فرقہ جدید نام نہاد اہل حدیث میں فی زمانہ کچھ نام نہاد شیوخ عوام الناس کوگمراه کرنے کے لیئے یہ وسوسہ استعمال کرتے ہیں ، ان کا دجل وفریب اس طرح ہوتا ہے کہ حکایات وسوانح اور وعظ ونصیحت وتصوف وغیره کسی کتاب ورسالہ سے کوئی بات لیتے ہیں اورکوئی مُحتمل ومُشتبہ عبارت پیش کرتے ہیں اورپھرعوام سے کہتے ہیں کہ یہ علماء دیوبند کا عقیده ہے ، اوراس طرح کرکے جاہل عوام کوورغلاتے هیں ،خوب یاد رکھیں ہمارے اکابرومشائخ حضرات علماء دیوبند . ( .کثرهم الله سوادهم . ) . کا مسلک ومنهج تمام امورمیں افراط وتفریط سے پاک اورمبنی براعتدال ہے اوراعتدال کی یہ شان ان اکابراعلام کا ایک خصوصی وصف وامتیاز ہے ، لیکن اعتدال کا یہ طریق اختیارکرنے کی وجہ سے کچھ جہلاء نے بوجہ جہالت وتعصب وحسد کےان اکابراعلام کو افراط وتفریط میں مبتلا قراردیا ،چند جہلاء مذکوره بالا وسوسہ پیش کرکے عوام کویہ باورکراتے ہیں کہ قبورسے فیض کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ قبرپرست هیں ، قبورکا طواف کرتے هیں ،اہل قبورسے استمداد کرتے ہیں ، ان کومشکل کشا حاجت روا سمجھتے ہیں وغیره . ( . معاذالله . ) . ۔
خوب یادرکھیں ہمارے اکابرومشائخ حضرات علماء دیوبند میں سے کسی نے بھی یہ تعلیم نہیں دی بلکہ قبور واہل قبورسے متعلق بھی ان کا مسلک اعتدال والا ہے نہ تواتنی تفریط ہے کہ اہل قبورکی زیارت ودعا وایصال ثواب کوبھی منع کردیں ، اورنہ اتنا افراط ہے کہ قبور سے متعلق تمام مُروجہ بدعات وخرافات کوجائزقراردیں ، لہذا احادیث مبارکہ سے قبور کی زیارت ودعاء مسنون وایصال ثواب برائے اہل قبورثابت ہے ، تویہی تعلیم وطریق علماء دیوبند کا بھی ہے ، باقی اس سے زیاده اگرکوئی شخص وساوس پیش کرے تواس کی طرف توجه نہیں کرنی چائیے کیونکہ وساوس کا اصل علاج عدم التفات ہے ۔
انبیاء واولیاء وصالحین کی قبورسے فیض حاصل کرنے کا عام فہم مطلب
حدیث میں آتا ہے کہ قبرجنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گھڑوں میں سے ایک گھڑا ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ، أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّار۔
.). ( .رواه الترمذي في سننه ، والبيهقى فى شعب الإيمان ، والطبراني .) .).
اب قبر کا یہ گھڑا جس میں انبیاء وصحابہ واولیاء الله وعلماء وصُلحاء مدفون ہیں ہمارا اعتقاد ہے کہ یہ جنت کے باغات ہے ، جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ، اب جنت الله تعالی کے انعامات ورحمتوں وتجلیات کا مقام ہے توصالحین کے قبورپرالله تعالی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ، لہذا زیارت کرنے والا شخص اس رحمت سے محروم نہیں رہتا اگرچہ اس کومحسوس ہو یا نہ ہو ، یہی سارا مفہوم ہے فیض وفائده کا ، ایک لحظہ کے لیئے اس حدیث کوسامنے رکھ کریہ دیکھیں کہ انبیاء وصحابہ وعلماء وصالحین کے قبور جنت کے باغ ہیں یقینا اس بات میں کوئی شک نہیں کرسکتا ، لہذا جنت کے ان باغات کی زیارت ونفع کا کون انکارکرسکتا ہے ؟؟ باقی قبور کا طواف اورسجدے کرنا ، وہاں چراغ جلانا ، قبرپراذان پڑهنا ، وہاں عرس میلے قوالی کرنا ، قبرکوبوس وکنار کرنا ،ان سے حاجات طلب کرنا ، ان کومتصرف سمجھنا وغیره سب بدعات وخرافات ہیں ۔
صحيح البخاري میں امام البخاري نے ایک باب قائم کیا هے ۔
‘‘باب ماجاء في قبر النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر رضي الله عنهما’’
اس باب کے تحت امام البخاري نے حضرت عمر رضی الله عنہ کی وه حدیث نقل کی ہے جس میں انهوں نے حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہ کے واسطہ سے حضرت عائشة رضي الله عنها سے حجرة النبوية میں دفن ہونے کی اجازت مانگی تھی انهوں نے کہا تھا کہ یہ جگہ میں نے اپنے لیئے پسند کی تھی لیکن میں آج یہ جگہ ان کودیتی ہوں۔ الحدیث
حافظ ابن حجر رحمہ الله اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
وفيه الحرص على مجاورة الصالحين في القبور طمعا في إصابة الرحمة إذا نزلت عليهم وفي دعاء من يزورهم من أهل الخير "
یعنی اس حدیث میں ثبوت ہے اس بات كاکہ صالحین کے ساتھ قبورمیں پڑوسی ہونے كاحرص کرنا چائیے اس امید ونیت سے کہ صالحین پرنازل ہونے والی رحمت اس کوبھی پہنچے گی اورنیک صالح لوگ جب ان کی زیارت کریں گے اوردعا کریں گے تواس کوبھی حصہ ملے گا ۔
اسی طرح ایک حدیث حسن میں ہے کہ
بعض صحابہ نے کسی قبرپراپنا خیمہ نصب کیا اوراس معلوم نہیں تھا کہ یہ قبرہے ، پس اس قبرمیں ایک انسان سورة .{. تبارك الذي بيده الملك .}.پڑھ رہا تھا یہاں تک کہ سورة ختم کردی ، جب حضور صلى الله عليه وسلم.کے پاس تشریف لائے تو عرض کیا يا رسول الله میں نے اپنا خیمہ ایک قبرپرنصب کیا اورمجھے معلوم نہیں تها کہ وه قبر ہے ، پس اس قبرمیں ایک انسان سورة .{. تبارك الذي بيده الملك .}.پڑھ رہا تھا یہاں تک کہ سورة ختم کردی ، رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ سورة عذاب قبرکوروکتی ہے عذاب قبرسے نجات دیتی ہے اس. (.صاحب قبر.). کو عذاب قبرسے نجات دیتی ہے ۔
وقال الإمام الترمذي بسنده عن ابن عباس قال:
ضرب رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم خباءه على قبر وهو لا يحسب أنه قبر ، فإذا قبر إنسان يقرأ سورة " الملك " حتى ختمها ، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله ، ضربت خبائي على قبر وأنا لا أحسب أنه قبر ، فإذا قبر إنسان يقرأ سورة " الملك " حتى ختمها ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " هي المانعة ، هي المنجية تنجيه من عذاب القبر " . قال : حديث حسن غريب .
.(.ورواه الطبراني في الكبير، وأبونعيم في الحلية ، والبيهقي في إثبات عذاب القبر .).
قبور اولیاء سے فیض کا مطلب استمداد واستغاثہ نہیں ہے
سوال : مُردوں سے بطریق دعا ، مد د چاهنا جائزهے یا نہیں ؟
جواب: مد د چاہنا تین قسم کا ہے ۔
1. ایک یہ کہ اہل قبور سے مد د چاہے اسی کوسب فقہاء نے ناجائزلکھاہے ۔
2.دوسرے یہ کہ کہے اے فلاں خدا تعالی سے دعا کرکہ فلاں کام میرا پورا ہوجائے یہ مبنی ہے اس بات پرکہ مردے سنتے ہیں کہ نہیں ، جوسماع موتی کے قائل ہیں ان کے نزدیک درست ، دوسروں کے نزدیک ناجائز،. (. سماع موتی کے مسئلہ میں صحابہ کے زمانہ سے اختلاف ہے دونوں طرف اکابر ودلائل ہیں لہذا ایسے اختلافی امرکا فیصلہ کون کرسکتا ہے ، لیکن بہتریہ ہے اس دوسری قسم پربھی عمل نہ کرے .).۔
3. تیسرے یہ کہ دعا مانگے الہی بحرمت فلاں میرا کام پورا کردے یہ بالاتفاق جائز ہے .(. فتاوی رشیدیه ص 57. ) .حضرت گنگوهی رحمہ الله کی یہ فتوی بالکل واضح ہے کہ مردوں سےمد د طلب کرنا تمام فقہاء کے نزدیک ناجائزہے ، اوریہی فیصلہ وفتوی تمام اکابرعلماء دیوبند کا بھی ہے ، لہذا جو لوگ فیض عن القبور کا مطلب استعانت واستمداد وغیره بیان کرکے اس کو اکابرعلماء دیوبند کا عقیده قرار دیتے ہیں ، یہ سب دجل وفریب ہے ، هداهم الله
قبور اور أہل قبور کے متعلق فرقہ جدید اہل حدیث کے اکابرکا مذہب
جیسا کہ میں گذشتہ سطورمیں عرض کرچکا کہ اس فرقہ جدید کے اکابراورآج کل کے اس فرقہ جدید کے هم نواوں میں بہت سخت اختلاف هے ، مثلا اسی مذکوره مسئلہ میں اس فرقہ جدید اهل حدیث کے بانی ومُوجد نواب صدیق حسن خان صاحب کا نظریہ ملاحظہ فرمائیں اپنی کتاب). .ألتاجُ المُكلل. (. میں اپنے والد ابواحمد حسن بن علی الحُسینی البخاری القنوجی کے تذکره میں لکھا کہ
لایزال يرى النورعَلى قبره الشريف والناسُ يَتبَّرَكُون به ۔
آپ کی کی قبرشریف پرہمیشہ نور رہتا ہے اورلوگ آپ کی کی قبرسے بترُّک حاصل کرتے ہیں ۔
.(. ألتاجُ المُكلل صفحه 543 ، مكتبة دارالسلام. ).
اسی طرح فرقہ جدید اہل حدیث کے بانی علامہ وحیدالزمان صاحب بھی یہی فرماتے ہیں کہ
ولازال السلف والخلف یتبَرَّكون بآثارالصلحاء ومشاهدهم ومقاماتهم وآبارهم وعيونهم۔
یعنی سلف وخلف سب صالحین کے آثار ، اور ان کی قبروں سے ، اوران کے مقامات ، اور ان کے کنووں سے ، اور ان کے چشموں سے تبرُّ کحاصل کرتے تھے ۔ آگے علامہ وحیدالزمان صاحب فرماتے ہیں کہ
ولم یقل احد ان التبرک بمثل هذه الاشیاء شرک
یعنی کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ اس قسم کی اشیاءسے تبرکحاصل کرنا شرک ہے ۔
آگے علامہ وحیدالزمان صاحب فرماتے هیں کہ
ترجى سرعة الإجابة عند قبرالنبي صلى الله عليه وسلم أوغيره من المواضع المتبركة قال الشافعي قبرموسى الكاظم ترياق مجرب وروى الشيخ ابن حجرالمكي في القلائد عن الشافعي قال إني أستبرك بقبرأبي حنيفة واذا عرضت لي حاجة أجيئ عند قبره وأصلي ركعتين وأدعوالله عنده فتقضي حاجتي ۔
آپ صلى الله عليه وسلم کے قبرمبارک اوراس کے علاوه مقامات متبركة میں دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے ، امام شافعی رحمہ الله نے فرمایا کہ موسی کاظم کی قبرتریاق مجرب ہے ، اورالشيخ ابن حجرالمكي نے اپنی کتاب " القلائد " میں امام شافعی رحمہ الله سے روایت کیا ہے، فرمایا کہ میں ابوحنیفہ کے قبرسے تبرک حاصل کرتا ہوں ، اورجب مجھے کوئی حاجت پیش آتی ہے تومیں ابوحنیفہ کے قبرکے پاس آتاہوں اوردورکعت نمازپڑهتا ہوں ، اورالله تعالی سے دعا کرتا ہوں پس میری حاجت پوری ہوجاتی ہے ۔
علامہ وحیدالزمان صاحب نے ایک فصل قائم کیا ہے " مَقرارواح " کے متعلق اورآٹھ مذاہب نقل کیئے ہیں، اسی فصل میں فرماتے ہیں کہ
وقال شـيخنا ابن القـيـم فثبت بهذا انه لامنافات بين كون الروح في عليين أوفي الجنة أوفي السماء وبين اتصاله بالبدن بحيث تدرك وتسمع وتصلي وتقرأ ۔
اورہمارے شیخ ابن القیمنے فرمایا کہ اس سے ثابت ہوا کہ اس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ روح عليين میں ہو یا جنت میں ہو یا آسمان میں ہو اوراس کا تعلق بدن کے ساتھ ہو اس طورپرکہ وه ادراک بھی کرے اور سماع بھی کرے اورنمازبھی پڑھے اورقرآءت بھی کرے ۔
قلت بهذا يدفع الشـبـهـة التي أوردهـا القــاصرون انه كيف يمكن استحصال الفيوض
والبـركــات وبرد القلب والأنوارمن أرواح الصلحـاء بزيـارة قبـورهم ۔
میں .(. علامہ وحیدالزمان صاحب .). کہتا ہوں کہ اس سے وه شبہ بھی دور ہوجائے گا جو بعض کوتاه عقل لوگ پیش کرتے ہیں کہ صلحاء کی قبور کی زیارت کرکے ان کی ارواح سے فیوض وبركات وأنوارات کا حصول کیسے ممکن ہے ۔
.(.(. دیکهیئے ھدية المهدي ص 32 ، 33 ، 34 ، 62 ،23. ).).
اسی طرح علامہ وحیدالزمان صاحب نے قبروں کی مُجاوری کوبھی جائزقرار دیا هے ۔
.(.(. دیکهیئے هدیۃ المهدي ص 34 ، نزل الأبرار ج 1 ص 241 .).).
یہ چند حوالے اختصارکے ساتھ فرقہ جدید اہل حدیث کے اکابرکے حوالہ سے آپ نے ملاحظہ کیئے ، جب کہ آج کل فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل چند لوگ ان سب امورکوشرک وبدعت کہتے ہیں ، میرے علم میں نہیں ہے کہ فرقہ جدید اہل حدیث کی آج کل کی ایڈیشن میں شامل توحید وسنت کے علمبرداروں نے فرقہ جدید اہل حدیث کے بانیان نواب صدیق حسن خان اورعلامہ وحیدالزمان صاحب کے ان نظریات کی تردید کی ہو ، کوئی کتاب ورسالہ لکھا ہو یا کوئی بیانات اس سلسلہ میں کیئے ہوں ؟؟ والله اعلم ۔
مزارات اولیاء سے فیض بطریق خاص صرف کاملین کے لیئے ہے
سوال : مزارات اولیاء رحمهم الله سے فیض حاصل ہوتا ہے یا نہیں ؟؟ اگر ہوتا ہے توکس صورت سے ؟؟
جواب : مزارات اولیاء سے کاملین کوفیض ہوتا ہے مگرعوام کواس کی اجازت دینی ہرگزجائزنہیں ہے ، اورتحصیل فیض کا طریقہ کوئی خاص نہیں ہے ، جب جانے والا اہل ہوتا ہے تواس طرف سے حسب استعداد فیضان ہوتا ہے ، مگرعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کھولنا ہے ۔
. (. فتاوی رشید یہ ص 104. ).
اب یہاں چند باتیں قابل غور ہیں
1. تقریبا اسی طرح کی بات .(. المهند علی المفند. ). اور دیگرکتب مشائخ میں بھی موجود ہے ، اور حضرت گنگوهی رحمہ الله اوردیگرتمام اکابرعلماء دیوبند کا اجماعی فتوی یہ ہے کہ اہل قبورسے استمداد واستعانت جائزنہیں ہے ، تومعلوم ہوا کہ اس فیض سے مراد اهل قبورسے استمداد واستعانت وغیره نہیں ہے۔
2. پھر قبور اولیاء سے فیض سے متعلق جو طرق وتفصیلات ہیں یہ صرف علماء کاملین کے لیئے ہیں نہ کہ عوام کے لیئے اورپھر عوام میں ہروه شخص داخل ہے جواس طریق سے نابلد ہو چاہے کسی اورفن میں معلومات رکھتا ہے ۔
عربی کا مشہور مقولہ ہے. (. لکُل فنٍّ رِجال .). ہرفن کے اپنے ماہرلوگ ہوتے ہیں ، لہذا اس وجہ سے اس میدان کے کامل وماہرلوگوں کواجازت ہے ۔
3. کچھ لوگ اس قول پراعتراض کرتے ہیں کہ عوام کواس کی اجازت دینی کیوں جائزنہیں ہے ؟؟ اورعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کھولنے کےمترادف کیوں ہے ؟؟
خوب یاد رکهیں الحمد لله حضرات اکابرعلماء دیوبند کا یہ قول بھی احادیث نبویہ وتعلیمات سلف کے بالکل موافق ہے ، کیونکہ لوگوں کے سامنے ایسی باتیں بیان کرنا ممنوع ہے جہاں تک ان کے عقول ومعرفت نہ پہنچ سکیں ۔
ابن مسعود رضی الله عنہ کا قول ہے کہ
جب توکسی قوم کو کوئی حدیث بیان کرتا ہے جس تک ان کے عقول نہیں پہنچتے تو وه اس قوم میں سے بعض کے لیئے فتنہ کا باعث بن جاتا ہے ۔
خوب یادرکھیں ہمارے اکابرومشائخ حضرات علماء دیوبند میں سے کسی نے بھی یہ تعلیم نہیں دی بلکہ قبور واہل قبورسے متعلق بھی ان کا مسلک اعتدال والا ہے نہ تواتنی تفریط ہے کہ اہل قبورکی زیارت ودعا وایصال ثواب کوبھی منع کردیں ، اورنہ اتنا افراط ہے کہ قبور سے متعلق تمام مُروجہ بدعات وخرافات کوجائزقراردیں ، لہذا احادیث مبارکہ سے قبور کی زیارت ودعاء مسنون وایصال ثواب برائے اہل قبورثابت ہے ، تویہی تعلیم وطریق علماء دیوبند کا بھی ہے ، باقی اس سے زیاده اگرکوئی شخص وساوس پیش کرے تواس کی طرف توجه نہیں کرنی چائیے کیونکہ وساوس کا اصل علاج عدم التفات ہے ۔
انبیاء واولیاء وصالحین کی قبورسے فیض حاصل کرنے کا عام فہم مطلب
حدیث میں آتا ہے کہ قبرجنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے یا جہنم کے گھڑوں میں سے ایک گھڑا ہے۔
قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ : إِنَّمَا الْقَبْرُ رَوْضَةٌ مِنْ رِيَاضِ الْجَنَّةِ ، أَوْ حُفْرَةٌ مِنْ حُفَرِ النَّار۔
.). ( .رواه الترمذي في سننه ، والبيهقى فى شعب الإيمان ، والطبراني .) .).
اب قبر کا یہ گھڑا جس میں انبیاء وصحابہ واولیاء الله وعلماء وصُلحاء مدفون ہیں ہمارا اعتقاد ہے کہ یہ جنت کے باغات ہے ، جیسا کہ حدیث میں بیان ہوا ، اب جنت الله تعالی کے انعامات ورحمتوں وتجلیات کا مقام ہے توصالحین کے قبورپرالله تعالی رحمتوں کا نزول ہوتا ہے ، لہذا زیارت کرنے والا شخص اس رحمت سے محروم نہیں رہتا اگرچہ اس کومحسوس ہو یا نہ ہو ، یہی سارا مفہوم ہے فیض وفائده کا ، ایک لحظہ کے لیئے اس حدیث کوسامنے رکھ کریہ دیکھیں کہ انبیاء وصحابہ وعلماء وصالحین کے قبور جنت کے باغ ہیں یقینا اس بات میں کوئی شک نہیں کرسکتا ، لہذا جنت کے ان باغات کی زیارت ونفع کا کون انکارکرسکتا ہے ؟؟ باقی قبور کا طواف اورسجدے کرنا ، وہاں چراغ جلانا ، قبرپراذان پڑهنا ، وہاں عرس میلے قوالی کرنا ، قبرکوبوس وکنار کرنا ،ان سے حاجات طلب کرنا ، ان کومتصرف سمجھنا وغیره سب بدعات وخرافات ہیں ۔
صحيح البخاري میں امام البخاري نے ایک باب قائم کیا هے ۔
‘‘باب ماجاء في قبر النبي صلى الله عليه وسلم وأبي بكر وعمر رضي الله عنهما’’
اس باب کے تحت امام البخاري نے حضرت عمر رضی الله عنہ کی وه حدیث نقل کی ہے جس میں انهوں نے حضرت عبد الله بن عمر رضی الله عنہ کے واسطہ سے حضرت عائشة رضي الله عنها سے حجرة النبوية میں دفن ہونے کی اجازت مانگی تھی انهوں نے کہا تھا کہ یہ جگہ میں نے اپنے لیئے پسند کی تھی لیکن میں آج یہ جگہ ان کودیتی ہوں۔ الحدیث
حافظ ابن حجر رحمہ الله اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں کہ
وفيه الحرص على مجاورة الصالحين في القبور طمعا في إصابة الرحمة إذا نزلت عليهم وفي دعاء من يزورهم من أهل الخير "
یعنی اس حدیث میں ثبوت ہے اس بات كاکہ صالحین کے ساتھ قبورمیں پڑوسی ہونے كاحرص کرنا چائیے اس امید ونیت سے کہ صالحین پرنازل ہونے والی رحمت اس کوبھی پہنچے گی اورنیک صالح لوگ جب ان کی زیارت کریں گے اوردعا کریں گے تواس کوبھی حصہ ملے گا ۔
اسی طرح ایک حدیث حسن میں ہے کہ
بعض صحابہ نے کسی قبرپراپنا خیمہ نصب کیا اوراس معلوم نہیں تھا کہ یہ قبرہے ، پس اس قبرمیں ایک انسان سورة .{. تبارك الذي بيده الملك .}.پڑھ رہا تھا یہاں تک کہ سورة ختم کردی ، جب حضور صلى الله عليه وسلم.کے پاس تشریف لائے تو عرض کیا يا رسول الله میں نے اپنا خیمہ ایک قبرپرنصب کیا اورمجھے معلوم نہیں تها کہ وه قبر ہے ، پس اس قبرمیں ایک انسان سورة .{. تبارك الذي بيده الملك .}.پڑھ رہا تھا یہاں تک کہ سورة ختم کردی ، رسول الله صلى الله عليه وسلم نے ارشاد فرمایا کہ یہ سورة عذاب قبرکوروکتی ہے عذاب قبرسے نجات دیتی ہے اس. (.صاحب قبر.). کو عذاب قبرسے نجات دیتی ہے ۔
وقال الإمام الترمذي بسنده عن ابن عباس قال:
ضرب رجل من أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم خباءه على قبر وهو لا يحسب أنه قبر ، فإذا قبر إنسان يقرأ سورة " الملك " حتى ختمها ، فأتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال : يا رسول الله ، ضربت خبائي على قبر وأنا لا أحسب أنه قبر ، فإذا قبر إنسان يقرأ سورة " الملك " حتى ختمها ؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم : " هي المانعة ، هي المنجية تنجيه من عذاب القبر " . قال : حديث حسن غريب .
.(.ورواه الطبراني في الكبير، وأبونعيم في الحلية ، والبيهقي في إثبات عذاب القبر .).
قبور اولیاء سے فیض کا مطلب استمداد واستغاثہ نہیں ہے
سوال : مُردوں سے بطریق دعا ، مد د چاهنا جائزهے یا نہیں ؟
جواب: مد د چاہنا تین قسم کا ہے ۔
1. ایک یہ کہ اہل قبور سے مد د چاہے اسی کوسب فقہاء نے ناجائزلکھاہے ۔
2.دوسرے یہ کہ کہے اے فلاں خدا تعالی سے دعا کرکہ فلاں کام میرا پورا ہوجائے یہ مبنی ہے اس بات پرکہ مردے سنتے ہیں کہ نہیں ، جوسماع موتی کے قائل ہیں ان کے نزدیک درست ، دوسروں کے نزدیک ناجائز،. (. سماع موتی کے مسئلہ میں صحابہ کے زمانہ سے اختلاف ہے دونوں طرف اکابر ودلائل ہیں لہذا ایسے اختلافی امرکا فیصلہ کون کرسکتا ہے ، لیکن بہتریہ ہے اس دوسری قسم پربھی عمل نہ کرے .).۔
3. تیسرے یہ کہ دعا مانگے الہی بحرمت فلاں میرا کام پورا کردے یہ بالاتفاق جائز ہے .(. فتاوی رشیدیه ص 57. ) .حضرت گنگوهی رحمہ الله کی یہ فتوی بالکل واضح ہے کہ مردوں سےمد د طلب کرنا تمام فقہاء کے نزدیک ناجائزہے ، اوریہی فیصلہ وفتوی تمام اکابرعلماء دیوبند کا بھی ہے ، لہذا جو لوگ فیض عن القبور کا مطلب استعانت واستمداد وغیره بیان کرکے اس کو اکابرعلماء دیوبند کا عقیده قرار دیتے ہیں ، یہ سب دجل وفریب ہے ، هداهم الله
قبور اور أہل قبور کے متعلق فرقہ جدید اہل حدیث کے اکابرکا مذہب
جیسا کہ میں گذشتہ سطورمیں عرض کرچکا کہ اس فرقہ جدید کے اکابراورآج کل کے اس فرقہ جدید کے هم نواوں میں بہت سخت اختلاف هے ، مثلا اسی مذکوره مسئلہ میں اس فرقہ جدید اهل حدیث کے بانی ومُوجد نواب صدیق حسن خان صاحب کا نظریہ ملاحظہ فرمائیں اپنی کتاب). .ألتاجُ المُكلل. (. میں اپنے والد ابواحمد حسن بن علی الحُسینی البخاری القنوجی کے تذکره میں لکھا کہ
لایزال يرى النورعَلى قبره الشريف والناسُ يَتبَّرَكُون به ۔
آپ کی کی قبرشریف پرہمیشہ نور رہتا ہے اورلوگ آپ کی کی قبرسے بترُّک حاصل کرتے ہیں ۔
.(. ألتاجُ المُكلل صفحه 543 ، مكتبة دارالسلام. ).
اسی طرح فرقہ جدید اہل حدیث کے بانی علامہ وحیدالزمان صاحب بھی یہی فرماتے ہیں کہ
ولازال السلف والخلف یتبَرَّكون بآثارالصلحاء ومشاهدهم ومقاماتهم وآبارهم وعيونهم۔
یعنی سلف وخلف سب صالحین کے آثار ، اور ان کی قبروں سے ، اوران کے مقامات ، اور ان کے کنووں سے ، اور ان کے چشموں سے تبرُّ کحاصل کرتے تھے ۔ آگے علامہ وحیدالزمان صاحب فرماتے ہیں کہ
ولم یقل احد ان التبرک بمثل هذه الاشیاء شرک
یعنی کسی ایک نے بھی یہ نہیں کہا کہ اس قسم کی اشیاءسے تبرکحاصل کرنا شرک ہے ۔
آگے علامہ وحیدالزمان صاحب فرماتے هیں کہ
ترجى سرعة الإجابة عند قبرالنبي صلى الله عليه وسلم أوغيره من المواضع المتبركة قال الشافعي قبرموسى الكاظم ترياق مجرب وروى الشيخ ابن حجرالمكي في القلائد عن الشافعي قال إني أستبرك بقبرأبي حنيفة واذا عرضت لي حاجة أجيئ عند قبره وأصلي ركعتين وأدعوالله عنده فتقضي حاجتي ۔
آپ صلى الله عليه وسلم کے قبرمبارک اوراس کے علاوه مقامات متبركة میں دعا بہت جلد قبول ہوتی ہے ، امام شافعی رحمہ الله نے فرمایا کہ موسی کاظم کی قبرتریاق مجرب ہے ، اورالشيخ ابن حجرالمكي نے اپنی کتاب " القلائد " میں امام شافعی رحمہ الله سے روایت کیا ہے، فرمایا کہ میں ابوحنیفہ کے قبرسے تبرک حاصل کرتا ہوں ، اورجب مجھے کوئی حاجت پیش آتی ہے تومیں ابوحنیفہ کے قبرکے پاس آتاہوں اوردورکعت نمازپڑهتا ہوں ، اورالله تعالی سے دعا کرتا ہوں پس میری حاجت پوری ہوجاتی ہے ۔
علامہ وحیدالزمان صاحب نے ایک فصل قائم کیا ہے " مَقرارواح " کے متعلق اورآٹھ مذاہب نقل کیئے ہیں، اسی فصل میں فرماتے ہیں کہ
وقال شـيخنا ابن القـيـم فثبت بهذا انه لامنافات بين كون الروح في عليين أوفي الجنة أوفي السماء وبين اتصاله بالبدن بحيث تدرك وتسمع وتصلي وتقرأ ۔
اورہمارے شیخ ابن القیمنے فرمایا کہ اس سے ثابت ہوا کہ اس میں کوئی منافات نہیں ہے کہ روح عليين میں ہو یا جنت میں ہو یا آسمان میں ہو اوراس کا تعلق بدن کے ساتھ ہو اس طورپرکہ وه ادراک بھی کرے اور سماع بھی کرے اورنمازبھی پڑھے اورقرآءت بھی کرے ۔
قلت بهذا يدفع الشـبـهـة التي أوردهـا القــاصرون انه كيف يمكن استحصال الفيوض
والبـركــات وبرد القلب والأنوارمن أرواح الصلحـاء بزيـارة قبـورهم ۔
میں .(. علامہ وحیدالزمان صاحب .). کہتا ہوں کہ اس سے وه شبہ بھی دور ہوجائے گا جو بعض کوتاه عقل لوگ پیش کرتے ہیں کہ صلحاء کی قبور کی زیارت کرکے ان کی ارواح سے فیوض وبركات وأنوارات کا حصول کیسے ممکن ہے ۔
.(.(. دیکهیئے ھدية المهدي ص 32 ، 33 ، 34 ، 62 ،23. ).).
اسی طرح علامہ وحیدالزمان صاحب نے قبروں کی مُجاوری کوبھی جائزقرار دیا هے ۔
.(.(. دیکهیئے هدیۃ المهدي ص 34 ، نزل الأبرار ج 1 ص 241 .).).
یہ چند حوالے اختصارکے ساتھ فرقہ جدید اہل حدیث کے اکابرکے حوالہ سے آپ نے ملاحظہ کیئے ، جب کہ آج کل فرقہ جدید اہل حدیث میں شامل چند لوگ ان سب امورکوشرک وبدعت کہتے ہیں ، میرے علم میں نہیں ہے کہ فرقہ جدید اہل حدیث کی آج کل کی ایڈیشن میں شامل توحید وسنت کے علمبرداروں نے فرقہ جدید اہل حدیث کے بانیان نواب صدیق حسن خان اورعلامہ وحیدالزمان صاحب کے ان نظریات کی تردید کی ہو ، کوئی کتاب ورسالہ لکھا ہو یا کوئی بیانات اس سلسلہ میں کیئے ہوں ؟؟ والله اعلم ۔
مزارات اولیاء سے فیض بطریق خاص صرف کاملین کے لیئے ہے
سوال : مزارات اولیاء رحمهم الله سے فیض حاصل ہوتا ہے یا نہیں ؟؟ اگر ہوتا ہے توکس صورت سے ؟؟
جواب : مزارات اولیاء سے کاملین کوفیض ہوتا ہے مگرعوام کواس کی اجازت دینی ہرگزجائزنہیں ہے ، اورتحصیل فیض کا طریقہ کوئی خاص نہیں ہے ، جب جانے والا اہل ہوتا ہے تواس طرف سے حسب استعداد فیضان ہوتا ہے ، مگرعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کھولنا ہے ۔
. (. فتاوی رشید یہ ص 104. ).
اب یہاں چند باتیں قابل غور ہیں
1. تقریبا اسی طرح کی بات .(. المهند علی المفند. ). اور دیگرکتب مشائخ میں بھی موجود ہے ، اور حضرت گنگوهی رحمہ الله اوردیگرتمام اکابرعلماء دیوبند کا اجماعی فتوی یہ ہے کہ اہل قبورسے استمداد واستعانت جائزنہیں ہے ، تومعلوم ہوا کہ اس فیض سے مراد اهل قبورسے استمداد واستعانت وغیره نہیں ہے۔
2. پھر قبور اولیاء سے فیض سے متعلق جو طرق وتفصیلات ہیں یہ صرف علماء کاملین کے لیئے ہیں نہ کہ عوام کے لیئے اورپھر عوام میں ہروه شخص داخل ہے جواس طریق سے نابلد ہو چاہے کسی اورفن میں معلومات رکھتا ہے ۔
عربی کا مشہور مقولہ ہے. (. لکُل فنٍّ رِجال .). ہرفن کے اپنے ماہرلوگ ہوتے ہیں ، لہذا اس وجہ سے اس میدان کے کامل وماہرلوگوں کواجازت ہے ۔
3. کچھ لوگ اس قول پراعتراض کرتے ہیں کہ عوام کواس کی اجازت دینی کیوں جائزنہیں ہے ؟؟ اورعوام میں ان امورکا بیان کرنا کفروشرک کا دروازه کھولنے کےمترادف کیوں ہے ؟؟
خوب یاد رکهیں الحمد لله حضرات اکابرعلماء دیوبند کا یہ قول بھی احادیث نبویہ وتعلیمات سلف کے بالکل موافق ہے ، کیونکہ لوگوں کے سامنے ایسی باتیں بیان کرنا ممنوع ہے جہاں تک ان کے عقول ومعرفت نہ پہنچ سکیں ۔
ابن مسعود رضی الله عنہ کا قول ہے کہ
جب توکسی قوم کو کوئی حدیث بیان کرتا ہے جس تک ان کے عقول نہیں پہنچتے تو وه اس قوم میں سے بعض کے لیئے فتنہ کا باعث بن جاتا ہے ۔
Comment