Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Good morning

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Good morning

    اسلام عليكم اللہ آ پ کو ہمیشہ خوش رکھے

  • #2
    تعلیماتِ دین اسلام.....اور ہم بطورِ مسلمان....اور ہمارا معاشرہ
    اسلامی تاریخ کا دردناک اور تکلیف دہ واقعہ’واقعۂ کربلا’ اسی مہینے کی ۱۰ تاریخ کو پیش آیا۔ جس میں نواسۂ رسولؐ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور بیشتر اہل بیت عظام شہید ہوگئے۔ ستم یہ کہ اُن کو شہید کرنے والے بھی مسلمان ہی کہلاتے تھے۔ چونکہ محرم الحرام کی تمام اہمیتوں سے قطع نظر ، اب محرم کی ساری اہمیت اسی واقعہ فاجعہ کے حوالے سے اُمت میں باقی رہ گئی ہےنبیﷺ کے بعد خلافتِ راشدہ مسلمانوں کی تاریخ کا بے مثال اور سنہرا دور ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کو عظیم فتوحات حاصل ہوئیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ہی مفتوحہ ممالک میں بہت سے حاسدین بھی پیدا ہوگئے جن کو مسلمانوں کا عروج، اتحاد و یگانگت ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔

    چنانچہ حضرت عمرؓ کے دور سے ہی مسلمانوں کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں۔ اسی لیے حضرت عمرؓ کی شہادت ایک ایرانی غلام ابولؤ لؤ فیروزکے ہاتھوںہوئی۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں یہ سازشیں باقاعدہ تحریک بن گئیں۔ ان سازشوں کا سرغنہ ایک یمنی یہودی ‘عبداللہ بن سبا’ تھا۔ اسی لیے یہ سازشی تحریک’سبائی تحریک’ کہلائی۔ حضرت عثمان ؓ کو اسی سازشی جماعت نے شہید کیا۔ حضرت علی ؓ کا پانچ سالہ دورِ خلافت مسلسل خانہ جنگیوں کی نذر ہوگیا۔ ان میں مشہور جنگ جمل (حضرت عائشہؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان) ، جنگ صفین (حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان) اور جنگِ نہروان (حضرت علیؓ اور خارجیوں کے درمیان) ہیں۔ آخر کار ۴۰ ہجری میں حضرت علیؓ کو ہی ایک خارجی عبدالرحمن ابن ملجم نے شہید کردیا۔

    خلافتِ راشدہ کے بعد پہلے حکمران امیرمعاویہؓ ہیں۔ ان کا دورِ حکومت ۲۰ سال پر محیط ہے۔ اندرونی شورشوں کے ساتھ ساتھ بیرونی فتوحات بھی ہوتی رہیں۔ امیرمعاویہ نے اپنی آخری عمر میں اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ نامزد کردیا۔ مسلمانوں کی اکثریت نے اس غیر شرعی فیصلے کو قیصر وکسریٰ کا طریقہ قرار دیتے ہوئے ردّ کردیا۔ سب سے زیادہ مخالفت پانچ اصحابؓ عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ، عبدالرحمن بن ابی بکرؓ، سیدنا حسینؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ نے کی۔ پہلے تین اصحابؓ کسی نہ کسی طرح خاموش ہوگئے مگر آخری دو اَصحاب آخر دم تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔

    ۶۰ ہجری میں امیرمعاویہ وفات پاگئے۔ نامزد خلیفہ یزید نے باپ کی وصیت کے مطابق عنانِ خلافت سنبھالتے ہوئے ہی والی مدینہ مروان بن حکم کو سیدنا حسینؓ اور سیدنا ابن زبیرؓ سے بیعت لینے کی تاکید کی۔ مگر دونوں اصحاب نے حکمت کے ساتھ انکار کرتے ہوئے مدینہ چھوڑ کر مکہ کی راہ لی تاکہ مروان کے دباؤ سے بچ سکیں۔ قیام مکہ کے دوران سیدناحسینؓ کو کوفیوں کی طرف سے پیغامات آنے شروع ہوگئے کہ خلافت اصل میں آپ کا حق ہے، آپ یہاں عراق یعنی کوفہ میں ہمارے پاس آجائیں۔ یہاں سب آپ کے حمایتی اور خیرخواہ ہیں، ہم آپ کے ہاتھ پربیعت کریں گے۔ حضرت حسینؓ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلمؓ بن عقیل کو عراق بھیجا تاکہ وہ صحیح صورت حال معلوم کرکے سیدناحسینؓ کو بتائیں۔

    مسلمؓ بن عقیل کوفہ پہنچے تو واقعی چندہی دنوں میں ۱۸۰۰۰ کوفی مسلمؓ بن عقیل کے ساتھ مل گئے۔ چنانچہ مسلم نے حضرت حسین ؓ کو فوراً کوفہ پہنچنے کا خط لکھ دیا۔ سیدنا حسین ؓ نے اپنے اہل بیت سمیت کوفہ جانے کا ارادہ کرلیا۔ حضرات ابن عباسؓ اور ابن زبیر کو پتہ چلا تو اُنہوں نے سیدنا حسینؓ کو بہ اصرار روکا کہ عراقی قابل بھروسہ نہیں، وہ غدار اور بے وفا ہیں۔ آپ کے والد اور بھائی کے ساتھ اُنہوں نے غداری کی۔ آپ کو بھی وہاں بلا کر آپ سے علیحدہ ہوجائیں گے، ہمیں آپ کی جان کا ڈر ہے۔ دوسرے اُموی حکام سے بھی خطرہ ہے کہ وہ آپ سے بیعت لیے بغیر آپ کو چھوڑیں گے نہیں۔ آپ عراقیوں سے کہیں کہ پہلے وہ اُموی حکام کو بے دخل کرکے فوج اپنے قبضے میں کریں، پھر آپ کو بلائیں۔ حاکم مدینہ اور حاکم مکہ دونوں نے آپ کو اپنے ہاں قیام کی دعوت دی کہ ہم آپ کا پورا تحفظ کریں گے۔ آپ عراق نہ جائیں مگر سیدنا حسینؓ نے سب کی خیرخواہی اور پیشکش مسترد کردیں اور عراق کا قصد کرلیا۔

    دوسری طرف عراق میں حالات یوں پلٹے کہ مسلم بن عقیل کے بارے میں مخبری ہوگئی اور حاکم کوفہ ابن زیاد سے ان کا ٹکراؤ ہوگیا اور توقع کے عین مطابق خطرہ دیکھتے ہوئے سارے کوفی چھٹ گئے اور مسلم کے ساتھ صرف ۳۰ لوگ باقی رہ گئے۔ آخر یہ ۳۰ بھی گھیرے میں آگئے۔ مسلمؓ بن عقیل شدید زخمی ہوئے اور وفات سے پہلے کسی قریبی شخص سے وعدہ لیا کہ میری وصیت سیدناحسینؓ تک پہنچا دینا کہ عراق ہرگز ہرگز نہ آئیں اور جہاں تک پہنچے ہیں، وہیں سے واپس لوٹ جائیں اور میری موت کا بھی پیغام دے دینا۔

    ادھر مکہ سے سیدنا حسین ؓ سب کے روکنے کے باوجود عراق کے لیے اپنے ساتھیوں سمیت روانہ ہوچکے تھے کہ راستے میں اُنہیں مسلم بن عقیل کی موت اور ان کی وصیت کے پیغامات ملے تو اُنہوں نے واپسی کا ارادہ کرلیا۔مگر مسلمؓ بن عقیل کے بھائی کہنے لگے کہ ہم تو اپنے بھائی کے خون کا بدلہ لینے ضرور جائیں گے، چاہے ہماری جانیں چلی جائیں۔ چنانچہ سیدنا حسین ؓ نے بھی واپسی کا ارادہ جو بڑی مشکل سے بنا تھا، پھر تبدیل کردیا اور آگے کو روانہ ہوگئے۔ کوفہ میں سیدنا حسین ؓ کے بارے میں پوری مخبری ہورہی تھی۔ ابن زیاد نے ایک ہزار لشکر حر بن یزید کی سرکردگی میں بھیجا کہ امام حسینؓ کو راستے میں مل کر اِن سے بیعت لو یا اُنہیں گھیر کر میرے پاس واپس لے آؤ۔ کچھ دنوں بعد ہی ایک دوسرا لشکر جو چار ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا۔ عمرو بن سعد کی سرکردگی میں پہنچ گیا۔ اُس نے بھی آکر یہی مطالبے دہرائے۔ سیدناحسین ؓ نے کہا میں بیعت نہیں کرسکتا، میں مکہ واپس چلا جاتا ہوں، آپ میرا راستہ چھوڑ دیں۔مگر اُنہوں نے انکار کیا کہ اب صرف دو ہی راستے ہیں یا بیعت کریں یا ابن زیاد کے پاس چلیں۔ آپؓ نے دونوں باتوں سے شدت سے انکار کیا۔ آخر ابن زیاد کے حکم پرقافلۂ حسینؓ پر پانی بند کردیا گیا۔ اس کے بعد شمر ذی الجوشن بھی ایک مزید دستہ لے کر آن پہنچا اور حالات میں مفاہمت اور مصالحت کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔

    اب تصادم ناگزیر ہوگیا۔ سیدنا حسین ؓ بھی اپنے ۷۲ ساتھیوں کے ساتھ مقابلے کونکلے۔ ۱۰ محرم۶۱ہجری کو کربلا کے میدان میں یہ معرکہ ہوا۔ سیدنا حسینؓ کے ساتھی بہادری سے لڑتے ہوئے ایک ایک کرکے سب شہید ہوگئے۔ ایک شقی القلب’سنان بن انس’ نے آگے بڑھ کر سیدناحسین ؓکا سر مبارک تن سے جدا کردیا۔ اس معرکہ میں علی بن حسینؓ کے علاوہ تمام مرد کام آئے۔ یہی علی بن حسین ؓ بعد میں ‘زین العابدین’ کے نام سے مشہور ہوئے۔

    سیدنا حسینؓ کی شہادت کے بعد اہل بیت کا قافلہ کوفہ بھیجا گیا۔ ابن زیاد نے اُسے آگے شام بھجوا دیا۔ یہ حادثہ عظمیٰ یزید کی لاعلمی اور غیر موجودگی میں پیش آیا۔ اس نے تو صرف بیعت لینے یا بحفاظت شام بھجوانے کا حکم دیا تھا، لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ یزید کو جب اس حادثے کی اطلاع دی گئی تو اس کے آنسو نکل آئے اور کہا: ”ابن زیاد! تم پر اللہ کی لعنت ہو۔ اگر میں وہاں ہوتا تو چاہے میری اولاد ہی کیوں نہ کام آجاتی، میں حسینؓ کی جان بچا لیتا۔”

    یزید کا پورا کنبہ اہل بیت نبوی کا عزیز تھا۔ جیسے ہی عصمت ماب خواتینِ اہل بیت زنان خانے میں داخل ہوئیں، یزید کے گھر میں کہرام مچ گیا اور تین دن تک سوگ برپا رہا۔ یزید علی بن حسین کو اپنے ساتھ دستر خوان پر کھانا کھلاتا تھا، اس نے مالی طور پر بھی اُنہیں خوب آسودہ کیا۔ جب اہل بیت کرام قدرے پرسکون ہوئے تو بڑے احترام و اہتمام اور حفاظت کے ساتھ مدینہ روانہ کیا۔ ان کے شریفانہ سلوک سے متاثر ہوکر فاطمہؓ اور زینبؓ نے اپنے زیور اتار کر اس کے پاس بطورِ ہدیہ بھیجے لیکن اس نے یہ کہہ کر واپس کردیئے کہ ہم نے تو صرف اپنا دینی فریضہ ادا کیا ہے۔

    واعام مسلمانوں کے اندر اس حوالے سے شدید قسم کی افراط و تفریط پائی جاتی ہے اور تصور میں نہ آسکنے والے خود ساختہ جذباتیت پر مبنی قصے، کہانیاں تک مشہور کردی گئی ہیں جن کا تعلق چھوٹے معصوم بچوں اور اہل بیت کی عصمت ماب خواتین سے ہے۔ ان کی بھوک اور پیاس کو بڑے جذباتی انداز میں بیان کرکے جذبات کوبھڑکایا جاتا ہے۔

    جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ یہ راستہ سیدنا حسینؓ کا خود منتخب کردہ راستہ تھا اور ان سب کو اس راہ میں آنے والی تکالیف اور مصائب کا خوب اندازہ تھا۔ وہ حق کے علمبردار، راہِ شہادت کے مسافر تھے۔ شہادت ان سب کی آرزو اور تمنا تھی۔

    فلسفۂ شہادتِ حسینؓ تو اصل میں یہ ہے کہ جس کی روح سے آج پوری اُمت یکسر طور پر محروم ہے۔ ہر سال محرم میں دکھاوے کے طور پر کچھ رسوم ادا کرلی جاتی ہیں جس میں سے کچھ کا تعلق رونے دھونے اور سوگ منانے سے ہے اور کچھ کا تعلق کھانے پینے اور کھلانے پلانے سے ۔ کیا شہیدوں کے لیے بھی رویا جاتا ہے جن کو حیاتِ ابدی نصیب ہوتی ہے؟ کیا شہیدوں کے لیے ماتم کیا جاتا ہے یا اُن کے نقشِ قدم پر چلنا مقصدِ زندگی بنایا جاتا ہے؟ اس طرزِعمل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اُمتِ محمدیہؐ کو اسی بنیاد پر دو بڑے مذہبی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا۔

    آپﷺ نے مسلمانوں کو حکم دے دیا: «عليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين» (سنن ابن ماجہ: 42)

    ”تم پر میری سنت پرعمل کرنا لازم ہے یا پھر خلفاے راشدین کی سنت۔”

    مزید برآں آنحضورﷺ نے فرمایا:«فمن رغب عن سنتی فليس مني»

    ”جس نے میری سنت سے ہٹ کرکوئی عمل کیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔” (اور نہ ہی اس کا عمل مقبول ہے) (صحیح بخاری: 5063)

    واقعہ کربلا وفات النبیﷺ سے ۵۰ سال بعد محرم ۶۱ہجری میں پیش آیا جبکہ سنتِ نبویؐ اپے دائرے میں بند اور مکمل ہوچکی تھی۔ سو واقعہ کربلا کے حوالے سے جو اعمال و افعال ثواب اور نیکی سمجھ کر انجام دیئے جاتے ہیں، وہ کسی درجے میں بھی سنت نہیں کہلائے جاسکتے

    واللہ اعلم
    🌿
    اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور معاف فرمائے آمین

    Comment


    • #3
      تعلیماتِ دین اسلام.....اور ہم بطورِ مسلمان....اور ہمارا معاشرہ
      اسلامی تاریخ کا دردناک اور تکلیف دہ واقعہ’واقعۂ کربلا’ اسی مہینے کی ۱۰ تاریخ کو پیش آیا۔ جس میں نواسۂ رسولؐ سیدنا حسین رضی اللہ عنہ اور بیشتر اہل بیت عظام شہید ہوگئے۔ ستم یہ کہ اُن کو شہید کرنے والے بھی مسلمان ہی کہلاتے تھے۔ چونکہ محرم الحرام کی تمام اہمیتوں سے قطع نظر ، اب محرم کی ساری اہمیت اسی واقعہ فاجعہ کے حوالے سے اُمت میں باقی رہ گئی ہےنبیﷺ کے بعد خلافتِ راشدہ مسلمانوں کی تاریخ کا بے مثال اور سنہرا دور ہے۔ اس دور میں مسلمانوں کو عظیم فتوحات حاصل ہوئیں۔لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ان ہی مفتوحہ ممالک میں بہت سے حاسدین بھی پیدا ہوگئے جن کو مسلمانوں کا عروج، اتحاد و یگانگت ایک آنکھ نہیں بھاتا تھا۔

      چنانچہ حضرت عمرؓ کے دور سے ہی مسلمانوں کے خلاف سازشیں شروع ہوگئیں۔ اسی لیے حضرت عمرؓ کی شہادت ایک ایرانی غلام ابولؤ لؤ فیروزکے ہاتھوںہوئی۔ حضرت عثمانؓ کے دور میں یہ سازشیں باقاعدہ تحریک بن گئیں۔ ان سازشوں کا سرغنہ ایک یمنی یہودی ‘عبداللہ بن سبا’ تھا۔ اسی لیے یہ سازشی تحریک’سبائی تحریک’ کہلائی۔ حضرت عثمان ؓ کو اسی سازشی جماعت نے شہید کیا۔ حضرت علی ؓ کا پانچ سالہ دورِ خلافت مسلسل خانہ جنگیوں کی نذر ہوگیا۔ ان میں مشہور جنگ جمل (حضرت عائشہؓ اور حضرت علیؓ کے درمیان) ، جنگ صفین (حضرت علی ؓ اور حضرت معاویہؓ کے درمیان) اور جنگِ نہروان (حضرت علیؓ اور خارجیوں کے درمیان) ہیں۔ آخر کار ۴۰ ہجری میں حضرت علیؓ کو ہی ایک خارجی عبدالرحمن ابن ملجم نے شہید کردیا۔

      خلافتِ راشدہ کے بعد پہلے حکمران امیرمعاویہؓ ہیں۔ ان کا دورِ حکومت ۲۰ سال پر محیط ہے۔ اندرونی شورشوں کے ساتھ ساتھ بیرونی فتوحات بھی ہوتی رہیں۔ امیرمعاویہ نے اپنی آخری عمر میں اپنے بیٹے یزید کو خلیفہ نامزد کردیا۔ مسلمانوں کی اکثریت نے اس غیر شرعی فیصلے کو قیصر وکسریٰ کا طریقہ قرار دیتے ہوئے ردّ کردیا۔ سب سے زیادہ مخالفت پانچ اصحابؓ عبداللہ بن عمرؓ، عبداللہ بن عباسؓ، عبدالرحمن بن ابی بکرؓ، سیدنا حسینؓ اور عبداللہ بن زبیرؓ نے کی۔ پہلے تین اصحابؓ کسی نہ کسی طرح خاموش ہوگئے مگر آخری دو اَصحاب آخر دم تک اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔

      ۶۰ ہجری میں امیرمعاویہ وفات پاگئے۔ نامزد خلیفہ یزید نے باپ کی وصیت کے مطابق عنانِ خلافت سنبھالتے ہوئے ہی والی مدینہ مروان بن حکم کو سیدنا حسینؓ اور سیدنا ابن زبیرؓ سے بیعت لینے کی تاکید کی۔ مگر دونوں اصحاب نے حکمت کے ساتھ انکار کرتے ہوئے مدینہ چھوڑ کر مکہ کی راہ لی تاکہ مروان کے دباؤ سے بچ سکیں۔ قیام مکہ کے دوران سیدناحسینؓ کو کوفیوں کی طرف سے پیغامات آنے شروع ہوگئے کہ خلافت اصل میں آپ کا حق ہے، آپ یہاں عراق یعنی کوفہ میں ہمارے پاس آجائیں۔ یہاں سب آپ کے حمایتی اور خیرخواہ ہیں، ہم آپ کے ہاتھ پربیعت کریں گے۔ حضرت حسینؓ نے اپنے چچا زاد بھائی مسلمؓ بن عقیل کو عراق بھیجا تاکہ وہ صحیح صورت حال معلوم کرکے سیدناحسینؓ کو بتائیں۔

      مسلمؓ بن عقیل کوفہ پہنچے تو واقعی چندہی دنوں میں ۱۸۰۰۰ کوفی مسلمؓ بن عقیل کے ساتھ مل گئے۔ چنانچہ مسلم نے حضرت حسین ؓ کو فوراً کوفہ پہنچنے کا خط لکھ دیا۔ سیدنا حسین ؓ نے اپنے اہل بیت سمیت کوفہ جانے کا ارادہ کرلیا۔ حضرات ابن عباسؓ اور ابن زبیر کو پتہ چلا تو اُنہوں نے سیدنا حسینؓ کو بہ اصرار روکا کہ عراقی قابل بھروسہ نہیں، وہ غدار اور بے وفا ہیں۔ آپ کے والد اور بھائی کے ساتھ اُنہوں نے غداری کی۔ آپ کو بھی وہاں بلا کر آپ سے علیحدہ ہوجائیں گے، ہمیں آپ کی جان کا ڈر ہے۔ دوسرے اُموی حکام سے بھی خطرہ ہے کہ وہ آپ سے بیعت لیے بغیر آپ کو چھوڑیں گے نہیں۔ آپ عراقیوں سے کہیں کہ پہلے وہ اُموی حکام کو بے دخل کرکے فوج اپنے قبضے میں کریں، پھر آپ کو بلائیں۔ حاکم مدینہ اور حاکم مکہ دونوں نے آپ کو اپنے ہاں قیام کی دعوت دی کہ ہم آپ کا پورا تحفظ کریں گے۔ آپ عراق نہ جائیں مگر سیدنا حسینؓ نے سب کی خیرخواہی اور پیشکش مسترد کردیں اور عراق کا قصد کرلیا۔

      دوسری طرف عراق میں حالات یوں پلٹے کہ مسلم بن عقیل کے بارے میں مخبری ہوگئی اور حاکم کوفہ ابن زیاد سے ان کا ٹکراؤ ہوگیا اور توقع کے عین مطابق خطرہ دیکھتے ہوئے سارے کوفی چھٹ گئے اور مسلم کے ساتھ صرف ۳۰ لوگ باقی رہ گئے۔ آخر یہ ۳۰ بھی گھیرے میں آگئے۔ مسلمؓ بن عقیل شدید زخمی ہوئے اور وفات سے پہلے کسی قریبی شخص سے وعدہ لیا کہ میری وصیت سیدناحسینؓ تک پہنچا دینا کہ عراق ہرگز ہرگز نہ آئیں اور جہاں تک پہنچے ہیں، وہیں سے واپس لوٹ جائیں اور میری موت کا بھی پیغام دے دینا۔

      ادھر مکہ سے سیدنا حسین ؓ سب کے روکنے کے باوجود عراق کے لیے اپنے ساتھیوں سمیت روانہ ہوچکے تھے کہ راستے میں اُنہیں مسلم بن عقیل کی موت اور ان کی وصیت کے پیغامات ملے تو اُنہوں نے واپسی کا ارادہ کرلیا۔مگر مسلمؓ بن عقیل کے بھائی کہنے لگے کہ ہم تو اپنے بھائی کے خون کا بدلہ لینے ضرور جائیں گے، چاہے ہماری جانیں چلی جائیں۔ چنانچہ سیدنا حسین ؓ نے بھی واپسی کا ارادہ جو بڑی مشکل سے بنا تھا، پھر تبدیل کردیا اور آگے کو روانہ ہوگئے۔ کوفہ میں سیدنا حسین ؓ کے بارے میں پوری مخبری ہورہی تھی۔ ابن زیاد نے ایک ہزار لشکر حر بن یزید کی سرکردگی میں بھیجا کہ امام حسینؓ کو راستے میں مل کر اِن سے بیعت لو یا اُنہیں گھیر کر میرے پاس واپس لے آؤ۔ کچھ دنوں بعد ہی ایک دوسرا لشکر جو چار ہزار سپاہیوں پر مشتمل تھا۔ عمرو بن سعد کی سرکردگی میں پہنچ گیا۔ اُس نے بھی آکر یہی مطالبے دہرائے۔ سیدناحسین ؓ نے کہا میں بیعت نہیں کرسکتا، میں مکہ واپس چلا جاتا ہوں، آپ میرا راستہ چھوڑ دیں۔مگر اُنہوں نے انکار کیا کہ اب صرف دو ہی راستے ہیں یا بیعت کریں یا ابن زیاد کے پاس چلیں۔ آپؓ نے دونوں باتوں سے شدت سے انکار کیا۔ آخر ابن زیاد کے حکم پرقافلۂ حسینؓ پر پانی بند کردیا گیا۔ اس کے بعد شمر ذی الجوشن بھی ایک مزید دستہ لے کر آن پہنچا اور حالات میں مفاہمت اور مصالحت کا کوئی امکان باقی نہ رہا۔

      اب تصادم ناگزیر ہوگیا۔ سیدنا حسین ؓ بھی اپنے ۷۲ ساتھیوں کے ساتھ مقابلے کونکلے۔ ۱۰ محرم۶۱ہجری کو کربلا کے میدان میں یہ معرکہ ہوا۔ سیدنا حسینؓ کے ساتھی بہادری سے لڑتے ہوئے ایک ایک کرکے سب شہید ہوگئے۔ ایک شقی القلب’سنان بن انس’ نے آگے بڑھ کر سیدناحسین ؓکا سر مبارک تن سے جدا کردیا۔ اس معرکہ میں علی بن حسینؓ کے علاوہ تمام مرد کام آئے۔ یہی علی بن حسین ؓ بعد میں ‘زین العابدین’ کے نام سے مشہور ہوئے۔

      سیدنا حسینؓ کی شہادت کے بعد اہل بیت کا قافلہ کوفہ بھیجا گیا۔ ابن زیاد نے اُسے آگے شام بھجوا دیا۔ یہ حادثہ عظمیٰ یزید کی لاعلمی اور غیر موجودگی میں پیش آیا۔ اس نے تو صرف بیعت لینے یا بحفاظت شام بھجوانے کا حکم دیا تھا، لڑنے کی اجازت نہیں دی تھی۔ یزید کو جب اس حادثے کی اطلاع دی گئی تو اس کے آنسو نکل آئے اور کہا: ”ابن زیاد! تم پر اللہ کی لعنت ہو۔ اگر میں وہاں ہوتا تو چاہے میری اولاد ہی کیوں نہ کام آجاتی، میں حسینؓ کی جان بچا لیتا۔”

      یزید کا پورا کنبہ اہل بیت نبوی کا عزیز تھا۔ جیسے ہی عصمت ماب خواتینِ اہل بیت زنان خانے میں داخل ہوئیں، یزید کے گھر میں کہرام مچ گیا اور تین دن تک سوگ برپا رہا۔ یزید علی بن حسین کو اپنے ساتھ دستر خوان پر کھانا کھلاتا تھا، اس نے مالی طور پر بھی اُنہیں خوب آسودہ کیا۔ جب اہل بیت کرام قدرے پرسکون ہوئے تو بڑے احترام و اہتمام اور حفاظت کے ساتھ مدینہ روانہ کیا۔ ان کے شریفانہ سلوک سے متاثر ہوکر فاطمہؓ اور زینبؓ نے اپنے زیور اتار کر اس کے پاس بطورِ ہدیہ بھیجے لیکن اس نے یہ کہہ کر واپس کردیئے کہ ہم نے تو صرف اپنا دینی فریضہ ادا کیا ہے۔

      واعام مسلمانوں کے اندر اس حوالے سے شدید قسم کی افراط و تفریط پائی جاتی ہے اور تصور میں نہ آسکنے والے خود ساختہ جذباتیت پر مبنی قصے، کہانیاں تک مشہور کردی گئی ہیں جن کا تعلق چھوٹے معصوم بچوں اور اہل بیت کی عصمت ماب خواتین سے ہے۔ ان کی بھوک اور پیاس کو بڑے جذباتی انداز میں بیان کرکے جذبات کوبھڑکایا جاتا ہے۔

      جبکہ دوسری طرف ہم دیکھتے ہیں کہ یہ راستہ سیدنا حسینؓ کا خود منتخب کردہ راستہ تھا اور ان سب کو اس راہ میں آنے والی تکالیف اور مصائب کا خوب اندازہ تھا۔ وہ حق کے علمبردار، راہِ شہادت کے مسافر تھے۔ شہادت ان سب کی آرزو اور تمنا تھی۔

      فلسفۂ شہادتِ حسینؓ تو اصل میں یہ ہے کہ جس کی روح سے آج پوری اُمت یکسر طور پر محروم ہے۔ ہر سال محرم میں دکھاوے کے طور پر کچھ رسوم ادا کرلی جاتی ہیں جس میں سے کچھ کا تعلق رونے دھونے اور سوگ منانے سے ہے اور کچھ کا تعلق کھانے پینے اور کھلانے پلانے سے ۔ کیا شہیدوں کے لیے بھی رویا جاتا ہے جن کو حیاتِ ابدی نصیب ہوتی ہے؟ کیا شہیدوں کے لیے ماتم کیا جاتا ہے یا اُن کے نقشِ قدم پر چلنا مقصدِ زندگی بنایا جاتا ہے؟ اس طرزِعمل کا سب سے بڑا نقصان یہ ہوا کہ اُمتِ محمدیہؐ کو اسی بنیاد پر دو بڑے مذہبی گروہوں میں تقسیم کردیا گیا۔

      آپﷺ نے مسلمانوں کو حکم دے دیا: «عليکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدين» (سنن ابن ماجہ: 42)

      ”تم پر میری سنت پرعمل کرنا لازم ہے یا پھر خلفاے راشدین کی سنت۔”

      مزید برآں آنحضورﷺ نے فرمایا:«فمن رغب عن سنتی فليس مني»

      ”جس نے میری سنت سے ہٹ کرکوئی عمل کیا، اس کا مجھ سے کوئی تعلق نہیں۔” (اور نہ ہی اس کا عمل مقبول ہے) (صحیح بخاری: 5063)

      واقعہ کربلا وفات النبیﷺ سے ۵۰ سال بعد محرم ۶۱ہجری میں پیش آیا جبکہ سنتِ نبویؐ اپے دائرے میں بند اور مکمل ہوچکی تھی۔ سو واقعہ کربلا کے حوالے سے جو اعمال و افعال ثواب اور نیکی سمجھ کر انجام دیئے جاتے ہیں، وہ کسی درجے میں بھی سنت نہیں کہلائے جاسکتے

      واللہ اعلم
      🌿
      اللّٰہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت دے اور معاف فرمائے آمین

      Comment

      Working...
      X