Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام

    رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قیام
    1

    ۔ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا

    {یٰآ اَیُّھَا الْمُزَمِّلُ قُمِ الْلَیْلَ اِلاَّ قَلِیْلاً}

    (سورۃ المزمل آیات 2-1)

    اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جو کپڑے میں لپٹ رہے ہو۔ رات کو قیام کرو مگر تھوڑی رات

    2

    ۔ اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان اور غیر رمضان میں (قیام اللیل یعنی تراویح) گیارہ رکعات سے زیادہ رکعتیں نہیں پڑھتے تھے۔ چار رکعتیں پڑھتے تھے ان کی خوبی اور طوالت کے متعلق کچھ نہ پوچھیئے۔ پھر چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ ان کی خوبی اور طوالت کے بارے میں نہ پوچھیئے۔ پھر تین رکعتیں پڑھتے تھے۔ میں نے عرض کیا : کیا آپ وتر پڑھنے سے پہلے سو جاتے ہیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اے عائشہ! میری آنکھیں سوتی ہیں اور میرا دل نہیں سوتا‘‘۔
    (متفق علیہ)۔ دل غافل ہو جائے تو وضو کا قائم رہنا محال ہے۔ نیند کی مذکورہ بالا کیفیت نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ تھا۔ ۔

    3

    ۔ سیدنا اسود بن یزید رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اُمّ المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رات کی نماز کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم رات کے پہلے حصے میں سوتے تھے، پھر قیام کرتے تھے۔ جب سحر قریب ہوتی تو وتر پڑھتے تھے۔ پھر اپنے بستر پر آتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاجت ہوتی تو اپنی بیوی کے پاس آتے۔ جب اذان سنتے تو تیزی سے اٹھتے۔ جنبی ہوتے تو اپنے اوپر پانی بہاتے ورنہ وضو کر کے نماز کے لئے چلے جاتے تھے۔
    (متفق علیہ)۔

    4

    ۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اتنا طویل قیام کرتے تھے کہ آپ کے قدم سوج جاتے تھے۔ آپ سے عرض کیا جاتا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آپ اتنی مشقت اٹھاتے ہیں حالانکہ آپ کی اگلی پچھلی خطائیں معاف کر دی گئی ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے ’’کیا میں شکر گزار بندہ نہ بنوں؟‘‘

    (متفق علیہ)

    5

    ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ’’دنیا کے متاع سے مجھے دو چیزیں محبوب ہیں۔ عورتیں اور خوشبو اور نماز میں میری آنکھوں کی ٹھنڈک ہے‘‘۔
    (صحیح رواہ احمد)۔


    دشمنانِ اسلام اعتراض کرتے ہیں کہ مسلمانوں کے نبی پر جنسی خواہشات غالب تھیں۔ حالانکہ مذکورہ دونوں چیزیں بشریت کا تقاضا ہیں اور کوئی صحتمند انسان ان سے بے نیازی کا دعویٰ نہیں کر سکتا۔فرق یہ ہے کہ اسلام نے جنسی خواہش کی تکمیل کو ایک قانونی دائرے میں محدود کر دیا جس سے مسلم معاشرہ خاندانی بربادی سے محفوظ رہتا ہے۔ اور وہ لوگ جنہیں ترکِ دنیا اور نفسانی خواہشات سے بے نیازی کا دعویٰ ہے ان کے معاشرے میں عورت کی حیثیت ایک عارضی کھلونے سے زیادہ نہیں ہے جسے بچہ جس وقت چاہے توڑ کر پھینک دے۔ ان کے عبادت خانوں میں پاکیزگی حاصل کرنے کے جو کنواری لڑکیاں رکھی جاتی ہیں، ان کی عصمت انہی تارک الدنیا راہبوں، پادریوں اور درویشوں کے ہاتھوں ایسی تارتار ہوتی ہے کہ وہ چیخ اٹھتی ہیں۔ ایسے بے شمار حادثات سے اہلِ دانش باخبر ہیں۔ ان معترضین کی نفسانی خواہشات تو اتنی بے لگام ہیں کہ مردوں سے مردوں کی شادی کا قانون پاس کر چکے ہیں اور یہ ایسا خبیث جرم ہے جس سے حیوانات اور جنگل کے وحشی درندے چرندے اور پرندے بھی پاک ہیں۔ ان میںجو لوگ انسانی عقل و شعور کے مالک ہیں وہ اپنے معاشرے کی بربادی پر بے حد فکر مند ہیں اور ان کی بہو بیٹیاں اسلام کے دامنِ عفت و رحمت میں پناہ لے رہی ہیں
    ۔
Working...
X