عرب کے لوگ قافلوں کو اور مسافروں کو لوٹنے میں بہت مشہور تھے۔ اُن کا یہ وطیرہ ہوتا تھا کہ وہ اپنے علاقے کے کسی جنگل یا باغ کی آڑ میں چھپ کر بیٹھ جاتے، اور راہ گزرتے لوگوں کو لوٹتے اور اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے..
پرانے وقتوں کی بات ہے عورتوں، مردوں، بزرگوں اور بچوں پر مشتمل ایک قافلہ عرب کے کسی ایسے ہی علاقے سے گزر رہا تھا، جہاں اہل علاقہ ڈاکوؤں کے روپ میں پہلے سے اُنکی گھات لگائے بیٹھے تھے۔ جیسے ہی یہ قافلے کے لوگ اُن کے قریب پہنچے اُنہوں نے اِن پر حملہ کر دیا گیا اور تمام سامان کو لوٹنے کے بعد جاتے جاتے قافلے والوں کی طرف سے مزاحمت کرنے کی پاداش میں اُن کے دو نہتے لوگوں کو قتل کر دیا اور تلواریں لہراتے فتح کا جشن مناتے فرار ہوگئے۔..
غریب قافلے کے لوگ اپنے پیاروں کی موت کا دُکھ مناتے روتے پیٹتے اپنے قافلہ سالار کے نقشِ قدم پر آگے بڑھتے گئے۔ لیکن کسی نے اُن کی داد رسی نہ کی اور نہ ہی اُن کے حق میں کسی نے آواز اُٹھائی۔
کچھ دِنوں کی مسافت طے کرنے کے بعد یہ قافلہ رات گزارنے کے لیے ایک صحرا میں ٹھہرا۔ قافلے کی عورتیں کھانا پکانے کا سامان کرنے لگیں، اور مرد حضرات آگ جلانے کیلئے اِردگرد سے لکڑیوں کا بندوبست کرنے لگے۔ رات کا وقت تھا اور آگ کی روشنی دور سے بڑی آسانی سے دیکھی جا سکتی تھی..
کچھ راہ بھٹکے ہوئے بھوکے گھڑ سواروں نے آگ جلتی دیکھی تو اُس طرف آ نکلے، اب اِسےقسمت کہیے یا قدرت کا کھیل کہ یہ گھڑ سوار وہی ڈاکو تھے جنہوں نے اِس قافلے کو پہلے لُوٹا تھا اور پھر اُن کے دو افراد کو قتل کر دیا تھا۔
یہ سبھی نقاب پوش ڈاکو قافلہ سالار کے پاس گئے اور بولے کہ "ہم راہ بھٹک گئے ہیں، اور بہت بھوکے بھی ہیں، اگر کچھ کھانے کو مل جائے اور کچھ دیر آرام کرنے کیلئے مناسب جگہ مل جائے تو بہت نوازش ہوگی۔۔۔!"
سالارِ قافلہ نے فوراً اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ ..!"جلدی جلدی مہمانوں کی خاطر تواضع کی جائے اور اِس سلسلے میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے کیونکہ مہمان اللہ کی رحمت سے آتے ہیں۔"
جب یہ ڈاکو اچھی طرح سے کھانا کھا چکے اور اپنی تھکاوٹ بھی دور کر چکے تو جاتے جاتے ایک ڈاکو سالارِ قافلہ سے بولا، "یقیناً اگر ہمارے چہروں پر نقاب نہ ہوتے اور آپ ہمیں پہچان لیتے تو کبھی ہماری اتنی خاطر مدارت نہ کرتے، کیونکہ آپ جانتے نہیں ہو کہ ہم کون ہیں؟؟"
سالارِ قافلہ نے مسکراتے ہوئے کہا، "برخودار! بے شک تم لوگوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے ڈھانپ رکھا ہے اور رات کا اندھیرا بھی ہے۔ لیکن میں تمہارے نقابوں کے اندر چھپے ہوئے چہروں کو بھلا کیسے بھولا سکتا ہوں؟ تم سب وہی لوگ ہو جنہوں نے پہلے ہمیں لُوٹا تھا اور پھر ہمارے دو افراد کو قتل کیا تھا جن میں سے ایک میرا اپنا سگا بھائی تھا۔۔!"
سالارِ قافلہ کی بات سن کر وہ ڈاکو چونک گئے اور بولے "تو پھر سب کچھ جاننے کے بعد بھی آپ نے ہمارے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیوں کیا۔۔؟"
سالارِ قافلہ بولا، "یہ تو اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ اُس دِن ہم لوگ آپکے مہمان تھے، جو آپ سے ہو سکا آپ نے ہمارے ساتھ کیا، لیکن آج آپ لوگ ہمارے مہمان ہو، جو ہم سے ہو سکا وہ ہم نے کیا، اللہ تو سب دیکھ رہا ہے وہی اِس کا اجر دے گا۔۔۔!"
بھائیو اور بہنوں ! "دین کو اختیار کرنا اور اسلام کی بڑی بڑی باتیں کرنا بہت آسان ہے، لیکن اپنے کردار کے نمونے سے دنیا کو زیر کرنا اور راہِ راست پر لانا ایک مشکل امر ضرور ہے لیکن یہی اصل دین ہے اور یہی حقیقی انسانیت ہے۔"
(ایک عربی ناول سے ماخوذ)
غریب قافلے کے لوگ اپنے پیاروں کی موت کا دُکھ مناتے روتے پیٹتے اپنے قافلہ سالار کے نقشِ قدم پر آگے بڑھتے گئے۔ لیکن کسی نے اُن کی داد رسی نہ کی اور نہ ہی اُن کے حق میں کسی نے آواز اُٹھائی۔
کچھ دِنوں کی مسافت طے کرنے کے بعد یہ قافلہ رات گزارنے کے لیے ایک صحرا میں ٹھہرا۔ قافلے کی عورتیں کھانا پکانے کا سامان کرنے لگیں، اور مرد حضرات آگ جلانے کیلئے اِردگرد سے لکڑیوں کا بندوبست کرنے لگے۔ رات کا وقت تھا اور آگ کی روشنی دور سے بڑی آسانی سے دیکھی جا سکتی تھی..
کچھ راہ بھٹکے ہوئے بھوکے گھڑ سواروں نے آگ جلتی دیکھی تو اُس طرف آ نکلے، اب اِسےقسمت کہیے یا قدرت کا کھیل کہ یہ گھڑ سوار وہی ڈاکو تھے جنہوں نے اِس قافلے کو پہلے لُوٹا تھا اور پھر اُن کے دو افراد کو قتل کر دیا تھا۔
یہ سبھی نقاب پوش ڈاکو قافلہ سالار کے پاس گئے اور بولے کہ "ہم راہ بھٹک گئے ہیں، اور بہت بھوکے بھی ہیں، اگر کچھ کھانے کو مل جائے اور کچھ دیر آرام کرنے کیلئے مناسب جگہ مل جائے تو بہت نوازش ہوگی۔۔۔!"
سالارِ قافلہ نے فوراً اپنے لوگوں کو حکم دیا کہ ..!"جلدی جلدی مہمانوں کی خاطر تواضع کی جائے اور اِس سلسلے میں کسی قسم کی غفلت کا مظاہرہ نہ کیا جائے کیونکہ مہمان اللہ کی رحمت سے آتے ہیں۔"
جب یہ ڈاکو اچھی طرح سے کھانا کھا چکے اور اپنی تھکاوٹ بھی دور کر چکے تو جاتے جاتے ایک ڈاکو سالارِ قافلہ سے بولا، "یقیناً اگر ہمارے چہروں پر نقاب نہ ہوتے اور آپ ہمیں پہچان لیتے تو کبھی ہماری اتنی خاطر مدارت نہ کرتے، کیونکہ آپ جانتے نہیں ہو کہ ہم کون ہیں؟؟"
سالارِ قافلہ نے مسکراتے ہوئے کہا، "برخودار! بے شک تم لوگوں نے اپنے چہروں کو نقاب سے ڈھانپ رکھا ہے اور رات کا اندھیرا بھی ہے۔ لیکن میں تمہارے نقابوں کے اندر چھپے ہوئے چہروں کو بھلا کیسے بھولا سکتا ہوں؟ تم سب وہی لوگ ہو جنہوں نے پہلے ہمیں لُوٹا تھا اور پھر ہمارے دو افراد کو قتل کیا تھا جن میں سے ایک میرا اپنا سگا بھائی تھا۔۔!"
سالارِ قافلہ کی بات سن کر وہ ڈاکو چونک گئے اور بولے "تو پھر سب کچھ جاننے کے بعد بھی آپ نے ہمارے ساتھ اتنا اچھا سلوک کیوں کیا۔۔؟"
سالارِ قافلہ بولا، "یہ تو اپنے اپنے نصیب کی بات ہے۔ اُس دِن ہم لوگ آپکے مہمان تھے، جو آپ سے ہو سکا آپ نے ہمارے ساتھ کیا، لیکن آج آپ لوگ ہمارے مہمان ہو، جو ہم سے ہو سکا وہ ہم نے کیا، اللہ تو سب دیکھ رہا ہے وہی اِس کا اجر دے گا۔۔۔!"
بھائیو اور بہنوں ! "دین کو اختیار کرنا اور اسلام کی بڑی بڑی باتیں کرنا بہت آسان ہے، لیکن اپنے کردار کے نمونے سے دنیا کو زیر کرنا اور راہِ راست پر لانا ایک مشکل امر ضرور ہے لیکن یہی اصل دین ہے اور یہی حقیقی انسانیت ہے۔"
(ایک عربی ناول سے ماخوذ)
Comment