انکار حدیث پر مبنی ایک کھلا خط اور اس پر تبصرہ
آج انکار حدیث کا سورج اپنے نصف النہار پر ہے جس کی تپش سے وہ سر چکرانے لگے ہیں جن پر توفیق الٰہی کا سایہ نہیں رہا۔ آئے روز حدیث ِ رسول کے خلاف انداز بدل بدل کر پروپیگنڈا کیا جا رہا ہے۔ یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ انکار حدیث کی وجہ یا تو جہالت ہوتی ہے یا پھر بدباطنی۔ حدیث چونکہ قرآنِ کریم کی من مانی تاویل و تفسیر سے روکتی ہے اور ہر آدمی کو اپنی مرضی کا اسلام بنانے کی اجازت نہیں دیتی اس لیے اسلام کی پاکیزہ تعلیمات سے برگشتہ لوگ اس سے خار کھاتے ہیں۔ وہ اس سے جان چھڑانے کے لیے جھوٹ ، تلبیس اور دغا بازی سے بھرپور کام لیتے ہیں۔کچھ لوگ جو ویسے تو مخلص مسلمان ہوتے ہیں لیکن اپنی علمی بے مائیگی کی بنا پر منکرین حدیث کی فریبی چال کو سمجھ نہیں پاتے ، حدیث اور محدثین سے متنفر ہو جاتے ہیں۔اس کے علاوہ انکار حدیث کی کوئی تیسری وجہ نہیں۔
گزشتہ دنوں سندھ کے ایک صاحب عزیز اللہ بوہیو(ولیج خیر محمد بوہیو۔p.oبراستہ نوشہرو فیروز ، سندھ)نے اعلیٰ عدالتوں کے ججوں ، صدر پاکستان ، وزیر اعظم پاکستان ، چاروں صوبوں کے وزراء اعلیٰ اور قومی و صوبائی اسمبلیوں کے اسپیکرز کے نام ایک کھلا خط لکھا ہے جس میں انہوں نے حدیث ِ رسول کو اسلام ، پیغمبر اسلام اور صحابہ کرام کی گستاخی کا ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ چار صفحات کے اس خط میں بوہیو صاحب نے حدیث کے خلاف انہی اعتراضات کو جھاڑ پونجھ کر دوبارہ پیش کر دیا ہے، جنہیں صدیوں پہلے محدثین کرام دلائل کے زور سے ردّی کی ٹوکری میں پھینک چکے ہیں۔ حسنِ ظن کا تقاضا یہی ہے کہ ہم سمجھیں کہ بوہیو صاحب کو حقیقت کا علم نہیں تھا، ورنہ وہ ایسے نہ کرتے ، نیز وہ دلائل کو ملاحظہ کرکے ضرور اپنے موقف پر نظرثانی فرمائیں گے۔ان سے گزارش ہے کہ وہ اپنے خط پر ہماری گزارشات کو ٹھنڈے دل سے ملاحظہ فرمائیں ۔
یہ تحریر تفصیل کی متحمل نہیں لہٰذا پہلے ہم بوہیو صاحب کے تمہیدی کلمات نقل کریں گے پھر ایک ایک کر کے ان کے اعتراضات کو لفظ بہ لفظ نقل کرنے کے ساتھ ساتھ ان پر دلائل کی روشنی میں مختصر تبصرہ کر تے جائیں گے۔اللہ تعالیٰ ہمیں حق کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بوہیو صاحب کا خط(تمہیدی کلمات)
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
وَقَالَ الرَّسُولُ یَا رَبِّ إِنَّ قَوْمِی اتَّخَذُوا ھٰذَا الْقُرْآنَ مَھْجُورًا (٣٠/٢٥)
بخدمت جناب چیف جسٹس صاحب سپریم کورٹ آف پاکستان اسلام آباد اور
چیف جسٹس حضرات صوبہ جاتی ہائی کورٹس ۔ کراچی ، لاہور ، پشاور ، کوئٹہ نیز صدر پاکستان و وزیراعظم پاکستان ، اسلام آباد ووزاء اعلیٰ صوبہ جات پاکستان واسپیکر صاحب قومی اسمبلی اسلام آباد اور چیئرمین سینٹ پاکستان اسلام آباد و
اسپیکر صاحبان صوبہ جاتی اسمبلیاں۔ کراچی ، لاہور ، پشاور ، کوئٹہ
فریاد
بخدمت جناب جج حضرات عدالت ہائے عالیہ پاکستان !
جناب اعلیٰ ! عرصہ دراز سے دشمنانِ اسلام ڈنمارک ، ناروے والے یا سلمان رشدی کے قلم سے جناب رسول اللہ سلام علیہ کی شانِ اقدس کے خلاف نہایت غلیظ قسم کی گستاخیاں کرتے آ رہے ہیں۔ ان کے ردّ میں امت ِ مسلمہ کے غیور لوگ بھی احتجاج کرتے رہتے ہیں لیکن ضروری معلوم ہوتا ہے کہ پہلے اپنے گھر کے علوم کی بھی چھان بین کریں کیونکہ دشموں کو ان کی گستاخیوں کا سارا مواد دین اسلام کے نام سے ایجاد کردہ علوم حدیث و فقہ سے ملا ہے جو کہ قرآن دشمن ، امامی گروہ کا ایجاد کیا ہوا ہے ، جن کے نہایت مختصر حوالہ جات بطور نمونہ آپ کی خدمت میں پیش کرتے ہیں اور التجا کرتے ہیں کہ ایسے علوم کو مدارس دینیہ کے نصاب ِ تعلیم سے خارج کروا کے ان کی جگہ خالص قرآن سے استخراج جزئیات کی تعلیم امت والوں کو پڑھائی جائے۔نیز قرآن سے ملے ہوئے مسائل حیات نہ پڑھانے والے مدارس کی رجسٹریشن پر بندش عائد کی جائے۔۔۔اس کے بعد اعتراضات رقم ہیں۔
اعتراضات کا منصفانہ تجزیہ:
بوہیو صاحب نے احادیث نبویہ پر تقریباً 10 اعتراضات کیے ہیں۔ آئیے ان سب اعتراضات کا منصفانہ تجزیہ کرتے ہیں:
اعتراض نمبر 1 :
علم حدیث کا رسول علیہ السلام پر بہتان اور تبرا
1 آبادی سے دور کھجور کے باغ میں جونیہ نامی عورت لائی گئی تھی جسے رسول نے کہا کہ ہبی نفسک لی تو خود کو میرے حوالے کر دے تو اس عورت نے جواب میں کہا کہ وہل تہب الملکۃ نفسہا لسوقۃ ؟ یعنی کیا کوئی شہزادی اپنے آپ کو کسی بازاری شخص کے حوالے کر سکتی ہے؟(حوالہ کتاب بخاری ، کتاب الطلاق کے چوتھے نمبر والی حدیث) ہم اپنی طرف سے اس حدیث پر کوئی تبصرہ نہیں کر رہے۔
تجزیہ :
اس حدیث میں یقینا بوہیو صاحب کا اعتراض انہی الفاظ پر ہے جنہیں ہم نشان زدہ کر چکے ہیں۔ یہ اعتراض ترجمے کی غلطی سے پیدا ہوا ہے ۔ سُوقَۃ کا ترجمہ ''بازاری'' کرنا عربی زبان سے مطلق جہالت کا کرشمہ ہے۔ صحیح معنیٰ کے مطابق اس سے مراد وہ شخص ہے جو بادشاہ نہ ہو۔ عربی زبان کی معروف اور معتبر لغت ''لسان العرب''میںاس حدیث کا معنیٰ یوں مرقوم ہے :
فقال لہا : (( ھبی لی نفسک )) ، فقالت : ہل تھب الملکۃ نفسہا للسوقۃ ؟ السُوقۃ من الناس الرعیّۃ ومن دون الملک ۔
''آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت سے فرمایا : تو اپنے نفس کو میرے لیے ہبہ کر دے۔ اس نے کہا: کیا کوئی شہزادی کسی غیربادشاہ کے لیے اپنے آپ کو ہبہ کر سکتی ہے؟ سُوقہ سے مراد وہ لوگ ہوتے ہیں جن کا شمار رعایا میں ہوتا ہو اور وہ جو بادشاہ نہ ہوں۔''
نیز جو غلطی بوہیو صاحب نے کی ہے ، اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے لکھا ہے :
وکثیر من الناس یظنّون أنّ السُوقۃ أہل الأسواق ، والسُوقۃ من الناس من لم یکن ذا سلطان ۔ ''بہت سے لوگ یہ سمجھ بیٹھتے ہیں کہ سُوقہ بازاری لوگوں کو کہا جاتا ہے حالانکہ لوگوں میں سے وہ افراد سُوقہ کہلاتے ہیں جن کے پاس بادشاہت نہیں ہوتی۔''
(لسان العرب لابن منظور : ١٠/١٦٦، طبع دار صادر بیروت)
لغت عرب کی ایک اور معروف کتاب ''تاج العروس ''میں ہے :
والسوقۃ بالضمّ خلاف الملک ، وہم الرعیّۃ التی تسوسہا الملک ۔
''سُوقہ کا لفظ بادشاہ کا متضاد ہے، یعنی وہ رعایا جن پر بادشاہ حکومت کرتے ہیں۔''
(تاج العروس لمرتضی الزبیدی : ٢٥/٤٧٩، طبع دار الہدایۃ)
بازاری شخص کے لیے عربی میں سُوقِیّ کا لفظ مستعمل ہے۔ حافظ ابن حجررحمہ اللہ اسی حدیث کے تحت لکھتے ہیں : وأمّا أہل السوق فالواحد منہم سُوقیّ ، قال ابن المنیر : ہذا من بقیّۃ ما فیہا من الجاہلیّۃ ، والسوقۃ عندہم من لیس بملک کائنا من کان ، فکأنّ استبعدت أن یتزوّج الملکۃ من لیس بملک ۔
''رہے بازاری لوگ تو ان میں سے واحد کو سُوقِی کہتے ہیں۔ابن منیر کا کہنا ہے کہ(یہ عورت نئی نئی مسلمان ہوئی تھی اور) یہ روش اس میں موجود جاہلیت کی باقی ماندہ باتوں میں سے ایک تھی۔ عربوں کے ہاں سُوقہ اس شخص کو کہا جاتا تھا جو بادشاہ نہ ہو ، چاہے وہ جو بھی ہو۔اس عورت نے بعید سمجھا کہ ایک شہزادی ایسے شخص سے شادی کرے جو بادشاہ نہیں۔''
(فتح الباری : ٩/٣٥٨، طبع دار المعرفۃ، بیروت)
اب بوہیو صاحب خود ہی اندازہ کر لیں کہ ان کا اعتراض علم حدیث پر ہے یا علم لغت سے اپنی ہی ناواقفیت پر؟ صدیوں پہلے عربی لغت دان ، محدثین کرام اور شارحین حدیث اس بات کی بخوبی وضاحت کر چکے ہیں لیکن آج بھی منکرین حدیث ان سب باتوں سے غافل انکار حدیث کی دھن میں مست ہیں۔
اعتراض نمبر 2 :
2 سمعت أنس بن مالک : جاء ت امرأۃ من الأنصار إلی النبی صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم فخلا بہا، فقال : واللّٰہ إن کنّ لأحبّ الناس إلیّ یعنی ایک انصاری عورت جناب رسول علیہ السلام کی خدمت میں آئی۔ آپ نے اس کے ساتھ خلوت کی ، اس کے بعد اس سے کہا کہ قسم اللہ کی کہ تم (انصاری) عورتیں سب لوگوں میں سے مجھے زیادہ محبوب ہو۔(کتاب النکاح ، بخاری ، حدیث نمبر ٢١٨)اس حدیث پر بھی پڑھنے والے خود سوچیں، میں کوئی تبصرہ نہیں کر رہا۔
تجزیہ :
اس حدیث میں شاید دو باتیں بوہیو صاحب کو قابل اعتراض معلوم ہوئی ہیں۔
1 رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عورت کے ساتھ علیحدگی اختیار کی۔ اس سلسلے میں دو باتیں ملحوظ رہنی ضروری ہیں : پہلی یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس عورت سے خلوت اور علیحدگی ایسی نہیں تھی جو اسلام کی نظر میں حرام ہے اور جس میں شیطان تیسرا فرد ہوتا ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کی نظروں سے اوجھل نہیں ہوئے تھے بلکہ اس عورت کے ساتھ ایک راستے میں کھڑے تھے جہاں لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ رہے تھے۔ دوسری بات یہ کہ وہ ایک مجنونہ عورت تھی۔ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ مجھے آپ سے ایک کام ہے ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا کہ مجھ سے ملاقات کسی راستے میں کر لینا ۔یہ ملاقات ایک کھلے راستے میں ہوئی جہاں سے لوگوں کا گزر عام تھا ، یہی وجہ ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے اس عورت سے کی گئی نبوی بات بیان سن لی اور پھر بیان کی۔یہاں خلوت سے مراد کسی بند مکان میں ملاقات ہوتی تو سیدنا انس رضی اللہ عنہ کو اس ملاقات کے احوال کیسے معلوم ہوتے؟ اگر یہی حدیث صحیح مسلم میں ملاحظہ کر لی جاتی تو سارے اشکالات ختم ہو جاتے۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ ہی کا بیان ہے :
إنّ امرأۃ کان فی عقلہا شیء ، فقالت : یا رسول اللّٰہ ! إنّ لی إلیک حاجۃ ، فقال : یا أمّ فلان ! انظری أیّ السکک شئت حتّی أقضی لک حاجتک ، فخلا معہا فی بعض الطرق ، حتّی فرغت من حاجتہا ۔
''ایک عورت کی عقل میں کچھ فتور تھا۔ اس نے کہا : اے اللہ کے رسول ! مجھے آپ سے ایک کام ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ام فلاں ! تم کسی بھی گلی کا انتخاب کر لینا تاکہ میں آپ کی مدد کر سکوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک راستے میں اسے ملے یہاں تک کہ وہ اپنے کام(کی تفصیلات بتانے)سے فارغ ہو گئی۔''(صحیح مسلم : ٢٣٢٦، طبع دارالسلام ، الریاض)
نیز یہ بھی مدنظر رہنا چاہیے کہ اس عورت کے ساتھ اس کا ایک بچہ بھی تھا۔
(صحیح بخاری : ٣٧٨٦، طبع دار السلام، الریاض)
اس حدیث نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کوئی تبرا نہیں کیا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طہارت و پاکیزگی کی انتہا بیان کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مجنونہ عورت سے بھی کسی الگ جگہ ملاقات نہیں کی بلکہ اسے لوگوں کے عام گزر والی گلی میں بلا کر اس کی بات سنی تاکہ کوئی شک و شبہ میں مبتلا نہ ہوجائے۔نیز اس حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نہایت متواضع اور حلیم طبیعت کے مالک تھے ، آپ چھوٹے بڑے ہر ایک کی داد رسی کرتے تھے حتی کہ مجنونوں کی بھی، جیسا کہ حافظ ابن حجررحمہ اللہ لکھتے ہیں : وفیہ سعۃ حلمہ وتواضعہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وصبرہ علی قضاء حوائج الصغیر والکبیر ۔۔۔
''اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت زیادہ حلیم اور متواضع تھے، نیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیشہ چھوٹے ، بڑے ہر ایک کی داد رسی کیا کرتے تھے۔''
(فتح الباری لابن حجر : ٩/٣٣٣، طبع دار المعرفۃ، بیروت)
اب بوہیو صاحب بتائیں کہ کیا یہ حدیث نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پربہتان اور تبرا ہے ؟
2 رہی بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان کی کہ انصاری عورتیں مجھے سب لوگوں سے بڑھ کر محبوب ہیں۔۔۔ تو اس میں کون سا اعتراض ہے ؟ اس سے بس انصاری عورتوں کی دوسری عورتوں پر فضیلت ثابت ہوتی ہے۔ اور یہ بات صرف انصاری عورتوں کے لیے نہ تھی بلکہ انصاری مرد بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں دوسرے عام مَردوں سے افضل تھے۔ انصار سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاص محبت اور انس تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( أوصیکم بالأنصار ، فإنّہم کرشی وعیبتی ، وقد قضو الذی علیہم وبقی الذی لہم ، فاقبلوا من محسنہم وتجاوزوا عن مسیئہم ))
''میں تمہیں انصار کے بارے میں وصیت کرتا ہوں ، کیونکہ یہ میرے خاص لوگ اور میرے راز دان ہیں۔انہوں نے اپنے فرائض پورے کر لیے ہیں اور اب ان کے حقوق باقی رہ گئے ہیں۔ تم ان کے نیک لوگوں کی بات قبول کرنا اور بُرے لوگوں سے درگزر کرنا۔''
(صحیح البخاری : ٣٧٩٩، صحیح مسلم : ٢٥١٠، طبع دار السلام، الریاض)
مزید تفصیلات کے لیے کتب حدیث میں انصار کی فضیلت و منقبت کے ابواب ملاحظہ کیے جا سکتے ہیں۔ایک موقع پر انصار کی عورتوں اور بچوں کو آتے دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہو گئے اور تین مرتبہ فرمایا: (( اللّٰہمّ ! أنتم من أحبّ الناس إلیّ ، یعنی الأنصار))
''اللہ گواہ ہے کہ تم انصاری لوگ مجھے سب لوگوں سے بڑھ کر محبوب ہو۔''
(صحیح البخاری : ٣٧٨٥، صحیح مسلم : ٢٥٠٨، طبع دار السلام، الریاض)
معلوم ہوا کہ اس حدیث کی مراد یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں انصار کی عورتوں کا مقام و مرتبہ دوسری عورتوں سے بلند تھا۔اس سے کوئی اور مراد لینا کسی شخص کی اپنی ہی ذہنی پستی اور عقلی درماندگی کا ثبوت ہے۔
اعتراض نمبر 3 :
قرآن سے کچھ آیات گم ہو جانے کی حدیث
اس موجود قرآن میں سے رجم کی سزا ، یعنی زانی مرد اور زانیہ عورت کو سنگسار کر کے موت دینے والی آیت بھی گم ہو چکی ہے اور باپ دادوں سے رغبت نہ کرنا ، یہ کفر ہے۔یہ آیت بھی نازل ہوئی تھی جو اب گم ہو گئی ہے۔(کتاب بخاری ، کتاب المحاربین ، باب رجم الحبلی من الزنا اذا احصنت ، حدیث نمبر ١٧٣٠، حوالہ دوم : باب الرجم ، کتاب ابن ماجہ ، صفحہ ١٨٣، مطبع قدیمی کتب خانہ مقابل آرام باغ کراچی)دوسری حدیث : عن عائشۃ قالت: لقد نزلت آیۃ الرجم ورضاعۃ الکبیر عشرا، ولقد کان فی صحیفۃ تحت سریری، فلمّا مات رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم وتشاغلنا بموتہ دخل داجن فأکلہا یعنی عائشہ سے روایت ہے کہ آیت رجم اور بڑی عمر والے کو دودھ پلانے کی آیت نازل ہوئی تھی جو میرے صحیفہ قرآن میں لکھی ہوئی تھی جو میرے سرھانے کے نیچے رہتا تھا، پھر جب رسول اللہ کی وفات ہوئی ، ہم اس میں مشغول ہو گئے تو گھریلو بکری داخل ہو کر وہ قرآن کھا گئی۔(کتاب ابن ماجہ ، باب رضاع الکبیر، صفحہ ١٣٩، مطبع قدیمی کتب خانہ ، مقابل آرام باغ کراچی)
تبصرہ :-
صحیح بخاری اور دیگر کتب حدیث کی محولہ بالا حدیث میں قرآنی آیات کی گم شدگی والی کوئی بات نہیں۔صحیح بخاری کی جس حدیث کا حوالہ بوہیو صاحب نے دیا ہے ، اس کا اصل متن مع ترجمہ پیش خدمت ہے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں :
إنّ اللّٰہ بعث محمّدا صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم بالحقّ وأنزل علیہ الکتاب، فکان ممّا أنزل اللّٰہ آیۃ الرجم، فقرأناہا وعقلناہا ووعیناہا، رجم رسول اللّٰہ صلّی اللّٰہ علیہ وسلّم ورجمنا بعدہ، فأخشی إن طال بالناس زمان أن یقول قائل : واللّٰہ ما نجد آیۃ الرجم فی کتاب اللّٰہ، فیضلّوا بترک فریضۃ أنزلہا اللّٰہ، والرجم فی کتاب اللّٰہ حقّ علی من زنی إذا أحصن من الرجال والنسائ، إذا قامت البیّنۃ أو کان الحبل أو الاعتراف، ثمّ إنّا کنّا نقرأ فیما نقرأ من کتاب اللّٰہ أن لّا ترغبوا عن آبائکم، فإنّہ کفر بکم أن ترغبوا عن آبائکم، أو إنّ کفرا بکم أن ترغبوا عن آبائکم ۔۔۔ ''بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو حق دے کر مبعوث فرمایا اور ان پر کتاب نازل فرمائی۔ اللہ تعالیٰ نے جو وحی آپ پر نازل کی تھی ، اس میں رجم والی آیت بھی تھی۔ ہم نے اسے پڑھا اور یاد کیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے (شادی شدہ زانیوں کو)رجم کیا اور آپ کے بعد ہم نے بھی ایسا کیا۔ مجھے خدشہ ہے کہ ایک زمانہ گزرنے کے بعد کوئی یہ نہ کہہ دے کہ اللہ کی قسم ! ہمیں کتاب اللہ میں رجم والی آیت نہیں ملی اور یوں وہ اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ ایک فریضے کو چھوڑ کر گمراہ ہو جائیں۔ کتاب اللہ میں شادی شدہ زانی مرد و عورت پر رجم ثابت ہے جب کوئی دلیل قائم ہو جائے یا (کنواری عورت) حاملہ ہو جائے یا زانی خود اعتراف کر لے۔ پھر ہم کتاب اللہ کے جس حصے کی قراء ت کیا کرتے تھے ، اس میں یہ قراء ت بھی کرتے تھے کہ تم اپنے آباء سے اعراض نہ کروکیونکہ اپنے آباء سے اعراض کفریہ کام ہے۔۔۔''
(صحیح بخاری : ٦٨٣٠، طبع دار السلام بالریاض)
اس حدیث میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ یہ بتا رہے ہیں کہ پہلے ہم رجم اور آباء سے اعراض والی آیات کی بھی قراء ت کیا کرتے تھے لیکن بعد میں ان کی قراء ت منسوخ ہو گئی۔ اب ان کا حکم تو باقی ہے لیکن قرآنِ کریم میں ان کو تلاوت نہیں کیا جاتا۔ نسخ کی بحث میں علمائے کرام نے بالتفصیل یہ بات بیان کی ہے کہ قرآنِ کریم کی بعض آیات کی قراء ت منسوخ کر دی گئی تھی اور ان کا حکم باقی رکھا گیا تھا۔ انہی میں سے رجم اور آباء سے اعراض والی آیات ہیں۔ یہی بات سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے اس بیان سے ثابت ہو رہی ہے کہ ان کی قراء ت تو اب نہیں لیکن یہ باتیں حق اور ثابت ہیں۔ تلاوت و قراء ت نہ کرنے کے باوجود صحابہ کرام رجم پر عمل کرتے رہے تھے۔کہاں قراء ت کا منسوخ ہونااور کہاں قرآنی آیات کی گمشدگی کا الزام دے کر حدیث ِ نبوی کے خلاف واویلا کرنا!
اب بوہیو صاحب سے سوال ہے کہ اس حدیث کے متن کے کس لفظ کا ترجمہ گم ہونا ہے؟حافظ ابن حجررحمہ اللہ صحیح بخاری کی اسی حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
ممّا نسخت تلاوتہ ۔ ''یہ آیات ان آیات میں سے ہیں جن کی تلاوت منسوخ کر دی گئی تھی۔''(فتح الباری لابن حجر : ١٢/١٤٩، طبع دار المعرفۃ ، بیروت)
رہی بات سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے صحیفے کو بکری کے کھا لینے کی تو اس سے آیات ِ قرآنیہ کے گم ہونے کا استدلال کرنا کہاں کا انصاف ہے؟ کیا قرآن نازل ہونے کے بعد سیدھا سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے صحیفے میںآ کر بند ہو گیا تھا ؟بوہیو صاحب اللہ کے لیے سوچیں کہ قرآنِ کریم نزول کے بعد سب سے پہلے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سینے میں محفوظ ہوا ، پھر صحابہ کرام] نے اسے سن کر اپنے سینوں میں محفوظ کیا ، پھربہت سے کاتبین وحی نے اسے تحریری طور پر منضبط کیا۔ قرآنِ کریم کی حفاظت کے اس اسلوب سے کسی سنّی مسلمان کو ذرا برابر بھی اختلاف نہیں۔ یہ تو رافضیوں کا چلایا ہوا چکر ہے جس میں بوہیو صاحب پھنس گئے ہیں ، ورنہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے صحیفے کے گم ہو جانے سے قرآنِ کریم کا گم ہو جانا کیسے کشید کیا جا سکتا ہے؟
Comment