان کی اصلاح نہیں ہو سکتی،اچھے سے اچھا کاریگر بھی بُرے لوہے سے عمدہ تلوار نہیں بنا سکتا۔
بادل سے برستا ہے جو پانی وہ ایک ہے
لیکن زمیں کو دیتا نہیں ایک سا لباس
بروے جو باغ پرتو اگین لالہ و سمن
بنجر زمین پر اگتیہے لے دے کہ صرف گھاس
لیکن زمیں کو دیتا نہیں ایک سا لباس
بروے جو باغ پرتو اگین لالہ و سمن
بنجر زمین پر اگتیہے لے دے کہ صرف گھاس
سبق: یہاں یہ بات خاص طور پر سمجھنےکی ہے کہ بُرای کو جڑ سے اُکھاڑ دینا چاہیے اگر ایک گناہ سے ہاتھ روک کر دوسرے کوشامل رکھا جائے تو وہ پھر سے پہلے گناہ کی طرف یا اس سے بدتر کی طرف مائل کر سکتا ہے اور یہاں انسانوں کی فطرت بھی بیان کی گی ہے کہ جو لوگ سرکش اور نافرمان ہوتے ہیں ان کے لگاتار گناہوں کی وجہ سے ان کے دلوں پر پردے پڑ جاتے ہیں اور پھر وہ بھلائ کی طرف راغب نہیں ہو پاتے۔ تو بہت بہتر ہے کہ اپنے اندر چھوٹی سے چھوٹی بُرای بھی محسوس کی ہو تو اس کو فورا ختم کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔
Comment