بیٹیاں جہنم سے نجات کا سبب ہیں
ان کی قدر کریں
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ، عَنْ
عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: دَخَلَتِ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا، فَسَأَلَتْ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي شَيْئًا غَيْرَ تَمْرَةٍ فَأَعْطَيْتُهَا إِيَّاهَا، فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْهَا، ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "مَنِ ابْتُلِيَ بِشَيْئٍ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: أنظر حدیث رقم ۱۹۱۳ (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۵۰) (صحیح)
(سنن ابن ماجہ : 3668 ، ، صحیح ابن ماجہ : 2973)
- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میرے پاس ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دوبچیاں تھیں ، اس نے (کھانے کے لیے ) کوئی چیز مانگی مگرمیرے پاس سے ایک کھجورکے سوا کچھ نہیں ملا، چنانچہ اسے میں نے وہی دے دیا، اس عورت نے کھجورکو خود نہ کھائی اسے اپنی دونوں لڑکیوں کے درمیان بانٹ دیااور اٹھ کر چلی گئی، پھرمیرے پاس نبی اکرمﷺ تشریف لائے، میں نے آپ سے یہ (واقعہ) بیان کیا تو آپ نے فرمایا:'' جو ان لڑکیوں کی پرورش سے دوچارہواس کے لیے یہ سب جہنم سے پردہ ہوں گی یا یہ فرمایا کہ "تمہیں تعجب کیوں ہے ؟ وہ تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگئی
وضاحت ۱ ؎ : بڑے نادان ہیں وہ جو بیٹیاں زیادہ ہونے سے روتے اورشکوہ شکایت کرتے ہیں
بیٹیاں اپنے ماں باپ کی محبت نہیں چھوڑ تیں اور ہمیشہ ان کی خدمت کرتی رہتی ہیں، مبارک ہے بیٹا یا بیٹی جو ہمارا
رب اورہمار ا مالک ہم کو عنایت فرمائے
اولاد دینے کے حوالے سے قرآن کی یہ آیت بھی ملاحظه ہو
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ سوره الشوریٰ ٤٩
آسمانوں اور زمین میں الله ہی کی بادشاہی ہے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے-
اس آیت میں غور کریں تو الله نے بیٹی کا ذکر پہلے کیا ہے اور بیٹے کا بعد میں کیا ہے - بیٹی رحمت ہے اور بیٹا نعمت ہے
الله ہم کو کفریہ کلمات سے محفوظ رکھے (آمین
ان کی قدر کریں
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللهِ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُاللهِ بْنُ أَبِي بَكْرِ بْنِ حَزْمٍ، عَنْ
عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: دَخَلَتِ امْرَأَةٌ مَعَهَا ابْنَتَانِ لَهَا، فَسَأَلَتْ فَلَمْ تَجِدْ عِنْدِي شَيْئًا غَيْرَ تَمْرَةٍ فَأَعْطَيْتُهَا إِيَّاهَا، فَقَسَمَتْهَا بَيْنَ ابْنَتَيْهَا وَلَمْ تَأْكُلْ مِنْهَا، ثُمَّ قَامَتْ فَخَرَجَتْ، فَدَخَلَ النَّبِيُّ ﷺ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ النَّبِيُّ ﷺ: "مَنِ ابْتُلِيَ بِشَيْئٍ مِنْ هَذِهِ الْبَنَاتِ كُنَّ لَهُ سِتْرًا مِنَ النَّارِ".
قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
* تخريج: أنظر حدیث رقم ۱۹۱۳ (تحفۃ الأشراف: ۱۶۳۵۰) (صحیح)
(سنن ابن ماجہ : 3668 ، ، صحیح ابن ماجہ : 2973)
- ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں: میرے پاس ایک عورت آئی اور اس کے ساتھ اس کی دوبچیاں تھیں ، اس نے (کھانے کے لیے ) کوئی چیز مانگی مگرمیرے پاس سے ایک کھجورکے سوا کچھ نہیں ملا، چنانچہ اسے میں نے وہی دے دیا، اس عورت نے کھجورکو خود نہ کھائی اسے اپنی دونوں لڑکیوں کے درمیان بانٹ دیااور اٹھ کر چلی گئی، پھرمیرے پاس نبی اکرمﷺ تشریف لائے، میں نے آپ سے یہ (واقعہ) بیان کیا تو آپ نے فرمایا:'' جو ان لڑکیوں کی پرورش سے دوچارہواس کے لیے یہ سب جہنم سے پردہ ہوں گی یا یہ فرمایا کہ "تمہیں تعجب کیوں ہے ؟ وہ تو اس کام کی وجہ سے جنت میں داخل ہوگئی
وضاحت ۱ ؎ : بڑے نادان ہیں وہ جو بیٹیاں زیادہ ہونے سے روتے اورشکوہ شکایت کرتے ہیں
بیٹیاں اپنے ماں باپ کی محبت نہیں چھوڑ تیں اور ہمیشہ ان کی خدمت کرتی رہتی ہیں، مبارک ہے بیٹا یا بیٹی جو ہمارا
رب اورہمار ا مالک ہم کو عنایت فرمائے
اولاد دینے کے حوالے سے قرآن کی یہ آیت بھی ملاحظه ہو
لِلَّهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ يَخْلُقُ مَا يَشَاءُ ۚ يَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ إِنَاثًا وَيَهَبُ لِمَنْ يَشَاءُ الذُّكُورَ سوره الشوریٰ ٤٩
آسمانوں اور زمین میں الله ہی کی بادشاہی ہے جو چاہتا ہے پیدا کرتا ہے جسے چاہتا ہے لڑکیاں عطا کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے لڑکے بخشتا ہے-
اس آیت میں غور کریں تو الله نے بیٹی کا ذکر پہلے کیا ہے اور بیٹے کا بعد میں کیا ہے - بیٹی رحمت ہے اور بیٹا نعمت ہے
الله ہم کو کفریہ کلمات سے محفوظ رکھے (آمین