Post: ست سر مالا
User: Dr Faustus
Infraction: Copy from Other Sites
Points: 1
Administrative Note:
Message to User:
Original Post:
User: Dr Faustus
Infraction: Copy from Other Sites
Points: 1
Administrative Note:
Message to User:
بہت خوب، مزہ آگیا، شکریہ
Original Post:
ست سرمالا کی اخری جھیل
سرخیل جھیل
[ATTACH]100234[/ATTACH]
میں ست سرمالہ کے اختتام پہ کھڑا تھا اور وادی کی اخری جھیل مرے مدمقابل تھی
اس جھیل کے نام کے بارے میں عرض ہے فیری لیک کے علاوہ سب
جھیلیں بے نام تھیں لیکن اسے میں سے سرخیل جھیل کہا جس کے معنی سردار کے ہیں
ست سرمالا کی سب سے بلند اور حکمران جھیل
اس جھیل کی ایک مسلمہ حقیقت ویرانی تھی۔۔۔ویرانی اکثر دور دور تک پھیلی
ہوتی ہے لیکن یہاں یہ پاس ہی بیٹھی تھی۔۔دلوں کے اندر گھرتی ہوئی۔۔
برف پوش بلندیوں پہ قدرت کا ایک نااشنا اور پرفریب مقام تھا جہاں ایک
اجنبیت اور گم صم تنہائی تھی۔۔اس پوشیدہ و روپوش جھیل کو انسانی
آنکھ نے بہت کم دیکھا ہوگا۔۔۔کہ یہ علاقہ اتنا بلند اور ویران ہے کہ یہاں
بھیڑ بکریوں والے بھی کم ہی پہنچتے ہیں
میں اس وقت پونے سولہ ہزار فٹ کی بلندی پہ تھا جہاں ایک عجیب نشہ تھا
یہاں چہار سو ایک ابدی خامشی اور حیرت تھی۔۔ایک عجیب سا خمار
اور فسوں پھیلا تھا میرے سامنے برفانی پہاڑوں میں سرخیل جھیل سحر انگیز ملفوف
میں بچھی پڑی تھی میں اس کی تاب ہی نہ لا سلکا
یہ شاید میری زندگی کا چپ ترین مقام تھا مجھے اپنے دل کی دھڑکن اور گھڑی
کی ٹک ٹک سنائی دینے لگی میں اس کی تعظیم میں یوں چپ تھا جیسے
ترانہ بج رہا ہو
اس کے سیاہ پانیوں میں ایک خوف تھا تکبر تھا غرور تھا پھر
یہ خوف میرے رگ و پے میں سمانے لگا۔۔اس جھیل میں کسی دوسری جھیل کا
پانی نہیں گرتا تھا اس کے پانی اسے کے اپنے تھے۔۔۔اور اس کے وسوسے بھی
اسے کے اپنے تھے جنہیں یہ دھیرے دھیرے مجھے منتقل کر رہ تھی
ایسا لگا میں شاید جنوں اور پریوں کی بستی کا مہمان ہوں
اور ہر پتھر کی اوٹ سے مجھے کوئی دیکھ رہا ہے۔۔خوف کی ایک سرد
لہر سارے جسم میں دوڑ گئی یہ ایک کھٹور اور نامہربان
جھیل تھی۔۔یہ جیسے مسلسل وارننگ دے رہی تھی کہ یہاں سے
چلے جاو۔۔اس کے سیاہ پانیوں میں کالا پانی کی سزا ایسا خود اور موت کی جھلک تھی
طوفان کی امد امد تھی کچھ دیر میں برف کی بوندیں گرنے لگیں
اس جان گسل تنہائی میں کیپمپ ۔۔۔لیکن میں انجانے خوف میں مبتلا ہوگیا
دل خوف میں ہے عالم فانی کو دیکھ کر
اتی ہے یاد موت پانی کو دیکھ کر
میں نے اس انجانی جھیل پہ اخری نگاہ ڈالی اور واپسی کی اترائی اترنے لگا
سرخیل جھیل دھندلی شام میں روپوش ہوتی چلی گئی
اور چند لمحوں میں ماضی کا قصہ بن گئی
سرخیل تقاضا کرتی تھی کہ اس کے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے لیکن میرے لیے
یہ ناممکن تھا۔۔کاش میں ایک رات کیمپ کرتا اور اس کے ساتھ
رات بتاتا اور دیکھتا اس کی سختی کتنی جان لیوا ہے۔۔۔۔رات گے ٹھٹھرتی سردی میں
کیمپ سے نکل کر اس کے کناروں پہ بیٹھ کے اس کے پانیوں کو انگلیوں سے چھوا جائے
اور دیکھا جائے اس کے پانی کتنے زہر ناک ہیں
یہ میری ایک خواہش ہے۔۔۔۔۔ میں انشا اللہ دوبارہ جون میں ست سرمالہ جائوں گا۔۔
۔۔صرف سرخیل کے کناروں پہ ایک رات بسر کرنے
ڈاکٹر فاسٹس
سرخیل جھیل
[ATTACH]100234[/ATTACH]
میں ست سرمالہ کے اختتام پہ کھڑا تھا اور وادی کی اخری جھیل مرے مدمقابل تھی
اس جھیل کے نام کے بارے میں عرض ہے فیری لیک کے علاوہ سب
جھیلیں بے نام تھیں لیکن اسے میں سے سرخیل جھیل کہا جس کے معنی سردار کے ہیں
ست سرمالا کی سب سے بلند اور حکمران جھیل
اس جھیل کی ایک مسلمہ حقیقت ویرانی تھی۔۔۔ویرانی اکثر دور دور تک پھیلی
ہوتی ہے لیکن یہاں یہ پاس ہی بیٹھی تھی۔۔دلوں کے اندر گھرتی ہوئی۔۔
برف پوش بلندیوں پہ قدرت کا ایک نااشنا اور پرفریب مقام تھا جہاں ایک
اجنبیت اور گم صم تنہائی تھی۔۔اس پوشیدہ و روپوش جھیل کو انسانی
آنکھ نے بہت کم دیکھا ہوگا۔۔۔کہ یہ علاقہ اتنا بلند اور ویران ہے کہ یہاں
بھیڑ بکریوں والے بھی کم ہی پہنچتے ہیں
میں اس وقت پونے سولہ ہزار فٹ کی بلندی پہ تھا جہاں ایک عجیب نشہ تھا
یہاں چہار سو ایک ابدی خامشی اور حیرت تھی۔۔ایک عجیب سا خمار
اور فسوں پھیلا تھا میرے سامنے برفانی پہاڑوں میں سرخیل جھیل سحر انگیز ملفوف
میں بچھی پڑی تھی میں اس کی تاب ہی نہ لا سلکا
یہ شاید میری زندگی کا چپ ترین مقام تھا مجھے اپنے دل کی دھڑکن اور گھڑی
کی ٹک ٹک سنائی دینے لگی میں اس کی تعظیم میں یوں چپ تھا جیسے
ترانہ بج رہا ہو
اس کے سیاہ پانیوں میں ایک خوف تھا تکبر تھا غرور تھا پھر
یہ خوف میرے رگ و پے میں سمانے لگا۔۔اس جھیل میں کسی دوسری جھیل کا
پانی نہیں گرتا تھا اس کے پانی اسے کے اپنے تھے۔۔۔اور اس کے وسوسے بھی
اسے کے اپنے تھے جنہیں یہ دھیرے دھیرے مجھے منتقل کر رہ تھی
ایسا لگا میں شاید جنوں اور پریوں کی بستی کا مہمان ہوں
اور ہر پتھر کی اوٹ سے مجھے کوئی دیکھ رہا ہے۔۔خوف کی ایک سرد
لہر سارے جسم میں دوڑ گئی یہ ایک کھٹور اور نامہربان
جھیل تھی۔۔یہ جیسے مسلسل وارننگ دے رہی تھی کہ یہاں سے
چلے جاو۔۔اس کے سیاہ پانیوں میں کالا پانی کی سزا ایسا خود اور موت کی جھلک تھی
طوفان کی امد امد تھی کچھ دیر میں برف کی بوندیں گرنے لگیں
اس جان گسل تنہائی میں کیپمپ ۔۔۔لیکن میں انجانے خوف میں مبتلا ہوگیا
دل خوف میں ہے عالم فانی کو دیکھ کر
اتی ہے یاد موت پانی کو دیکھ کر
میں نے اس انجانی جھیل پہ اخری نگاہ ڈالی اور واپسی کی اترائی اترنے لگا
سرخیل جھیل دھندلی شام میں روپوش ہوتی چلی گئی
اور چند لمحوں میں ماضی کا قصہ بن گئی
سرخیل تقاضا کرتی تھی کہ اس کے ساتھ کچھ وقت گزارا جائے لیکن میرے لیے
یہ ناممکن تھا۔۔کاش میں ایک رات کیمپ کرتا اور اس کے ساتھ
رات بتاتا اور دیکھتا اس کی سختی کتنی جان لیوا ہے۔۔۔۔رات گے ٹھٹھرتی سردی میں
کیمپ سے نکل کر اس کے کناروں پہ بیٹھ کے اس کے پانیوں کو انگلیوں سے چھوا جائے
اور دیکھا جائے اس کے پانی کتنے زہر ناک ہیں
یہ میری ایک خواہش ہے۔۔۔۔۔ میں انشا اللہ دوبارہ جون میں ست سرمالہ جائوں گا۔۔
۔۔صرف سرخیل کے کناروں پہ ایک رات بسر کرنے
ڈاکٹر فاسٹس
Comment