tauruskhan has reported a post.
Reason:
Post:
Forum: Behas-o-Mubahisa aur Halat-e-Hazira
Assigned Moderators: HumRaaz, kutkutariyaan
Posted by: Nokia_Afridi
Original Content:
Reason:
copy paste material
Forum: Behas-o-Mubahisa aur Halat-e-Hazira
Assigned Moderators: HumRaaz, kutkutariyaan
Posted by: Nokia_Afridi
Original Content:
اسد علی
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، میسور
میسور میں پنڈتوں نےگاڑیوں کی بھی آرتی اتاری اور وہ تھال جس پر دیے جل رہے اسے بھی اچھی طرح گھمایا تھے۔ گاڑیوں کے چاروں ٹائروں کے آگے شاید لیموں رکھے گئے تھے۔
میسور میں تانگے والے نے رات کو شہر کا چکر لگوا کر ایک ہوٹل کے سامنے اتارا تو وہاں مجھے تین نوجوان اپنی گاڑیوں کے ساتھ کھڑے انگریزی بولتے ہوئے سنائی دیے۔ میں نے شکر ادا کیا کہ اب شاید کسی سے تفصیلی بات ہو سکے گی۔ یہ لوگ ملازم پیشہ اور تعلیم یافتہ دکھائی دیے۔
اسی شام سات بجے میں میسور پہنچا تھا اور اس کے بعد لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن بس سٹینڈ کے گرد زیادہ افراد تر مزدور طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور بمشکل ایک دو جملے ہندی یا اردو کے بول سکتے تھے۔ ان لوگوں کی مادری زبان کنڑ تھی۔
میں نے ان نوجوانوں کی توجہ حاصل کی تو معلوم ہوا کہ یہ بھی ہندی نہیں بول سکتے لیکن وہ انگریزی میں بات کرنے کو تیار تھے۔ میں نے ان کی سیاسی رائے جاننا چاہی تو انہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں۔
بی جے پی اور دوسری جماعتوں میں فرق جاننا چاہا تو انہوں نے کہا کہ وہ خود مختار اور مضبوط انڈیا چاہتے ہیں جو صرف بی جے پی کی حکومت میں ہی ممکن ہے۔ پھران میں سے ایک نوجوان نے جذباتی انداز میں کہا کہ انڈیا میں اسی فیصد ہندو ہیں اور یہ ہندو ملک ہونا چاہیے اور ہندوؤں کو ترجیح ملنی چاہیے۔
میں نے پوچھا وہ کیسے تو انہوں نے کہا کہ کوئی جماعت مسلمانوں کے علاقے میں برہمن اور برہمنوں کے علاقے میں مسلمان امیدوار نہیں کھڑے کرتی اور پھر گالی دے کر اس نے کہا کہ یہ اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو غلط سمجھا جاتا ہے، وہ لوگوں کو ہندو، مسلم یا دلت کی بجائے انڈین بنانا چاہتی ہے۔ سب کے لیے ایک قانون (یونیافارم سول کوڈ) چاہتی ہے۔
پھر ایک لڑکے نے جو ایک مغربی بینک کی برانچ میں مینیجر تھا اپنے موبائل فون پر ایک ٹیسکٹ میسیج دکھایا کہ دنیا میں بہت سے عیسائی ممالک ہیں اور بہت سے مسلمان ممالک ہیں لیکن صرف ایک ہندو ملک اور اسی پیغام میں بی جے پی کے لیے ووٹ مانگا گیا تھا۔
اتنے میں انہیں میرے بارے میں پوچھنے کا خیال آیا تو میں نے کہا کہ میں لندن سے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا میں کہاں سے ہو۔ میں نے کہا کہ میں پاکستانی ہوں۔ انہوں نے پوچھا مسلم میں نے کہا ہاں۔ کچھ سیکنڈ کی خاموشی کے بعد انہوں نے کہا کہ لیکن تم تو بالکل ہمارے جیسے معلوم ہوتے ہو۔
پھر بینک مینیجر نے فون میں ایک وڈیو دکھائی جس میں طالبان جیسے حلیے میں میں کچھ لوگ اللہ اکبر کے نعروں میں ایک شخص کا گلا کاٹ رہے تھے۔
انڈیا اور پاکستان جمہوریت اور انتخابات کے بارے میں بحث آگے بڑھتی گئی۔ بینک مینیجر کے دوست چلے گئے لیکن وہ مجھ سے مختلف سوالات کرتا رہا اور انڈیا کے بارے میں میری رائے جاننا چاہتا تھا۔ پھر اس نے کہا اصل میں اسے سب سے برا ملک امریکہ لگتا ہے، پھر برطانیہ اور تیسرے نمبر پر پاکستان ہے۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ ہم کم سے کم نوے منٹ فٹ پاتھ پر کھڑے باتیں رتے رہے۔ آخر میں ای میلوں پتوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ میں ایک بس میں بیٹھا اور واپس بنگلور کے لیے روانہ ہو گیا۔
بنگلور سے بس کے ذریعے شام کو ساڑھے سات بجے میسور پہنچا تھا۔ تھے۔ تقریباً ایک سو پچاس میل کا یہ فاصلہ اونچی نیچی ناریل کے درختوں سے ڈھکی پہاڑیوں پر سے گزرتا ہے۔
میسور سے پندرہ کلومیٹر پہلے ٹیپو سلطان کا شہر سری رنگا پٹنا بھی آتا ہے۔ میسور انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک میں واقع ہے اور یہاں بھی تمل ناڈو کی طرح زبان کا مسئلہ درپیش رہا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ یہاں لوگ ہندی یا اردو میں بات کرنے کی کوشش ضرور کرتے تھے لیکن ایک دو جملوں سے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔
میرے کسی مزید سوال کے بغیر وہ نوجوان بولتے چلے گئے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ ایودھیا میں رام مندر چاہتا ہے اور کے بننے کے حق میں ہے کیونکہ مسلمانوں کے پاس تو مکہ اور مدینہ اور بہت کچھ ہے اور ہندوؤں کے پاس صرف انڈیا ہے۔
میسور میں رش بھرے بس سٹینڈ سے نکلتے ہی لوگوں سے سیاسی رائے جاننا شروع کر دی۔ زیادہ تر لوگوں نے بی جے پی اور کانگریس کا نام لیا اور کانگریس کا نام لینے والے تقریباً سب لوگ مسلمان تھے۔ ایک آدھ نے جنتا دل کا نام بھی لیا۔ یہ سب لوگ ایک دوسرے کے قریب قریب ہی اپنے کاروبار میں مصروف تھے۔ کسی کی پھلوں کی رھیڑی تھی اور کوئی رکشہ سٹینڈ پر کھڑا تھا۔اتنے میں ایک تانگے والے، نثار احمد، نے پوچھا کے شہر کی سیر کرنی ہے۔ میں اس کے تانگے میں سوار ہو گیا جس میں کوچوان کے علاوہ بمشکل ایک ہی شخص بیٹھ سکتا تھا۔ وہ میسور کا ہی رہنے والا تھا اور اس کا گزر بسر سیاحوں کے ہی سر پر تھا۔ تانگہ چلاتے ہوئے اسے پچیس سال ہو گئے تھے۔
نثار احمد نے بتایا کہ وہ کانگریس کا حامی ہے لیکن بیچ میں ایک بار اس نے جنتا دل کی بھی حمایت کی تھی جس کی وجہ سے اس نے بتایا کہ خاندان میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے اور اب وہ دوبارہ کانگریس کو ووٹ دے گا۔
اس نے کہا کہ جمہوریت کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ چھوٹے موٹے کام ہوتے رہتے ہیں ورنہ مسئلے تو خود ہی حل کرنے پڑتے ہیں۔ اس نے کہا کہ ووٹنگ والے دن پورا خاندان صبح سات بچے ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے گا اور پھر دھندے پر لگ جائیں گے۔
شہر کا چکر لگاتے ہوئے میسور کے راجہ کے محل کے سامنے پہنچ گئے۔ پورے شہر کی طرح وہ بھی مدھم روشنیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔
کہ کسی سے گیٹ پر دو مندر تھے جن کے سامنے دو گاڑیاں کے سامنے دو پنڈت کھڑے ہو کر کچھ رسومات کر رہے تھے۔ گاڑیوں کے سامنے ناریل بھی رکھے تھے۔ پنڈتوں نے گاڑیوں کی آرتی اتاری، اندر بھی اچھی طرح تھال گھمایا جس پر دیے جل رہے تھے۔ گاڑیوں کے چاروں ٹائروں کے آگے شاید لیموں رکھے گئے۔
تانگے والے نے بتایا کہ لوگ نئی گاڑیاں خرید کر گھر جانے سے پہلے پوجا کے لیے یہاں لاتے ہیں۔
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، میسور
میسور میں پنڈتوں نےگاڑیوں کی بھی آرتی اتاری اور وہ تھال جس پر دیے جل رہے اسے بھی اچھی طرح گھمایا تھے۔ گاڑیوں کے چاروں ٹائروں کے آگے شاید لیموں رکھے گئے تھے۔
میسور میں تانگے والے نے رات کو شہر کا چکر لگوا کر ایک ہوٹل کے سامنے اتارا تو وہاں مجھے تین نوجوان اپنی گاڑیوں کے ساتھ کھڑے انگریزی بولتے ہوئے سنائی دیے۔ میں نے شکر ادا کیا کہ اب شاید کسی سے تفصیلی بات ہو سکے گی۔ یہ لوگ ملازم پیشہ اور تعلیم یافتہ دکھائی دیے۔
اسی شام سات بجے میں میسور پہنچا تھا اور اس کے بعد لوگوں سے بات کرنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن بس سٹینڈ کے گرد زیادہ افراد تر مزدور طبقے سے تعلق رکھتے تھے اور بمشکل ایک دو جملے ہندی یا اردو کے بول سکتے تھے۔ ان لوگوں کی مادری زبان کنڑ تھی۔
میں نے ان نوجوانوں کی توجہ حاصل کی تو معلوم ہوا کہ یہ بھی ہندی نہیں بول سکتے لیکن وہ انگریزی میں بات کرنے کو تیار تھے۔ میں نے ان کی سیاسی رائے جاننا چاہی تو انہوں نے کہا کہ وہ ہمیشہ بی جے پی کو ووٹ دیتے ہیں۔
بی جے پی اور دوسری جماعتوں میں فرق جاننا چاہا تو انہوں نے کہا کہ وہ خود مختار اور مضبوط انڈیا چاہتے ہیں جو صرف بی جے پی کی حکومت میں ہی ممکن ہے۔ پھران میں سے ایک نوجوان نے جذباتی انداز میں کہا کہ انڈیا میں اسی فیصد ہندو ہیں اور یہ ہندو ملک ہونا چاہیے اور ہندوؤں کو ترجیح ملنی چاہیے۔
میں نے پوچھا وہ کیسے تو انہوں نے کہا کہ کوئی جماعت مسلمانوں کے علاقے میں برہمن اور برہمنوں کے علاقے میں مسلمان امیدوار نہیں کھڑے کرتی اور پھر گالی دے کر اس نے کہا کہ یہ اپنے آپ کو سیکولر کہتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بی جے پی کو غلط سمجھا جاتا ہے، وہ لوگوں کو ہندو، مسلم یا دلت کی بجائے انڈین بنانا چاہتی ہے۔ سب کے لیے ایک قانون (یونیافارم سول کوڈ) چاہتی ہے۔
پھر ایک لڑکے نے جو ایک مغربی بینک کی برانچ میں مینیجر تھا اپنے موبائل فون پر ایک ٹیسکٹ میسیج دکھایا کہ دنیا میں بہت سے عیسائی ممالک ہیں اور بہت سے مسلمان ممالک ہیں لیکن صرف ایک ہندو ملک اور اسی پیغام میں بی جے پی کے لیے ووٹ مانگا گیا تھا۔
اتنے میں انہیں میرے بارے میں پوچھنے کا خیال آیا تو میں نے کہا کہ میں لندن سے آیا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ انڈیا میں کہاں سے ہو۔ میں نے کہا کہ میں پاکستانی ہوں۔ انہوں نے پوچھا مسلم میں نے کہا ہاں۔ کچھ سیکنڈ کی خاموشی کے بعد انہوں نے کہا کہ لیکن تم تو بالکل ہمارے جیسے معلوم ہوتے ہو۔
پھر بینک مینیجر نے فون میں ایک وڈیو دکھائی جس میں طالبان جیسے حلیے میں میں کچھ لوگ اللہ اکبر کے نعروں میں ایک شخص کا گلا کاٹ رہے تھے۔
انڈیا اور پاکستان جمہوریت اور انتخابات کے بارے میں بحث آگے بڑھتی گئی۔ بینک مینیجر کے دوست چلے گئے لیکن وہ مجھ سے مختلف سوالات کرتا رہا اور انڈیا کے بارے میں میری رائے جاننا چاہتا تھا۔ پھر اس نے کہا اصل میں اسے سب سے برا ملک امریکہ لگتا ہے، پھر برطانیہ اور تیسرے نمبر پر پاکستان ہے۔
رات کے گیارہ بج چکے تھے۔ ہم کم سے کم نوے منٹ فٹ پاتھ پر کھڑے باتیں رتے رہے۔ آخر میں ای میلوں پتوں کا تبادلہ بھی ہوا۔ میں ایک بس میں بیٹھا اور واپس بنگلور کے لیے روانہ ہو گیا۔
بنگلور سے بس کے ذریعے شام کو ساڑھے سات بجے میسور پہنچا تھا۔ تھے۔ تقریباً ایک سو پچاس میل کا یہ فاصلہ اونچی نیچی ناریل کے درختوں سے ڈھکی پہاڑیوں پر سے گزرتا ہے۔
میسور سے پندرہ کلومیٹر پہلے ٹیپو سلطان کا شہر سری رنگا پٹنا بھی آتا ہے۔ میسور انڈیا کی جنوبی ریاست کرناٹک میں واقع ہے اور یہاں بھی تمل ناڈو کی طرح زبان کا مسئلہ درپیش رہا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ یہاں لوگ ہندی یا اردو میں بات کرنے کی کوشش ضرور کرتے تھے لیکن ایک دو جملوں سے بات آگے نہیں بڑھ سکی۔
میرے کسی مزید سوال کے بغیر وہ نوجوان بولتے چلے گئے۔ ان میں سے ایک نے کہا کہ وہ ایودھیا میں رام مندر چاہتا ہے اور کے بننے کے حق میں ہے کیونکہ مسلمانوں کے پاس تو مکہ اور مدینہ اور بہت کچھ ہے اور ہندوؤں کے پاس صرف انڈیا ہے۔
میسور میں رش بھرے بس سٹینڈ سے نکلتے ہی لوگوں سے سیاسی رائے جاننا شروع کر دی۔ زیادہ تر لوگوں نے بی جے پی اور کانگریس کا نام لیا اور کانگریس کا نام لینے والے تقریباً سب لوگ مسلمان تھے۔ ایک آدھ نے جنتا دل کا نام بھی لیا۔ یہ سب لوگ ایک دوسرے کے قریب قریب ہی اپنے کاروبار میں مصروف تھے۔ کسی کی پھلوں کی رھیڑی تھی اور کوئی رکشہ سٹینڈ پر کھڑا تھا۔اتنے میں ایک تانگے والے، نثار احمد، نے پوچھا کے شہر کی سیر کرنی ہے۔ میں اس کے تانگے میں سوار ہو گیا جس میں کوچوان کے علاوہ بمشکل ایک ہی شخص بیٹھ سکتا تھا۔ وہ میسور کا ہی رہنے والا تھا اور اس کا گزر بسر سیاحوں کے ہی سر پر تھا۔ تانگہ چلاتے ہوئے اسے پچیس سال ہو گئے تھے۔
نثار احمد نے بتایا کہ وہ کانگریس کا حامی ہے لیکن بیچ میں ایک بار اس نے جنتا دل کی بھی حمایت کی تھی جس کی وجہ سے اس نے بتایا کہ خاندان میں شدید اختلافات پیدا ہو گئے تھے اور اب وہ دوبارہ کانگریس کو ووٹ دے گا۔
اس نے کہا کہ جمہوریت کا یہ فائدہ ضرور ہے کہ چھوٹے موٹے کام ہوتے رہتے ہیں ورنہ مسئلے تو خود ہی حل کرنے پڑتے ہیں۔ اس نے کہا کہ ووٹنگ والے دن پورا خاندان صبح سات بچے ووٹ ڈالنے کے لیے نکلے گا اور پھر دھندے پر لگ جائیں گے۔
شہر کا چکر لگاتے ہوئے میسور کے راجہ کے محل کے سامنے پہنچ گئے۔ پورے شہر کی طرح وہ بھی مدھم روشنیوں میں ڈوبا ہوا تھا۔
کہ کسی سے گیٹ پر دو مندر تھے جن کے سامنے دو گاڑیاں کے سامنے دو پنڈت کھڑے ہو کر کچھ رسومات کر رہے تھے۔ گاڑیوں کے سامنے ناریل بھی رکھے تھے۔ پنڈتوں نے گاڑیوں کی آرتی اتاری، اندر بھی اچھی طرح تھال گھمایا جس پر دیے جل رہے تھے۔ گاڑیوں کے چاروں ٹائروں کے آگے شاید لیموں رکھے گئے۔
تانگے والے نے بتایا کہ لوگ نئی گاڑیاں خرید کر گھر جانے سے پہلے پوجا کے لیے یہاں لاتے ہیں۔
Comment