Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

موت کی حقیقت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • موت کی حقیقت

    جناب محترم ڈرائیور اور تمام مفکرین کو دعوت دی جاتی ہے وہ موت جیسی حقیقت سے حتی الامکان پردہ اٹھانے کی کوشش کریں چاہے وہ مذہبی نظریہ ہو خواہ سائنسی امید ہے اس موضوع سے ہمیں کچھ نہ کچھ موت جیسی حقیقت کو سمجھنے کا نہ صرف موقع ملے گا بلکہ کچھ گم شدہ پہلوؤں کا بھی احاطہ ہوگا ۔۔
    چونکہ یہ موضوع اس نا چیز نے منتخب کیا ہے تو سب سے پہلے میں موت کی حقیقت سائنسی رو سے بیان کرنے کی سعی کرتا ہوں۔
    سائنسی لحاظ سے موت کے بعد کچھ نہیں اس کی توجیہ اس طرح ہے انسان بشمول یہ کائنات ایٹموں کا مجموعہ ہے چاہے وہ کیلشیم ہو کاربن ہو فاسفورس یا پھر آئرن۔ ۔سائنسی لحاظ سے انسان بے شمار کیمکلز کے مجموعے کے سوا کچھ نہیں جب کیمیکل کا ایکشن ختم ہوجاتا ہے تو ایٹم منتشر ہوکر ختم ہوجاتے ہیں اب سوال یہ ہے کہ کیمکلز انسان کو سوچنے سمجھنے چلنے پھرنے کی صلاحیت کیسے دیتے ہیں جبکہ یہ خود بے جان ہیں ویسے تو زندگی ہمارا موضوع نہیں مگر موت کو سمجھنے کے لئے زندگی کو سمجھنا ضروری ہے سوال تو دلچسپ ہے باقی چیزوں کے علاوہ مذہب کی بنیاد اس سوال پر بھی ہے تو اس کے متعلق تو ایک نظریہ یہ ہے آج سے کروڑوں سال پہلے کسی سمندر کے کنارے پانی اور ان کیمیکلز کا ملاپ ہوا ان کے ملاپ میں ایک مادہ جسے امائنو ایسڈ کہا جاتا ہے شامل ہوگیا ۔ امائنو ایسڈ کے متعلق کہا جاتا ہے یہ ہماری زمین پر دم دار ستارے کے ٹکرانے کی وجہ سے آیا اور یہ دم دار ستارا بھٹکتا ہوا ہمارے سورج سے ٹکرایا تھا جس سے نظام شمسی وجود میں آیا دم دار ستارے کی دم میں برف ہی برف ہوتی ہے اور اس میں یہ امائنو ایسڈ محفوظ رہتا ہے بقایا ستارا خلا میں بھٹک کر غائب ہوگیا۔
    اس دم دار ستارے کے متعلق کہا جاتا ہے یہ کروڑوں اربوں میل کا فاصلہ طے کرتے ہیں اور ان کی دم کہیں نہ کہیں سے امائنو ایسڈ حاصل کرلیتی ہے اور اس کائنات میں بکھیرتی رہتی ہے اس وقت زمین کا سارا امائنو ایسڈ جانداروں میں منتقل ہوچکا ہے
    سمندر کے کنارے اس مجموعے سے یک آکائی خلیہ کی پیدائش فنجائی سے نبادات اور پھر دہرے رابو نیوکلک جانداروں سے یہاں تک کی کہانی سیکڑوں بار دہرائی جاچکی ہے۔
    اب آتے ہیں اصل موضوع کی جانب سائنسی لحاظ سے جب انسان کی اگر طبعی موت ہوتو اس کا سب سے پہلے دل کام کرنا چھوڑتا ہے چونکہ انسان حرارتی توانائی سے چلتا ہے اور اس حرارت کو پہچانے کے لئے غذائی ایندھن کو خون کے ذریعے دل پہنچاتا ہے دل کے کام بند کرتے ہی پہپھڑے کام روک دیتے ہیں اس لحاظ سے انسان ٹھنڈا ہوجاتا ہے کیونکہ حرارتی توانائی بننا بند ہوجاتی ہے چونکہ خون کی گردش بھی دل کے کام بند کرتے ہی رک جاتی ہے تو دماغ میں خون کی سپلائی بھی بند ہوجاتی جس سے دماغ مردہ ہوجاتا ہے وہ تمام خلئے جو دیکھنے سننے سوچنے کا کام کرتے ہیں اپنا کام بند کردیتے ہیں اس لحاظ سے یہ وہ مرحلہ ہے جب آپ گہری سے گہری نیند میں ہوں اور کچھ نہ سمجھے سوچیں نہ ہی خواب دیکھیں یعنی انسان ہر چیز سے بے نیاز ہوجائے بعد میں خلیات منتشر ہوکر بکھر جاتے ہیں۔۔

    تو ہمارے عزیز محترم یہ تو موت کا سائنسی خلاصہ ہے جس میں نہ کسی روح کا عمل دخل ہے نہ کسی موت کے فرشتے کا نہ کچھ اور آپ اپنی فہم یا ریسرچ سے اس حقیقت پر روشنی ڈالیں خواہ وہ مذہبی ہو چاہے سائنسی یا کوئی فلسفہ۔
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

  • #2
    Re: موت کی حقیقت

    بعض مذہبی یہ دلیل یا سوال کرکے بغلیں بجاتے نہیں تھکتے کہ سائنس میں اتنی طاقت ہے تو ایک ادنیٰ سی مکھی پیدا کرکے دیکھادیں یہ سوال کافی مزاح خیز ہے سائنس ان سے سوال کرتی ہے آپ ایک مردہ مکھی کو زندہ کرکے دیکھادیں چاہے پوری دنیا مل کر دعائیں مانگے ۔ چونکہ سائنس اچھی طرح جانتی ہے بے جان چیز میں جان ڈالنا ناممکن ہے جو ایسا دعویٰ کرتے ہیں وہ جاہلوں کی دنیا کے باسی ہیں۔
    جب سائنس کہتی ہے صرف جاندار چیز سے ہی جاندار چیز وجود میں آسکتی اور وہ بھی اسی کی تقریباؑ کاپی صورت میں بھی اور عادت میں حتکہ فطرت میں بھی تو اس کے پیچھے ٹھوس ثبوت ہوتے ہیں ناکہ بے دلیل باتیں
    اس پر کچھ عرصہ پہلے میں نے پڑھا تھا کہ ایک فرشتہ ماں کے پیٹ میں بچے میں روح پھونکتا ہے تو وہ جی اٹھتا ہے کیا آج سائنس آج اتنی بیوقوف ہے کہ جو دعویٰ کرتی ہے جاندار سے جاندار وجود میں آتا چیکہ کروڑوں سال پہلے اتفاقی سادہ ترین یک خلیہ وجود میں آگیا اور آج ارتقاء کرتے اربوں خلیات کا مجموعہ بن گیا۔ کیا وہ نہیں نہیں جانتے ماں کے پیٹ میں زندہ جرثومہ پرورش پاتا جو زندہ انسان سے منتقل ہوتا ہے جو ننھے بچے سے بالغ انسان بن جاتا ہے کیا کوئی اس کو رد کرسکتا ہے اگر ہاں تو وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے
    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

    Comment


    • #3
      Re: موت کی حقیقت

      اہل علم کے رپلائی کا منتظر رہوں گا

      ویسے ہمارے فورم کو کسی جدت پسند عالم کی اشدضرورت ہے

      جو تو کافر ہوگیا تو ملحد ہوگیا کے فتوے نہ لگائے بلکہ سائنس کو بھی سمجھتا ہو اور دین کے دلائل بھی اُس کے پاس ہوں
      :star1:

      Comment


      • #4
        Re: موت کی حقیقت

        Originally posted by S.Athar View Post
        اہل علم کے رپلائی کا منتظر رہوں گا

        ویسے ہمارے فورم کو کسی جدت پسند عالم کی اشدضرورت ہے

        جو تو کافر ہوگیا تو ملحد ہوگیا کے فتوے نہ لگائے بلکہ سائنس کو بھی سمجھتا ہو اور دین کے دلائل بھی اُس کے پاس ہوں


        اہل اسلام کا یہی المیہ رہا ہے جب بھی کسی قربانی کی ضرورت پڑتی ہے تو وہ ایک دوسرے کا منہ تکنے لگتے ہیں ، جب جواب نہیں بن پاتا تو شریعت کی بات کرکے خاموش کراتے ہیں
        میں پوچھتا ہوں ایسا کب تک ہوگا کب تک ایسا کرکے خاموش کرایا جاسکتا ہے ؟ کیا یہ اسلام کی خدمت نہیں تھی آپ خود اس کا جواب دیتے؟
        اکثر لوگ ایسی باتوں کے سوال پر سوال کرنے والے کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں مگر کیا وہ یہ نہیں جانتے سائنس جیسے جیسے طاقتور ہورہی ہے مذاہب کمزور پڑنے لگے ہیں
        یہ چنگاری آہستہ آہستہ مذاہب کو راکھ کررہی ہے۔
        آخر میں مجھے آپ کی اعلیٰ ظرفی ، وسیع القلبی اور بالغ نظری کی داد دینی پڑے گئی کہ اب آپ ہلکے ہلکے سمجھداری اور بردباری کا مظاہرہ کرنے لگئے ہیں نہ کہ جزبات میں بہ کر کج فہمی اور تنگ نظری کا ثبوت
        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

        Comment


        • #5
          Re: موت کی حقیقت

          جمیل صاحب قربانی تو یہ مذہب دیتا ہی رہا ہے اس کا تو ہر سال قربانی ہی سے شروع ہوتا ہے قربانی پر ہی ختم ہوتا ہے
          جب اس مزہب کے ماننے والے قربانی دیتے رہے تو دینا پر چھائے رہے جب قربانی سے آنکھ چھڑانا شروع کی تب یہ محکوم ہوتے چلے گئے
          بہت سے لوگ ماضی سے یکسر نظریں چرا کر کہہ دیتے ہیں کہ آج ملسمانوں نے کیا ایجاد کیا یا یہ شدت پسند کیوں ہیں
          مجھے ہنسی آتی ہے اُن کی علمیت اور وسیع النظری پر اُن کو معلوم ہے کہ آج کی سائنس مانتی ہےکہ اُن کی بنیاد مسلمان سائنسدانوں کے نظریات و ایجادات پر کھڑی ہے
          لیکن چونکہ بنیاد زمین میں چھپ جاتی ہے اور باہری عمارت کی خوبصورتی ہی سب کو نظر آتی ہے اسی لئے بنیاد کی مظبوطی کی جانب کوئی توجہ نہیں دیتا۔
          آپ نے ایک مثال تو سنی ہوگی کہ جس کے گھر دانے اُس کے کملے بھی سیانے
          یہی حال قوموں کا ہے جب مسلمان دنیا پر راج کر رہے تھے عوام کو روزی روزگار کی زیادہ فکر نہ تھی اور حکمران اپنے اہل علم کا وظیفہ مقرر کر دیتے تھے
          تو وہ افراد روزی روزگار سے بے فکر ہوکر اپنی سوچوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتے تھے
          یہی سب بعد میں دوسری اقوام کے ساتھ ہوا جب فاتح بنتے گئے عوام کو سہولیات میسر آئیں تو کچھ خاص زہن کے لوگوں کو اپنی زہنی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کا موقع ملا۔
          جہاں تک بات رہی کہ میں خود جواب دیتا تو اس بارے میں آپ جانتے ہی ہیں کہ میری علمی قابلیت صفر ہے تو ایسا فرد دین کے وسیع موزع پر دلائل کے ساتھ بات نہ کر پایا تو وہ ہار میری ہار نہیں دین کی ہار کہلائے گی
          تو میں اپنی کج علمی کے بنا پر یہ بارِ گراں نہیں اُٹھا سکتا۔
          پیغام کے صفحات میری وسیع القلبی اور اعلیٰ ظرفی کے ثبوت کے لئے کافی ہیں آپ کی مہر تصدیق کی ضرورت نہیں۔کبھی کبھار تو ہر فرد کچھ نہ کچھ جزباتی ہوہی جاتا ہے ۔
          تو اس کبھی کبھار کو اس کی عادت نہیں سمجھا جاسکتا۔:)۔
          :star1:

          Comment


          • #6
            Re: موت کی حقیقت

            جناب اطہر صاحب اگر ڈر کی بلی گود سے نہیں اتاریں گئے اور یہی سوچتے رہے گئے کہ یہ بلی بھاگ جائے گئی تو کام کیسے بنے گا مقدر بھر کوشش سے شائد آپ وہ کرجائیں جس سے دین کا بھلا ہوجائے
            ماشاءاللہ پڑھے لکھے ہیں سائنس کا بھی شعوررکھتے ہیں دین کی بھی سمجھ بوچھ ہے ہمت تو کریں کیا پتہ آپ کی یہ ہمت کتنوں کا بھلا کردے
            ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
            سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

            Comment


            • #7
              Re: موت کی حقیقت

              Mout pa likhna ya Hyaat Bad az mout pa roshni dalni koi asan ilfaz ma batay mjhe
              :(

              Comment


              • #8
                Re: موت کی حقیقت

                Originally posted by Dr Faustus View Post
                Mout pa likhna ya Hyaat Bad az mout pa roshni dalni koi asan ilfaz ma batay mjhe

                آپ موت اس کی کیفیت اور حقیقت پر روشنی ڈالیں بعد از موت زندگی کی کم از کم سائنس میں کوئی گنجائش نہیں پھر بھی اگر آپ کچھ ایسا کہنا چاہیں جو عقلی دلائل سے ثابت ہوتو موسٹ ویلکم
                ورنہ ہوگا یہ کہ بعد از موت زندگی پر جتنی بھی بات ہوگی یا تو وہ افسانوی بن جائے گئی یا طنز

                ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                Comment


                • #9
                  Re: موت کی حقیقت

                  چکسبست نرائین
                  زندگی کیا ہے عناصر میں ظہور ترتیب
                  موت کیا ہے۔۔۔ انہی عناصر کا پریشان ہونا

                  زندگی چھ عناصر سے وجود میں آئی ہے ہائیڈروجن ہیلیم کاربن نائٹروجن اکسیجن اور نی اون۔۔مگر انسان ان چھ بنیادی عناصر کے استعمال سے ایک زندہ خلیہ جیسی حقیر مخلوق بھی تخللیق نہیں کر سکا۔۔سوال یہ وہ کون سا دور تھاکیسے عوامل تھے کیسے حالات تھے جن کے سبب ان چھ عناصر میں ظہور ترتیب سے زندگی پیدا ہوئی۔۔۔۱۹۵۰ میں شگاگو یونیورسٹی کے ایک طالب علم اسٹینلے ملر نے مشہور تجربہ کیا اس نے میتھین امونیا اور ہائیڈوروجن گیسوں کے مجوعے گو گرم کیا اور ابی بخارات کی موجودگی میں برقی شرشرارے اس میں سے گزارے ایک ہفتہ تک یہ تجربہ جاری رہا نتیجہ بڑا سننسی خیز تھا میتھین میں موجود کاربن نے امائینو ایسڈ بنا ڈالا۔۔اس تجربے کے بعد ایک سلسہ چل نکلا اور انسان خلیہ خود سے بنانے پر قادر ہوگیا

                  مگر اصل مسئلہ وہی خلیہ تو بن گیا لیکن اس میں زندگیکس طرح تخلیق ہوئی

                  جاری ہے میں اپنی بات بڑھاتے ہوئے موت کی طرف لے جاوں گا

                  خوش رہیں

                  عامر۔۔
                  :(

                  Comment


                  • #10
                    Re: موت کی حقیقت

                    عامر مجھے آپ کی اگلی لکھائی کا انتظار رہے گا ٹھیک ہے لکھنا تھوڑا مشکل ہوتا مگر اس سے کم از کم انسان کو اپنے جزبات کے اظہار کا موقع تو ملتا ہے اب غائب مت ہوجانا
                    :)
                    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                    Comment

                    Working...
                    X