بعض حضرات یہ قصہ بیان کرتے ہے کہ ایک جنگل میں کسی یہودی نے ہرنی کو شکار کیا اس طرف سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا گزر ہوا۔ ہرنی نے آپ کو دیکھ کر درخواست کی کہ میرے بچے بھوکے ہیں۔ آپ اس یہودی سے درخواست کریں کہ مجھے چھوڑدے میں بچو ں کو دودھ پلاکر واپس آجاوں گی۔ یہودی کو اعتماد نہ ہوا تو آپ خود وہاں بیٹھ گئے ۔ہرنی گئی بچوں کو علم ہوا تو وہ بھی دودھ پلائے بغیر ماں کے ساتھ آگئے اس واقعہ کو دیکھ یہودی مسلمان ہوگیا۔ مندرجہ بالا قصہ قرآن وحدیث کی روشنی میں کیا وزن رکھتا ہے۔
یہ قصہ مختلف کتب (جیسے دلائل النبوة للبيهقي (6/34-35) الدلائل لأبی نعيم الأصبھانی (273 ) میں مختلف الفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ مگر اس کی سند ضعیف اور متن منکر ہے۔ اس کی سند میں يَعْلى بن إبراهيم اور ان کے شیخ الهيثم بن حماد نامی دونوں راوی مجہول ہیں ،لہذا اس روایت سے نہ تو کوئی استدلال کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی یہ سندا صحیح ہے۔حافظ ابن حجر فرماتے ہیں:«وأما تسليم الغزالة فلم نَجِد له إسنادا لا مِن وَجْه قوي ولا مِن وَجْه ضعيف . اهـ»ہرنی کے گفتگو کرنے والے واقعہ کی کوئی قوی یا ضعیف سند موجود نہیں ہے۔امام سخاوی فرماتے ہیں:«تسليم الغزالة ، اشتهر على الألسنة وفي المدائح النبوية ، وليس له كما - قال ابن كثير - أصل ، ومَن نَسَبَه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فقد كذب . اهـ .»ہرنی کے بات کرنے کا واقعہ مدائح نبویہ میں بہت زیادہ بیان کیا جاتا ہے،حالانکہ حقیقت میں۔ جیسا کہ امام ابن کثیر نے بیا ن کیا ہے۔ اس کی کوئی اصل نہیں ہے،جو اس کو نبی کریمﷺ کی طرف منسوب کرتا ہے ، وہ آپ پر جھوٹ باندھتا ہے۔هذا ما عندی والله اعلم بالصواب