Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کیا تخلیقِ کائنات کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ و

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • کیا تخلیقِ کائنات کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ و




    کیا تخلیقِ کائنات کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ؟


    کیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نور سے پیدا کیا گیا ؟کیا تخلیقِ کائنات کی وجہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ؟
    :سوال

    قرآنِ مجید میں بلا شبہ اللہ تعالٰی نے محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے منصبِ نبوت کے اعتبار سے "سراج منیر" یعنی ایک روشن چراغ قرار دیا ہے ۔ (احزاب33:46) جس کے معنی محض یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسا روشن چراغ بنایا جو خود بھی اُس کی ہدایت اور علم وحکمت سے منوّر ہے اور لوگوں کو بھی تاریکیوں سے نکال کر اللہ کی صراط مستقیم کی طرف لانے کے لیے ایک راہنما کی حیثیت رکھتا ہے ۔

    دوسرے لفظوں میں یوں سمجھیے کہ اللہ کا دین انسانیت کے لیے اِس دنیا میں اُس کی ہدایت ہے ، چنانچہ یہ ہدایت بے شک انسان کے لیے نور اور روشنی ہے ۔ اور اِس نور کا ماخذ ومرجع انسانیت کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ والا صفات ہے ۔ چونکہ اللہ کی ہدایت کا نور انسانیت کو آپ ہی کی وساطت سے ملا ہے ، چنانچہ اِس حیثیتِ رسالت سے تو بہر حال آپ کو "نور" کہا جاسکتا ہے ۔

    تاہم یہ بات کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کے اعتبار سے ایک بشر تھے ، بشر ہی طرح آپ کی ولادت ہوئی اور بشر ہی کی حیثیت سے اِس دنیا میں آپ نے زندگی بسر کی ؛ اِس کے شواہد قرآن مجید اور مسلّمہ تاریخ میں پوری صراحت کے ساتھ جگہ جگہ دیکھے جاسکتے ہیں ۔

    جہاں تک بعض مسلمان معاشروں کے اِس عامیانہ اعتقاد کا تعلق ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو "نور" سے تخلیق کیا گیا تھا ، وہ اللہ کے نور میں سے ایک نور تھے ، تو یہ ایک طرف قرآن کے صریح خلاف ہے اور دوسری طرف اِس بات کی کوئی بنیاد کسی مستند ماخذ میں موجود نہیں ہے ۔

    اِس کے حق میں دلیل کے طور پر جو کچھ بیان کیا جاتا ہے ، وہ مندرجہ ذیل بعض ایسی ناقابلِ اعتبار ، بے بنیاد اور من کھڑت روایات ہیں ، جنہیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا استناد ، چونکہ کسی قابلِ اعتماد ذریعے سے حاصل ہی نہیں ہے ، چنانچہ اُن کی بنیاد پر اِس طرح کا کوئی اعتقاد دین میں سرے سے ثابت ہی نہیں ہوتا ۔ اور نہ اِس طرح کی روایتیں مسلمانوں کے لیے قابل التفات ہی ہیں ۔ وہ روایات یہ ہیں :

    1۔ حدیث کی حیثیت سے ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ "نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو نور سے پیدا کیا گیا ہے" ۔

    یہ ایک باطل اور بے بنیاد روایت ہے ۔ علم کی دنیا میں اِس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ۔ اِس کے ماخذ کے طور پر بعض لوگ مسند احمد کا اور بعض مصنف عبد الرزاق کا حوالہ دیتے ہیں ؛ جو کسی بھی لحاظ سے درست نہیں ہے ۔ محقق بات یہی ہے کہ اِس حدیث کا کوئی ماخذ ہی نہیں ہے ۔

    2۔ دوسری روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ " اللہ تعالٰی نے سب سے پہلے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کو پیدا کیا یا یہ کہ اللہ نے اپنے چہرے کے نور سے ایک مٹھی بھر نور لیا اور اُس نور کی یہ مٹھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہی تھے ۔ پھر اللہ تعالٰی نے اُس مٹھی بھر نور کی طرف نظر کی تو اُس میں کچھ قطرے بن گئے ۔ پھر ہر قطرے سے ایک نبی کو پیدا کیا ، یا (یوں کہیے کہ اِس طرح اپنی)تمام خلق کو اللہ تعالٰی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نور سے پیدا کیا ۔

    اِس باب میں یہ اور اِس طرح کی دیگر روایات کی حقیقت بھی بالکل وہی ہے جو پہلی روایت کی ہے ۔ لہذا اِس پر اب مزید کچھ کہنے کی گنجایش بھی باقی نہیں رہ جاتی ۔ امام ابن تیمیہ اس روایت کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ اُن روایتوں میں سے ہے کہ جن کے من گھڑت اور جھوٹے ہونے پر حدیث کی معرفت رکھنے والوں اور اہل علم کا اتفاق ہے ۔(مجموع الفتاوی،

    اِس موضوع کے علاوہ سائل نے اپنے سوال میں ایک دوسری روایت کے بارے میں بھی پوچھا ہے کہ جس میں اللہ تعالٰی کی زبانی یہ بیان کیا گیا ہے کہ " اے محمد ! اگر تو نہ ہوتا تو میں کائنات کو تخلیق ہی نہ کرتا "۔

    اِس حدیث کے بارے میں یہ بات جان لینی چاہیے کہ یہ اور اِسی معنی ومفہوم پر مبنی مندرجہ ذیل بعض روایات اور بھی ہیں ، جن سب کا شمار باطل اور موضوع روایات ہی کے زمرے میں ہوتا ہے ۔ چنانچہ یہ واضح رہے کہ اِس باب کی روایتوں کی بنیاد پر بعض لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں جو کچھ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ، اِن میں در حقیقت اُس کے اثبات کی صلاحیت ہی موجود نہیں ہے ۔ تحقیق کی نگاہ سے دیکھا جائے تو یہ احادیث در حقیقت سند اور درایت ، ہر اعتبار سے نا قابل التفات ہیں ۔ اِن کی بنیاد پر کوئی دینی مقدمہ قطعاً ثابت نہیں کیا جاسکتا ۔

    یہ روایت اوپر بیان کیے گئے الفاظ کے ساتھ امام شوکانی نے اپنی کتاب "الفوائد المجموعۃ فی الاحادیث الموضوعۃ" میں نقل کر کے امام صغانی کی یہ رائے بیان کی ہے کہ یہ ایک "موضوع" اور من گھڑت روایت ہے ۔ (ص326)

    اِس کے بارے میں محدث العصر شیخ البانی کی بھی یہی رائے ہے ۔ وہ مزید فرماتے ہیں کہ اِسی طرح کی ایک مرفوع روایت دیلمی نے حضرت ابن عباس سے اس طرح نقل کی ہے :

    " ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام میرے پاس آئے اور فرمایا : اے محمد ! اگر تو نہ ہوتا تو میں جنت کو تخلیق نہ کرتا ، اگر تو نہ ہوتا تو میں دوزخ کو بھی تخلیق نہ کرتا ۔ ابن عساکر کی روایت کے الفاظ ہیں : اگر تو نہ ہوتا تو میں دنیا ہی کو تخلیق نہ کرتا ۔ اس روایت پر بھی کلام کر کے امام البانی نے یہ بات ثابت کردی ہے کہ یہ بھی منجملہ واہی روایات ہے ۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ، رقم 282)

    اِسی موضوع سے متعلق ایک روایت سیدنا ابن عباس ہی سے حاکم نے مستدرک میں اِس طرح نقل کی ہے :

    " اللہ تعالٰی نے عیسی علیہ السلام کو وحی کی اور فرمایا : اے عیسی ! محمد پر ایمان لاؤ ، اور اپنی اُمت کے اُن لوگوں کو جو محمد کو اپنے حین حیات پائیں گے؛اُن کو بھی محمد پر ایمان لانے کا حکم دو ، کیونکہ اگر محمد نہ ہوتے تو میں آدم ہی کو پیدا نہ کرتا ، اگر محمد نہ ہوتے تو میں جنت اور دوزخ کی تخلیق بھی نہ کرتا ۔ میں نے پانی پر اپنا عرش بنایا تو وہ ہلنے لگا ، چنانچہ جب میں نے اُس پر " لا الٰہ اللہ ، محمد رسول اللہ " لکھا تو وہ اپنی جگہ پر ٹھیر گیا " ۔

    حاکم کی اِس روایت کو امام ذھبی " موضوع " قرار دیا ہے ۔(مستدرک حاکم2/671 )

    شیخ البانی فرماتے ہیں : یہ ایک بے بنیاد روایت ہے ۔ (سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ، رقم280)

    ایک روایت سیدنا عمر سے یہ بیان کی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :

    " جب آدم سے لغزش ہوئی تو اُنہوں نے کہا : اے پروردگار! میں محمد کے واسطے سے تجھ سے مغفرت طلب کرتا ہوں ۔ اِس پر اللہ تعالٰی نے فرمایا : اے آدم ! تو محمد کو کیسے جانتا ہے ، دراں حالیکہ ابھی تو میں نے اُسے پیدا بھی نہیں کیا ؟ تب آدم نے کہا : اے میرے رب ! تونے جب مجھے اپنے ہاتھ سے تخلیق کر کے مجھ میں اپنی روح پھونکی تو میں نے اپنا سر اُٹھایا اور تیرے عرش کے پایوں پر لکھا ہوا پایا کہ : " لا الٰہ اللہ ، محمد رسول اللہ "،چنانچہ اِس سے میں نے جان لیا کہ جس کا نام تو نے اپنے نام کے ساتھ ملایا ہے وہ ضرور تیری مخلوق میں سے تجھے سب سے زیادہ محبوب ہوگا ۔ اِس پر اللہ تعالٰی نے فرمایا : تو نے سچ کہا ہے ، اے آدم ! ، وہی میری خلق میں میرا سب سے زیادہ محبوب ہے ۔ اور تو نے چونکہ اُس کے واسطے سے مغفرت مانگی ہے ؛ تَو جا میں نے تجھے بخش دیا ۔ اگر محمد نہ ہوتا تو میں تجھے پیدا ہی نہ کرتا " ۔ (مستدرک حاکم ، رقم 4228)

    حاکم کی اس روایت کو بھی امام ذھبی " موضوع " قرار دیا ہے ۔(مستدرک حاکم ، رقم 4228)

    اس روایت کے بارے میں بھی علماے حدیث وہی حکم لگاتے ہیں جو اِس سے پچھلی روایت کے بارے میں لگایا ہے۔(سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ والموضوعۃ ، رقم 25)

    شیخ عبد العزیز بن باز فرماتے ہیں : یہ روایت ، جیساکہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے واضح کردیا ہے ، ایک من گھڑت روایت ہے ۔ (مجموع فتاوی ابن باز ، 26/328)

    اِس باب کی اِن تمام روایات کو تحقیق کی نگاہ سے دیکھنے کے بعد ظاہر ہے کہ ہر عاقل آدمی اِسی نتیجے پر پہنچے گا کہ اِس طرح کی روایتوں سے کوئی دینی استدلال کیا جاسکتا ہے ، نہ کسی مذھبی اعتقاد کی بنیاد ہی اِن پر رکھی جاسکتی ہے ۔ بلکہ اِس سے آگے بڑھ کر میں یہ کہوں گا کہ اِس طرح کی احادیث کی طرف کسی مسلمان کو التفات بھی نہیں کرنا چاہیے ۔ اِس لیے کہ اِس طرح کے مضامین پر مبنی روایتیں اگر اپنی سند کے اعتبار سے بالفرض قابل اعتماد بھی ہوتیں ، تب بھی قرآنِ مجید کی روشنی میں وہ لامحالہ رد کردی جاتیں ۔ کیونکہ کوئی بھی خبر واحد ، خواہ سنداً صحیح ہی کیوں نہ ہو ، قرآن کے خلاف قطعاً قبول نہیں کی جاسکتی ۔ اور تخلیقِ جن وانس کا مقصد تو خود قرآن نے واضح کردیا ہے کہ وہ اللہ کی بندگی ہے ۔ (الذاریات51:56 )
    :جواب


Working...
X