عورت کا مسجد میں سونا
حدیث نمبر : 439
حدثنا عبيد بن إسماعيل، قال حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، أن وليدة، كانت سوداء لحى من العرب، فأعتقوها، فكانت معهم قالت فخرجت صبية لهم عليها وشاح أحمر من سيور قالت فوضعته أو وقع منها، فمرت به حدياة وهو ملقى، فحسبته لحما فخطفته قالت فالتمسوه فلم يجدوه قالت فاتهموني به قالت فطفقوا يفتشون حتى فتشوا قبلها قالت والله إني لقائمة معهم، إذ مرت الحدياة فألقته قالت فوقع بينهم قالت فقلت هذا الذي اتهمتموني به ـ زعمتم ـ وأنا منه بريئة، وهو ذا هو قالت فجاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأسلمت. قالت عائشة فكان لها خباء في المسجد أو حفش قالت فكانت تأتيني فتحدث عندي قالت فلا تجلس عندي مجلسا إلا قالت ويوم الوشاح من أعاجيب ربنا ألا إنه من بلدة الكفر أنجاني قالت عائشة فقلت لها ما شأنك لا تقعدين معي مقعدا إلا قلت هذا قالت فحدثتني بهذا الحديث.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے ہشام کے واسطہ سے، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ عرب کے کسی قبیلہ کی ایک کالی لونڈی تھی۔ انھوں نے اسے آزاد کر دیا تھا اور انھیں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ان کی ایک لڑکی ( جو دلہن تھی ) نہانے کو نکلی، اس کا کمر بند سرخ تسموں کا تھا اس نے وہ کمر بند اتار کر رکھ دیا یا اس کے بدن سے گر گیا۔ پھر اس طرف سے ایک چیل گزری جہاں کمر بند پڑا تھا۔ چیل اسے ( سرخ رنگ کی وجہ سے ) گوشت سمجھ کر جھپٹ لے گئی۔ بعد میں قبیلہ والوں نے اسے بہت تلاش کیا، لیکن کہیں نہ ملا۔ ان لوگوں نے اس کی تہمت مجھ پر لگا دی اور میری تلاشی لینی شروع کر دی، یہاں تک کہ انھوں نے اس کی شرمگاہ تک کی تلاشی لی۔ اس نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ اسی حالت میں کھڑی تھی کہ وہی چیل آئی اور اس نے ان کا وہ کمر بند گرا دیا۔ وہ ان کے سامنے ہی گرا۔ میں نے ( اسے دیکھ کر ) کہا یہی تو تھا جس کی تم مجھ پر تہمت لگاتے تھے۔ تم لوگوں نے مجھ پر اس کا الزام لگایا تھا حالانکہ میں اس سے پاک تھی۔ یہی تو ہے وہ کمر بند! اس ( لونڈی ) نے کہا کہ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسلام لائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے لیے مسجد نبوی میں ایک بڑا خیمہ لگا دیا گیا۔ ( یا یہ کہا کہ ) چھوٹا سا خیمہ لگا دیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ وہ لونڈی میرے پاس آتی اور مجھ سے باتیں کیا کرتی تھی۔ جب بھی وہ میرے پاس آتی تو یہ ضرور کہتی کہ کمر بند کا دن ہمارے رب کی عجیب نشانیوں میں سے ہے۔ اسی نے مجھے کفر کے ملک سے نجات دی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس سے کہا، آخر بات کیا ہے؟ جب بھی تم میرے پاس بیٹھتی ہو تو یہ بات ضرور کہتی ہو۔ آپ نے بیان کیا کہ پھر اس نے مجھے یہ قصہ سنایا۔
تشریح
ثابت کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جو فوراً قبول ہوئی، ثابت ہوا کہ ایسی نومسلمہ مظلومہ عورت اگر کہیں جائے پناہ نہ پاسکے تو اسے مسجد میں پناہ دی جاسکتی ہے اوروہ رات بھی مسجد میں گزارسکتی ہے بشرطیکہ کسی فتنے کا ڈر نہ ہو۔ عام حالات میں مسجد کا ادب واحترام پیش نظر رکھنا ضروری ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مظلوم اگرچہ کافرہو پھر بھی اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔
آج کل بھی بعض قوموں میں عورتیں چاندی کا کمربند بطور زیور استعمال کرتی ہیں۔ وہ بھی اسی قسم کا قیمتی کمربند ہوگا جو سرخ رنگ کا تھا۔ جسے چیل نے گوشت جان کر اٹھالیا مگربعد میں اسے واپس اسی جگہ پر لاکر ڈال دیا۔ یہ اس مظلومہ کی دعا کا اثر تھا ورنہ وہ چیل اسے اور نامعلوم جگہ ڈال دیتی تواللہ جانے کہ کافر اس غریب مسکینہ پر کتنے ظلم ڈھاتے۔ وہ نومسلمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آکر بیٹھاکرتی اورآپ سے اپنے ذاتی واقعات کا ذکر کیا کرتی تھی اوراکثر مذکورہ شعر اس کی زبان پر جاری رہا کرتا تھا۔
صحیح بخاری
حدیث نمبر : 439
حدثنا عبيد بن إسماعيل، قال حدثنا أبو أسامة، عن هشام، عن أبيه، عن عائشة، أن وليدة، كانت سوداء لحى من العرب، فأعتقوها، فكانت معهم قالت فخرجت صبية لهم عليها وشاح أحمر من سيور قالت فوضعته أو وقع منها، فمرت به حدياة وهو ملقى، فحسبته لحما فخطفته قالت فالتمسوه فلم يجدوه قالت فاتهموني به قالت فطفقوا يفتشون حتى فتشوا قبلها قالت والله إني لقائمة معهم، إذ مرت الحدياة فألقته قالت فوقع بينهم قالت فقلت هذا الذي اتهمتموني به ـ زعمتم ـ وأنا منه بريئة، وهو ذا هو قالت فجاءت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فأسلمت. قالت عائشة فكان لها خباء في المسجد أو حفش قالت فكانت تأتيني فتحدث عندي قالت فلا تجلس عندي مجلسا إلا قالت ويوم الوشاح من أعاجيب ربنا ألا إنه من بلدة الكفر أنجاني قالت عائشة فقلت لها ما شأنك لا تقعدين معي مقعدا إلا قلت هذا قالت فحدثتني بهذا الحديث.
ہم سے عبید بن اسماعیل نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے ہشام کے واسطہ سے، انھوں نے اپنے باپ سے، انھوں نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے کہ عرب کے کسی قبیلہ کی ایک کالی لونڈی تھی۔ انھوں نے اسے آزاد کر دیا تھا اور انھیں کے ساتھ رہتی تھی۔ اس نے بیان کیا کہ ایک دفعہ ان کی ایک لڑکی ( جو دلہن تھی ) نہانے کو نکلی، اس کا کمر بند سرخ تسموں کا تھا اس نے وہ کمر بند اتار کر رکھ دیا یا اس کے بدن سے گر گیا۔ پھر اس طرف سے ایک چیل گزری جہاں کمر بند پڑا تھا۔ چیل اسے ( سرخ رنگ کی وجہ سے ) گوشت سمجھ کر جھپٹ لے گئی۔ بعد میں قبیلہ والوں نے اسے بہت تلاش کیا، لیکن کہیں نہ ملا۔ ان لوگوں نے اس کی تہمت مجھ پر لگا دی اور میری تلاشی لینی شروع کر دی، یہاں تک کہ انھوں نے اس کی شرمگاہ تک کی تلاشی لی۔ اس نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم میں ان کے ساتھ اسی حالت میں کھڑی تھی کہ وہی چیل آئی اور اس نے ان کا وہ کمر بند گرا دیا۔ وہ ان کے سامنے ہی گرا۔ میں نے ( اسے دیکھ کر ) کہا یہی تو تھا جس کی تم مجھ پر تہمت لگاتے تھے۔ تم لوگوں نے مجھ پر اس کا الزام لگایا تھا حالانکہ میں اس سے پاک تھی۔ یہی تو ہے وہ کمر بند! اس ( لونڈی ) نے کہا کہ اس کے بعد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور اسلام لائی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ اس کے لیے مسجد نبوی میں ایک بڑا خیمہ لگا دیا گیا۔ ( یا یہ کہا کہ ) چھوٹا سا خیمہ لگا دیا گیا۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ وہ لونڈی میرے پاس آتی اور مجھ سے باتیں کیا کرتی تھی۔ جب بھی وہ میرے پاس آتی تو یہ ضرور کہتی کہ کمر بند کا دن ہمارے رب کی عجیب نشانیوں میں سے ہے۔ اسی نے مجھے کفر کے ملک سے نجات دی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے اس سے کہا، آخر بات کیا ہے؟ جب بھی تم میرے پاس بیٹھتی ہو تو یہ بات ضرور کہتی ہو۔ آپ نے بیان کیا کہ پھر اس نے مجھے یہ قصہ سنایا۔
تشریح
ثابت کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ میں نے اللہ تعالیٰ سے دعا کی جو فوراً قبول ہوئی، ثابت ہوا کہ ایسی نومسلمہ مظلومہ عورت اگر کہیں جائے پناہ نہ پاسکے تو اسے مسجد میں پناہ دی جاسکتی ہے اوروہ رات بھی مسجد میں گزارسکتی ہے بشرطیکہ کسی فتنے کا ڈر نہ ہو۔ عام حالات میں مسجد کا ادب واحترام پیش نظر رکھنا ضروری ہے، اس سے یہ بھی ثابت ہوا کہ مظلوم اگرچہ کافرہو پھر بھی اس کی دعا قبول ہوتی ہے۔
آج کل بھی بعض قوموں میں عورتیں چاندی کا کمربند بطور زیور استعمال کرتی ہیں۔ وہ بھی اسی قسم کا قیمتی کمربند ہوگا جو سرخ رنگ کا تھا۔ جسے چیل نے گوشت جان کر اٹھالیا مگربعد میں اسے واپس اسی جگہ پر لاکر ڈال دیا۔ یہ اس مظلومہ کی دعا کا اثر تھا ورنہ وہ چیل اسے اور نامعلوم جگہ ڈال دیتی تواللہ جانے کہ کافر اس غریب مسکینہ پر کتنے ظلم ڈھاتے۔ وہ نومسلمہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس آکر بیٹھاکرتی اورآپ سے اپنے ذاتی واقعات کا ذکر کیا کرتی تھی اوراکثر مذکورہ شعر اس کی زبان پر جاری رہا کرتا تھا۔
صحیح بخاری