اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں کہ عورتوں نے سب سے پہلے ازار بند بنانا سیدنا اسماعیل کی ماں سے سیکھا انہوں نے ازار بند بنایا تاکہ اپنے نشانات کو سارہ سے چھپائیں پھر انہیں اور ان کے لڑکے اسماعیل کو سیدناابراہیم علیہ السلام لے کر آئے اور وہ انہیں دودھ پلاتی تھیں تو ان دونوں کو مسجد کے اوپری حصہ میں زمزم کے پاس کعبہ کے قریب ایک درخت کے پاس بٹھا دیا اور اس وقت مکہ میں نہ تو آدمی تھا نہ پانی ابراہیم نے انہیں وہاں بٹھا دیا اور ان کے پاس ایک چمڑے کے تھیلے میں کھجوریں اور مشکیزہ میں پانی رکھ دیا اس کے بعد ابراہیم لوٹ کر چلے تو اسماعیل کی والدہ نے ان کے پیچھے دوڑ کر کہا اے ابراہیم کہا جا رہے ہو اور ہمیں ایسے جنگل میں جہاں نہ کوئی آدمی ہے نہ اور کچھ (کس کے سہارے چھوڑے جا رہے ہو؟) اسماعیل کی والدہ نے یہ چند مرتبہ کہا مگرسیدنا ابراہیم نے ان کی طرف مڑ کر بھی نہ دیکھا اسماعیل کی والدہ نے کہا کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں!سیدہ ہاجرہ نے کہا تو اب اللہ بھی ہم کو برباد نہیں کرے گا پھر وہ واپس چلی آئیں اور سیدنا ابرہیم چلے گئے حتیٰ کہ وہ ثنیہ کے پاس پہنچے، جہاں سے وہ لوگ انہیں دیکھ نہ سکتے تھے، تو انہوں نے اپنا منہ کعبہ کی طرف کر کے دونوں ہاتھ اٹھا کر یہ دعا کی کہ ( اے ہمارے رب میں اپنی اولاد کو آپ کے معظم گھر کے قریب ایک (کفدست) میدان میں جو زراعت کے قابل نہیں آباد کرتا ہوں) اورسیدنا اسماعیل علیہ السلام کی والدہ انہیں دودھ پلاتی تھیں اور اس مشکیزہ کا پانی پیتی تھیں حتی کہ جب وہ پانی ختم ہو گیا تو انہیں اور ان کے بچہ کو (سخت) پیاس لگی وہ اس بچہ کو دیکھنے لگیں کہ وہ مارے پیاس کے تڑپ رہا ہے یا فرمایا کہ ایڑیاں رگڑ رہا ہے وہ اس منظر کو دیکھنے کی تاب نہ لا کر چلیں اور انہوں نے اپنے قریب جو اس جگہ کے متصل تھا کوہ صفا کو دیکھا پس وہ اس پر چڑھ کر کھڑی ہوئیں اور جنگل کی طرف منہ کرکے دیکھنے لگیں کہ کوئی نظر آتا ہے یا نہیں؟ تو ان کو کوئی نظر نہ آیا (جس سے پانی مانگیں) پھر وہ صفا سے اتریں جب وہ نشیب میں پہنچیں تو اپنا دامن اٹھا کے ایسے دوڑیں جیسے کوئی سخت مصیب زدہ آدمی دوڑتا ہے حتیٰ کہ اس نشیب سے گزر گئیں پھر وہ کوہ مروہ پر آکر کھڑی ہوئیں اور ادھر ادھر دیکھا کہ کوئی نظر آتا ہے یا نہیں تو انہیں کوئی نظر نہ آیا اسی طرح انہوں نے سات مرتبہ کیا ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا اسی لئے لوگ صفا و مروہ کے درمیان سعی کرتے ہیں جب وہ آخری دفعہ کوہ مروہ پر چڑھیں تو انہوں نے ایک آواز سنی خود ہی کہنے لگیں ذرا ٹھہر کر سننا چاہئے تو انہوں نے کان لگایا تو پھر بھی آواز سنی خود ہی کہنے لگیں (اے شخص) تو نے آواز تو سنا دی کاش کہ تیرے پاس فریاد رسی بھی ہو، یکایک ایک فرشتہ کو مقام زمزم میں دیکھا اس فرشتہ نے اپنی ایڑی ماری یا فرمایا کہ اپنا پر مارا حتیٰ کہ پانی نکل آیا ہاجرہ اسے حوض کی شکل میں بنا کر روکنے لگیں اور ادھر ادھر کرنے لگیں اور چلو بھر بھر کے اپنی مشک میں ڈالنے لگیں ان کے چلو بھرنے کے بعد پانی زمین سے ابلنے لگا۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ اسماعیل کی والدہ پر رحم فرمائے اگر وہ زمزم کو (روکتی نہیں بلکہ) چھوڑ دیتیں یا فرمایا چلو بھر بھر کے نہ ڈالتیں تو زمزم ایک جاری رہنے والا چشمہ ہوتا پھر فرمایا کہ انہوں نے پانی پیا اور بچہ کو پلایا پھر ان سے فرشتہ نے کہا کہ تم اپنی ہلاکت کا اندیشہ نہ کرو کیونکہ یہاں بیت اللہ ہے جسے یہ لڑکا اور اس کے والد تعمیر کریں گے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ہلاک و برباد نہیں کرتا (اس وقت) بیت اللہ زمین سے ٹیلہ کی طرح اونچا تھا سیلاب آتے تھے تو اس کے دائیں بائیں کٹ جاتے تھے ہاجرہ اسی طرح رہتی رہیں ۔(روایت اختصار سے پیش کی جارہی ہے )
سیدنا اسماعیل کی والدہ سیدہ ہاجرہ (علیہما السلام )وفات پاگئیں سیدنا ابراہیم علیہ السلام اپنے چھوڑے ہوؤں کو دیکھنے کے لئے اسماعیل کے نکاح کے بعد تشریف لائے تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی سے معلوم کیا تو اس نے کہا کہ وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں پھر ابراہیم علیہ السلام نے اس سے بسر اوقات اور حالت معلوم کی تو اس عورت نے کہا ہماری بری حالت ہے اور ہم بڑی تنگی اور پریشانی میں مبتلا ہیں (گویا) انہوں نے سیدنا ابراہیم سے شکوہ کیا ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور یہ کہنا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ تبدیل کردیں جب اسماعیل علیہ السلام واپس آئے تو گویا انہوں نے اپنے والد کی تشریف آوری کے آثار پائے تو کہا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایسا ایسا ایک بوڑھا شخص آیا تھا اس نے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا اور اس نے ہماری بسر اوقات کے متعلق دریافت کیا تو میں نے بتا دیا کہ ہم تکلیف اور سختی میں ہیں سید نا اسماعیل نے کہا کیا انہوں نے کچھ پیغام دیا ہے؟ کہا ہاں! مجھ کو حکم دیا تھا کہ تمہیں ان کا سلام پہنچا دوں اور وہ کہتے تھے تم اپنے دروازہ کی چوکھٹ بدل دو اسماعیل نے کہا وہ میرے والد تھے اور انہوں نے مجھے تم کو جدا کرنے کا حکم دیا ہے لہذا تم اپنے گھر چلی جاؤ اور اس کو طلاق دے دی اور بنو جرہم کی کسی دوسری عورت سے نکاح کر لیا کچھ مدت کے بعد ابراہیم پھر آئے تو اسماعیل کو نہ پایا ان کی بیوی کے پاس آئے اور اس سے دریافت کیا تو اس نے کہا وہ ہمارے لئے رزق تلاش کرنے گئے ہیں ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہارا کیا حال ہے؟ اور ان کی بسر اوقات معلوم کی اس نے کہا ہم اچھی حالت اور فراخی میں ہیں اور اللہ کی تعریف کی ابراہیم علیہ السلام نے پوچھا تمہاری غذا کیا ہے؟ انہوں نے کہا گوشت سیدنا ابراہیم نے پوچھا تمہارے پینے کی کیا چیز ہے؟ انہوں نے کہا پانی، ابراہیم علیہ السلام نے دعا کی اے اللہ! ان کے لئے گوشت اور پانی میں برکت عطا فرما۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت وہاں غلہ نہ ہوتا تھا اگر غلہ ہوتا تو اس میں بھی ان کے لئے دعا کرتے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کوئی شخص مکہ کے سوا کسی اور جگہ گوشت اور پانی پر گزارہ نہیں کرسکتا صرف گوشت اور پانی مزاج کے موافق نہیں آ سکتا ابراہیم نے کہا جب تمہارے شوہر آ جائیں تو ان سے میرا سلام کہنا اور انہیں میری طرف سے یہ حکم دینا کہ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں جب سیدنا اسماعیل آئے تو پوچھا کیا تمہارے پاس کوئی آدمی آیا تھا ؟ بیوی نے کہا ہاں! ایک بزرگ خوبصورت پاکیزہ سیرت آئے تھے اور ان کی تعریف کی تو انہوں نے مجھ سے آپ کے بارے میں پوچھا تو میں نے بتا دیا پھر مجھ سے ہماری بسراوقات کے متعلق پوچھا تو میں نے بتایا کہ ہم بڑی اچھی حالت میں ہیں اسماعیل نے کہا کہ تمہیں وہ کوئی حکم دے گئے ہیں انہوں نے کہا کہ وہ آپ کو سلام کہہ گئے ہیں اور حکم دے گئے ہیں کہ آپ اپنے دروازہ کی چوکھٹ باقی رکھیں اسماعیل علیہ السلام نے کہا وہ میرے والد تھے اور چوکھٹ سے تم مراد ہو گویا انہوں نے مجھے یہ حکم دیا کہ تمہیں اپنی زوجیت میں باقی رکھوں پھرسیدنا ابراہیم کچھ مدت کے بعد پھر آئے اور سیدنا اسماعیل کو زمزم کے قریب ایک درخت کے سایہ میں بیٹھے ہوئے اپنے تیر بناتے پایا جب سیدنا اسماعیل نے انہیں دیکھا تو ان کی طرف بڑھے اور دونوں نے ایسا معاملہ کیا جیسے والد لڑکے سے اور لڑکا والد سے کرتا ہے سیدنا ابراہیم نے کہا اے اسماعیل! اللہ نے مجھے ایک کام کا حکم دیا ہے انہوں نے عرض کیا کہ اس حکم کے مطابق عمل کیجئے ابراہیم بولے کیا تم میرا ہاتھ بٹاؤ گے؟ اسماعیل نے کہاں ہاں! میں آپ کا ہاتھ بٹاؤ ن گا ابراہیم علیہ السلام نے کہا کہ اللہ نے مجھے یہاں بیت اللہ بنانے کا حکم دیا ہے اور آپ نے اس اونچے ٹیلے کی طرف اشارہ کیا یعنی اس کے گردا گرد ان دونوں نے کعبہ کی دیواریں بلند کیں اسماعیل پتھر لاتے تھے اور ابراہیم تعمیر کرتے تھے حتیٰ کہ جب دیوار بلند ہوئی تو سیدنااسماعیل ایک پتھر کو اٹھا لائے اور اسے ابراہیم علیہ السلام کے لئے رکھ دیا سیدنا ابراہیم اس پر کھڑے ہو کر تعمیر کرنے لگے اور سیدنااسماعیل انہیں پتھر دیتے تھے اور دونوں یہ دعا کرتے رہے کہ اے پروردگار! ہم سے (یہ کام) قبول فرما بیشک تو سننے والا جاننے والا ہے پھر دونوں تعمیر کرنے لگے اور کعبہ کے گرد گھوم کر یہ کہتے جاتے تھے اے ہمارے پروردگار ہم سے (یہ کام) قبول فرما بیشک تو سننے والا جاننے والا ہے
صحیح بخاری:جلد دوم:حدیث نمبر 599 کتاب الانبیاء
Comment