Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جمادات ، نباتات اور حیوانات

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جمادات ، نباتات اور حیوانات

    رسول مقبول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور جمادات ، نباتات اور حیوانات





    سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میں اس پتھر کو پہچانتا ہوں کہ جو مکہ مکرمہ میں میرے مبعوث ہونے سے پہلے مجھ پر سلام کیا کرتا تھا۔

    صحیح مسلم:جلد سوم:حدیث نمبر 1442


    سیدنا جابربیان کرتے ہیں۔ ایک مرتبہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جا رہے تھے۔ یہاں تک کہ ہم بنونجار کے ایک باغ کے پاس آئے اس میں ایک اونٹ تھا۔ باغ میں جو شخص بھی داخل ہوتا تھا۔ وہ اونٹ اس پر حملہ کردیتا تھا۔ لوگوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے تذکرہ کیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے۔ آپ نے اسے بلایا۔ وہ اپنا منہ زمین پر رکھ کر آ گیا۔ یہاں تک کہ آپ کے سامنے گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ اس کی لگام لاؤ۔ پھر آپ نے اسے لگام پہنائی اور اسے اس کے مالک کے سپرد کردیا پھر آپ نے (ہماری طرف متوجہ ہو کرارشاد فرمایا) گناہگار جنات اور انسانوں کے علاوہ آسمان اور زمین میں موجود ہر چیز یہ بات جانتی ہے کہ میں اللہ کا رسول ہوں۔

    سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 18۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ الراوي: جابر المحدث: البوصيري - المصدر: إتحاف الخيرة المهرة - الصفحة أو الرقم: 7/40
    خلاصة حكم المحدث: إسناده رجاله ثقات



    سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں ایک سفر کے دوران ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے۔ اسی دوران ایک دیہاتی آیاجب وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا تم کہاں جا رہے ہو۔ اس نے جواب دیا اپنے گھر جارہا ہوں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا'کیا تمہیں بھلائی میں کوئی دلچسپی ہے۔ اس نے جواب دیا : وہ کیا ہے؟ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : تم یہ گواہی دو کہ اللہ کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں صرف وہی معبود ہے اس کے علاوہ کوئی اور معبود نہیں ہے۔ اس کا شریک نہیں ہے اور محمد اس کے خاص بندے اور رسول ہیں۔ وہ دیہاتی بولا آپ کی اس بات کی گواہی کون دے گا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کیکر کا ایک درخت۔ پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس درخت کو بلایا وہ درخت وادی کے کنارے پر موجود تھا۔ وہ زمین کو چیرتا ہوا آپ کے پاس آیا اور آپ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے تین مرتبہ گواہی مانگی اور اس نے تین مرتبہ اس بات کی گواہی دی جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تھا پھر وہ واپس اس جگہ پر چلا آیا جہاں وہ موجود تھا۔ وہ دیہاتی اپنی قوم میں واپس جاتے ہوےبولا۔ اگر ان لوگوں نے میری پیروی کی تو میں انہیں آپ کے پاس لاؤں گا اور اگر نہیں کی تو میں واپس آجاؤں گا اور میں آپ کے پاس رہوں گا۔

    سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 16۔۔۔۔ الراوي: عبدالله بن عمر المحدث: الهيثمي - المصدر: مجمع الزوائد - الصفحة أو الرقم:8/295
    خلاصة حكم المحدث: رجاله رجال الصحيح




    سیدنا عبداللہ بن جعفر سے روایت ہے کہ ایک دن جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے (اپنے خچر پر) اپنے ساتھ سوار کرایا اور چپکے سے ایک بات بتائی جو میں کسی کو نہیں بتاؤں گا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم قضاء حاجت کی غرض سے چھپنے کے لئے دو طرح کی جگہیں پسند فرماتے تھے ایک اونچی جگہ دوسری گھنے درختوں کی جھنڈ۔ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک انصاری کے باغ میں تشریف لے گئے وہاں ایک اونٹ نکلا اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھ کر رونے کی سی آواز نکالنے لگا اور اس کی آنکھوں سے آنسو بہنے لگے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس اونٹ کے پاس تشریف لے گئے اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرنے لگے پس وہ پر سکون ہو گیا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ اس اونٹ کا مالک کون ہے؟ اور پکار کر پوچھا کہ یہ اونٹ کس کا ہے یہ سن کر ایک انصاری جوان آیا اور بولا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ اونٹ میرا ہے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس سے فرمایا کیا تو اس جانور کے بارے میں اللہ تعالیٰ سے نہیں ڈرتا جس کا تجھے اللہ نے مالک بنایا ہے اس نے مجھ سے شکایت کی ہے کہ تو اس کو بھوکا رکھتا ہے اور خدمت لینے میں تھکا دیتا ہے۔

    سنن ابوداؤد:جلد دوم:حدیث نمبر 784


    سیدنا ابی بن کعب فرماتے ہیں کہ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ایک درخت کے تنے کی طرف نماز پڑھاتے تھے جب مسجد پر چھپر تھا اور آپ اسی درخت سے ٹیک لگا کر خطبہ بھی ارشاد فرماتے تو ایک صحابی نے عرض کیا اگر ہم کوئی چیز تیار کریں کہ آپ اس پر کھڑے ہوں جمعہ کے روز تاکہ لوگ آپ کو دیکھیں اور آپ خطبہ ارشاد فرمائیں تو اس کی اجازت ہوگی ؟ فرمایا جی۔ تو ان صحابی نے تین سیرھیاں بنائیں وہی اب تک منبر پر ہیں جب منبر تیار ہو گیا تو صحابہ نے اسی جگہ رکھا جہاں اب ہے جب رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہونے کا ارادہ فرمایا تو آپ اسی ٹنڈ (کاٹی گئی لکڑی) کے پاس سے گزرے جس پر ٹیک لگا کر خطبہ دیا کرتے تھے جب اس ٹنڈے سے آگے بڑھے تو وہ چیخا حتیٰ کہ اس کی آواز تیز ہوگئی اور پھٹ گئی اس کی آواز سن کر رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم منبر سے اترے اور اس پر ہاتھ پھیرتے رہے۔ حتیٰ کہ اس کو سکون ہو گیا پھر آپ منبر پر تشریف لے گئے جب آپ نماز پڑھتے تو اسی ٹنڈ کے قریب نماز پڑھتے جب مسجد ڈھائی گئی اور بدلی گئی تو وہ ٹنڈ سیدنا ابی بن کعب نے لے لیا وہ ان کے پاس ان کے گھر میں رہا حتیٰ کہ پرانا ہو گیا پھر اس کو دیمک کھا گئی اور ریزہ ریزہ ہو گیا ۔

    سنن ابن ماجہ:جلد اول:حدیث نمبر 1414


    سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ ایک سفر کے دوران میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ جارہا تھا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب بھی قضائے حاجت کے لیے جاتےتو اتنی دور چلے جاتے تھے کہ آپ کو دیکھا بھی نہیں جا سکتا تھا۔ ایک مرتبہ ہم نے ایک ایسی زمین پر پڑاؤ کیا جو آ ب و گیاہ تھی وہاں کوئی درخت نہیں تھا اور نہ ہی ٹیلہ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اپنے برتن میں کچھ پانی رکھو اور میرے ساتھ چلو۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں۔ ہم لوگ چل پڑے۔ یہاں تک کہ لوگوں کی نظروں سے دور ہوگئے۔ یہاں تک کہ ہم درختوں کے درمیان آئے جن کے درمیان چار ذراع کا فاصلہ تھا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اے جابر رضی اللہ عنہ !اس درخت کے پاس جاؤ اور اس سے کہو کہ اللہ کے رسول تمہیں حکم دے رہے ہیں کہ تم اپنے اس ساتھی درخت کے ساتھ مل جاؤ تاکہ میں تم دونوں کی اوٹ میں بیٹھ سکوں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے ایسا ہی کیا تو وہ درخت اس دوسرے درخت کے پاس آگیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں کی اوٹ چلے گئے ۔ پھر وہ دونوں اپنی اپنی جگہ واپس چلے گے۔ پھر ہم لوگ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ سوار ہو کر چلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان ہی تھے۔
    آپ کی ہیبت کی وجہ سے ہماری یہ کیفیت تھی کہ گویا ہمارے اوپر پرندے سایہ کیے ہوئے ہیں۔ ایک عورت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آئی اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا۔ اس نے عرض کی اے اللہ کے رسول یہ میرا بیٹا ہے ۔ شیطان روزانہ تین مرتبہ اسے اپنے قبضے میں لے لیتا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بچے کو پکڑا اسے اپنے اور پالان کے اگلے حصے کے درمیان بٹھا لیا۔ پھر ارشاد فرمایا اے اللہ کے دشمن دور ہو جا۔ میں اللہ کا رسول ہوں۔ اے اللہ کے دشمن دور ہوجا یہ بات آپ نے تین مرتبہ ارشاد فرمائی پھر بچے کو اس عورت کے سپرد کردیا راوی بیان کرتے ہیں واپسی کے سفر کے دوران جب ہم اسی جگہ سے گزرے تو وہی عورت سامنے آئے اس کے ساتھ اس کا بچہ بھی تھا اور ساتھ دو دنبے بھی تھے جنہیں وہ ہانک کر لا رہی تھی۔ اس نے عرض کی اے اللہ کے نبی میری طرف سے یہ تحفہ قبول کریں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ہمراہ مبعوث کیا۔ شیطان دوبارہ اس بچے کی طرف نہیں آیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اس میں سے ایک دنبہ رکھ لو اور دوسرا اسے واپس کردو۔ راوی بیان کرتے ہیں پھر ہم لوگ سفر کر تے رہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے درمیان تھے۔ آپ کی ہیبت کی وجہ سے ہماری یہ کیفیت تھی۔ گویا ہمارے اوپر پرندوں نے سایہ کیا ہوا ہے۔ اسی دوران ایک اونٹ جو بھاگا ہوا تھا آگیا۔ جب لوگوں کے درمیان آیا تو سجدے میں چلا گیا۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے۔ آپ نے لوگوں سے دریافت کیا ۔ اس اونٹ کا مالک کون ہے۔ کچھ انصاری نوجوانوں نے عرض کی : یا رسول اللہ یہ ہمارا اونٹ ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا۔ اسے کیا ہوا ہے۔ انہوں نے عرض کی ہم بیس برس سے اسے پانی لانے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اب اس میں چربی زیادہ ہو گئی ہے۔ ہمارا یہ ارادہ ہے کہ ہم اسے ذبح کر کے اپنے لڑکوں کے درمیان تقسیم کر دیں تو یہ ہم سے بھا گ کر آگیا ہے ۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسے مجھے بیچ دو ان نوجوانوں نے عرض کی یا رسول اللہ : یہ آپ ہی کی ملکیت ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اگر تم یہ کہتے ہو تو ٹھیک ہے لیکن اس کے ساتھ اچھا سلوک کر تے رہو۔ یہاں تک کہ اس کا آ خری وقت آجائے اس وقت مسلمانوں نے عرض کی یا رسول اللہ : جانوروں کے مقابلے میں ہم اس بات کے زیادہ حق دار ہیں کہ ہم آپ کوسجدہ کریں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی کے لیے بھی کسی دوسرے کو سجدہ کرنا جائز نہیں ہے۔ اگر ایسا ہوتا تو خواتین اپنے شوہروں کوسجدہ کرتیں۔

    سنن دارمی:جلد اول:حدیث نمبر 17 ۔۔۔ الراوي: جابر بن عبدالله المحدث: ابن كثير - المصدر: البداية والنهاية - الصفحة أو الرقم: 6/147
    خلاصة حكم المحدث: إسناده جيد رجاله ثقات



    سبحان اللہ

    پتھر ،درخت اور جانور بھی میرے آقا علیہ الصلاة و السلام کو پہچانتے تھے

    افسوس آج وہ لوگ میرے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر زبان طعن دراز کرتے ہیں جنہیں اپنے باپ کا پتہ اور پہچان نہیں ہے کہ اُن کا باپ کون ہے

    نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے اتنے نام لیواؤں کی موجودگی میں ایسے لوگ دندناتے پھرتے ہیں

    اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم

    ہم شرمندہ ہیں



Working...
X