بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔۔۔وبعد!۔
عزیز دوستوں!۔
اﷲ کے نزدیک دین کیا ہے ؟
اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
ان الدین عنداﷲ الاسلام ۔
(آل عمران:19)
''بے شک اﷲ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے''۔
کیا اسلام کے علاوہ کسی اور دین پر عمل جائز ہے؟
اﷲ تعالیٰ کا حکم ہےاتبعوا ما انزل الیکم من ربکم ولا تتبعوا من دونہ اولیاء ۔
(الاعراف:3)
''لوگو تمہارے رب کی طرف سے جو نازل ہوا ہے اس کی پیروی کرو اور اس کے علاوہ اولیاء کی پیروی نہ کرو''۔یہ بھی فرمایا
ومن یبتغ غیر الاسلام دینا فلن یقبل منہ وھو فی الاخرۃ من الخسرین ۔
(آل عمران :85)
''اور جو شخص اسلام کے علاوہ کسی اوردین کا طلبگار ہوگاتو وہ اس سے ہر گز قبول نہیں کیاجائیگا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانیوالوں میں سے ہوگا''۔
اﷲ تعالیٰ نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسالت کے ساتھ مخصوص فرماکر آپ پر اپنی کتاب نازل فرمائی اور اسکی مکمل تشریح کا حکم دیا
و انزلنا الیک الذکر لتبین للناس مانزل الیہم ۔
(النحل :44)
''اور ہم نے آپ پر یہ کتاب نازل کی ہے تاکہ جو(ارشادات) نازل ہوئے ہیں وہ لوگوں سے بیان کر دو''۔
آیت کریمہ کے اس حکم میں دو باتیں شامل ہیں
(1)
الفاظ اور ان کی ترتیب کا بیان یعنی قرآن مجید کا مکمل متن امت تک اس طرح پہنچا دینا جس طرح اﷲ تعالیٰ نے نازل فرمایا
(2)
الفاظ، جملہ یا مکمل آیت کا مفہوم و معانی بیان کرنا تاکہ امت مسلمہ قرآن حکیم پر عمل کرسکے۔
قرآن مجید کی جو شرح رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی اسکی کیا حیثیت ہے؟
دینی امو رمیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرامین اﷲ کے حکم کے مطابق ہوتے ہیں:وما ینطق عن الھوی ان ھو الا وحی یوحی۔
(النجم:3-4)
اور وہ صلی اللہ علیہ وسلم ) اپنی خواہش سے کچھ نہیں بولتے جو کہتے ہیں وہ وحی ہوتی ہے''۔
اسی لئے فرمایا
من یطع الرسول فقدااطاع اﷲ ۔
(النساء :80)
جس نے رسول کی اطاعت کی پس تحقیق اس نے اﷲ کی اطاعت کی
یہی وجہ ہے کہ دینی امور مین فیصل کن حیثیت اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے
فان تنازعتم فی شئی فردوہ الی اﷲ والرسول ان کنتم تومنون باﷲ والیوم الاخر۔
(النساء :59)
''پس اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر تم اﷲ تعالیٰ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اﷲ اور اس کے رسول کی طرف رجوع کرو''۔
معلوم ہوا کہ اسلام اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کانام ہے
انبیاء کو کتب سماوی کے علاوہ بھی وحی آتی ہے
یقینا انبیاء کو کتب سماوی کے علاوہ بھی وحی آتی ہے اور اس وحی پر عمل بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا اﷲ کے کلام پر۔
(جس کی کچھ وضاحت شروع میں بھی کی گئی ہے)
کتاب اﷲ کے علاوہ وحی کی اقسام میں سے ایک قسم انبیاء کے خواب ہیں ۔
ابراہیم علیہ السلام کا خواب ملاحظہ فرمائیں
فلما بلغ معہ السعی قال یبنی انی اری فی المنام انی اذبحک فانظر ماذا تری قال یابت افعل ماتومر ستجدنی ان شاء اﷲ من الصبرین فلما اسلما و تلہ للجبین و نادینہ ان یاابرہیم قد صدقت الرؤیا انا کذلک نجزی المحسنین۔
(الصافات :102۔105)
ابراہیم علیہ السلام نے کہا اے بیٹے میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ تم کو ذبح کر رہا ہوں تم بتاؤ تمہارا کیاخیال ہے ؟؟؟ اس نے کہا ابا جان جو آپ کو حکم ہوا وہ کر گزرئیے اﷲ نے چاہا تو آپ مجھے صابر پائیں گے جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا تو ہم نے ان پکارا کہ ابراہیم تم نے اپنا خواب سچا کر دکھایا ہم نیکوکاروں کو ایسا ہی بدلہ دیاکرتے ہیں ۔
اس آیت میں خواب میں بیٹے کو ذبح کئے جانے والے عمل کو اﷲ کا حکم کہاگیا ہے ۔
کیارسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی خواب میں وحی نازل ہوئی؟۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ آپ بیت اﷲ میں داخل ہوکر طواف کر رہے ہیں چونکہ یہ خواب بھی وحی کی قسم سے تھا لہٰذا صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم بہت خوش ہوئے ۔1400 صحابہ رضی اﷲ عنہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیساتھ عمرہ کی نیت سے مکہ روانہ ہوئے لیکن کفار مکہ نے حدیبیہ کے مقام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو روک دیا اور وہاں صلح حدیبیہ ہوئی جس کی رو سے یہ طے پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سال کی بجائے اگلے سال بیت اﷲ کا طواف کرینگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خواب کے بارے میں صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم میں خلجان پیدا ہواتو عمر رضی اﷲ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کیا آپ نے ہمیں خبر نہیں دی تھی ۔ کہ ہم مکہ میں داخل ہونگے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے تمہیں بتایا تھا مگر میں نے یہ نہیں کہا تھا کہ ایسا اسی سفر میں ہوگا واپسی پر اﷲ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں :
لقد صدق اﷲ رسولہ الرء یا بالحق لتدخلن المسجد الحرام ان شاء اﷲ امنین۔
(الفتح:27)
بلاشبہ اﷲ نے اپنے رسول کو سچا خواب دکھایا تم ضرور مسجد حرام میں امن و امان سے داخل ہوگے۔ اگر اﷲ نے چاہا'۔
معلوم ہوا کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی خواب میں وحی ہوئی ۔
قرآن حکیم کے علاوہ وحی کے ذریعے احکامات بھی نازل ہوئے
بلاشبہ قرآن مجید کے علاوہ بھی احکامات نازل ہوئے مثلاً مسلمانوں کا پہلاقبلہ بیت المقدس تھا جس کی طرف14 سال تک منہ کرکے مسلمان نماز ادا کرتے رہے ، بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کا حکم قرآن حکیم میں نہیں ہے لیکن اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے:
وما جعلنا القبلۃ التی کنت علیہا الا لنعلم من یتبع الرسول ممن ینقلب علی عقبیہ۔
(البقرۃ3 )
اور ہم نے وہ قبلہ جس پر آپ اب تک تھے اسی لئے مقرر کیا تھا کہ دیکھیں کون رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرتا ہے اورکون الٹے پاؤں پھرتا ہے۔
معلوم ہوا کہ بیت المقدس کو قبلہ مقرر کرنے کا حکم اﷲ نے بذریعہ وحی خفی دیا قرآن حکیم کے علاوہ دوسری وحی کو وحی خفی (سنت) بھی کہتے ہیں ۔
کیا سنت کے بغیر قرآن حکیم کو سمجھا جاسکتا ہے ؟
سنت کے بغیر قرآن حکیم کو سمجھنا ممکن نہیں ہے اﷲ تعالیٰ نے ایمان لانے کے بعد سب سے زیادہ تاکید ''اقامت الصلوۃ'' کی فرمائی مگر سنت کے بغیر اس حکم پر عمل بھی ممکن نہیں چند آیات ملاحظہ فرمائیں
حفظوا علی الصلوت والصلوۃ الوسطی
(البقرۃ:238)
مسلمانو ) سب نمازیں خصوصاً بیچ کی نماز (یعنی نماز عصر ) پورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو )
''وسطی نماز سے کیا مراد ہے جب تک نمازوں کی کل تعداد معلوم نہ ہو وسطی نماز کیسے معلوم ہوسکتی ہے نمازوں کی تعداد کا ذکر قرآن حکیم میں نہیں معلوم ہوا کہ وحی خفی کے ذریعے سے مسلمانوں کو اطلاع دی ہوئی تھی اسی طرح فرمایا :
و اذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ۔
(النساء :101)
''جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کرکے پڑھو''۔
اس آیت میں یہ نہیں بتایا گیا کہ نماز کو سفر میں کتنا کم کیاجائے پھر نماز کے کم کرنے کا تصور اسی صورت ممکن ہے جب یہ معلوم ہوسکے کہ پوری نماز کتنی ہے یہ بھی فرمایا :
فان خفتم فرجالا او رکبانًا فاذا امنتم فاذکروا اﷲ کما علمکم مالم تکونوا تعلمون۔
(البقرۃ:239)
اگر تم کو خوف ہو تو نماز پیدل یا سواری پر پڑھ لو لیکن جب امن ہوجائے تو اسی طریقہ سے اﷲ کا ذکر کرو جس طرح اس نے تمہیں سکھایا اور جس کو تم پہلے نہیں جانتے تھے۔
اس آیت میں واضح ہے کہ نماز پڑھنے کا کوئی خاص طریقہ مقرر ہے جو بحالت جنگ معاف ہے اس طریقہ تعلیم کو اﷲ نے اپنی طرف منسوب کیا نماز کا طریقہ اور اس کے اوقات وغیرہ قرآن مجید میں کہیں مذکور نہیں پھر اﷲ نے کیسے سکھایا ، معلوم ہوا کہ قرآن مجید کے علاوہ بھی وحی آئی ہے یہ آیت قابل غور ہے:
یاایھا الذین امنوا اذا نودی للصلوۃ من یوم الجمعۃ فاسعوا الی ذکر اﷲ و ذروا البیع۔
(الجمعۃ:9)
اے ایمان والو!جب تم کو جمعہ کے دن نماز کے لئے بلایا جائے تو اﷲ کے ذکر کی طرف جلدی آیا کرو اور خریدو فروخت چھوڑ دو۔
معلوم ہوا کہ جمعہ کی نماز کا اہتمام باقی دنوں کے علاوہ خاص درجہ رکھتا ہے
اس نماز کا وقت کونسا ہے؟؟؟ـــ بلانے کا طریقہ کیا ہے؟؟ـــ اس کی رکعات کتنی ہیں؟؟؟ـــ
قرآن مجید اس سلسلہ میں خاموش ہے اور کوئی شخص آیات قرآنی کے ذریعے نماز کی تفصیل نہیں جان سکتا جب تک وہ حدیث کی طرف رجوع نہ کرے ۔
کیا صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم بھی قرآن مجید کا مفہوم حدیث کے بغیر سمجھنے میں غلطی کھا سکتے ہیں ؟
یقینا صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم بھی قرآن مجید کا مفہوم سمجھنے کے لئے حدیث رسول کے محتاج ہیں قرآن مجید کی یہ آیت نازل ہوئی ؟
الذین امنوا ولم یلبسوا ایمانہم بظلم اولئک لہم الامن وہم مھتدون۔
(الانعام :82)
اور جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے اپنے ایمان کے اندر ظلم کی ملاوٹ نہیں کی، وہی امن والے ہیں اور وہی ہدایت یافتہ ہیں۔
مذکورہ بالا آیت کریمہ سے بعض صحابہ کرام رضوان اﷲ علیہم اجمعین نے چھوٹے بڑے تمام گناہوں کو ظلم سمجھا اس لئے یہ آیت ان لوگوں پر گراں گزری لہٰذا عرض کیا، اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہم میں ایسا کون ہے کہ جس نے ایمان کے ساتھ کوئی گناہ نہ کیا ہو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلمۖ نے فرمایا اس ظلم سے مراد عام گناہ نہیں بلکہ یہاں ظلم سے مراد شرک ہے کیاتم نے قرآن حکیم میں لقمان کا یہ قول نہیں پڑھا:
''ان الشرک لظلم عظیم ''۔
شرک ظلم عظیم ہے۔
(بخاری و مسلم )
کیا سنت قرآن مجید کی آیت میں موجود کسی شرط کو ختم کرسکتی ہے؟
جی ہاں اور اس کی مثال سفر کی نماز قصر ہے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
و اذا ضربتم فی الارض فلیس علیکم جناح ان تقصروا من الصلوۃ ان خفتم ان یفتنکم الذین کفروا
اور جب تم سفر پر جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کچھ کم کرکے پڑھو ، بشرطیکہ تم کو خوف ہو کہ کافر تم کو ایذا دیں گے
(النساء:101)
آیت بالا میں نماز قصر ایسے سفر کے ساتھ مشروط ہے جس مین خوف بھی ہو اس لئے بعض صحابہ رضی اﷲ عنہم نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلمۖ سے سوال کیا کہ اب تو امن کازمانہ ہے اور ہم پھر بھی قصر کرتے ہیں تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس بات میں کوئی حرج نہیں کہ ہم حالت امن کے سفر میں قصر کریں یہ تمہارے لئے اﷲ تعالیٰ کی رعایت ہے پس اس رعایت کو قبول کرو۔ (مسلم ) ۔
کیاحدیث قرآن مجید کی کسی آیت کے عام حکم کو مقید کرسکتی ہے؟
جی ہاں اور اس کی مثال قرآن حکیم کی یہ آیت ہے
والسارق والسارقۃ فاقطعوا ایدیہما۔
(المائدۃ:38)
'' اور چوری کرنیوالے مرد اور چوری کرنیوالی عورت کا ہاتھ کاٹ دیا جائے''۔
اس آیت میں چوری کا مطلقاً ذکر ہے جبکہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ''چور کا ہاتھ چوتھائی دینار یا اس سے زیادہ کی چوری پر کاٹا جائے''۔
(بخاری و مسلم )
کیا سنت قرآن حکیم کے حکم سے کسی چیز کو مستثنیٰ کرسکتی ہے؟
جی ہاں اور اس کی مثال اﷲ تعالیٰ کا یہ حکم ہے
حرمت علیکم المیتۃ والدم ولحم الخنزیر وما اھل لغیر اﷲ بہ۔
(المائدۃ:3)
تم پر مرا ہوا جانور، خون ،سور کا گوشت اور جس چیز پر اﷲ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام ہے۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہمارے واسطے دو مردار ٹڈی اور مچھلی اور دوخون کلیجی اور تلی حلال ہیں ۔
(بیہقی)
معلوم ہوا کہ حدیث نے مچھلی اور ٹڈی کو مردار اور کلیجی اور تلی کو خون سے مستثنیٰ قرار دیا ہے۔ ایک اور مثال پر غور فرمائیں ۔اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے
قل من حرم زینت اﷲ التی اخرج لعبادہ والطیبت من الرزق قل ھی للذین امنوا فی الحیوۃ الدنیا خالصۃ یوم القیامۃ۔
(الاعراف:32)
پوچھو کہ جو زینت (و آرائش) اورکھانے(پینے) کی پاکیزہ چیزیں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کے لئے پیدا کیں ان کو کس نے حرام کیا ہے کہہ دو یہ چیزیں دنیا کی زندگی میں ایمان والوں کے لئے بھی ہیں اور قیامت کے دن خاص انہی کیلئے ہوں گی۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ریشم اور سونا میری امت کے مردوں کیلئے حرام اور عورتوں کیلئے حلال ہے۔
(مستدرک حاکم )
اگر حدیث سے رہنمائی نہ لی جائے تو اس آیت سے ریشم اور سونے جیسی حرام چیزوں کو حلال سمجھ لیاجاتا۔
کیاکوئی سنت صحیحہ قرآن مجید کے خلاف ہوسکتی ہے؟
محدثین کا اصول ہے کہ جو روایت قرآن حکیم اور سنت مطہرہ کے الٹ ہو وہ قول رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں ہو سکتی ۔ امام بخاری رحمۃ اﷲ ، مسلم رحمۃ اﷲ اور دیگر ائمہ حدیث نے اصول حدیث کی رو سے جن احادیث مبارکہ کو صحیح کہا ہے یقینا وہ قرآن و سنت کے مطابق ہیں صحیح بخاری ومسلم میں صرف صحیح احادیث درج کی گئی ہیں ۔ اسلئے ان میں کوئی ایسی روایت نہیں جو کتاب و سنت کے خلاف ہو جن لوگوں کوـ
(1)
۔ عیسی ابن مریم علیہ السلام کا دوبارہ دنیامیں آناـ
(2)
۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم پر ذاتی حیثیت سے جادو کے چند اثرات ہوجاناـ
(3)
۔ دجال سے متعلق
(4)
۔ عذاب قبر سے متعلق ، احادیث اور ان جیسی باتیں قرآن حکیم کے خلاف نظر آتی ہیں تو یہ دراصل ان کی کم علمی اور جہالت ہے یہ وہ روایات ہیں جنہیں تحقیق کے بعد محدثین نے صحیح کہا یہ قرآن حکیم کے خلاف نہیں بلکہ ان کے خود ساختہ مفہوم کے الٹ ہے مندرجہ ذیل آیت پر
غور کیجئے
قل لا اجد فی ما اوحی الی محرما علی طاعم یطعمہ الا ن یکون میتۃ اودما مسفوحا او لحم خنزیر فانہ رجس اوفسقا اھل لغیر اﷲ بہ فمن اضطر غیر باغ ولا عاد فان ربک غفور الرحیم۔
(الانعام 5)
کہو جو احکام مجھ پر نازل ہوئے میں ان میں سے کسی چیز کو کھانے والے پر حرام نہیں پاتا سوائے مردا، بہتا خون جو ناپاک ہو یا گناہ کی چیز جس پر اﷲ کے سوا کسی کا نام لیاگیا ہو اور اگر کوئی مجبور ہوجائے لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکلے تو تمہارا رب بخشنے والا مہربان ہے۔
سوچئے کیا کتے اور دیگر درندوں کو کوا اور دیگر نوچنے والے پرندوں کو حرام قرار دینے والی احادیث مبارکہ اس آیت کے خلاف ہیں اگرچہ ظاہر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے مگر حقیقتاً سنت اور قرآن میں کوئی تضاد نہیں دونوں کا جمع کرنا لازم ہے یاد رکھیئے جو دین صحابہ رضی اﷲ عنہ کے ذریعے امت کو تواتر کیساتھ ملا ، وہی صراط مستقیم ہے جو لوگ اپنی خواہشات اور اھواء کے ساتھ قرآن حکیم کی تفسیر بیان کرتے ہیں ان کے ہاں سنت کا مفہوم یہ ہے کہ جو چیز ان کی خواہش نفس کے موافق ہو اس کی پیروی کیجائے اور جو ان اھواء کے خلاف ہو اسے ترک کیاجائےـــ
ایک حدیث صحیحہ میں ایسے ہی لوگوں کا ذکر ہے جسکا مفہوم درج ذیل ہے
مقدام رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے قرآن دیا گیا ہے اور اس کے ساتھ اسی کی مثل ایک اور چیز بھی دی گئی ہے خبردار عنقریب ایک پیٹ بھرا ہوا شخص تختہ پر بیٹھ کر کہے گا کہ پس قرآن کو لازم سمجھو جو اسمیں حلال ہے اس کو حلال مانو اور جو اسمیں حرام ہے اسکو حرام مانو حالانکہ جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے حرام کیا وہ ایسا ہی ہے جیسے اﷲ نے حرام کیا خبردار تمہارے لئے شہری گدھا حلال نہیں۔
(ابو داؤد ، مسند احمد، دارمی، ابن ماجہ، صحیح مرعاۃ جلد اوّل صفحہ 156)
معلوم ہوا کہ شریعت اسلامیہ سے مراد قرآن و سنت ہے جس نے ان میں سے صرف ایک کو اختیار کیا اوردوسری کو ترک کیا اس نے کسی ایک کو بھی اختیار نہیں کیا کیونکہ دونوں ایک دوسرے سے تمسک کا حکم دیتی ہیں ۔ فرمایا ۔
من یطع الرسول فقد اطاع اﷲ ۔
(النساء :80)
جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اﷲ کی اطاعت کی۔
صحابہ کرام کے منہج کی کیا حیثیت ہے؟
براہِ راست رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام کو اسلام کی تعلیم دی یعنی صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم آپ کے ''براہ است'' تربیت یافتہ تھے لہٰذا صحابہ معیاری مسلمان تھے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم سے ''اقوال و افعال رسول'' تابعین نے اخذ کئے اور محدثین نے ان کو جمع کیا یہ تمام ادوار اسلام کے عروج کے ادوار ہیں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بہترین زمانے قرار دیئے سلف صالحین اور صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے طریق اور منہج سے وہی شخص انکار کرتا ہے جو قرآن مجید کی من مانی تفسیر کرنا چاہتا ہے اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے :
ومن یشاقق الرسول من بعد ماتبین لہ الھدی و یتبع غیر سبیل المؤمنین نولہ ما تولی و نصلہ جہنم وساء ت مصیرا۔
(النساء :115)
اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھر وہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور (قیامت کے دن ) جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔
مومنین کے رستے سے مراد اسلام کی وہ تعبیر و تفسیر ہے جس پر قرون اولی کے مسلمان جمع تھے وہ منہج جس میں مردوں سے استغاثہ قبر پر چلہ کشی اور فیض حاصل کرنے کی ، اور امر رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے کسی کی رائے کی کوئی حیثیت یا شریعت کے مقابلے میں دنیا کے کسی قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی گنجائش نہ تھی۔
کیا صحابہ رضی اﷲ عنہم سنت رسول کو بھی وحی یعنی اﷲ کی بات سمجھتے تھے؟
جی ہاں صحابہ رضی اﷲ عنہم سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو اﷲ کی بات سمجھتے تھے اسکی بہت سی مثالیں موجود ہیں صرف ایک ملاحظہ فرمائیں
ایک عورت عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ عنہ کے پاس آئی اور کہنے لگی کہ کیا آپ کہتے ہیں کہ اﷲ نے گودنے والی اور گدوانے والی پر لعنت فرمائی ہے آپ نے فرمایا ہاں وہ عورت کہنے لگی کہ میں نے شروع سے آخر تک قرآن حکیم کی تلاوت کی ہے مگر اس بات کو کہیں نہیں پایا پس آپ نے فرمایا اگر تو نے قرآن پڑھا ہوتا تو اس میں ضرور پاتی کیا تو نے یہ آیت نہیں پڑھی :
وما اتکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا۔
(الحشر:7)
اور جو کچھ میرا رسول صلی اللہ علیہ وسلم دے اسے لے لو اور جس سے منع کرے اس سے رک جاؤ۔
وہ کہنے لگی ہاں تب عبداﷲ بن مسعود نے فرمایا میں نے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ لعنت کرتے ہوئے سنا ہے ۔
(بخاری و مسلم باب تحریم فصل الواصلۃ)
یہ بھی واضح ہو کہ مسلمانوں پر لازم ہے کہ وہ قرآن و سنت میں تفریق نہ کریں ان دونوں پر عمل فرض ہے اور شریعت اسلامیہ کی بنیاد ان دونون پر ہے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
میں تم میں دوباتیں چھوڑ کر جارہا ہوں کتاب اﷲ اور میری سنت۔جب تک تم انہیں مضبوطی سے تھامے رکھوگے گمراہ نہ ہوگے۔
(موطاء امام مالک ، مستدرک حاکم جلد اوّل صفحہ 93)۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت کی حفاظت کے سلسلے میں کیا اقدام کئے؟
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے سنت کی حفاظت کے سلسلے میں خصوصی توجہ دی جب بھی کوئی مسئلہ بیان فرماتے تو اس کو تین مرتبہ دہراتے یہاں تک کہ وہ مسئلہ سمجھ میں آجاتا۔
(بخاری کتاب العلم )
ایک دفعہ عبدالقیس کا وفد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ نے انہیں امور دین کی تعلیم دینے کے بعد فرمایا اس کو یاد کرو اور اپنے پیچھے آنے والوں کو اس کی خبر دو (بخاری کتاب الایمان ) یقینا پیچھے آنے والوں سے مراد آنے والی نسلیں بھی ہیں۔
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کو تشہد یوں سکھاتے جیسے قرآن کی سورت۔
(مسلم )
نو ہجری میں مدینہ میں بہت سے وفود آئے مالک بن حویرث نے بھی نو ہجری میں مدینہ منورہ میں قیام کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عملی زندگی کا مشاہدہ کیااور ضروری تعلیم حاصل کی آپ نے ان سے فرمایا نماز ایسے پڑھنا جیسے مجھے پڑھتے دیکھتے ہو۔
(بخاری )
حجۃ الوداع میں منیٰ کے مقام پر آپ نے خطبہ دیاسامعین کی تعداد سوا لاکھ کے لگ بھگ تھی خطبہ کے اختتام پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : حاضر کو چاہیئے کہ غائب کو میری باتیں پہنچا دے اسلئے کہ شاید تم کسی ایسے شخص کوبیان کرسکو جو تم سے زیادہ اسکو محفوظ کرسکے۔(بخاری کتاب العلم) یہ پیشین گوئی حرف بحرف پوری ہوئی محدثین نے صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی بیان کردہ احادیث کو بالکل محفوظ کر لیا۔
کیا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے احادیث کی کتابت بھی کروائی؟
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف مواقع پر احادیث لکھوائیں چند حوالے ملاحظہ فرمائیں
(1)
عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب الصدقۃ تحریر کروائی امام محمد بن مسلم فرماتے ہیں آپ کی یہ کتاب عمر رضی اﷲ عنہ کے خاندان کے پاس تھی اور مجھے عمر رضی اﷲ عنہ کے پوتے سالم نے یہ کتاب پڑھائی اور میں نے ا س کو پوری طرح محفوظ کرلیا ۔ خلیفہ عمر بن عبدالعزیز رحمۃ اﷲ علیہ نے ا س کتاب کو عمر رضی اﷲ عنہ کے پوتوں سالم اور عبداﷲ سے لے کر لکھوایا۔
(ابو داؤد کتاب الزکوۃ)
(2)
ابو راشد الحزنی فرماتے ہیں کہ عبداﷲ بن عمرو بن عاص نے میرے سامنے ایک کتاب رکھی اور فرمایا یہ وہ کتاب ہے جو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوا کر مجھے دی تھی
(ترمذی ابواب الدعوات)
(3)
موسی بن طلحہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس وہ کتاب ہے جو معاذ کیلئے رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے لکھوائی تھی
(الدارقطنی فی کتاب الزکوۃ)
خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے اس کتاب کو منگوایا اور اس کو سنا
(مصنف ابن ابی شیبہ نصب الرایہ کتاب الزکوۃ جلد 2صفحہ 352)
(4) جب رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمرو بن حزم کو یمن کا عامل بنا کر بھیجا تو اہل یمن کیلئے ایک کتاب بھی لکھوا کر دی جس میں فرائض سنت اور دیت کے مسائل تحریر تھے امام زہری فرماتے ہیں کہ میں نے اس کتاب کو پڑھا یہ کتاب ابوبکر بن حزم کے پاس تھی سعید بن مسیّب نے بھی اس کتاب کوپڑھا
(نسائی جلد دوم صفحہ 218)
کیا صحابہ کرام نے بھی احادیث لکھیں ؟
جی ہاں خود رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو احادیث لکھوائیں آپ نے عبداﷲ بن عمر سے فرمایا
احادیث لکھا کرو قسم اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس منہ سے حق کے سوا کوئی بات نہیں نکلتی۔
(ابو داؤد جلد 1صفحہ 158)
انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ابوبکر رضی اﷲ عنہ نے جب ان کو یمن کا حاکم بنا کر بھیجا تو زکوۃ کے فرائض لکھ کر دیئے ۔
(بخاری کتاب الزکوۃ )
حماد بن سلمہ کہتے ہیں کہ میں نے یہ کتاب انس رضی اﷲ عنہ کے پوتے ثمامہ سے حاصل کی ۔
(نسائی کتاب الزکوۃ)
خلیفہ الثانی عمر رضی اﷲ عنہ نے بھی زکوۃ کے متعلق ایک کتاب تحریر فرمائی تھی امام مالک فرماتے ہیں کہ میں نے عمر رضی اﷲ عنہ کی کتاب پڑھی۔
(موطا امام مالک صفحہ 109)
علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں ہمارے پاس کوئی چیز نہیں سوائے کتاب اﷲ کے اور اس صحیفہ کے جس میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث ہیں۔
(بخاری و مسلم کتاب الحج )
ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ میں سے کوئی شخص مجھ سے زیادہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی احادیث بیان نہیں کرتاسوائے عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کے اسلئے کہ وہ لکھا کرتے تھے اور میں لکھتا نہیں تھا۔
(بخاری )
عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی یہ کتاب ان کی اولاد میں منتقل ہوتی رہی اوران کے پڑپوتے عمرو بن شعیب رحمۃ اﷲ علیہ سے محدثین رحمۃ اﷲ علیہ نے اخذ کرکے ہمیشہ کے لئے محفوظ کر لیا ایسے واقعات صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ سے مروی ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ احادیث کو لکھا کرتے تھے ۔مثلاً عبداﷲ بن عمرو رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے چاروں طرف بیٹھے ہوئے لکھ رہے تھے اسی اثناء میں آپ سے پوچھا گیا
کہ کون سا شہر پہلے
فتح ہوگا؟؟؟ـــ
قسطنطنیہ یا رومیہ؟؟؟ـــ
آپ نے فرمایا ہرقل کا شہر قسطنطنیہ
(126دارمی صفحہ )
کیا 250 سال تک احادیث تحریر میں نہیں آئیں؟
یہ صرف منکرین حدیث کا پروپیگنڈہ ہے خلفائے راشدین اورصحابہ نے احادیث کی حفاظت کا خاص اہتمام کیا پھر تابعین کے دور میں کئی کتب لکھی گئیں موطا امام مالک اب بھی موجود ہے جو صرف 100سال بعد لکھی گئی ان کی عبداﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہ کی روایت میں صرف امام نافع راوی ہیں انس رضی اﷲ عنہ کی روایت میں امام زہری راوی ہیں غرض موطا میں سینکڑوں سندیں ایسی ہیں جن میں صحابہ اور امام مالک کے درمیان ایک یا دو راوی ہیں اور وہ زبردست امام تھے۔ امام بخاری سے پہلے کی کتب صحیفہ ہمام صحیفہ صادقہ، مسند احمد، مسند حمیدی، موطا مالک مصنف ابن ابی شیبہ، مصنف عبدالرزاق ، موطا محمد ،مسند شافعی آج بھی موجود ہیں دیگر ائمہ نے بھی درس و تدریس کا ایسا اہتمام کیا ہوا تھا کہ کوئی کذاب حدیث گھڑ کر احادیث صحیحہ میں شامل نہ کر سکا۔
(1)
جس نے احادیث گھڑ کر صحیح احادیث میں شامل کرنے کی کوشش کی اسکی کوشش کامیاب نہ ہوسکی وہ جھوٹی روایت پکڑی گئی ۔
اگر احادیث کی اتنی حفاظت ہوئی ہے تو پھرامام بخاری نے چھ لاکھ احادیث میں سے صرف 7275 احادیث کا انتخاب کیوں کیا
اور باقی کو ردّی کی ٹوکری میں
کیوں پھینکا؟؟؟ـــ
پہلے تو چھ لاکھ احادیث کی حیثیت سمجھئے محدثین کی اصطلاح میں ہر سند کو حدیث کہاجاتاہے مثلاً رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بات فرمائی جو پانچ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ نے سنی ہر صحابی نے اپنے 5,5 شاگردوں کو وہ بات سنائی اس طرح تابعین تک اسکی 25 اسناد بن گئیں اب اگر تابعی راوی اپنے 10,10 شاگردوں کو روایت بیان کرے تو اس طرح اس حدیث کی 250 اسناد بن گئیں محدثین کی اصطلاح میں یہ 250 احادیث کہلاتی ہیں اس لئے امام بخاری فرماتے ہیں۔
مجھے ایک لاکھ صحیح احادیث یاد ہیں (مقدمہ ابن صلاح) اس کا مطلب ہے ایک لاکھ صحیح اسناد یاد ہیں ان ایک لاکھ میں سے 7275 اسناد صحیح بخاری میں درج کرلیں اور یہ بھی درست ہے کہ بعض راویوں نے دین اسلام میں گمراہ کن عقائد داخل کرنے کے لئے حدیث کا سہارا لیا اسی لئے ضعیف اور من گھڑت روایات کی کثرت ہے مگر محدثین نے ایسے اصول مقرر کئے کہ کوئی من گھڑت روایت حدیث کادرجہ نہ پاسکی ۔ امام بخاری رحمۃ اﷲ اور امام مسلم رحمۃ اﷲ نے صرف احادیث صحیح جمع کرکے دین پر چلنے والوں کے لئے مزید آسانی کر دی ۔
اکثر لوگ یہ سوال کرتے ہیں کہ کیا صحیح بخاری قرآن حکیم کی طرح لاریب کتاب ہے؟
یقینا بخاری اور دیگر کتب احادیث میں موجود احادیث صحیح کا وہ حصہ جو شرعی احکام پر مشتمل ہے۔ منزل من اﷲ ہے جس پر قرون اولی کے مسلمان جمع ہوئے اور جسے امت سے تلقی بالقبول حاصل ہے مگر بخاری میں امام بخاری نے ابواب قائم کئے ابواب میں مختلف ائمہ کہ اقوال درج کئے پھر اسناد جو منزل من اﷲ نہیں ۔ صحابہ کرام رضی اﷲ عنہ کے اقوال اور واقعات بھی کتب احادیث میں موجود ہیں جو منزل من اﷲ نہیں ۔ہاں احادیث رسول اللہ ۖ جو منزل من اﷲ ہے اور قرآن مجید کی تشریج کیلئے وہ اتناہی ضروری ہے کہ اس کے بغیر قرآن حکیم کو سمجھا ہی نہیں جاسکتا جو لوگ اس وحی کا انکار کرتے ہیں وہ دراصل قرآن حکیم کی من مانی اور گمراہ کن تفسیر کرنا چاہتے ہیں ۔اﷲ تعالیٰ ہمیں توحید کی سمجھ عطا فرمائے اور شرک و بدعت سے بچنے کی توفیق دے ۔
واللہ اعلم بالثواب
والسلام علیکم۔
Comment