عَنْ زَیْدِبْنِ خَالِدٍالْجُہْنِي رَضِیَ اﷲُ عَنْہُ قَالَ : صَلّیٰ لَنَارَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، صَلاَ ۃَ الصُّبْحِ بِالْحُدَیْبِیَّۃِ ، عَلیٰ اِثْرِ سَمَائٍ(١)کَانَتْ مِنَ اللَّیْلَۃِ ۔ فَلَمَّا انْصَرَفَ النَّبِیُّ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ ، أَقْبَلَ عَلیَ النَّاسِ، فَقَالَ لَہُمْ : ''ھَلْ تَدْرُوْنَ مَاذَا قَالَ رَبُّکُمْ ؟ قَالُوْا : أﷲُ وَرَسُوْلُہ، أَعْلَمُ ، قَالَ : أَصْبَحَ مِنْ عِبَادِیْ مُؤمِنٌ بِي وَکَافِرٌ، فَأَمَّا مَنْ قَالَ : مُطِرْنَا بِفَضْلِ اﷲِ وَرَحْمَتِہِ ، فَذٰلِکَ مُؤمِنٌ بِي ، کَافِرٌ بِالْکَوْکَبِ ۔ وَأَمَّا مَنْ قَالَ: مُطِرْنَا بِنَوْءٍ (٢) کَذَا وَکَذَا ، فَذٰلِکَ کَافِرٌ بِي، مُؤمِنٌ بِالْکَوْکَبِ'' ۔
رواہ البخاري (وکذلک مالک والنسائی) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١) عصب مطر
٢) النوء : الکوکب: ربطوا نزول المطر بہ ۔واﷲ خالق الکوکب ومسبر لکل الظواھر الطبعیۃ
رواہ البخاري (وکذلک مالک والنسائی) ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
١) عصب مطر
٢) النوء : الکوکب: ربطوا نزول المطر بہ ۔واﷲ خالق الکوکب ومسبر لکل الظواھر الطبعیۃ
ترجمہ: حضرت زید بن خالد جہنی رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیںکہ ''رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے حد یبیہ کے مقام پر فجر کی نماز پڑھا ئی ۔ اس رات بارش ہوئی تھی۔ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم جب نماز سے فارغ ہوئے تولوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اورفرمایا !''تم جانتے بھی ہو کہ ہمارے پرور دگا ر نے کیا فر مادیا؟'' لوگوں نے جواب دیا کہ ''اﷲاوراس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔'' آپ صلی اﷲعلیہ وسلم نے فرما یا کہ اﷲتعا لیٰ نے ارشاد فر مایا کہ''میرے بعض بندے مجھ پرایمان لانے والے ہوگئے اوربعض کفر کرنے والے ہو گئے ۔ جس نے کہا کہ اﷲ کے فضل اوراس کی رحمت سے بارش ہوئی وہ مجھ پر ایمان لانے والا اور ستاروں کا انکار کرنے والا ہے اور جس نے کہا کہ فلا ںفلاں ستارے کی وجہ سے بارش ہوئی تو وہ ستاروںپر ایمان لانے والا اور میرا انکار کر نے والا ہے[بخاری ۔ مؤطا ۔ نسا ئی]۔''
تشریح : از مفتی عتیق الرحمٰن شہید
اس مبارک حدیث میں غور کرنے سے معلو م ہوتا ہے کہ نبی کریم صلی اﷲعلیہ وسلم سفروحضر میں اصلاح وتر بیت کے کسی بھی موقع کو ہا تھ سے نہیںجا نے دیتے تھے اور صحا بہ کرام کی بر وقت رہنما ئی کرکے اپنے فرض منصبی کو احسن طریقے سے ادا کیا کرتے تھے۔
زمانہ جا ہلیت میں لوگوں میںیہ نظر یہ پایا جا تا تھا کہ ہر نئے پیش آمدہ واقعہ کو آسما نی ستاروں کا کر شمہ سمجھا جا تا اور یہ خیال کیا جا تا کہ فلاںستارہ مہر با ن ہوگیا ہے جس کی وجہ سے زمین والوں کو یہ فائدہ پہنچاہے اورفلاں ستارہ ناراض ہوگیاہے جس کی وجہ سے یہ نقصان پہنچا ہے۔چنانچہ بارش کے بارے میں بھی ان کا نقطہ نظر اسی قسم کا تھا کہ مخصوص قسم کے ستا رے کی مہربانی سے اہل زمین سیراب کئے جاتے ہیں ۔
چونکہ اس قسم کے نظریات اور عقائد معاشرہ کے افراد میں سستی ،کاہلی اور بے عملی کے خطرناک جراثیم پیداکردیتے ہیں جو قوموں کی قوت عمل کو تباہ کرکے رکھ دیتے ہیں اور سفر کے موقع پر انسان میں مہم جوئی اورنئے حقائق کو اپنے اندر سمولینے کاایک فطری جذبہ موجزن ہوتاہے ۔اس لئے اس موقع سے بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے آپ ؐ نے وحی الٰہی کی روشنی میں صحابہ کرام کی رہنمائی فرمائی اوررات بھرکی بارش کے بعد فجر کے وقت اس تازہ پیش آمدہ واقعہ کے بارے میں صحیح حقائق اور اسلامی تعلیمات کو بیان کرنے کےلئے گفتگو کاانوکھا انداز اختیار کیا کہ '' جانتے بھی ہو! آج رات اﷲ تعالیٰ نے کیافرمادیا؟'' اس سوال سے نبی کریم ؐ صحابہ کرام کی توجہ اپنی طرف مبذول کراکے ان میں تلاش وجستجو کامادہ ابھارنا چاہتے تھے جو بدرجہ اتم حاصل ہوگیا۔
چنانچہ وہ ہمہ تن گوش ہوگئے ۔انہوں نے کہا ''اﷲ اور اس کے رسول ہی بہتر جانتے ہیں '' صحابہ کرام کے اس جواب سے ان کی خود سپردگی ،حصول علم کاجذبہ اورنئی بات جاننے کاشوق و ولولہ صاف ظاہر ہورہاتھا ۔چنانچہ آپ ؐ نے ارشاد فرمایا کہ اﷲ تعالیٰ نے فرمایاہے : کہ اس بارش پر تبصرہ کے نتیجے میں میرے بندے دوگروہوں میں منقسم ہوگئے ہیں ۔ (١) مؤمن (٢) کافر ۔ جن کاعقیدہ یہ ہے کہ مؤثر حقیقی ذات خداوندی ہے اور اسی کے فضل وکرم سے باران رحمت کانزول ہوتاہے تویہ میرے حق میں مومن اورستاروں کے حق میں کافر ہیں ۔ اور جن کاعقیدہ یہ ہے کہ فلاں آسمانی ستارے کی تاثیر سے بارش برستی ہے ۔تو وہ ستاروں کے حق میں مومن اورمیرے حق میں کافر ہیں ۔
فاعل اورمؤثر حقیقی ذات باری تعالیٰ ہے۔ وہی مسبب الاسباب ہے ۔اس کے حکم کے بغیر بارش کاایک قطرہ بھی زمین پر نہیں گرسکتا۔وہ چاہے تو''مون سون '' یابادلوں کو بطور اسباب استعمال کرلے اوران کے ذریعہ بارش برسادے اورچاہے توان کے بغیر بارش برسادے۔ایسابھی ہوسکتاہے کہ ''مون سون'' کاسارا موسم گزر جائے اور آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی رہیں اور بارش کاایک قطرہ بھی نہ برسے اورایسابھی ہوسکتاہے کہ نہ ''مون سون'' ہو اورنہ ہی بادل مگر بارش سے جل تھل ہوجائے۔
اگر فاعل اورمؤثر حقیقی ذات باری تعالیٰ کو جانتے ہوئے کسی دوسرے سبب کی طرف بارش کو منسوب کرتاہے تویہ کفر نہیں کہلائے گا۔
Comment