سب سے بڑا گناہ
تخریج:
[ بخاری: 6861، مسلم:الايمان2]
تشریح:
1۔ سب گناہوں سے بڑا گناہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک کرنا ہے۔ انسان کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ اپنے پیدا کرنے والے کے ساتھ ایسے لوگوں کو شریک اور برابر ٹھہرائے جنہوں نے کچھ بھی پیدا نہیں کیا:
﴿َلَا تَجْعَلُوا لِلَّهِ أَنْدَادًا وَأَنْتُمْ تَعْلَمُونَ﴾[البقرة:22]
یہ اللہ کی غیرت کو چیلنج ہے اور اتنا بڑا گنا ہ ہے کہ دوسرے گناہ اگر اللہ چاہے تو بخش دے مگر اسے ہرگز معاف نہیں کرے گا:
﴿إِنَّ اللَّهَ لَا يَغْفِرُ أَنْ يُشْرَكَ بِهِ وَيَغْفِرُ مَا دُونَ ذَلِكَ لِمَنْ يَشَاءُ﴾[النساء:4/116]
اور یہ اتنا بڑا گناہ ہے کہ اگر انبیاء بھی اس کا ارتکاب کر بیٹھیں تو ان کے تمام اعمال برباد ہو جائیں :
﴿وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِنْ قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ﴾ [الزمر: 39/ 65]
2۔ شرک کے بعد قتل ناحق اور اس کے بعد زنا کبیرہ گناہ ہیں۔
اللہ تعالی فرماتے ہیں:
﴿وَالَّذِينَ لَا يَدْعُونَ مَعَ اللَّهِ إِلَهًا آخَرَ وَلَا يَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِي حَرَّمَ اللَّهُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا يَزْنُونَ﴾ [الفرقان: 25/ 68]
قتل ناحق اس وقت قباحت میں کئی گناہ بڑھ جاتا ہے، جب کوئی شخص اپنے ہی بچے کو اس خطرے سے قتل کر دے کہ وہ اس کے ساتھ کھائے گا اور اللہ کے وعدے پر بھی یقین نہ کرے۔
﴿وَلَا تَقْتُلُوا أَوْلَادَكُمْ خَشْيَةَ إِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُهُمْ وَإِيَّاكُمْ﴾ [الإسراء: 17/ 31]
ایک قتل ناحق، دوسرا اپنے لخت جگر کا قتل اور قطع رحم، تیسرا اللہ کے وعدے کی تکذیب اور اس پر بد ظنی۔
3۔زنا کے متعلق اللہ تعالی نے فرمایا:
﴿وَلَا تَقْرَبُوا الزِّنَا إِنَّهُ كَانَ فَاحِشَةً وَسَاءَ سَبِيلًا ﴾[الإسراء: 17/ 32]
زنا کی قباحت اس وقت بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے ، جب کوئی شخص اپنے ہمسائے کی بیوی سے زنا کرے کیونکہ ہمسایہ کا حق تو یہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کیا جائے، اس کی جان ومال اور آبرو کی حفاظت کی جائے لیکن اس کے برعکس جب ہمسایہ ہی اپنے ہمسائے کی عزت برباد کر ے ، اس کی بیوی کو خاوند کے خلاف اپنی طرف مائل کرے، اس کا گھر اجاڑنے کے درپے ہو جائے تویہ زنا کے ساتھ کئی جرائم ملنے کی وجہ سے بہت بڑا گناہ بن جاتا ہے۔
4۔ أن تزانی۔ باب مفاعلہ سے ہے، اس میں مشارکت ہوتی ہے یعنی ہمسائے کی بیوی بھی اس گناہ میں شریک ہو، اس کی رضا مندی کے ساتھ برائی کرے گی تو خاوند سے اس کی وفا ختم ہو جائے گی جس کا نتیجہ یہ ہو گا کہ اس کا گھر اجڑ جائے گا۔
5۔ حلیلۃ جارک ۔ ہمسائے کی بیوی کو حلیلۃ اس لیے کہتے ہیں کہ وہ اپنے خاوند کے لئے حلال ہوتی ہے، مقصد یہ احساس دلانا ہے کہ وہ اپنے خاوند کے لئے حلال ہے تمہارے لیے حلال نہیں۔
Comment