بسم اللہ الرحمن الرحیم
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کیوں؟
اسلام کا مطالبہ ہے کہ ہرمؤمن کے نزدیک تمام مخلوقات میں سب سے زیادہ محبوب ترین ذات ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہونی چاہے ، حتی کہ اسے اپنی جان سے بھی زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت ہونی چاہے اگرایسانہیں ہے تواس کاایمان خطرہ میں ہے۔
عَنْ أَنَسٍ قَالَ قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
صحابی رسول انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ ،اس کے بیٹے اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔
(بخاری: کتاب الایمان:باب حب الرسول من الایمان،رقم15)
سوال یہ ہے کہ ہر مؤمن کواللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت ہونی چاہئے اس کی کیاوجہ ،مرکزی وجہ یہی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پرعمل کرنے پر آمادہ کرے ،لیکن ساتھ ہی ساتھ آپ صلی اللہ کی ذات میں بھی ایسی خوبیاں موجود ہیں جوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کافطری تقاضہ کرتی ہیں ،ان خوبیوں کے تذکرہ سے قبل آئیے دیکھتے ہیں کہ کسی سے محبت کیوں کی جاتی ہے ؟اگرہم اہل دنیا کی محبتوں کاجائزہ لیں اوران کے واقعات پڑھیں تومعلوم ہوتاہے کہ ہرمحبت کے پیچھے درج ذیل تین اسباب میں سے کوئی ایک سبب ہوتاہے:
١ـمحبوب کا احسان۔
٢ـمحبوب کا کردار۔
٣ـمحبوب کا حسن وجمال۔
اہل دنیا کی محبتوں کے پیچھے ان اسباب میں سے کوئی ایک ہی سبب ہوتا ہے،یعنی کوئی صرف کسی کے احسان کے سبب اس سے محبت کرنے لگتا ہے،خواہ وہ عمدہ کرداراورحسن وجمال سے محروم ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح کوئی شخص کسی فن میں مہارت رکھتاہے توکچھ لوگ اس پر فداء ہوجاتے ہیں چاہے وہ احسان اورحسن وجمال کی خوبی سے عاری ہی کیوں نہ ہو۔اسی طرح کوئی حسین وجمیل ہے تولوگ اس کے بھی گرویدہ ہوجاتے ہیں گرچہ وہ بداخلاق اوربدکردارہی کیوں نہ ہو۔
لیکن جب ہم جب ہم اہل ایمان کی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کودیکھتے ہیں توپوری انسانیت میں صرف اورصرف یہی ایک ایسی محبوب ذات نظرآتی ہے جن کی محبت کے پیچھے نہ صرف یہ کہ مذکوہ جملہ اسباب محبت بیک وقت پائے جاتے ہیں بلکہ یہ اسباب درجہ کمال کوپہنچے ہوئے ہیں:
امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
ثم الميل قد يكون لما يستلذه الانسان ويستحسنه كحسن الصورة والصوت والطعام ونحوها وقد يستلذه بعقله للمعانى الباطنة كمحبة الصالحين والعلماء وأهل الفضل مطلقا وقد يكون لاحسانه إليه ودفعه المضار والمكاره عنه وهذه المعانى كلها موجودة في النبى صلى الله عليه و سلم لما جمع من جمال الظاهر والباطن وكمال خلال الجلال وأنواع الفضائل واحسانه إلى جميع المسلمين بهدايته اياهم إلى الصراط المستقيم ودوام النعم والابعاد من الجحيم
کبھی کسی شخص سے محبت اس لذت کی بنا پر ہوتی ہے جسے انسان کسی کی صورت وآوازیا کھانے وغیرہ میں محسوس کرتاہے،کبھی ان اندورنی خوبیو ں کی بناپرہوتی ہے جسے انسان اپنے شعورکے ذریعہ بزرگوں،اہل علم یاہرقسم کے اہل فضل لوگوں میں محسوس کرتا ہے، اورکبھی محبت اپنے اوپرکئے گئے احسان یا اپنی مشکلات کاازالہ کئے جانے کی بنا پرہوجاتی ہے، اوریہ تمام اسباب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں موجودہیں کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیک وقت ہرقسم کے ظاہری وباطنی جمال وکمال اورہرقسم کے فضائل وکردار سے متصف ہیں نیزآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراط مستقیم اوردائمی نعمتوں کی طرف تمام مسلمانوں کی رہنمائی کرکے اور جہنم سے انہیں دورکرکے احسان عظیم کیاہے،
(شرح النووی علی مسلم:2 14)۔
قدرے تفصیل ملاحظہ ہو:
احسان:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے احسانات کوچندلفظوں میں بیان نہیں کیاجاسکتا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پوری زندگی اس سے پرہے،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری انسانیت پراس قدراحسان کئے ہیں کہ ایک مؤرخ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ پرکتاب لکھتاہے تواس کانام ہی رکھ دیتاہے''محسن انسانیت''۔
اس سے بڑااحسان کیاہوگا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے دشمنوں تک کوبھی جہنم کی دائمی آگ سے بچانے کی فکرکرتے اوراس فکرمیں اپناچین وسکون بھی قربان کردیتے تھے،یہاں تک کہ آیت نازل ہوئی:
{ فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَفْسَكَ عَلَى آثَارِهِمْ إِنْ لَمْ يُؤْمِنُوا بِهَذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا }
[الكهف: 6]
پس اگر یہ لوگ اس بات پر ایمان نہ لائیں تو کیا آپ ان کے پیچھے اس رنج میں اپنی جان ہلاک کر ڈالیں گے۔
خودآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انسانیت پراپنے احسان کی مثال اس طرح پیش کی ہے۔
إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُ النَّاسِ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتَوْقَدَ نَارًا فَلَمَّا أَضَاءَتْ مَا حَوْلَهُ جَعَلَ الْفَرَاشُ وَهَذِهِ الدَّوَابُّ الَّتِي تَقَعُ فِي النَّارِ يَقَعْنَ فِيهَا فَجَعَلَ يَنْزِعُهُنَّ وَيَغْلِبْنَهُ فَيَقْتَحِمْنَ فِيهَا فَأَنَا آخُذُ بِحُجَزِكُمْ عَنْ النَّارِ وَهُمْ يَقْتَحِمُونَ فِيهَا
میری اور لوگوں کی مثال اس شخص کی ہے کہ جس نے آگ سلگائی۔ پس اس کے ارد گرد روشنی پھیل گئی۔ تو پروانے اور وہ کیڑے جو آگ میں گرتے ہیں۔ اس میں گرنے لگے۔ وہ آدمی انہیں کھینچ کر باہر نکالنے لگا اور وہ اس پر غالب آکر اس آگ میں گرے جاتے تھے۔ (اسی طرح) میں تمہیں کمر سے پکڑ پکڑ کر آگ سے باہر کھینچتا ہوں اور تم ہو، کہ اس میں داخل ہوئے جاتے ہو،
(بخاری :کتاب الرقاق:باب الانتھاء عن المعاصی رقم6483 عن أبی ہریرة)
اس حدیث کوپڑھئے اورفرض کیجئے کہ کوئی شخص خود کشی کے ارادے سے کسی کنویں میں کودنے جارہاہواورآپ اسے بچانے کے لئے آئے اس پروہ آپ کوگالی دینے لگے اورالٹاآپ ہی کومارنے پیٹنے لگے کیا ایسی صورت میں بھی آپ اسے بچائیں گے ؟ ہرگزنہیں بلکہ ہوسکتاہے یہ سب ہونے کے بعدآ پ خودہی اسے دولات مارکرکنویں میں ڈھکیل دیں !
لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایساکچھ نہیں کیا ،حالانکہ ظالموں نے آپ کوہرطرح سے برابھلا کہا ،حتی کہ ایک دفعہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کولہولہان بھی کردیا،یاد کروطائف کا وہ ہولناک منظر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہل طائف کی نجات کے لئے انہیں حق کی دعوت دے رہے تھے ،اس پرانہوں نے کیا کیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوگالیاں دیں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوماراپیٹا اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے اوباش بچوں کولگادیاجوآپ پرپھتراؤ کررہے تھے، آپ اس قدررخمی ہوئے کہ آپ کے جسموں سے خون بہہ کرآپ کی جوتیوں میں جم گئے،یہ منظردیکھ کررحمن ورحیم بھی خاموش نہیں رہ سکا فوراملک الجبال(پہاڑی فرشتے) کوبھیجا بخاری کے الفاظ:
.... فَنَظَرْتُ فَإِذَا فِيهَا جِبْرِيلُ فَنَادَانِي فَقَالَ إِنَّ اللَّهَ قَدْ سَمِعَ قَوْلَ قَوْمِكَ لَكَ وَمَا رَدُّوا عَلَيْكَ وَقَدْ بَعَثَ إِلَيْكَ مَلَكَ الْجِبَالِ لِتَأْمُرَهُ بِمَا شِئْتَ فِيهِمْ فَنَادَانِي مَلَكُ الْجِبَالِ فَسَلَّمَ عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ يَا مُحَمَّدُ فَقَالَ ذَلِكَ فِيمَا شِئْتَ إِنْ شِئْتَ أَنْ أُطْبِقَ عَلَيْهِمْ الْأَخْشَبَيْنِ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَلْ أَرْجُو أَنْ يُخْرِجَ اللَّهُ مِنْ أَصْلَابِهِمْ مَنْ يَعْبُدُ اللَّهَ وَحْدَهُ لَا يُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا
.....بادل کے ایک ٹکڑے کو اپنے اوپر سایہ فگن پایا میں نے جو دیکھا تو اس میں جبرائیل علیہ السلام تھے انہوں نے مجھے آواز دی اور کہا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ سے آپ کی قوم کی گفتگو اور ان کا جواب سن لیا ہے اب پہاڑوں کے فرشتہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا ہے تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے کافروں کے بارے میں جو چاہیں حکم دیں پھر مجھے پہاڑوں کے فرشتہ نے آواز دی اور سلام کیا پھر کہا کہ اے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ سب کچھ آپ کی مرضی ہے اگر آپ چاہیں تو میں اخشبین نامی دو پہاڑوں کو ان کافروں پر لا کر رکھ دو تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا (نہیں) بلکہ مجھے امید ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کافروں کی نسل سے ایسے لوگ پیدا کرے گا جو صرف اسی کی عبادت کریں گے اور اس کے ساتھ بالکل شرک نہ کریں گے
(بخاری :کتاب بدء الخلق :باب ذکرالملائکة رقم3231عن عائشة رضی اللہ عنہا)
غورکریں جن کے پیچھے اوباش بچوں کے لگایا گیاتھا ان کے ساتھ ملک الجبال(پہاڑی فرشتے ) کوکھڑاکردیاگیا،جن پرکنکرپتھرپھینکے گئے تھے ان کے اختیارمیں پہاڑدے دیا گیا ،آج اگردنیا والے اس طاقت مالک ہوتے توکیا کرتے؟
لوگ کہتے ہیں کہ اگرمحمدصلی اللہ علیہ کے پاس ایٹمی طاقت ہوتی توپوری انسانیت کوتباہ کردیتے (نعوذ باللہ) نادانو سنو! ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کواس سے بھی بڑی طاقت دی گئی ، پہاڑی فرشتہ جوتمہاری بے شمار فوجیوں پراکیلابھاری ،پہاڑوں پرکنٹرول جس پرپوری دیناکا توازن قائم ہے، اوریہ طاقت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ظلم کرنے والوں کے خلاف دی گئی تھی ،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ظالموں پر بھی اس طاقت کواستعمال نہ کیا ،اورنہ صرف ان پربلکہ ان کے ذریعہ پیداہونے والی آئندہ نسلوں پربھی رحم کیا ،آج نہ جانے پوری دنیا میں کتنے خاندان انہیں کی نسل سے ہیں ، انسانیت پراس سے بڑااحسان اورکیاہوسکتاہے۔
موجودہ امت سے قبل بہت سی قوموں پراللہ نے عمومی عذاب نازل کرکے انہیں تہس نہس کردیا،وجہ یہ تھی کہ وہ بھیانک جرائم میں ملوث تھے ،لیکن جن جن جرائم کی وجہ سے گذشتہ قومیں تباہ وبربادکی گئی،وہ تمام جرائم موجودہ امت کے کسی نہ کسی حلقہ میں موجودہیں اس کے باوجودبھی ان پرعمومی عذاب نہیں آرہا ہے ،کیونکہ رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعاء کررکھی ہے :
سألته ان لا يهلك أمتي بالغرق فأعطانيها وسألته ان لا يهلك أمتي بالسنة فأعطانيها
میں نے اپنے رب سے مطالبہ کیا کہ میری امت کو (عمومی غرق) سے ہلاک نہ کیا جائے تو رب نے مجھے یہ عطاکیانیزمیں نے اپنے رب سے مطالبہ کیا کہ میری امت کو(عمومی) قحط سے ہلاک نہ کرنا تواللہ نے مجھے یہ عطاء کردیا(یعنی اس امت کوکسی بھی عمومی عذاب سے ہلاک نہیں کیاجائے گا )
(مسند أحمد بن حنبل :1 175عن سعد بن أبی وقاص ،تعلیق شعیب الأ رنؤوط: سنادہ صحیح علی شرط مسلم، اوربعض روایات میں ہے،''بِمَا عَذَّبَ بِہِ الْأُمَم قَبْلہمْ ''حافظ ابن حجرفرماتے ہیں:وَدَخَلَ فِي قَوْله " بِمَا عَذَّبَ بِهِ الْأُمَم قَبْلهمْ " الْغَرَق كَقَوْمِ نُوح وَفِرْعَوْن ، وَالْهَلَاك بِالرِّيحِ كَعَادٍ ، وَالْخَسْف كَقَوْمِ لُوط وَقَارُون ، وَالصَّيْحَة كَثَمُودَ وَأَصْحَاب مَدْيَن ، وَالرَّجْم كَأَصْحَابِ الْفِيل وَغَيْر ذَلِكَ مِمَّا عُذِّبَتْ بِهِ الْأُمَم عُمُومًا فتح الباري لابن حجر [13 /39])
یقینا اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ دعاء موجودہ امت پراحسان عظیم ہے۔
غرض یہ کہ دنیاوالے اگراس وجہ سے کسی سے محبت کرتے ہیں کہ اس نے ان پراحسان کیا ہے توجان لیں کہ ان پرسب سے بڑااحسان اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ہے لہٰذاان کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب شخصیت اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ہونی چاہئے۔
کردار:
دوسراسبب جس کی بناپر دنیاوالے کسی سے محبت کرتے ہیں وہ کرداراورخوبیوں کی عظمت ہے،مثلاکوئی کسی فن میں ماہرہے تولوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں ،کوئی بڑابہادرہے تولوگ اس پربھی فداء ہوجاتے ہیں ،کوئی بہت اخلاق مندہے تووہ بھی لوگوں کامحبوب بن جاتاہے،وغیرہ وغیرہ یعنی کوئی انسان عمدہ کرداراوراچھی خوبی کامالک ہے تواس کی وجہ سے لوگ اس سے محبت کرنے لگتے ہیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہراچھے معاملات میں اعلی کرداراورعمدہ خوبیوں کے مالک تھے ،مثلابہادری کولیجئے دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے والے صحابی رسول انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ وَأَشْجَعَ النَّاسِ وَلَقَدْ فَزِعَ أَهْلُ الْمَدِينَةِ لَيْلَةً فَخَرَجُوا نَحْوَ الصَّوْتِ فَاسْتَقْبَلَهُمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَقَدْ اسْتَبْرَأَ الْخَبَرَ وَهُوَ عَلَى فَرَسٍ لِأَبِي طَلْحَةَ عُرْيٍ وَفِي عُنُقِهِ السَّيْفُ وَهُوَ يَقُولُ لَمْ تُرَاعُوا لَمْ تُرَاعُوا ثُمَّ قَالَ وَجَدْنَاهُ بَحْرًا أَوْ قَالَ إِنَّهُ لَبَحْرٌ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سب لوگوں سے زیادہ خوبصورت اور سب لوگوں سے زیادہ بہادر تھے ایک مرتبہ مدینہ والوں کو کچھ خوف ہوگیا اور ایک طرف سے کچھ آواز آرہی تھی تو لوگ اس آواز کی طرف گئے آنحضرت سب سے آگے تشریف لے گئے اور آپ نے اس واقعہ کی تحقیق کی آپ ابوطلحہ کے گھوڑے پر بغیر زین کے سوار تھے، اور گلے میں تلوار حمائل تھی اور آپ فرما رہے تھے کہ ڈرو مت کوئی خوف نہیں ہے اس کے بعد فرمایا، البتہ ہم نے اس گھوڑے کو دریا کی طرف سبک سیر دیکھا۔
(بخاری :کتاب الجہادوالسیر: باب الحمائل تعلیق السیف ...رقم2908)
آج کچھ لوگ ہیں جوایک طرف محبت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کادعوی کرتے ہیں اوردوسری طرف جب بہادری کی بات آتی ہے توعلی رضی اللہ عنہ کے گن گاتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ علی رضی اللہ عنہ ایک بہادرصحابی تھے لیکن اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بہادری کاکیاحال تھا اس کی روداد علی رضی اللہ عنہ ہی سے سنئے:
على رضي الله عنه قال : كنا إذا احمر البأس ولقي القوم القوم اتقينا برسول الله صلى الله عليه و سلم فما يكون منا أحد أدنى من القوم منه
علی رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب (میدان جنگ میں )لڑائی اپنے شباب پرہوتی ،اورلوگ ایک دوسرے کے مقابل ہوتے توہم اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی آڑ لیتے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کرہم میں کاکوئی دشمن کے قریب ترنہ ہوتا۔
(مسند أحمد بن حنبل: 1 156رقم1346تعلیق شعیب الأرنؤوط : سنادہ صحیح امام حاکم وامام ذہبی نے بھے اسے صحیح قراردیاہے ، ملاحظہ ہو:المستدرک (2 155)رقم2633)
یہ توبہادری کاحال ہے اوراخلاقی معاملات میں آپ کس مقام پرفائز تھے اس کی گواہی خودخالق کائنات نے دی ہے :
{ وَإِنَّكَ لَعَلَى خُلُقٍ عَظِيمٍ } [القلم: 4]
اور بیشک آپ بہت بڑے (عمدہ) اخلاق پر ہیں۔
آپ صلی اللہ کے اخلاق حیرت انگیز نمونہ اس حدیث میں ملاحظہ فرمائیے:
عن عمرو بن العاص قال : ( كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقبل بوجهه وحديثه على أشر القوم يتألفهم بذلك فكان يقبل بوجهه وحديثه علي حتى ظننت أني خير القوم [ فقلت يا رسول الله أنا خير أو أبو بكر ؟ قال : أبو بكر ] . فقلت : يا رسول الله أنا خير أو عمر ؟ قال : ( عمر ) . فقلت : يا رسول الله أنا خير أو عثمان ؟ قال : ( عثمان ) . فلما سألت رسول الله صلى الله عليه وسلم فصدقني فلوددت أني لم أكن سألته )
عمربن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ الفت کامظاہرہ کرتے ہوئے ان میں سب سے بدترین شخص سے بھی پوری طرح متوجہ ہوکربات کرتے تھے ،چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے بھی اس قدرتوجہ کے ساتھ گفتگوکرتے کہ میں یہ سمجھ بیٹھا کہ میں لوگوں میں سب سے افضل ہوں، چنانچہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ بیٹھا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترہوں یا ابوبکر؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ابوبکر۔میں نے پھرپوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترہوں یاعمر؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عمر۔میں نے پھرپوچھا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں بہترہوں یاعثمان؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عثمان۔تو جب میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوالات کئے توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حق گوئی سے کام لیا،کاش کہ میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ سوالات ہی نہ کئے ہوتے۔
(مختصر الشمائل :ص 180رقم295قال الالبانی:حسن)
غورکریں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک عام صحابی کے ساتھ ایسے اخلاق کامظاہرہ کیا کہ اس سے متاثر ہوکرصحابی مذکورنے یہ سمجھ لیاکہ یہ تمام صحابہ سے افضل ہیں تبھی تواللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ساتھ اتنے اعلی اخلاق کامظاہرہ کررہے ہیں لیکن جب انہوں نے سوالات کیا تب انہیں معلوم ہوا کہ صحابہ کا مقام اپنی اپنی جگہ مگررسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کااخلاق سب کے ساتھ یکساں ہے۔
کیاپوری دنیامیں کوئی ایک بھی ایساانسان مل سکتاہے کہ وہ کسی سے بات کرے تومخاطب یہ سمجھ لے کہ میں اس کی نظرمیں سب سے زیادہ قابل احترام شخص ہوں؟ یقیناایسے اخلاقی کردارکی مثال پیش کرناناممکن ہے؟
اگرکوئی صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردارکی عظمتوں پرغورکرلے تووہ خواہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کادشمن ہی کیوں نہ ہوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوری انسانیت میں سب سے زیادہ محبت کرنے لگے گا،یہ اندازے کی بات نہیں ہے بلکہ اس کی مثال موجودہے ،عہدنبوی میں آپ کاایک مشہوردشمن ''ثمامہ بن اثال'' نامی سردارتھا،اس نے مسجد نبوی میں صرف تین دن قید کی حالت میں گذارے اس بیچ نہ تواس پرکوئی جبرکیاگیا اورنہ ہی اسے اسلام کی دعوت دی گئی ،لیکن تین دن کے بعد جب اسے آزاد کردیاگیا تومحض آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اعلی اخلاق کی بناپرآپ صلی اللہ علیہ وسلم کایہ مشہوردشمن مسلمان ہوگیااورآپ سے حددرجہ محبت کرنے لگاقبول اسلام کے وقت اس کے الفاظ یہ تھے:
يَا مُحَمَّدُ وَاللَّهِ مَا كَانَ عَلَى الْأَرْضِ وَجْهٌ أَبْغَضَ إِلَيَّ مِنْ وَجْهِكَ فَقَدْ أَصْبَحَ وَجْهُكَ أَحَبَّ الْوُجُوهِ إِلَيَّ
اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی قسم اس روئے زمین پر آپ کے چہرے سے زیادہ مبغوض چہرہ میری نظرمیں کوئی اورنہ تھا مگراب میرے نزدیک آپ کاچہرہ تمام چہروں میں سب سے زیادہ محبوب ہے،
(بخاری:کتاب المغازی :باب وفد بنی حنیفة وحدیث ثمامہ بن اثال ،رقم4372عن ابی ہریرة)۔
اگردنیاوالے کسی کے حسن کردارسے متاثرہوکراس سے محبت کرتے ہیں توانہیں چاہئے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کریں کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہرکارخیرمیں بے مثال کردارکے مالک تھے۔
حسن وجمال:
تیسراسبب جس کی بناپردنیاوالے کسی سے محبت کرتے ہیں وہ حسن وجمال ہے یہ خوبی بھی آپ کے اندربدرجہ اتم موجودہے،دس سال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کرنے والے انس بن مالک فرماتے ہیں :
كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحْسَنَ النَّاسِ
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمام لوگوں میں سب سے زیادہ خوبصورت تھے،
(بخاری :کتاب الجہاد والسیر:باب الشجاعة فی الحرب والجبن،رقم2820)
حسن وجمال کوبیان کرنے میں سب سے زیادہ مہارت شعراء حضرات کوہوتی ہے،صحابہ کرام میں بھی ایک شاعرحسان بن ثابت رضی اللہ عنہ تھے انہوں نے اپنے اشعارمیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خوبصورتی کا حیرت انگیز نقشہ کھینچاہے، فرماتے ہیں:
وأَحسنُ منكَ لم ترَ قطُّ عيني
وَأجْمَلُ مِنْكَ لَمْ تَلِدِ النّسَاءُ
خلقتَ مبرأً منْ كلّ عيبٍ
كأنكَ قدْ خلقتَ كما تشاءُ
دیوان حسان بن ثابت
(ص 2)
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ حسین میری آنکھ نے نہ دیکھا
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ جمیل کسی خاتون نے جنانہیں
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ہرقسم کے عیوب سے اس طرح پاک ہے
کہ لگتاہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش کے مطابق پیداکئے گئے ہیں۔
دونوں ابیات پرغورکریں ،پہلے بیت کے مصراع اول کے پہلے تفعیلہ کے مقام پر''اجمل ''کالفظ ہے اورمصراع ثانی کے پہلے تفعیلہ کے مقام پر''احسن '' کالفظ ہے،جمیل اورحسین مترادف الفاظ ہیں لیکن جب یکجا ان کااستعمال ہوتوان میں فرق کرناچاہئے،جمیل کامطلب ہوگارنگ ورونق کے اعتبارسے خوبصورت اورحسین کامطلب ہوگاناک ونقشہ کے اعتبارسے خوبصورت کسی بھی انسان کے کامل خوبصورت ہونے کے لئے ضروری ہے کہ وہ جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ حسین بھی ہواگرکوئی صرف جمیل ہے یعنی صرف رنگ اچھا ہے لیکن ناک ونقشہ درست نہیں تواسے خوبصورت نہیں کہاجاسکتا،اسی طرح کسی کاناک ونقشہ درست ہے لیکن رنگ اچھانہیں ہے تواسے بھی خوبصورت کہلوانے کاکوئی حق نہیں ہے۔
حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے مذکورہ بیت میں دوسرامصراع معنوی اعتبارسے پہلے مصراع کاتکرارنہیں ہے بلکہ شاعررسول دوسرے مصراع میں یہ بتلاناچاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جمیل ہونے کے ساتھ ساتھ حسین بھی ہیں یعنی حقیقی معنی میں خوبصورت ہیں ۔
اب دوسرے بیت پرغورکیجئے اس میں حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن وجمال کی مقداربیان کی ہے اوراس کے لئے ایسی عمدہ تعبیراستعمال کی ہے کہ شعرکی دنیا میں اس کی مثال نہیں ملتی ،شاعررسول فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے انتہا خوبصورتی کودیکھ کرایسا لگتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش کے مطابق پیداہوئے ہوںاوراپنی مرضی سے حسن وجمال کاانتخاب کیاہو۔
اس تعبیرکوسمجھنے کے لئے اس بات پرغورکیجئے کہ تقریباہرانسان خودکوبنانے سنوارنے کی فکرمیں رہتاہے،خصوصاخواتین اس معاملے میں سب سے زیادہ فکرمندہوتی ہیں ،یہ جب ڈریسنگ ٹیبل پرآتی ہیں توخود کوبنانے سنوارنے کے لئے اپنی پوری توانائی صرف کردیتی ہیں ،اگران خواتین میں سے کسی سے اللہ تبارک وتعالی یہ کہہ دے کہ اے خاتون تجھے اختیارہے توجس طرح بنناچاہتی ہے بن جا ! توذراسوچئے یہ عورت خود کوکیسا بنائے گی؟ کس درجہ کا حسن وجمال اپنے لئے منتخب کرے گی؟
حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ یہی کہناچاہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن وجمال کودیکھ کرایسالگتاہے کہ اللہ نے آپ سے یہ کہہ دیاہوکہ آپ جس طرح بنناچاہتے ہیں بن جائیے ،اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی مرضی کے مطا بق حسن وجمال کاانتہائی درجہ منتخب کیاہو۔
یہ حسن وجمال کے بیان کی ایسی تعبیرہے جوکسی بھی شاعرکے کلام میں نہیں ملتی اس کی وجہ شاعرکی ادبی کمزوری نہیں بلکہ اس کی نظرکی محرومی ہے کسی شاعرنے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جیساحسین وجمیل دیکھاہی نہیں کہ اس کی زبان پربے ساختہ ایسی تعبیرآجائے۔
بہرحال حسن وجمال کی خوبی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم درجہ کمال کوپہنچے ہوئے تھے ۔
اگردنیاوالے کسی کے حسن وجمال کی وجہ سے محبت کرناچاہتے ہیں توانہیں سب سے زیادہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنی چاہئے ۔
ایک بارپھرواضح رہے کہ محبت کے یہ تمام اسباب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں بیک وقت اوربدرجہ اتم موجودہیں ، جس ذات کے اندر یہ کمالات ہوں اسے یہ کہنے کاحق حاصل ہے:
لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَالِدِهِ وَوَلَدِهِ وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ
تم میں سے کوئی بھی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہوسکتاجب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کے باپ ،اس کے بیٹے اورتمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ بن جاؤں۔
(بخاری: کتاب الایمان:باب حب الرسول من الایمان،رقم15 عن انس)
اس حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کاجومطالبہ ہے وہ بلاوجہ نہیں ہے،جب محبت کے جتنے بھی اسباب ہوتے ہیں سب ایک ساتھ اعلی درجہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات میں پائے جاتے ہیں تواس صورت حال کافطری تقاضہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت کی جائے۔
اسباب محبت یہ محبت رسول کا صرف ایک پہلوہے اس کے ساتھ ساتھ محبت رسول کے دیگرپہلوں پرنظررکھنی چاہے محبت رسول کے تقاضے ،محبت رسول میں اضافہ کے اعمال، وغیرہ وغیرہ لیکن چونکہ اس تحریرکا یہ موضوع نہیں ہے اس لئے ہم اس جانب صرف اشارے ہی پراکتفاکرتے ہیں مستقبل ان پہلؤں پربھی لکھنے کاعزم ہے۔
اللہ سے دعا ہے کہ اللہ ہم تمام مسلمانوں کوآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سب سے زیادہ محبت اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی توفیق عطافرمائے،آمین۔