اردو شاعری کی عہد ساز شخصیت احمد فراز کو دنیا سے رخصت ہوئے دو سال ہوگئے ہیں مگر ان کی مقبولیت اور شہرت میں فرق نہیں آیا۔ ان کا کلام آج بھی عوام اور خواص میں پذیرائی کی رفعتوں کو چھو رہا ہے۔
فراز
فراز
1931ء میں کوہاٹ میں پیدا ہونے والے سید احمد شاہ نے اوائل عمری سے ہی لفظوں کے ساتھ طبع آزمائی کی اور پھر بہت جلد دنیائے سخن نے احمد فراز کے روپ اس نوجوان شاعر کو ہردلعزیز ہوتے دیکھا۔
فراز کی شاعری میں جہاں غم جاناں کا ذکر تمام تر لطافتوں سے ملتا ہے وہیں غم دوراں کے قصے بھی اپنی پوری تلخی کے ساتھ لفظوں میں ڈھلے ملتے ہیں۔
سیاسی وسماجی زبوں حالی ہو کہ آمریت کا سیاہ دور،معاشرتی ناہمواریاں ہوں کہ ناانصافی کا کرب ان سبھی موضوعات کو عام فہم انداز میں شاعری کا روپ دینا فراز کے اسلوب کا اہم جزرہا۔
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا
جبھی تو لُوچ کماں کا ،زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں
یقین ہے مجھے
کہ یہ حصارِستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا۔
نوجوان نسل کے مقبول شاعر سید وصی شاہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی اور معاشرتی وسماجی ناانصافیوں کے بارے میں لکھے جانے والے اشعار بہت جلد نعروں کا روپ دھار لیتے ہیں اور بہت بلند آہنگ ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات ان پر نثر کا گمان ہونے لگتا ہے لیکن احمد فراز کے ہاں اس حوالے سے لکھے گئے اشعار اپنی نغمگی کو پوری کاٹ کے ساتھ برقرار رکھتے ہیں۔
وصی کہتے ہیں کہ فراز اپنے اسلوب میں یکتاہیں اور فی زمانہ ان کے بقول کسی شاعر کو اس اسلوب کے قریب تر کہنا تھوڑا مشکل ہے لیکن شعر کہنے والے بلاشبہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
فراز کا انتقال 25اگست 2008ء کو اسلام آباد میں ہوا ۔ ان کا یہ شعر تاریخ کے بدترین سیلاب میں گھری پاکستانی قوم کے لیے آج بھی مشعل راہ ہے۔
شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
فراز کی شاعری میں جہاں غم جاناں کا ذکر تمام تر لطافتوں سے ملتا ہے وہیں غم دوراں کے قصے بھی اپنی پوری تلخی کے ساتھ لفظوں میں ڈھلے ملتے ہیں۔
سیاسی وسماجی زبوں حالی ہو کہ آمریت کا سیاہ دور،معاشرتی ناہمواریاں ہوں کہ ناانصافی کا کرب ان سبھی موضوعات کو عام فہم انداز میں شاعری کا روپ دینا فراز کے اسلوب کا اہم جزرہا۔
میرا قلم تو عدالت میرے ضمیر کی ہے
اسی لیے تو جو لکھا تپاک جاں سے لکھا
جبھی تو لُوچ کماں کا ،زبان تیر کی ہے
میں کٹ گروں کہ سلامت رہوں
یقین ہے مجھے
کہ یہ حصارِستم کوئی تو گرائے گا
تمام عمر کی ایذا نصیبیوں کی قسم
میرے قلم کا سفر رائیگاں نہ جائے گا۔
نوجوان نسل کے مقبول شاعر سید وصی شاہ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سیاسی اور معاشرتی وسماجی ناانصافیوں کے بارے میں لکھے جانے والے اشعار بہت جلد نعروں کا روپ دھار لیتے ہیں اور بہت بلند آہنگ ہوجاتے ہیں اور بعض اوقات ان پر نثر کا گمان ہونے لگتا ہے لیکن احمد فراز کے ہاں اس حوالے سے لکھے گئے اشعار اپنی نغمگی کو پوری کاٹ کے ساتھ برقرار رکھتے ہیں۔
وصی کہتے ہیں کہ فراز اپنے اسلوب میں یکتاہیں اور فی زمانہ ان کے بقول کسی شاعر کو اس اسلوب کے قریب تر کہنا تھوڑا مشکل ہے لیکن شعر کہنے والے بلاشبہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتے۔
فراز کا انتقال 25اگست 2008ء کو اسلام آباد میں ہوا ۔ ان کا یہ شعر تاریخ کے بدترین سیلاب میں گھری پاکستانی قوم کے لیے آج بھی مشعل راہ ہے۔
شکوہ ظلمتِ شب سے تو کہیں بہتر تھا
اپنے حصے کی کوئی شمع جلاتے جاتے
Comment