Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کتابتِ حدیث کے احکام

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • کتابتِ حدیث کے احکام




    بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

    ذیل کی حدیث سارے زخیرۂ احادیث کی وہ واحد صحیح حدیث ہے (اور جس کے راوی صرف ابوسعید خدری ہیں) جس سے امتناعِ کتابتِ حدیث ثابت ہوتا ہے۔


    ابو سعید خدری (رضی اللہ عنہ) سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    مت لکھو میرا کلام اور جس نے لکھا کچھ مجھ سے سن کر تو وہ اس کو مٹا ڈالے مگر قرآن نہ مٹائے۔ البتہ میری حدیث بیان کرو اس میں کوئی حرج نہیں۔ اور جو شخص قصداً مجھ پر جھوٹ باندھے ، وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔
    صحیح مسلم ، كتاب الزهد والرقائق ، باب : التثبت فی الحدیث و حکم کتابۃ العلم




    حالانکہ امام بخاری اور بعض دوسرے محدثین نے اس "منع کتابت والی حدیث" کو معلول قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ حدیث مرفوع نہیں بلکہ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کا اپنا قول ہے۔
    (بحوالہ : تاریخ الحدیث و المحدثین ، ص : 312)
    اور اسی لیے امام بخاری نے یہ حدیث اپنی صحیح بخاری میں درج نہیں کی ہے۔
    بعض دوسرے محدثین اس حدیث کو منسوخ قرار دیتے ہیں ، ان کی دلیل "حدیثِ قرطاس" ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لکھنے کا حکم دیا اور جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل آخری ایام کا واقعہ ہے۔ یعنی ، وہ عارضی حکم تھا جو دوسری اجازت یا حکم والی صحیح تر احادیث کے ذریعے ختم ہو گیا۔
    اور امام نووی رحمہ اللہ اس حدیث کی شرح میں لکھتے ہیں :
    اس حدیث میں جو ممانعت ہے وہ محمول ہے اُس شخص پر جو اچھا حافظہ رکھتا ہو لیکن لکھنے میں اور کتابت پر اعتماد کرنے میں اس کو ڈر ہو مگر جس کا حافظہ اچھا نہ ہو اس کو لکھنے کی اجازت ہے۔ بعض دوسرے کہتے ہیں کہ یہ اُس وقت کی حدیث ہے جب آپ کو ڈر تھا کہ کہیں قرآن اور حدیث مل نہ جائیں اور جب اس سے اطمینان ہو گیا تو آپ نے کتابت کی اجازت دے دی۔ اور بعض کہتے ہیں کہ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ قرآن اور میری حدیث ایک کتاب میں ملا کر نہ لکھو تاکہ پڑھنے والے کو شبہ نہ ہو۔

    اس ایک حدیث کے برعکس ، کتب صحاح ستہ میں بیشمار احادیث ایسی ہیں ( اور جو بہت سے صحابہ سے مروی ہیں) ، جن سے ثابت ہوتا ہے کہ ۔۔۔۔

    • کچھ حدیثیں آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے حکم سے لکھی گئیں
    • کچھ لوگوں کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے لکھنے کی اجازت دی
    • کچھ حضرات کو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے لکھنے کی ترغیب دی
    • بعض سے ان کی تحریر کردہ احادیث سن کر ان کی تصحیح و تصویب فرمائی

    لیجئے ، اب ان احادیث کے ثبوت ملاحظہ فرمائیں :

    1۔ حضرت ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ خطبہ دیا۔ یہ سن کر ایک یمنی شخص (ابوشاہ) نے حاضر ہو کر عرض کیا :
    یا رسول اللہ ! یہ (سب احکام) مجھے لکھ دیجئے ۔
    آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ( اکتبوا لابی فلان ) ابو فلاں کو لکھ دو۔
    صحیح بخاری ، كتاب العلم ، باب : كتابة العلم

    آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ( اکتبوا لابی شاہ ) ابو شاہ کو لکھ دو۔
    ترمذی ، كتاب العلم عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ، باب : ما جاء في الرخصة فيه

    2۔ حضرت ابوھریرہ (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ ایک انصاری آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد میں بیٹھا کرتے اور احادیث سنتے تھے۔ وہ انہیں بہت پسند آتیں لیکن یاد نہیں رہتی تھیں ، چانچہ انہوں نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) سے شکایت کی کہ :
    یا رسول اللہ ! میں آپ سے حدیثیں سنتا ہوں لیکن مجھے یاد نہیں رہتیں۔
    آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : ( استعن بیمینک واوما بیدہ الخط ) اپنے دائیں ہاتھ سے مدد حاصل کرو۔ اور آپ نے اپنے ہاتھ سے لکھنے کا اشارہ کیا۔
    ترمذی ، كتاب العلم عن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم ، باب : ما جاء في الرخصة فيه
    تنبیہ: امام بخاری نے اس حدیث کے ایک راوی الخليل بن مرة کو منكر الحديث قرار دیا ہے اور علامہ البانی نے اس حدیث کو "ضعیف سنن ترمذی" میں شامل کیا ہے۔

    3۔ حضرت عبداللہ بن عمرو (رضی اللہ عنہ) فرماتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں چاہتا ہوں کہ آپ کی احادیث روایت کروں ۔ میرا ارادہ ہے کہ میں دل کے ساتھ ہاتھ سے لکھنے کی مدد بھی لوں ، اگر آپ پسند فرمائیں ۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    ان کان حدیثی ثم استعن بیدک مع قلبک
    اگر میری حدیث ہو تو اپنے دل کے ساتھ اپنے ہاتھ سے بھی مدد لو۔
    سنن الدارمی ، كتاب المقدمة ، باب : من رخص في كتابة العلم
    تنبیہ: روایت کی سند ضعیف ہے۔

    4۔ حضرت عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    قیدوا العلم قلت وما تقییدہ ؟ قال کتابتہ
    علم کو قید کرو۔
    میں نے پوچھا کہ علم کی قید کیا ہے؟
    آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے فرمایا : اسے لکھنا۔
    المستدرک للحاکم
    تنبیہ: روایت کی سند ضعیف ہے۔

    5۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
    قیدوا العلم بالکتاب
    علم کو لکھ کر محفوظ کر لو۔
    جامع بیان العلم لابن عبدالبر اندلسی
    تنبیہ: روایت کی سند ضعیف ہے۔

    6۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آزاد غلام حضرت ابو رافع رضی اللہ عنہ نے احادیث لکھنے کی اجازت مانگی تو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے اجازت مرحمت فرمائی۔
    مقدمہ صحیفہ ھمام بن منبہ ، از: ڈاکٹر محمد حمیداللہ ، ص:33 (بحوالہ "آئینہ پرویزیت")

    7۔ اور آخر میں ۔۔۔ منعِ کتابت کی جو وجہ بعض صحابہ کے نزدیک رہی تھی ، اور جس کا ازالہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس طرح فرمایا اور جس طرح کتابت کا حکم دیا ، وہ صحیح حدیث (یعنی : حدیثِ قرطاس) بھی ملاحظہ فرما لیں :

    حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں جو حدیث ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنتا ، اس کو لکھ لیتا اپنے یاد کرنے کے لیے۔
    پھر قریش کے لوگوں نے مجھ کو لکھنے سے منع کیا اور کہا کہ : تم ہر بات لکھ لیتے ہو حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بشر ہیں ، غصے اور خوشی کی دونوں حالتوں میں باتیں کرتے ہیں۔
    یہ سن کر میں نے لکھنا چھوڑ دیا۔ پھر میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا۔
    آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے انگلیوں سے اپنے منہ کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا :
    اكتب فوالذي نفسي بيده ما يخرج منه إلا حق
    لکھا کر ! قسم اس ذات پاک کی جس کے اختیار میں میری جان ہے ، اس منہ سے سوائے سچ کے ، کوئی بات نہیں نکلتی۔
    ابو داؤد ، كتاب العلم ، باب : في كتابة العلم

    تنبیہ: محدث احمد شاکر نے صحیح قرار دیا ہے۔


  • #2
    Re: کتابتِ حدیث کے احکام




    الحمدللہ عربی کی دو ایسی اہم ویب سائیٹس منظر عام پر آ گئی ہیں جن کے ذریعہ ہر حدیث کی صحت معلوم کی جا سکتی ہے اور حدیث کا آن لائن لنک بھی منسلک کیا جا سکتا ہے :

    Comment

    Working...
    X