جناب محترم ڈرائیور اور تمام مفکرین کو دعوت دی جاتی ہے وہ موت جیسی حقیقت سے حتی الامکان پردہ اٹھانے کی کوشش کریں چاہے وہ مذہبی نظریہ ہو خواہ سائنسی امید ہے اس موضوع سے ہمیں کچھ نہ کچھ موت جیسی حقیقت کو سمجھنے کا نہ صرف موقع ملے گا بلکہ کچھ گم شدہ پہلوؤں کا بھی احاطہ ہوگا ۔۔
چونکہ یہ موضوع اس نا چیز نے منتخب کیا ہے تو سب سے پہلے میں موت کی حقیقت سائنسی رو سے بیان کرنے کی سعی کرتا ہوں۔
سائنسی لحاظ سے موت کے بعد کچھ نہیں اس کی توجیہ اس طرح ہے انسان بشمول یہ کائنات ایٹموں کا مجموعہ ہے چاہے وہ کیلشیم ہو کاربن ہو فاسفورس یا پھر آئرن۔ ۔سائنسی لحاظ سے انسان بے شمار کیمکلز کے مجموعے کے سوا کچھ نہیں جب کیمیکل کا ایکشن ختم ہوجاتا ہے تو ایٹم منتشر ہوکر ختم ہوجاتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیمکلز انسان کو سوچنے سمجھنے چلنے پھرنے کی صلاحیت کیسے دیتے ہیں جبکہ یہ خود بے جان ہیں ویسے تو زندگی ہمارا موضوع نہیں مگر موت کو سمجھنے کے لئے زندگی کو سمجھنا ضروری ہے سوال تو دلچسپ ہے باقی چیزوں کے علاوہ مذہب کی بنیاد اس سوال پر بھی ہے تو اس کے متعلق تو ایک نظریہ یہ ہے آج سے کروڑوں سال پہلے کسی سمندر کے کنارے پانی اور ان کیمیکلز کا ملاپ ہوا ان کے ملاپ میں ایک مادہ جسے امائنو ایسڈ کہا جاتا ہے شامل ہوگیا ۔ امائنو ایسڈ کے متعلق کہا جاتا ہے یہ ہماری زمین پر دم دار ستارے کے ٹکرانے کی وجہ سے آیا اور یہ دم دار ستارا بھٹکتا ہوا ہمارے سورج سے ٹکرایا تھا جس سے نظام شمسی وجود میں آیا دم دار ستارے کی دم میں برف ہی برف ہوتی ہے اور اس میں یہ امائنو ایسڈ محفوظ رہتا ہے بقایا ستارا خلا میں بھٹک کر غائب ہوگیا۔
اس دم دار ستارے کے متعلق کہا جاتا ہے یہ کروڑوں اربوں میل کا فاصلہ طے کرتے ہیں اور ان کی دم کہیں نہ کہیں سے امائنو ایسڈ حاصل کرلیتی ہے اور اس کائنات میں بکھیرتی رہتی ہے اس وقت زمین کا سارا امائنو ایسڈ جانداروں میں منتقل ہوچکا ہے
سمندر کے کنارے اس مجموعے سے یک آکائی خلیہ کی پیدائش فنجائی سے نبادات اور پھر دہرے رابو نیوکلک جانداروں سے یہاں تک کی کہانی سیکڑوں بار دہرائی جاچکی ہے۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب سائنسی لحاظ سے جب انسان کی اگر طبعی موت ہوتو اس کا سب سے پہلے دل کام کرنا چھوڑتا ہے چونکہ انسان حرارتی توانائی سے چلتا ہے اور اس حرارت کو پہچانے کے لئے غذائی ایندھن کو خون کے ذریعے دل پہنچاتا ہے دل کے کام بند کرتے ہی پہپھڑے کام روک دیتے ہیں اس لحاظ سے انسان ٹھنڈا ہوجاتا ہے کیونکہ حرارتی توانائی بننا بند ہوجاتی ہے چونکہ خون کی گردش بھی دل کے کام بند کرتے ہی رک جاتی ہے تو دماغ میں خون کی سپلائی بھی بند ہوجاتی جس سے دماغ مردہ ہوجاتا ہے وہ تمام خلئے جو دیکھنے سننے سوچنے کا کام کرتے ہیں اپنا کام بند کردیتے ہیں اس لحاظ سے یہ وہ مرحلہ ہے جب آپ گہری سے گہری نیند میں ہوں اور کچھ نہ سمجھے سوچیں نہ ہی خواب دیکھیں یعنی انسان ہر چیز سے بے نیاز ہوجائے بعد میں خلیات منتشر ہوکر بکھر جاتے ہیں۔۔
تو ہمارے عزیز محترم یہ تو موت کا سائنسی خلاصہ ہے جس میں نہ کسی روح کا عمل دخل ہے نہ کسی موت کے فرشتے کا نہ کچھ اور آپ اپنی فہم یا ریسرچ سے اس حقیقت پر روشنی ڈالیں خواہ وہ مذہبی ہو چاہے سائنسی یا کوئی فلسفہ۔
چونکہ یہ موضوع اس نا چیز نے منتخب کیا ہے تو سب سے پہلے میں موت کی حقیقت سائنسی رو سے بیان کرنے کی سعی کرتا ہوں۔
سائنسی لحاظ سے موت کے بعد کچھ نہیں اس کی توجیہ اس طرح ہے انسان بشمول یہ کائنات ایٹموں کا مجموعہ ہے چاہے وہ کیلشیم ہو کاربن ہو فاسفورس یا پھر آئرن۔ ۔سائنسی لحاظ سے انسان بے شمار کیمکلز کے مجموعے کے سوا کچھ نہیں جب کیمیکل کا ایکشن ختم ہوجاتا ہے تو ایٹم منتشر ہوکر ختم ہوجاتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیمکلز انسان کو سوچنے سمجھنے چلنے پھرنے کی صلاحیت کیسے دیتے ہیں جبکہ یہ خود بے جان ہیں ویسے تو زندگی ہمارا موضوع نہیں مگر موت کو سمجھنے کے لئے زندگی کو سمجھنا ضروری ہے سوال تو دلچسپ ہے باقی چیزوں کے علاوہ مذہب کی بنیاد اس سوال پر بھی ہے تو اس کے متعلق تو ایک نظریہ یہ ہے آج سے کروڑوں سال پہلے کسی سمندر کے کنارے پانی اور ان کیمیکلز کا ملاپ ہوا ان کے ملاپ میں ایک مادہ جسے امائنو ایسڈ کہا جاتا ہے شامل ہوگیا ۔ امائنو ایسڈ کے متعلق کہا جاتا ہے یہ ہماری زمین پر دم دار ستارے کے ٹکرانے کی وجہ سے آیا اور یہ دم دار ستارا بھٹکتا ہوا ہمارے سورج سے ٹکرایا تھا جس سے نظام شمسی وجود میں آیا دم دار ستارے کی دم میں برف ہی برف ہوتی ہے اور اس میں یہ امائنو ایسڈ محفوظ رہتا ہے بقایا ستارا خلا میں بھٹک کر غائب ہوگیا۔
اس دم دار ستارے کے متعلق کہا جاتا ہے یہ کروڑوں اربوں میل کا فاصلہ طے کرتے ہیں اور ان کی دم کہیں نہ کہیں سے امائنو ایسڈ حاصل کرلیتی ہے اور اس کائنات میں بکھیرتی رہتی ہے اس وقت زمین کا سارا امائنو ایسڈ جانداروں میں منتقل ہوچکا ہے
سمندر کے کنارے اس مجموعے سے یک آکائی خلیہ کی پیدائش فنجائی سے نبادات اور پھر دہرے رابو نیوکلک جانداروں سے یہاں تک کی کہانی سیکڑوں بار دہرائی جاچکی ہے۔
اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب سائنسی لحاظ سے جب انسان کی اگر طبعی موت ہوتو اس کا سب سے پہلے دل کام کرنا چھوڑتا ہے چونکہ انسان حرارتی توانائی سے چلتا ہے اور اس حرارت کو پہچانے کے لئے غذائی ایندھن کو خون کے ذریعے دل پہنچاتا ہے دل کے کام بند کرتے ہی پہپھڑے کام روک دیتے ہیں اس لحاظ سے انسان ٹھنڈا ہوجاتا ہے کیونکہ حرارتی توانائی بننا بند ہوجاتی ہے چونکہ خون کی گردش بھی دل کے کام بند کرتے ہی رک جاتی ہے تو دماغ میں خون کی سپلائی بھی بند ہوجاتی جس سے دماغ مردہ ہوجاتا ہے وہ تمام خلئے جو دیکھنے سننے سوچنے کا کام کرتے ہیں اپنا کام بند کردیتے ہیں اس لحاظ سے یہ وہ مرحلہ ہے جب آپ گہری سے گہری نیند میں ہوں اور کچھ نہ سمجھے سوچیں نہ ہی خواب دیکھیں یعنی انسان ہر چیز سے بے نیاز ہوجائے بعد میں خلیات منتشر ہوکر بکھر جاتے ہیں۔۔
تو ہمارے عزیز محترم یہ تو موت کا سائنسی خلاصہ ہے جس میں نہ کسی روح کا عمل دخل ہے نہ کسی موت کے فرشتے کا نہ کچھ اور آپ اپنی فہم یا ریسرچ سے اس حقیقت پر روشنی ڈالیں خواہ وہ مذہبی ہو چاہے سائنسی یا کوئی فلسفہ۔
Comment