وقالت فاطمة ـ عليها السلام ـ أسر إلى النبي صلى الله عليه وسلم فضحكت. وقال ابن عباس إن الله هو أضحك وأبكى.
اور فاطمہ علیہا السلام نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چپکے سے مجھ سے ایک بات کہی تو میں ہنس دی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ ہی ہنساتا ہے اور رلاتا ہے۔
حدیث نمبر: 6084
حدثنا حبان بن موسى، أخبرنا عبد الله، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن رفاعة، القرظي طلق امرأته فبت طلاقها، فتزوجها بعده عبد الرحمن بن الزبير، فجاءت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إنها كانت عند رفاعة فطلقها آخر ثلاث تطليقات، فتزوجها بعده عبد الرحمن بن الزبير، وإنه والله ما معه يا رسول الله إلا مثل هذه الهدبة، لهدبة أخذتها من جلبابها. قال وأبو بكر جالس عند النبي صلى الله عليه وسلم وابن سعيد بن العاص جالس بباب الحجرة ليؤذن له، فطفق خالد ينادي أبا بكر، يا أبا بكر ألا تزجر هذه عما تجهر به عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وما يزيد رسول الله صلى الله عليه وسلم على التبسم ثم قال " لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة، لا، حتى تذوقي عسيلته، ويذوق عسيلتك "
.
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رفاعہ قرظی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور طلاق رجعی نہیں دی۔ اس کے بعد ان سے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہما نے نکاح کر لیا، لیکن وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا، یا رسول اللہ! میں رفاعہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی لیکن انہوں نے مجھے تین طلاقیں دے دیں۔ پھر مجھ سے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہما نے نکاح کر لیا، لیکن اللہ کی قسم ان کے پاس تو پلو کی طرح کے سوا اور کچھ نہیں۔ (مراد یہ کہ وہ نامرد ہیں) اور انہوں نے اپنے چادر کا پلو پکڑ کر بتایا (راوی نے بیان کیا کہ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور سعید بن العاص کے لڑکے خالد حجرہ کے دروازے پر تھے اور اندر داخل ہونے کی اجازت کے منتظر تھے۔ خالد بن سعید اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آواز دے کر کہنے لگے کہ آپ اس عورت کو ڈانتے نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی بات کہتی ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم کے سوا اور کچھ نہیں فرمایا۔ پھر فرمایا غالباً تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک تم ان کا (عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کا) مزا نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لیں۔
حدیث نمبر: 6085
حدثنا إسماعيل، حدثنا إبراهيم، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب، عن محمد بن سعد، عن أبيه، قال استأذن عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نسوة من قريش يسألنه ويستكثرنه، عالية أصواتهن على صوته، فلما استأذن عمر تبادرن الحجاب، فأذن له النبي صلى الله عليه وسلم فدخل والنبي صلى الله عليه وسلم يضحك فقال أضحك الله سنك يا رسول الله بأبي أنت وأمي فقال " عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندي، لما سمعن صوتك تبادرن الحجاب ". فقال أنت أحق أن يهبن يا رسول الله. ثم أقبل عليهن فقال يا عدوات أنفسهن أتهبنني ولم تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلن إنك أفظ وأغلظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إيه يا ابن الخطاب، والذي نفسي بيده ما لقيك الشيطان سالكا فجا إلا سلك فجا غير فجك ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالحمید بن عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب نے، ان سے محمد بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی کئی بیویاں جو قریش سے تعلق رکھتی تھیں آپ سے خرچ دینے کے لیے تقاضا کر رہی تھیں اور اونچی آواز میں باتیں کر رہی تھیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو وہ جلدی سے بھاگ کر پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دی اور وہ داخل ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہنس رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ آپ کو خوش رکھے، یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان پر مجھے حیرت ہوئی، جو ابھی میرے پاس تقاضا کر رہی تھیں، جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو فوراً بھاگ کر پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ سے ڈرا جائے، پھر عورتوں کو مخاطب کر کے انہوں نے کہا، اپنی جانوں کی دشمن! مجھ سے تو تم ڈرتی ہو او اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں۔ انہوں نے عرض کیا آپ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت ہیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اے ابن خطاب! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان بھی تمہیں راستے پر آتا ہوا دیکھے گا تو تمہارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلا جائے گا۔
حدیث نمبر: 6086
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن أبي العباس، عن عبد الله بن عمرو، قال لما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم بالطائف قال " إنا قافلون غدا إن شاء الله ". فقال ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نبرح أو نفتحها. فقال النبي صلى الله عليه وسلم " فاغدوا على القتال ". قال فغدوا فقاتلوهم قتالا شديدا وكثر فيهم الجراحات فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إنا قافلون غدا إن شاء الله ". قال فسكتوا فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال الحميدي حدثنا سفيان كله بالخبر.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابو العباس سائب نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف میں تھے (فتح مکہ کے بعد) تو آپ نے فرمایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم یہاں سے کل واپس ہوں گے۔ آپ کے بعض صحابہ نے کہا کہ ہم اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک اسے فتح نہ کر لیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہی بات ہے تو کل صبح لڑائی کرو۔ بیان کیا کہ دوسرے دن صبح کو صحابہ نے گھمسان کی لڑائی لڑی اور بکثرت صحابہ زخمی ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ انشاءاللہ ہم کل واپس ہوں گے، بیان کیا کہ اب سب لوگ خاموش رہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ حمیدی نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان نے پوری سند خبر کے لفظ کے ساتھ بیان کی۔
حدیث نمبر: 6087
حدثنا موسى، حدثنا إبراهيم، أخبرنا ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال أتى رجل النبي صلى الله عليه وسلم فقال هلكت وقعت على أهلي في رمضان. قال " أعتق رقبة ". قال ليس لي. قال " فصم شهرين متتابعين ". قال لا أستطيع. قال " فأطعم ستين مسكينا ". قال لا أجد. فأتي بعرق فيه تمر ـ قال إبراهيم العرق المكتل فقال " أين السائل تصدق بها ". قال على أفقر مني والله ما بين لابتيها أهل بيت أفقر منا. فضحك النبي صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه. قال " فأنتم إذا ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں تو تباہ ہو گیا اپنی بیوی کے ساتھ رمضان میں (روزہ کی حالت میں) ہمبستری کر لی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ایک غلام آزاد کر۔ انہوں نے عرض کیا میرے پاس کوئی غلام نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دو مہینے کے روزے رکھ۔ انہوں نے عرض کیا اس کی مجھ میں طاقت نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اتنا بھی میرے پاس نہیں ہے۔ بیان کیا کہ پھر کھجور کا ایک ٹوکرا لایا گیا۔ ابراہیم نے بیان کیا کہ ”عرق“ ایک طرح کا (نو کلوگرام کا) ایک پیمانہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پوچھنے والا کہاں ہے؟ لو اسے صدقہ کر دینا۔ انہوں نے عرض کی مجھ سے جو زیادہ محتاج ہو اسے دوں؟ اللہ کی قسم مدینہ کے دونوں میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ بھی ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دندان مبارک کھل گئے، اس کے بعد فرمایا، اچھا پھر تو تم میاں بیوی ہی اسے کھا لو۔
حدیث نمبر: 6088
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله الأويسي، حدثنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك، قال كنت أمشي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه برد نجراني غليظ الحاشية، فأدركه أعرابي فجبذ بردائه جبذة شديدة ـ قال أنس فنظرت إلى صفحة عاتق النبي صلى الله عليه وسلم وقد أثرت بها حاشية الرداء من شدة جبذته ـ ثم قال يا محمد مر لي من مال الله الذي عندك. فالتفت إليه فضحك، ثم أمر له بعطاء.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ ابن ابی طلحہ نے اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا۔ آپ کے جسم پر ایک نجرانی چادر تھی، جس کا حاشیہ موٹاتھا۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ کی چادر بڑے زور سے کھینچی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شانے کو دیکھا کہ زور سے کھینچنے کی وجہ سے، اس پر نشان پڑ گئے۔ پھر اس نے کہا اے محمد! اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے اس میں سے مجھے دیئے جانے کا حکم فرما یئے۔ اس وقت میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مڑ کر دیکھا تو آپ مسکرادیئے پھر آپ نے اسے دیئے جانے کا حکم فرمایا۔
حدیث نمبر: 6089
حدثنا ابن نمير، حدثنا ابن إدريس، عن إسماعيل، عن قيس، عن جرير، قال ما حجبني النبي صلى الله عليه وسلم منذ أسلمت، ولا رآني إلا تبسم في وجهي.
ہم سے ابن نمیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ادریس نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے اور ان سے حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے پاس آنے سے) کبھی نہیں روکا اور جب بھی آپ نے مجھے دیکھا تو مسکرائے۔
حدیث نمبر: 6090
ولقد شكوت إليه أني لا أثبت على الخيل، فضرب بيده في صدري وقال " اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا ".
میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ پاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور دعا کی کہ اے اللہ! اسے ثبات فرمایا اسے ہدایت کرنے والا اور خود ہدایت پایا ہوا بنا۔
حدیث نمبر: 6091
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، عن هشام، قال أخبرني أبي، عن زينب بنت أم سلمة، عن أم سلمة، أن أم سليم، قالت يا رسول الله إن الله لا يستحي من الحق، هل على المرأة غسل إذا احتلمت قال " نعم إذا رأت الماء ". فضحكت أم سلمة فقالت أتحتلم المرأة فقال النبي صلى الله عليه وسلم " فبم شبه الولد ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہیں ان کے والد نے خبر دی، انہیں زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے، انہیں ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ حق سے نہیں شرماتا، کیا عورت کو جب احتلام ہو تو اس پر غسل واجب ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں جب عورت پانی دیکھے (تو اس پر غسل واجب ہے) اس پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہنسیں اور عرض کیا، کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر بچہ کی صورت ماں سے کیوں ملتی ہے۔
حدیث نمبر: 6092
حدثنا يحيى بن سليمان، قال حدثني ابن وهب، أخبرنا عمرو، أن أبا النضر، حدثه عن سليمان بن يسار، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم مستجمعا قط ضاحكا حتى أرى منه لهواته، إنما كان يتبسم.
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عمرو نے خبر دی، ان سے ابوالنضر نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن یسار نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ کو اس طرح کھل کر کبھی ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کاکوا نظر آنے لگتا ہو، آپ صرف مسکراتے تھے۔
حدیث نمبر: 6093
حدثنا محمد بن محبوب، حدثنا أبو عوانة، عن قتادة، عن أنس، . وقال لي خليفة حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه أن رجلا، جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة وهو يخطب بالمدينة فقال قحط المطر فاستسق ربك، فنظر إلى السماء وما نرى من سحاب، فاستسقى فنشأ السحاب بعضه إلى بعض، ثم مطروا حتى سالت مثاعب المدينة، فما زالت إلى الجمعة المقبلة ما تقلع، ثم قام ذلك الرجل أو غيره والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب فقال غرقنا فادع ربك يحبسها عنا. فضحك ثم قال " اللهم حوالينا ولا علينا ". مرتين أو ثلاثا. فجعل السحاب يتصدع عن المدينة يمينا وشمالا، يمطر ما حوالينا، ولا يمطر منها شىء، يريهم الله كرامة نبيه صلى الله عليه وسلم وإجابة دعوته.
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے (دوسری سند) اور مجھ سے خلیفہ نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ایک صاحب جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مدینہ میں جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے، انہوں نے عرض کیا بارش کا قحط پڑ گیا ہے، آپ اپنے رب سے بارش کی دعا کیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھا کہیں ہمیں بادل نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر آپ نے بارش کی دعا کی، اتنے میں بادل اٹھا اور بعض ٹکڑے بعض کی طرف بڑھے اور بارش ہونے لگی، یہاں تک کہ مدینہ کے نالے بہنے لگے۔ اگلے جمعہ تک اسی طرح بارش ہوتی رہی سلسلہ ٹوٹتا ہی نہ تھا چنانچہ وہی صاحب یا کوئی دوسرے (اگلے جمعہ کو) کھڑے ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے اور انہوں نے عرض کیا ہم ڈوب گئے، اپنے رب سے دعا کریں کہ اب بارش بند کر دے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے چاروں طرف بارش ہو، ہم پر نہ ہو۔ دو یا تین مرتبہ آپ نے یہ فرمایا، چنانچہ مدینہ منورہ سے بادل چھٹنے لگے، بائیں اور دائیں، ہمارے چاروں طرف دوسرے مقامات پر بارش ہونے لگی اور ہمارے یہاں بارش یکدم بند ہو گئی۔ یہ اللہ نے لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت اور دعا کی قبولیت بتلائی۔
کتاب الادب صحیح بخاری
اور فاطمہ علیہا السلام نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چپکے سے مجھ سے ایک بات کہی تو میں ہنس دی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ اللہ ہی ہنساتا ہے اور رلاتا ہے۔
حدیث نمبر: 6084
حدثنا حبان بن موسى، أخبرنا عبد الله، أخبرنا معمر، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ أن رفاعة، القرظي طلق امرأته فبت طلاقها، فتزوجها بعده عبد الرحمن بن الزبير، فجاءت النبي صلى الله عليه وسلم فقالت يا رسول الله إنها كانت عند رفاعة فطلقها آخر ثلاث تطليقات، فتزوجها بعده عبد الرحمن بن الزبير، وإنه والله ما معه يا رسول الله إلا مثل هذه الهدبة، لهدبة أخذتها من جلبابها. قال وأبو بكر جالس عند النبي صلى الله عليه وسلم وابن سعيد بن العاص جالس بباب الحجرة ليؤذن له، فطفق خالد ينادي أبا بكر، يا أبا بكر ألا تزجر هذه عما تجهر به عند رسول الله صلى الله عليه وسلم وما يزيد رسول الله صلى الله عليه وسلم على التبسم ثم قال " لعلك تريدين أن ترجعي إلى رفاعة، لا، حتى تذوقي عسيلته، ويذوق عسيلتك "
.
ہم سے حبان بن موسیٰ نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا ہم کو معمر نے خبر دی، انہیں زہری نے، انہیں عروہ نے اور انہیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ رفاعہ قرظی نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی اور طلاق رجعی نہیں دی۔ اس کے بعد ان سے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہما نے نکاح کر لیا، لیکن وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا، یا رسول اللہ! میں رفاعہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھی لیکن انہوں نے مجھے تین طلاقیں دے دیں۔ پھر مجھ سے عبدالرحمٰن بن زبیر رضی اللہ عنہما نے نکاح کر لیا، لیکن اللہ کی قسم ان کے پاس تو پلو کی طرح کے سوا اور کچھ نہیں۔ (مراد یہ کہ وہ نامرد ہیں) اور انہوں نے اپنے چادر کا پلو پکڑ کر بتایا (راوی نے بیان کیا کہ) حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے اور سعید بن العاص کے لڑکے خالد حجرہ کے دروازے پر تھے اور اندر داخل ہونے کی اجازت کے منتظر تھے۔ خالد بن سعید اس پر حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کو آواز دے کر کہنے لگے کہ آپ اس عورت کو ڈانتے نہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کس طرح کی بات کہتی ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تبسم کے سوا اور کچھ نہیں فرمایا۔ پھر فرمایا غالباً تم رفاعہ کے پاس دوبارہ جانا چاہتی ہو لیکن یہ اس وقت تک ممکن نہیں ہے جب تک تم ان کا (عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کا) مزا نہ چکھ لو اور وہ تمہارا مزہ نہ چکھ لیں۔
حدیث نمبر: 6085
حدثنا إسماعيل، حدثنا إبراهيم، عن صالح بن كيسان، عن ابن شهاب، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب، عن محمد بن سعد، عن أبيه، قال استأذن عمر بن الخطاب ـ رضى الله عنه ـ على رسول الله صلى الله عليه وسلم وعنده نسوة من قريش يسألنه ويستكثرنه، عالية أصواتهن على صوته، فلما استأذن عمر تبادرن الحجاب، فأذن له النبي صلى الله عليه وسلم فدخل والنبي صلى الله عليه وسلم يضحك فقال أضحك الله سنك يا رسول الله بأبي أنت وأمي فقال " عجبت من هؤلاء اللاتي كن عندي، لما سمعن صوتك تبادرن الحجاب ". فقال أنت أحق أن يهبن يا رسول الله. ثم أقبل عليهن فقال يا عدوات أنفسهن أتهبنني ولم تهبن رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلن إنك أفظ وأغلظ من رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إيه يا ابن الخطاب، والذي نفسي بيده ما لقيك الشيطان سالكا فجا إلا سلك فجا غير فجك ".
ہم سے اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم نے بیان کیا، ان سے صالح بن کیسان نے، ان سے ابن شہاب نے، ان سے عبدالحمید بن عبدالرحمٰن بن زید بن خطاب نے، ان سے محمد بن سعد نے اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا کہ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے کی اجازت چاہی۔ اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آپ کی کئی بیویاں جو قریش سے تعلق رکھتی تھیں آپ سے خرچ دینے کے لیے تقاضا کر رہی تھیں اور اونچی آواز میں باتیں کر رہی تھیں۔ جب حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اجازت چاہی تو وہ جلدی سے بھاگ کر پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ پھر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دی اور وہ داخل ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت ہنس رہے تھے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ آپ کو خوش رکھے، یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان پر مجھے حیرت ہوئی، جو ابھی میرے پاس تقاضا کر رہی تھیں، جب انہوں نے تمہاری آواز سنی تو فوراً بھاگ کر پردے کے پیچھے چلی گئیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس پر عرض کیا، یا رسول اللہ! آپ اس کے زیادہ مستحق ہیں کہ آپ سے ڈرا جائے، پھر عورتوں کو مخاطب کر کے انہوں نے کہا، اپنی جانوں کی دشمن! مجھ سے تو تم ڈرتی ہو او اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں ڈرتیں۔ انہوں نے عرض کیا آپ رضی اللہ عنہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ سخت ہیں۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں اے ابن خطاب! اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر شیطان بھی تمہیں راستے پر آتا ہوا دیکھے گا تو تمہارا راستہ چھوڑ کر دوسرے راستے پر چلا جائے گا۔
حدیث نمبر: 6086
حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن أبي العباس، عن عبد الله بن عمرو، قال لما كان رسول الله صلى الله عليه وسلم بالطائف قال " إنا قافلون غدا إن شاء الله ". فقال ناس من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم لا نبرح أو نفتحها. فقال النبي صلى الله عليه وسلم " فاغدوا على القتال ". قال فغدوا فقاتلوهم قتالا شديدا وكثر فيهم الجراحات فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم " إنا قافلون غدا إن شاء الله ". قال فسكتوا فضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم. قال الحميدي حدثنا سفيان كله بالخبر.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے ابو العباس سائب نے اور ان سے حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم طائف میں تھے (فتح مکہ کے بعد) تو آپ نے فرمایا کہ اگر اللہ نے چاہا تو ہم یہاں سے کل واپس ہوں گے۔ آپ کے بعض صحابہ نے کہا کہ ہم اس وقت تک نہیں جائیں گے جب تک اسے فتح نہ کر لیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر یہی بات ہے تو کل صبح لڑائی کرو۔ بیان کیا کہ دوسرے دن صبح کو صحابہ نے گھمسان کی لڑائی لڑی اور بکثرت صحابہ زخمی ہوئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ سلم نے فرمایا کہ انشاءاللہ ہم کل واپس ہوں گے، بیان کیا کہ اب سب لوگ خاموش رہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے۔ حمیدی نے بیان کیا کہ ہم سے سفیان نے پوری سند خبر کے لفظ کے ساتھ بیان کی۔
حدیث نمبر: 6087
حدثنا موسى، حدثنا إبراهيم، أخبرنا ابن شهاب، عن حميد بن عبد الرحمن، أن أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال أتى رجل النبي صلى الله عليه وسلم فقال هلكت وقعت على أهلي في رمضان. قال " أعتق رقبة ". قال ليس لي. قال " فصم شهرين متتابعين ". قال لا أستطيع. قال " فأطعم ستين مسكينا ". قال لا أجد. فأتي بعرق فيه تمر ـ قال إبراهيم العرق المكتل فقال " أين السائل تصدق بها ". قال على أفقر مني والله ما بين لابتيها أهل بيت أفقر منا. فضحك النبي صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه. قال " فأنتم إذا ".
ہم سے موسیٰ بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن سعد نے بیان کیا، کہا ہم کو ابن شہاب نے خبر دی، انہیں حمید بن عبدالرحمٰن نے، ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صاحب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا میں تو تباہ ہو گیا اپنی بیوی کے ساتھ رمضان میں (روزہ کی حالت میں) ہمبستری کر لی۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر ایک غلام آزاد کر۔ انہوں نے عرض کیا میرے پاس کوئی غلام نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر دو مہینے کے روزے رکھ۔ انہوں نے عرض کیا اس کی مجھ میں طاقت نہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلا۔ انہوں نے عرض کیا کہ اتنا بھی میرے پاس نہیں ہے۔ بیان کیا کہ پھر کھجور کا ایک ٹوکرا لایا گیا۔ ابراہیم نے بیان کیا کہ ”عرق“ ایک طرح کا (نو کلوگرام کا) ایک پیمانہ تھا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، پوچھنے والا کہاں ہے؟ لو اسے صدقہ کر دینا۔ انہوں نے عرض کی مجھ سے جو زیادہ محتاج ہو اسے دوں؟ اللہ کی قسم مدینہ کے دونوں میدانوں کے درمیان کوئی گھرانہ بھی ہم سے زیادہ محتاج نہیں ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ہنس دیئے اور آپ کے سامنے کے دندان مبارک کھل گئے، اس کے بعد فرمایا، اچھا پھر تو تم میاں بیوی ہی اسے کھا لو۔
حدیث نمبر: 6088
حدثنا عبد العزيز بن عبد الله الأويسي، حدثنا مالك، عن إسحاق بن عبد الله بن أبي طلحة، عن أنس بن مالك، قال كنت أمشي مع رسول الله صلى الله عليه وسلم وعليه برد نجراني غليظ الحاشية، فأدركه أعرابي فجبذ بردائه جبذة شديدة ـ قال أنس فنظرت إلى صفحة عاتق النبي صلى الله عليه وسلم وقد أثرت بها حاشية الرداء من شدة جبذته ـ ثم قال يا محمد مر لي من مال الله الذي عندك. فالتفت إليه فضحك، ثم أمر له بعطاء.
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے امام مالک رحمہ اللہ نے بیان کیا، ان سے اسحاق بن عبداللہ ابن ابی طلحہ نے اور ان سے حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا۔ آپ کے جسم پر ایک نجرانی چادر تھی، جس کا حاشیہ موٹاتھا۔ اتنے میں ایک دیہاتی آپ کے پاس آیا اور اس نے آپ کی چادر بڑے زور سے کھینچی۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے شانے کو دیکھا کہ زور سے کھینچنے کی وجہ سے، اس پر نشان پڑ گئے۔ پھر اس نے کہا اے محمد! اللہ کا جو مال آپ کے پاس ہے اس میں سے مجھے دیئے جانے کا حکم فرما یئے۔ اس وقت میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو مڑ کر دیکھا تو آپ مسکرادیئے پھر آپ نے اسے دیئے جانے کا حکم فرمایا۔
حدیث نمبر: 6089
حدثنا ابن نمير، حدثنا ابن إدريس، عن إسماعيل، عن قيس، عن جرير، قال ما حجبني النبي صلى الله عليه وسلم منذ أسلمت، ولا رآني إلا تبسم في وجهي.
ہم سے ابن نمیر نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن ادریس نے بیان کیا، ان سے اسماعیل نے، ان سے قیس نے اور ان سے حضرت جریر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب سے میں نے اسلام قبول کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے پاس آنے سے) کبھی نہیں روکا اور جب بھی آپ نے مجھے دیکھا تو مسکرائے۔
حدیث نمبر: 6090
ولقد شكوت إليه أني لا أثبت على الخيل، فضرب بيده في صدري وقال " اللهم ثبته واجعله هاديا مهديا ".
میں نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے شکایت کی کہ میں گھوڑے پر جم کر نہیں بیٹھ پاتا تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور دعا کی کہ اے اللہ! اسے ثبات فرمایا اسے ہدایت کرنے والا اور خود ہدایت پایا ہوا بنا۔
حدیث نمبر: 6091
حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا يحيى، عن هشام، قال أخبرني أبي، عن زينب بنت أم سلمة، عن أم سلمة، أن أم سليم، قالت يا رسول الله إن الله لا يستحي من الحق، هل على المرأة غسل إذا احتلمت قال " نعم إذا رأت الماء ". فضحكت أم سلمة فقالت أتحتلم المرأة فقال النبي صلى الله عليه وسلم " فبم شبه الولد ".
ہم سے محمد بن مثنیٰ نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ قطان نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے بیان کیا، انہیں ان کے والد نے خبر دی، انہیں زینب بنت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے، انہیں ام سلمہ رضی اللہ عنہا نے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! اللہ حق سے نہیں شرماتا، کیا عورت کو جب احتلام ہو تو اس پر غسل واجب ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں جب عورت پانی دیکھے (تو اس پر غسل واجب ہے) اس پر ام سلمہ رضی اللہ عنہا ہنسیں اور عرض کیا، کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر بچہ کی صورت ماں سے کیوں ملتی ہے۔
حدیث نمبر: 6092
حدثنا يحيى بن سليمان، قال حدثني ابن وهب، أخبرنا عمرو، أن أبا النضر، حدثه عن سليمان بن يسار، عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت ما رأيت النبي صلى الله عليه وسلم مستجمعا قط ضاحكا حتى أرى منه لهواته، إنما كان يتبسم.
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ مجھ سے ابن وہب نے بیان کیا، انہوں نے کہا ہم کو عمرو نے خبر دی، ان سے ابوالنضر نے بیان کیا، ان سے سلیمان بن یسار نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ کو اس طرح کھل کر کبھی ہنستے نہیں دیکھا کہ آپ کے حلق کاکوا نظر آنے لگتا ہو، آپ صرف مسکراتے تھے۔
حدیث نمبر: 6093
حدثنا محمد بن محبوب، حدثنا أبو عوانة، عن قتادة، عن أنس، . وقال لي خليفة حدثنا يزيد بن زريع، حدثنا سعيد، عن قتادة، عن أنس ـ رضى الله عنه أن رجلا، جاء إلى النبي صلى الله عليه وسلم يوم الجمعة وهو يخطب بالمدينة فقال قحط المطر فاستسق ربك، فنظر إلى السماء وما نرى من سحاب، فاستسقى فنشأ السحاب بعضه إلى بعض، ثم مطروا حتى سالت مثاعب المدينة، فما زالت إلى الجمعة المقبلة ما تقلع، ثم قام ذلك الرجل أو غيره والنبي صلى الله عليه وسلم يخطب فقال غرقنا فادع ربك يحبسها عنا. فضحك ثم قال " اللهم حوالينا ولا علينا ". مرتين أو ثلاثا. فجعل السحاب يتصدع عن المدينة يمينا وشمالا، يمطر ما حوالينا، ولا يمطر منها شىء، يريهم الله كرامة نبيه صلى الله عليه وسلم وإجابة دعوته.
ہم سے محمد بن محبوب نے بیان کیا، کہا ہم سے ابو عوانہ نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے حضرت انس رضی اللہ عنہ نے (دوسری سند) اور مجھ سے خلیفہ نے بیان کیا، کہا ہم کو یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے سعید نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور ان سے انس رضی اللہ عنہ نے کہ ایک صاحب جمعہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت مدینہ میں جمعہ کا خطبہ دے رہے تھے، انہوں نے عرض کیا بارش کا قحط پڑ گیا ہے، آپ اپنے رب سے بارش کی دعا کیجئے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آسمان کی طرف دیکھا کہیں ہمیں بادل نظر نہیں آ رہا تھا۔ پھر آپ نے بارش کی دعا کی، اتنے میں بادل اٹھا اور بعض ٹکڑے بعض کی طرف بڑھے اور بارش ہونے لگی، یہاں تک کہ مدینہ کے نالے بہنے لگے۔ اگلے جمعہ تک اسی طرح بارش ہوتی رہی سلسلہ ٹوٹتا ہی نہ تھا چنانچہ وہی صاحب یا کوئی دوسرے (اگلے جمعہ کو) کھڑے ہوئے، آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے اور انہوں نے عرض کیا ہم ڈوب گئے، اپنے رب سے دعا کریں کہ اب بارش بند کر دے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے اللہ! ہمارے چاروں طرف بارش ہو، ہم پر نہ ہو۔ دو یا تین مرتبہ آپ نے یہ فرمایا، چنانچہ مدینہ منورہ سے بادل چھٹنے لگے، بائیں اور دائیں، ہمارے چاروں طرف دوسرے مقامات پر بارش ہونے لگی اور ہمارے یہاں بارش یکدم بند ہو گئی۔ یہ اللہ نے لوگوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا معجزہ اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کی کرامت اور دعا کی قبولیت بتلائی۔
کتاب الادب صحیح بخاری