صحیح بخاری -> کتاب تقصیر الصلوۃ
باب : نماز بیٹھ کر پڑھنے کا بیان
حدیث نمبر : 1113
حدثنا قتيبة بن سعيد، عن مالك، عن هشام بن عروة، عن أبيه، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أنها قالت صلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في بيته وهو شاك، فصلى جالسا وصلى وراءه قوم قياما، فأشار إليهم أن اجلسوا، فلما انصرف قال " إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا".
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، ان سے امام مالک رحمہ اللہ نے، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے ان کے باپ عروہ نے، ان سے عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیما ر تھے اس لیے آپ نے اپنے گھر میں بیٹھ کر نماز پڑھائی، بعض لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہو کر پڑھنے لگے۔ لیکن آپ نے انہیں اشارہ کیا کہ بیٹھ جاؤ۔ نماز سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے فرمایا کہ امام اس لیے ہے کہ اس کی پیروی کی جائے اس لیے جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو اور جب وہ سر اٹھا ئے تو تم بھی سر اٹھاؤ۔
حدیث نمبر : 1114
حدثنا أبو نعيم، قال حدثنا ابن عيينة، عن الزهري، عن أنس ـ رضى الله عنه ـ قال سقط رسول الله صلى الله عليه وسلم من فرس فخدش ـ أو فجحش ـ شقه الأيمن، فدخلنا عليه نعوده، فحضرت الصلاة فصلى قاعدا فصلينا قعودا وقال " إنما جعل الإمام ليؤتم به، فإذا كبر فكبروا وإذا ركع فاركعوا، وإذا رفع فارفعوا، وإذا قال سمع الله لمن حمده. فقولوا ربنا ولك الحمد".
ہم سے ابو نعیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم سے سفیان بن عیینہ نے زہری سے بیان کیا اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھوڑے سے گر پڑے اور اس کی وجہ سے آپ کے دائیں پہلو پر زخم آگئے۔ ہم مزاج پرسی کے لیے گئے تو نماز کا وقت آ گیا۔ آپ نے بیٹھ کر نماز پڑھائی۔ ہم نے بھی بیٹھ کر آپ کے پیچھے نماز پڑھی۔ آپ نے اسی موقع پر فرمایا تھا کہ امام اس لیے ہے تا کہ اس کی پیروی کی جائے۔ اس لیے جب وہ تکبیر کہے تو تم بھی تکبیر کہو، جب وہ رکوع کرے تو تم بھی رکوع کرو، جب وہ سر اٹھا ئے تو تم بھی سر اٹھاؤ اور جب وہ سمع اللہ لمن حمدہ کہے تو تم اللھم ربنا ولک الحمد کہو۔
ہر دو احادیث میں مقتدیوں کے لیے بیٹھنے کا حکم پہلے دیا گیا تھا۔ بعد میں آخری نماز مرض الموت میں جو آپ نے پڑھائی اس میں آپ بیٹھے ہوئے تھے اور صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے کھڑے ہوئے تھے۔ اس سے پہلا حکم منسوخ ہو گیا۔
حدیث نمبر : 1115
حدثنا إسحاق بن منصور، قال أخبرنا روح بن عبادة، أخبرنا حسين، عن عبد الله بن بريدة، عن عمران بن حصين ـ رضى الله عنه ـ أنه سأل نبي الله صلى الله عليه وسلم. أخبرنا إسحاق قال أخبرنا عبد الصمد قال سمعت أبي قال حدثنا الحسين عن ابن بريدة قال حدثني عمران بن حصين ـ وكان مبسورا ـ قال سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن صلاة الرجل قاعدا فقال " إن صلى قائما فهو أفضل، ومن صلى قاعدا فله نصف أجر القائم، ومن صلى نائما فله نصف أجر القاعد".
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہمیں روح بن عبادہ نے خبر دی، انہوں نے کہا ہمیں حسین نے خبر دی، انہیں عبد اللہ بن بریدہ نے، انہیں عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے کہ آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا ( دوسری سند ) اور ہمیں اسحاق بن منصور نے خبر دی، کہا کہ ہمیں عبد الصمد نے خبر دی، کہا کہ میں نے اپنے باپ عبدالوارث سے سنا، کہا کہ ہم سے حسین نے بیا ن کیا اور ان سے ا بن بریدہ نے کہا کہ مجھ سے عمران بن حصین رضی اللہ عنہ نے بیان کیا، وہ بواسیر کے مریض تھے انہوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی آدمی کے بیٹھ کر نماز پڑھنے کے بارے میں پوچھا کہ آپ نے فرمایا کہ افضل یہی ہے کہ کھڑے ہو کر پڑھے کیونکہ بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھے کیونکہ بیٹھ کر پڑھنے والے کو کھڑے ہو کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے اور لیٹے لیٹے پڑھنے والے کو بیٹھ کر پڑھنے والے سے آدھا ثواب ملتا ہے۔
تشریح : اس حدیث میں ایک اصول بتایا گیا ہے کہ کھڑے ہو کر بیٹھ کر اور لیٹ کر نمازوں کے ثواب میں کیا تفاوت ہے۔ رہی صورت مسئلہ کہ لیٹ کر نماز جائز بھی ہے یا نہیں اس
سے کوئی بحث نہیں کی گئی ہے ا س لیے اس حدیث پر یہ سوال نہیں ہوسکتا کہ جب لیٹ کر نماز جائز ہی نہیں تو حدیث میں اس پرثواب کا کیسے ذکر ہو رہا ہے؟ مصنف رحمہ اللہ نے بھی ان احادیث پر جو عنوان لگایا ہے اس کا مقصد اسی اصول کی وضاحت ہے۔ اس کی تفصیلات دوسرے مواقع پر شارع سے خود ثابت ہیں۔ اس لیے عملی حدود میں جواز اور عدم جواز کافیصلہ انہیں تفصیلات کے پیش نظر ہوگا۔ اس باب کی پہلی دو احادیث پر بحث پہلے گزر چکی ہے کہ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم عذر کی وجہ سے مسجد میں نہیں جا سکتے تھے اس لیے آپ نے فرض اپنی قیامگاہ پر ادا کئے۔ صحابہ رضی اللہ عنہ نماز سے فارغ ہوکر عیادت کے لیے حاضر ہوئے اور جب آپ کو نماز پڑھتے دیکھا تو آپ کے پیچھے انہوں نے بھی اقتداءکی نیت باندھ لی۔ صحابہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہو کر نماز پڑھ رہے تھے، اس لیے آپ نے انہیں منع کیا کہ نفل نماز میں امام کی حالت کے اس طرح خلاف مقتدیوں کے لیے کھڑا ہونا مناسب نہیں ہے۔
( تفہیم البخاری، پ:5ص:13 )
جو مریض بیٹھ کر بھی نماز نہ پڑھ سکے وہ لیٹ کر پڑھ سکتا ہے۔ جس کے جواز میں کوئی شک نہیں۔ امام کے ساتھ مقتدیوں کا بیٹھ کر نماز پڑھنا بعد میں منسوخ ہوگیا۔