Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

Reported Post by S.A.Z

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • Reported Post by S.A.Z

    S.A.Z has reported a post.

    Reason:
    السلامُ علیکم
    ایک ہی تھریڈ تین مرتبہ پوسٹ ہو گیا ہے
    اس کو ڈیلیٹ کر دیں۔
    Post: قیام الیل یعنی تراویح کے بعض مسائل
    Forum: Mazameen
    Assigned Moderators: *Rida*, Tanha Hassan

    Posted by: lovelyalltime
    Original Content:


    قیام الیل یعنی تراویح کے بعض مسائل

     نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ قیام الیل یعنی نما زتہجد کا اہتمام فرماتے تھے۔ لیکن ایک رمضان میں آپ نے تہجد کی یہ نماز تین دن باجماعت ادا فرمائی۔ آپ کے ساتھ صحابہ نے بھی نہات ذوق و شوق کے ساتھ تین دن یہ نماز پڑھی۔ چوتھے دن بھی صحابہ قیام الیل کے لیے آپ کے منتظر رہے۔ لیکن آپ حجرے سے باہر تشریف نہیں لائے اور اس کی وجہ آپ نے یہ بیان فرمائی کہ مجھے یہ اندیشہ لاحق ہوگیا کہ کہیں رمضان المبارک میں یہ قیام الیل تم پر فرض نہ کر دیا جائے۔ اس لیے اس کے بعد یہ قیام الیل بطور نفلی نماز کے انفرادی طور پر ہوتا رہا۔

    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے عہد میں یہی معمول رہا۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلافت میں سیدنا تمیم داری اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو حکم دیا کہ وہ رمضان میں اس قیام الیل کا باجماعت اہتمام کریں۔ چنانچہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے حکم پر دوبارہ اس سنت کا احیاء عمل میں آیا، جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خواہش کے باوجود ، فرض ہو جانے کے خوف سے چھوڑ دیا تھا۔

     اس سے معلوم ہوا کہ یہ قیام الیل فرض یا سنت مؤکدہ نہیں ہے، بلکہ اس کی حیثیت نفلی نماز کی ہے۔
     یہ بھی معلوم ہوا کہ عہد رسالت و عہد صحابہ میں اسے قیال الیل کہا جاتا تھا۔ یعنی تہجد کی نماز۔ جس سے یہ بات واضح ہوتے ہے کہ نماز تہجد کا وقت عشاء کی نماز کے بعد سے لے کر رات کے آخری پہر طلوع فجر تک ہے۔ اس وقت کے دوران کسی بھی وقت اسے پڑھا جا سکتا ہے۔

     وقت کی اسی وسعت اور گنجائش کی وجہ سے اس نما زتہجد کو رمضان المبارک میں عشاء کی نماز کے فوراً بعد پڑھ لیا جاتا ہے تاکہ کم از کم رمضان میں زیادہ سے زیادہ لوگ قیام الیل کی فضیلت حاصل کر سکیں اور اسی وجہ سے اس کی جماعت کا بھی اہتمام ہوتا ہے، کیونکہ فرداً فرداً ہر شخص کے لیے اس کا پڑھنا مشکل ہے۔

     بعد میں اس قیام الیل کو تراویح کا نام دے دیا گیا اور اسے رمضان کی مخصوص نماز سمجھا جانے لگا۔ حالانکہ یہ رمضان کے ساتھ مخصوص ہے نہ یہ رمضان کی کوئی مخصوص نماز ہی ہے۔ یہ قیام الیل یا نماز تہد ہے جس کا پڑھنا سارا سال ہمیشہ ہی مستحب اور اہل صلاح و تقویٰ کا معمول رہا ہے۔ اس لیے اسے اول وقت میں اور باجماعت پڑھنے یا نیا نام رکھنے کی وجہ سے تہد سے مختلف نماز سمجھنا بالکل بے اصل اور بلا دلیل بات ہے۔

     رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام الیل یا نماز تہجد میں کتنی رکعت پڑھنے کا معمول تھا؟ اس کی وضاحت صحیح بخاری و مسلم میں سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے منقول ہے کہ وہ وتر کے علاوہ آٹھ رکعت اور وتر سمیت گیارہ رکعت ہے:
    (ما کان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ۔۔۔۔۔رکعة) (صحیح البخاری، التہجد، باب قیام النبی باللیل فی رمضان وغیرہ، ح: ۱۱۴۷ وصحیح مسلم، صلاة المسافرین، باب صلاة اللیل وعدد رکعات النبی صلی اللہ علیہ وسلم فی اللیل ۔۔۔ الخ، ح: ۷۳۹)
    ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں گیارہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔‘‘

    سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ وضاحت ابو سلمہ کے اس سوال پر فرمائی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی رمضان میں (رات كی نماز)کس طرح ہوتی تھی؟ اس سوال کے جواب میں جو کہا گیا وہ رکعت ہی آپ ہمیشہ پڑھا کرتے تھے، تو رمضان کے ساتھ غیر رمضان کا ذکر کر کے یہ بات سمجھا دی کہ جو غیر رمضان میں آپ کی تہجد کی نماز ہوتی تھی وہی رمضان میں آپ کی تراویح ہوتی تھی۔

    نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین راتیں جو با جماعت قیام اللیل فرمایا، ان میں بھی آپ نے آٹھ رکعات اور تین وتر ہی پڑھائے۔ (قیام اللیل، للمروزی، اول کتاب قیام رمضان، ص۱۵۵ المکتبة الاثریة، سانگلہ ہل)

    سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا تمیم داری اور سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہما کو باجماعت تراویح پڑھانے کا جو حکم دیا وہ بھی گیارہ رکعتوں ہی کا تھا جو صحیح سند سے ثابت ہے۔ (مؤطا امام مالک، باب ماجاء فی قیام رمضان ۱۱۵/۱طبع بیروت)
     رمضان کے قیام اللیل یا تراویح میں ۲۰ رکعتوں کا معمول سنت نبوی کے خلاف ہے اور اس کے ثبوت میں جتنی روایات پیش کی جاتی ہیں وہ سب ضعیف ہیں۔ جس کا اعتراف علماء احناف کو بھی ہے۔

    تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو۔:
     مؤطا امام محمد، باب قیام شھر رمضان، ص ۱۳۸، طبع مصطفانی ۱۲۹۷ ھ۔
     نصب الرایة علامہ زیعلی حنفی ۱۵۳/۲، طبع المجلس العلمی، دابھیل ، سورت، بھارت۔
     مرقاة المفاتیح ملا علی قاری حنفی ۱۹۲/۳ ، ۱۹۴ مکتبة امدایة ملتان۔
     عمدة القاری شرح صحیح البخاری، علامة بدر الدین عینی حنفی ۱۷۷/۷، طبع منیریہ ، مصر۔
     امام ابن ھمام حنفی فتح القدر ، شرح ہدایہ، ۳۳۴/۱۔
     حاشیة صحیح بخاری، مولانا احمد علی سہارنپوری ۱۵۴/۱۔
     امام ابن نُجَیم حنفی ، البحرالرائق ۷۲/۲۔
    علامة طحطاوی حنفی، حاشیہ درمختار ۲۹۵/۱۔
     رد المختار (فتاوی شامی) علامہ ابن عابدین حنفی ۴۹۵/۱۔
     سید احمد حموی حنفی، حاشیة الاشباہ، ص ۹۔
     علامہ ابو السعود حنفی، شرح کنز الدقائق، ص ۲۶۵۔
     حاشیہ کنز الدقائق، مولانا محمد احسن نانوتوی، ص ۳۶۔
     مراقی الفلاح، شرح نور الایضاح، ابو الحسن شرنبلالی، ص ۲۴۷۔
     شیخ عبدالحق محدث دھلوی، ماثبت فی السنة، ص ۲۹۲۔
     مولانا عبدالحی لکھنوی حنفی رحمہ اللہ نے اپنے متعدد حواشی میں اس کی صراحت فرمائی ہے۔ مثلا عمدة الرعایة ۲۰۷/۱
     تعلیق الممجد، ص ۱۳۸۔
     تحفة الاخیار، ص ۲۸، طبع لکھنؤ۔
     حاشیہ ھدایة ١/١٥١ طبع قرآن محل کراچی۔
     مولانا انور شاہ کشمیری کی صراحت کے لیے ملاحظہ ہو۔ فیض الباری، ١/٤٢٠
     العرف الشذی، ص ۳۰۹۔
     شاہ ولی اللہ محمد دھلوی ، مصفی شرح مؤطا فارسی مع مسوی ۱۷۷/۱۔طبع کتب خانہ رحیمیہ دھلی ۱۳۴۶ ھ۔ وغیرھا من الکتب۔

    ان تمام مذکورہ کتابوں میں سے بعض میں اگرچہ بعض صحابہ کے عمل کی بنیاد پر ۲۰ رکعات تراویح کا جواز یا استحباب ثابت کیا گیا ہے۔ لیکن دو باتیں سب نے متفقہ طور پر تسلیم کی ہیں کہ تراویح کی مسنون تعداد آٹھ رکعات اور وتر سمیت گیارہ (۱۱) رکعات ہی ہیں نہ کہ بیس یا اس سے زیادہ ۔ دوسری بات یہ کہ (۲۰) رکعات والی حدیث بالکل ضعیف اور نا قابل اعتبار ہے۔

    تراویح نفلی نماز ہے اور ایک مومن نوافل ادا کرتا ہے تو اس سے اس کا مقصداللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کا خصوصی قرب حاصل کرنا ہوتا ہے۔ لیکن عام مساجد میں جس طرح قرآن مجید تراویح میں پڑھا اور سنا جاتا ہے اور جتنی سرعت اور برق رفتاری سے رکوع ، سجود اور قومہ وغیرہ کیا جاتا ہے۔ کیا اس طرح قرآن کریم اور نماز کا حلیہ بگاڑنے سے اللہ تعالیٰ کے قرب کی توقع کی جا سکتی ہے؟ نہیں ، ہر گز نہیں۔ تیزی اور روانی میں قرآن کریم کے سارے اعجاز، فصاحت و بلاغت اور اس کے انداز تبشیر کا بیڑا غرق کر دیا جائے اور اسی طرح نماز کی ساری روح مسخ کر دی جائے اور پھر امید رکھی جائے کہ ہمیں اجر و ثواب ملے گا، اللہ تعالیٰ راضی ہو جائے گا اور ہم اس کے قرب خصوصی کے مستحق ہو جائیں گے۔

    یہ سراسر بھول اور فریب نفس ہے، شیطان کا بہکاوا اور اس کا وسوسہ ہے، ہماری نادانی اور جہالت ہے۔اگر ہم چاہتے ہیں کہ رمضان کے قیام الیل (تراویح) کی وہ فضیلت ہمیں حاصل ہو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان فرمائی ہے کہ:
    (من قام۔۔۔۔ من ذنبہ) (صحیح البخاری، صلاة التراویح، باب فضل من قام رمضان، ح: ۲۰۰۹)
    ’’جس نے ایمان و احتساب کے ساتھ رمضان (کی راتوں) میں قیام کیا اس کے پچھلے گناہ معاف ہو جائیں گے۔‘‘

    تو اس کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید میں حسن تجوید اور ترتیل کا اور اسی طرح نمازوں میں ارکان اعتدال کا اہتمام کریں، جیسا کہ ان دونوں باتوں کی تاکید ہے۔ اس کے بغیر
    قرآن کا پڑھنا سننا کار ثواب ہے نہ تراویح و شبینوں کے اہتمام ہی کی کوئی اہمیت ہے۔



  • #2
    Re: Reported Post by S.A.Z

    ye bhi ajeeb hi hai





    Comment

    Working...
    X