ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنے کی تحقیقی بحث میلاد النبی ﷺ کے موقع پر عید کا سا، سامان کرنے والے اورجلوس نکالنے والے کہتے ہیں کہ ابولہب جیسے لوگوں نے میلاد النبی پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے لونڈی آزاد کی تھی اور اس کی وجہ سے اس کے عذاب میں ہر پیر کو کمی کی جاتی ہے اور اسے پیاس بجھانے کے لئے پانی بھی دیا جاتا ہے اور یہ بات صحیح بخاری شریف میں بیان ہوئی ہے۔ جبکہ حقیقت حال اس سے مختلف ہے جس کی تفصیل بیان کر دینا مقصود ہے تاکہ لیھلک من ھلک عن بینۃ و یحی من حیی عن بینۃ کا مصداق ہوجائے مگرتفصیل سے قبل اس روایت کو بیان کر دینا ضروری ہے جس سے استدلال کرتے ہوئے عید میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم پر جلوس و جشن کا اہتمام ہوتا ہے اور یہ بھی حقیقت آشکار کرنا ضروری ہے کہ بخاری میں آنے والی یہ روایت کس انداز سے روایت کی گئی ہے، کیا یہ وہی صحیح ہے جس کا انکار نہیں کیا جاسکتا؟ روایت یہ ہے (طوالت سے بچنے کے لئے صرف ترجمہ پیش خدمت ہے) ام المومنین ام حبیبہؓ بنت ابی سفیانؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ ! میری بہن (ابوسفیان کی لڑکی) سے نکاح کر لیجئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اسے پسند کرو گی ( کہ تمہاری بہن ہی تمہاری سوکن بنے؟)(وہ کہتی ہیں) میں نے عرض کیا کہ ہاں میں تو پسند کرتی ہوں اگر میں اکیلی آپ کی بیوی ہوتی تو پھر پسند نہ کرتی ، اگر میرے ساتھ میری بہن بھلائی میں شریک ہو تو میں کیونکر نہ چاہونگی ۔(غیروں سے تو بہن ہی اچھی ہے)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ میرے لئے حلال نہیں۔سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں اللہ کے رسول ﷺ لوگ کہتے ہیں آپ ابو سلمہ کی بیٹی سے جو ام سلمہ کے بطن سے ہے نکاح کرنے والے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر وہ میری ربیبہ اور میری پرورش میں نہ ہوتی (یعنی میری بیوی کی بیٹی نہ ہوتی) جب بھی میرے لئے حلال نہ ہوتی ، وہ دوسرے رشتے سے میری دودھ بھتیجی ہے، مجھ کو اور ابو سلمہ کو (یعنی اس لڑکی کے باپ کو) ثوبیہ نے دودھ پلایا ہے۔ دیکھو ایسا مت کرو اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو مجھ سے نکاح کرنے کے لئے نہ کہو۔ عروہ رحمہ اللہ نے کہا ثوبیہ ابولہب کی لونڈی تھی، ابولہب نے اسے آزاد کر دیا تھا ، پھر اس نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلایا تھا۔جب ابو لہب مر گیا تو اس کے کسی عزیز نے اس کو خواب میں دیکھا(برے حال میں) تو پوچھا کیا گزری ؟ وہ کہنے لگا جب سے میں تم سے جد ا ہو اہوں ، کبھی آرام نہیں ملا مگر ایک زرا سا پانی پلایا گیا تھا بمقدار اس کے (یعنی اس نے اشارہ کیا اس گڑھی کی طرف جو انگلی اور انگوٹھے کے درمیان ہوتا ہے۔) اور یہ ثوبیہ کو آزاد کرنے کی وجہ سے تھا۔ (صحیح بخاری ، کتاب النکاح) یہ حدیث کہیں مختصر اً اور کہیں مطولاً کتاب النکاح کے علاوہ بھی وارد ہوئی ہے، رقم احادیث اس طرح ہیں۔ ۵۱۰۶، ۵۱۰۷، ۵۱۳۳ اور ۵۳۷۲۔ اب پچھلے دعاوی کو مدنظر رکھتے ہوئے اس حدیث پر غور کریں! * کیا اس میں یہ ہے کہ ابولہب نے لونڈی (ثوبیہ) کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دن آزاد کیا تھا اور اس کی وجہ میلاد النبی کی خوشی تھی؟ * کیا اس میں یہ ہے کہ جو پانی اسے پلایا گیا تھا اس سے اس کے عذاب میں تخفیف (کمی) آئی تھی؟ * کیا اس میں یہ ہے کہ ہر سوموار (پیر)کو پانی پلایا جاتاہے؟ یقیناًاس میں سے کسی سوال کا جواب بھی ہاں میں نہیں ہوسکتا۔ تو پھر ہمیں ماننا ہوگا کہ اقارب اور اجانب کی زبان زد عام دعوے بلا دلیل ہیں۔ صحیح بخاری شریف میں ان دعووں کی کوئی دلیل نہیں اجانب کو تو جانے دیں حیرت تو ان اقارب پر ہے جو بلا دلیل بات نہ کرنے نہ سننے اور نہ ہی ماننے کے دعوے دار ہیں۔ وہ بھی ابولہب اور اس کی لونڈی کے بارے میں ایسا ہی کچھ بیان کرتے ہیں۔ اناللہ وانا علیہ راجعون۔ ہم ہی سو گئے داستاں کہتے کہتے احباب علم و دانش کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ ذمہ داراسٹیجوں سے آج غیر ذمے دارانہ بیانات بڑھتے جارہے ہیں!!! اب آئیے اس روایت کی حقیقت کی طرف مگر اس سے قبل یہ سمجھ لیجئے کہ ائمہ محدثین و دیگر اہل علم و فضل نے صحیح بخاری شریف کی مرفوع متصل روایتوں کو صحیح قرار دیا ہے، نہ معلقات و مرسلات اور منقطع روایات کو۔ کمالا یخفی علی اھل العلم و المعرفۃ (۱) یہ روایت مرسل ہے جیسا کہ اس کے سیاق و سباق سے ظاہرہے۔ قال عروۃ....... کے الفاظ پر غور کیجئے۔ * حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھا ہے: مرسل ارسلہ عروۃ ولم یذکر من حدثہ بہ (فتح الباری) یعنی یہ خبر مرسل ہے عروہ رحمہ اللہ نے اسے مرسل بیان کیا ہے اور یہ بیان نہیں کیا کہ ان سے کس نے اس (خبر) کو بیان کیا ہے۔ * شیخ ابوبکر الجزائی حفظہ اللہ لکھتے ہیں: یہ خبر مرسل ہے اور مرسل سے نہ احتجاج کیا جاتا ہے اور نہ ہی اس سے کوئی عقیدہ و عبادت ثابت ہوتی ہے۔ (الانصاف فیما قیل فی المولد من الغلو والا حجاف) * ڈاکٹر طاہر القادری بھی لکھتے ہیں : یہ روایت اگر چہ مرسل ہے، لیکن مقبول ہے۔ (میلاد النبی صفحہ ۳۹۳) یاد رہے کہ فقہ حنفی میں رد و قبول کے پیمانے بھی جناب کی طرح شوخ ہو سکتے ہیں۔ وہاں آیات کو اپنے احباب کے نظرئیے کی مخالفت میں دیکھ کر منسوخ قرار دیدیا جاتا ہے۔ (اصول کرخی دیکھئے) تنبیہ: یہ جو مرسل کی بات ہو رہی ہے تو اس سے مراد صرف وہ ٹکڑا ہے جو قال عروہ سے شروع ہوکر آخر تک چلا جاتا ہے۔ پوری روایت نہیں کہ وہ تو متصل ہی ہے جیسا کہ صحیح بخاری میں دیکھا جاسکتاہے۔ (۲) دوسری بات یہ ہے کہ اگر یہ خبر متصل بھی ہوتی تو دلیل نہیں بن سکتی تھی کیونکہ یہ ایک خواب کا معاملہ ہے۔ یہ بات بھی حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے لکھ رکھی ہے۔ حافظ ابن حجر مزید لکھتے ہیں: ائمہ نے تصریح کی ہے کہ خواب کے زریعہ شرعی احکام ثابت نہیں ہوتے ۔ چند سطور کے بعد لکھتے ہیں: اگر سویا ہواآدمی خواب میں دیکھے کہ نبی علیہ السلام اسے کسی چیز کا حکم دے رہے ہیں تو کیا اس کی تعمیل ضروری ہے یا یہ ضروری ہے کہ اسے ظاہری شرع پر پیش کیا جائے؟ فرماتے ہیں دوسری بات قابل اعتماد ہے (فتح الباری) غور کیجئے کہ حالت خواب میں دیا جانے والا حکم نبوی صلی اللہ علیہ وسلم بھی موجود ظاہر شرع پر پیش کیا جائے گا! یاد رہے کہ خواب کا حجت شریعہ نہ ہونا خود مکتب بریلی کے ہاں بھی مسلمہ ہے ۔ (دیکھئے میلاد النبی از سعید احمد کاظمی) آج بہت سے احناف نے اپنے معتقدات کی دلیل خوابوں کو ہی بنا رکھا ہے ۔ ایسے ہی لوگوں کی خدمت میں ایک خواب عرض کیا جاتا ہے جو سنداً تو صحیح ثابت ہے۔ دیکھتے ہیں یہ خواب ان کے ہاں کیا حیثیت رکھتاہے۔ مشہور ثقہ امام قاضی ابوجعفر احمد بن اسحاق بن بہلول بن حسان بن سنان التنوخی البغدادی رحمہ اللہ (متوفی ۳۱۸ھ) نے کہا کہ میں عراقیوں کے مذہب پر تھا تو میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو خواب میں دیکھا ، آپ نماز پڑھ رہے تھے۔ میں نے دیکھا کہ آپ پہلی تکبیر میں اور جب رکوع کرتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو رفع الیدین کرتے تھے۔ (سنن دارقطنی حدیث ۱۱۱۲) حافظ زبیر علی زئی حفظہ اللہ تعالی فرماتے ہیں : وسند ہ صحیح ، اسکی سند صحیح ہے (موطا امام امالک بروایۃ ابن القاسم) تحت حدیث ۱۲۱ صفحہ ۲۰۹۔ اب ظاہر ہے کہ حنفی کہلوانے والے حضرات اس سچے اور نیک آدمی کے خواب کو کبھی بھی صحیح بارور نہیں کرینگے ۔ تو معلوم ہوا کہ کسی امتی کا خواب حجت نہیں ہوسکتا اگر چہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ لینے کا دعوی کیوں نہ کرے۔ (۳) تیسری بات یہ ہے کہ اس مرسل خبر میں ظاہری الفاظ سے یہ معنی لیا جاسکتا ہے کہ ابولہب کا لونڈی آزاد کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دودھ پلانے کے عمل سے قبل تھا مگر یہ بات اہل سیر کی بیان کردہ حقیقت کے منافی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ابولہب کے لونڈی آزاد کرنے میں اور نبی علیہ السلام کے دودھ پلانے کی مدت میں ایک طویل عرصہ حائل ہے (یہ بات بھی حافظ ابن حجر نے لکھی ہے فتح الباری میں) اس بات کی وضاحت حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے الاصابہ میں اس طرح کی ہے ابن سعد کہتے ہیں کہ ہمیں واقدی نے ایک سے زیادہ اہل علم سے یہ خبر نقل کی ہے کہ وہ کہتے تھے: ثوبیہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مر ضعہ تھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکے میں رہتے ہوئے ان کے ساتھ صلہ رحمی فرمایا کرتے تھے اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا بھی ثوبیہ کا اکرام کیا کرتی تھیں تا حال کہ وہ (ابھی) ابولہب کی ملکیت ہی میں تھیں ، سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا نے ابولہب سے کہا اسے (یعنی ثوبیہ کو) مجھے بیچ دو تو ابولہب نے اس بات سے انکار کردیا ۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے (مدینہ) ہجرت فرمائی اس وقت ابولہب نے ثوبیہ کو آزاد کردیا...... (الاصابہ جزء ۴) طبقات ابن سعد کا مطالعہ کرنے سے حافظ ابن حجر رحمہ اللہ کے بیان کی تائید ملتی ہے ۔ حافظ ابن عبدالبر اور امام ابن جوزی کے کلام سے اس قول (یعنی اہل سیر کے قول) کی تائید ہوتی ہے۔ حافظ ابن البر رحمہ اللہ نے الاستیعاب فی اسماع الاصحاب میں لکھا ہے۔ ثوبیہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، حمزہ بن عبدالمطلب اور ابو سلمہ بن عبدالاسد کو دودھ پلایاتھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ثوبیہ کا اکرام فرماتے ، ثوبیہ نبی علیہ الصلاۃ والسلام کے پاس آیا جایا کرتی تھیں جبکہ نبی علیہ السلام سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرما چکے تھے، سیدہ خدیجہ بھی ان کے اکرام و احترام کو ملحوظ خاطر رکھتیں ۔ جب نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ منورہ کی طرف ہجرت فرمائی تو (اس وقت ) ابولہب نے ثوبیہ کو آزاد کردیا..... (ملخصاً۔ الاستیعاب) امام المحب الطبری نے ذخائر العقبی فی مناقب ذوی القربی میں اس کلام کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ سے اسی طرح نقل کیا ہے۔ امام ابن جوزی رحمہ اللہ نے الوفا فی احوال المصطفی میں لکھا ہے: سب سے پہلے نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ابولہب کی لونڈی ثوبیہ نے دودھ پلایاتھا (چند دن ) پھر حلیمہ سعدیہ تشریف لائیں....... سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد ثوبیہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا کرتی تھیں۔ آپ اور سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھما (ثوبیہ کا) اکرام فرماتے اور وہ (ثوبیہ) اس وقت (بھی) ابولہب کی لونڈی تھیں، پھر (اس کے بعد) ابو لہب نے انہیں آزاد کر دیا...... ان تمام دلائل و براہین سے بالکل واضح ہے کہ ابولہب کا لونڈی کو میلاد النبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دن (خوشی میں ) آزاد کرنا ثابت ہی نہیں بلکہ سیدہ خدیجہ سے شادی کے بعد ہجرت مدینہ سے بھی بعد میں کسی وقت ابو لہب نے بغیر کسی خوشی اور غمی کے ثوبیہ کو آزاد کیا تھا۔ اس کے برعکس اگر کسی نے اس (ثوبیہ) کی آزادی کو پیدائش نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے دن کے ساتھ خاص مانا ہے تو اسے شدید مغالطہ لگا ہے یا پھر اہل بدعت نے دیدہ دانستہ حقیقت کو پردہ میں چھپادیا ہے ۔ واللہ اعلم بالصواب۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا سے ازدواجی زندگی کا آغاز آپ کی عمر کے پچیس سال مکمل ہونے کے بعد ہوا اور اس وقت تک ثوبیہ ابولہب کی ملکیت میں تھیں ، آزاد نہ تھیں ۔ کما مرآنفاً..... (۴) چوتھی بات اس سلسلے میں یہ ہے کہ اس مرسل خبر سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر کو اس کا عمل صالح ( مرنے کے بعد) نفع دیتاہے(یعنی کبھی کبھی) مگر یہ بات تو نصوص قرآنی کے بالکل خلاف ہے۔ اللہ تعالی کا ارشاد ہے وقد منا الی ما عملو من عمل فجعلناہ ھبآء منثوراٗ (سورۃ فرقان آیت ۲۳) ترجمہ: اور جو عمل ان (کافروں نے) کئے ہوں گے ، ہم ان کی طرف متوجہ ہوں گے تو ان کو اڑتی ہوئی خاک بنا دیں گے۔ اور ابولہب کے مال کا اس کو نفع نہ دینا تو قرآن سے ہی ثابت ہے۔ تبت یدا ابی لھب و تب، ما اغنی عنہ مالہ وما کسب (الھب آیت۲۔۱) ترجمہ: ابولہب کے دونوں ہاتھ ٹوٹ جائیں اور وہ تباہ برباد ہوجائے نہ اس کا مال اس کے کام آیا اور نہ اس کا عمل۔ قرآن مجیدنے صراحت کردی ہے کہ ابولہب کو اس کے مال و عمل نے کوئی نفع نہیں پہنچایا ۔ لہذا اس صراحت کو مرسل خبر عروہ سے ہرگز ہر گز رد نہیں کیا جاسکتا اور تمام اہل علم جانتے ہیں کہ لونڈی بھی مال کی ایک شکل ہے، اگر خوشی میں آزاد بھی کی ہوتی تو اسے مرنے کے بعد نفع نہ دیتی اور آزاد کرنا ( اس موقع خاص پر) تو ثابت ہی نہیں۔ جس کی تفصیل گزر چکی ہے۔ قرآن کے ظاہر سے ٹکر ا کر صحیح روایات کو رد کردینے والے کس طرح مرسل خبر کو حجت قرار دیتے ہیں؟! (۵) پانچویں بات یہ ہے کہ ابولہب کا لونڈی آزاد کرنا اگر تسلیم بھی کر لیا جائے تو اس کا یہ عمل ایک طبعی خوشی کے نتیجے میں تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھتیجے تھے نہ کے اس نے آپ کی نبوت و رسالت کو تسلیم کرتے ہوئے اس خوشی کا اظہار کیا تھا فقط زات رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعوی ،اور بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے انکار و عداوت ہی ابولہب کی تباہی کا سبب بنی تھی اور آج جو لوگ اس خبر مرسل کو دلیل بنا کر فقط ایک مخصوص دن عید وجشن کا اظہار کرتے ہیں کیا وہ یہ بتانا چاہتے ہیں کہ ہم بھی فقط زات رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کے دعوے دار ہیں؟؟؟؟ ویسے ان کا عمل بھی اسی کی عکاسی و غمازی کرتا ہے کیونکہ بات رسول صلی اللہ علیہ وسلم میں تو اس طرح کے جشن ، جلوس اور خود ساختہ تیسری عید پر کوئی دلیل نہیں ملتی ؟؟؟ اور اس جلوس و جشن کا عید شرعی نہ ہونا تو خود طاہر القادری شوخ الاسلام کو بھی تسلیم ہے (دیکھئے: میلاد النبی از طاہر القادری) طاہر القادری کا اسے عید فرحت قرار دینا بھی خود ساختہ شریعت سازی ہے کیونکہ اسلام میں جو دو عیدیں بتائی گئی ہیں وہ عید نفرت و عداوت یا عید رنج و الم نہیں بلکہ جہاں وہ عبادت کا درجہ رکھتی ہیں وہاں وہ فرحت و سرور کا باعث بھی ہیں۔ (۶) چھٹی بات یہ ہے کہ جہاں تک ابولہب کے عذاب میں تخفیف و کمی آجانے کا معاملہ ہے تو یہ بات کہیں ہے ہی نہیں ، حتی کہ اس خبر مرسل میں بھی نہیں جسے لوگ دلیل کا درجہ دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس روایت کے الفاظ یہ ہیں کہ غیرانی سقیت..... مجھے (فقط) پانی پلایا گیاہے۔ نہ ہر سوموار کا زکر ہے اور نہ ہی اس پانی کی بدولت عذاب میں کمی کا کوئی زکر؟! یہ تخفیف ہو بھی کیسے سکتی ہے کہ ابو لہب تو سیصلی ناراً ذات لھب کے بمصداق نار جہنم میں ہے اور وہاں تو پانی بھی ایسا ہوتاہے کہ اللہ کی پناہ۔ وان یستغیثوا یغاثوا بماء کالمھل یشوی الوجوہ، بئس الشراب.... ترجمہ: اور اگر وہ (جہنم میں) فریاد کریں گے تو ایسے کھولتے ہوئے پانی سے ان کی داد رسی کی جائے گی جو پگھلے ہوئے تانبے کی طرح (گرم ہوگا اور جو) مووں کو بھون ڈالے گا بہت برا یہ(پینے کا) پانی ہوگا (سورۃ الکھف آیت۲۹) اور مزید فرمایا گیا تسقی من عین انیہ ایک کھولتے ہوئے چشمے کا پانی ان کو پلایا جائے گا (سورۃ الغاشیہ) و سقوا مآءً حمیما اور وہ کھولتا ہو ا پانی پلائے جائیں گے (سورہ محمد) اس سے واضح ہوا کہ خبر مرسل سے لفظ پانی کو لے کر عذاب کی تخفیفی کا دعوی نصوص قرآنی سے متصادم ہے لہذا سراسر باطل ہے۔ پھر مرسل میں تو تخفیف کا بیان ہی نہیں۔ فافھم جہنم میں جنت کا پانی نہیں ملے گا جو کہ پیاس بجھانے والا اور سیراب کرنے والا ہوگا۔ اور دوزخی بہشتیوں سے(گڑگڑاکر) کہیں گے کہ کسی قدر ہم پر پانی بہاو یا جو رزق اللہ نے تمھیں عنایت فرمایا ہے ان میں سے (کچھ ہمیں بھی دو)۔ وہ جواب دیں گے کہ اللہ تعالی نے بہشت کا پانی اور رزق کافروں پر حرام کردیا ہے (سورۃ اعراف آیت ۵۰) تنبیہ : ابو طالب کے عذاب میں تخفیف علیحدہ مسئلہ ہے کہ وہ تو نصوص سے ثابت ہے۔ قارئین اکرام! یہ اس واقعہ کی حقیقت تھی جو بفضل اللہ تعالی بیان کر دی ہے کسی بھی واعظ و خطیب سے مذکورہ واقعہ سنیں اور اس تفصیل کے برعکس ہو تو ضرور بالضرور اسے اس حقیقت سے آگاہ کریں۔ جزاکم اللہ خیرا تفصیل کیلئے دیکھئے رسائل فی حکم الاحتفال بالمو لدالنبوی، جزء ثانی طبع رئاسہ ادارۃ البحوث العلمیہ والافتاء الریاض، المملکۃ العربیۃ السعودیہ |
Announcement
Collapse
No announcement yet.
Unconfigured Ad Widget
Collapse
ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنے کی تحقیقی بحث
Collapse
X
-
ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنے کی تحقیقی بحث
Last edited by lovelyalltime; 13 August 2012, 05:14. -
Re: ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنے کی تحقیقی بحث
Originally posted by Faisal Sheikh View Post[ATTACH]103814[/ATTACH]
اگر فورم کے تھریڈ کا جواب
ہے تو دو
کیا ہم اماموں کے ذمدار ہیں
تھریڈ کے بارے میں جواب دو
ہمارے نزدیک جس امام کی بات قرآن اور صحیح احادیث کے مخالف ھو گی
ردی کی ٹوکری میں ڈال دیں گے
آپ لوگوں کی طرح امام کی پوجا نہیں کریں گے
Comment
-
Re: ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنے کی تحقیقی بحث
Originally posted by Faisal Sheikh View Post[ATTACH]103814[/ATTACH]
آپ ہمیشہ موضوع سے ہٹ کر گفتگو کرتے ہیں کیونکہ آپ کے پاس جواب نہیں ہوتا..
Comment
-
Re: ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنے کی تحقیقی بحث
Originally posted by Faisal Sheikh View Post[ATTACH]103814[/ATTACH]
تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ
ابولہب کے ہاتھ ٹوٹیں اور وہ ہلاک ہو
2. مَا أَغْنَىٰ عَنْهُ مَالُهُ وَمَا كَسَبَ
نہ تو اس کا مال ہی اس کے کچھ کام آیا اور نہ وہ جو اس نے کمایا
3. سَيَصْلَىٰ نَارًا ذَاتَ لَهَبٍ
وہ جلد بھڑکتی ہوئی آگ میں داخل ہو گا
4. وَامْرَأَتُهُ حَمَّالَةَ الْحَطَبِ
اور اس کی جورو بھی جو ایندھن سر پر اٹھائے پھرتی ہے
5. فِي جِيدِهَا حَبْلٌ مِنْ مَسَدٍ
اس کے گلے میں مونج کی رسّی ہو گی
Ye wahid shakhs hai...jiss la naam (kuniyat) lay ker Allah nay uss per laanat bheji hai.,..aaur aap k k iss ki favour main post paish ker raha hain...(Fa nauzubillah min zalik)..
Comment
-
Re: ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنے کی تحقیقی بحث
حیرت ہے جو احادیث جن کے مآخذ ہی بے سرو ساماں ہیں جن احادیث کو وقت نے توڑ مروڑ دیا ان کو قرآن سے زیادہ فوقیت دینے والے
یہ کیوں بھولتے ہیں اگر ان میں سے کچھ احادیث اپنی اصل شکل میں ہیں بھی تو ان کو بیان کرنے والی ذات کون تھی؟
عجیب مزاج ہے استاد کے نوٹس پیارے ہیں استاد کو مان سمان رتبہ نہیں دینا
ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں
Comment
-
Re: ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنے کی تحقیقی بحث
Originally posted by Faisal Sheikh View Post[ATTACH]103830[/ATTACH]
loogo ain kay pas jawab koi nahin hai
yeh poori zindagi yahi kehtay rahay gau keh
falan nay yeh
falan nay yeh kiya
kabhi nahin kahain gay keh quran main allah nay kia kaha
sahih ahadees maian
hazoor (saw) nay kiya kaha
yeh apnay aap ko imam abu hanifa rehmullah ka muqalid kehtay haian
lakin imam abu hanifa rehmullah kay aqaid nabhin mantay
kabhi bhi ain ka jwab quran aur sahih ahadees say nahin aaya ga
poori zindagi qabrron per sajda kertay aur halwa khatay guzar
daian gay
allah hidayat dayy (ameen)
میلاد النبی ﷺ یا بارہ وفات۔۔۔؟آج جو دن عیدوں کی عید قرار دیا جاتا ہے آج سے کچھ عرصہ پہلے بارہ وفات کے نام سے مشہور و معروف تھا اور ایک بریلوی عالم نے اسے عید میلاد النبی قرار دلوایا۔ بریلوی عالم کا اقرار۔کیا اس سے یہ بات ثابت نہیں ہو جاتی کہ بریلوی علماء اس دن کو جو عید قرار دینے کے لیے قرآن و حدیث سے استدلال کرنے کی کوشش کرتے ہیں وہ صرف دھوکہ و تحریفات کا شاہکار ہوتے ہیں۔
Comment
-
Re: ابو لہب کا لونڈی آزاد کرنے کی تحقیقی بحث
Mazay ki baat, aur Lovely k khilaaf, ye hy keh almost all Muslim world mein, almost har Muslim country mein ye din manaya jaata hy (Arab countries k baray mein main nahi janta, ounka bus chalay tu Rouza-e-Rasool bhi masmaar kar daalein).
See the world calender from any good company's dairy....e.g., Indonesia, Malaysia etc.
:) ENJOY
Comment
Comment