حضرت موسیٰ
جب بنی سرائیل کو غلامی کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہوئے تقریبا ۲۱۵ سال سال کا زمانہ گزر گیا تو فرعوننہ حکمدیا کہ بنی اسرائیل کے آئندہ جو بھی لڑکا پیدا ہوگا وہ ہلاک کر دیا جائے لیکن اتفاق سے ایک لڑکا بچ گیا جسکو فرعون کی لڑکی نے نیل میں بہتا دیکھ کر بچا لیا اور اس کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ جوان ہوگیا۔۔ایک دن اس نے ایک مصری کو ہلاک کیا اور بھاگ کر مدین پہنچا یہاں اس کی ملاقات اک راہب سے ہوتی ہے جس کی سات لڑکیاں تھیں ان میں سے ایک سے شادی کرلی اور بیھڑیں چرانے لگا۔۔یہ نجوان موسیٰ تھے۔۔
ایک دن بھیڑیں چراتے ایک مشتعل جھاڑی کے اندر خدا ظاہر ہوا اور موسیٰ کو حکم دیا کہ فرعون سے جا کر بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کرو اور ان کے ساتھ بیضا اور عصا کا معجزہ بھی عطا کیا۔۔۔ عصا کا مجزہ یہ تھا کہ جس وقت موسیٰ نے اسے زمین پر ڈالا تو سانپ بن جاتا تھا اور جب اٹھا لیتے تو عصا کا عصا۔۔ید بیضا یہ کہجب وہ اپنے گریباں میں ہاتھ ڈالتے اور نکالتے تو وہ چمکنے لگتا تھا۔۔
الغرض موسیٰ ان معجزات کے حربہ سے آراستہ ہو کر مصر چلے ان کے بھائی ہارون بھی ان کی اعانت کے لیے مامور کئے گئے مصر پہنچ کر بنی اسرائیل کو جمع کیا اور معجزے دکھا کر پیا م خدا وندی سنایا۔۔۔ سب نے ان کو پیغمبر تسلیم کر لیا تو یہ فرعون کےپاس گئے اور خدا کا پیام سنا کر بنی اسرائیل کی آزای کامطالبہ پیش کیا لیکن فرعون نے اور زیادہ سختی کر دی موسیٰ نے خدا سے عرض کیا کہ فرعون نہیں سنتا۔۔حکم ہوا کہ پھر جائو چنانچہ یہ گئے اور اس مرتبہ اپنے عصا کا معجزہ دکھایا۔۔۔فرعون نے اپنے جادوگروں کو بلایا انہوں نے اپنی لکڑیاں سانپ بنا کر پیش کی جنہیں موسیٰ کا عصا نگل گیا لیکن اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ وہا کہ فرعون نے موسیٰ کو ایک بڑا جادوگر سمجھ کر ان کا مطالبہ رد کر دیا۔۔
حیرت ناک امر یہ ہے کہ موسیٰ و ہاروں نے فرعون کے پاس جا کر ایک لفظ بھی آزادی کی حمائت اور غلامی کی مزمت میں نہیں کہا۔۔انہوں ے مطلقا بحث بھی نہیں کی کہ نوع انسانی اپنی محنت کی پیداوار س پورا فائدہ اٹھانے کی مستحق ہے اور ایسے مالک و آقا جو مزدوروں اور غلاموں کے منہ سے نوالہ چھین لیتے ہیں عرصہ تک برسر اقتدار نہیں رہسکتے اور وہ قوم جو دوسروں کا غلام بنا لیتی ہے خود بھی غلام ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔۔
کس قدر عجیب بات ہے کہ موسیٰ اپنی قوم کو غلامی سے آزادی دلوانا چاہتے تھے لیکن فرون کے پاس جا کر ایک لفظ بھی پند و نصیحت کا نہیں کہتے اور فورا عصا کو سانپ بن اکر خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں کیا کسی مصلح یا پیغمبر کے اس طرز عمل کو مستحن سمجھا جا سکتا ہے کہ درستگی اخلاق کا درس دینے کے بجائے وہ صرف ایسے مظاہروں سے کام لے جنہیں فریق ثانی بھی شعبدہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہ دے سکے۔۔۔اس لئے اگر فرعون نے عصائے موسی کو معجزہ دیک کر بھی مطالبہ ازادی پورا نہیں کیا تو تعجب کی بات نہیں کیونکہ خرق عدات کی نمائش اصلاح اخلاق کے لیے کبھی مفید نہیں ہو سکتی،،،
جاری ہے
جب بنی سرائیل کو غلامی کی حالت میں زندگی بسر کرتے ہوئے تقریبا ۲۱۵ سال سال کا زمانہ گزر گیا تو فرعوننہ حکمدیا کہ بنی اسرائیل کے آئندہ جو بھی لڑکا پیدا ہوگا وہ ہلاک کر دیا جائے لیکن اتفاق سے ایک لڑکا بچ گیا جسکو فرعون کی لڑکی نے نیل میں بہتا دیکھ کر بچا لیا اور اس کی پرورش کی یہاں تک کہ وہ جوان ہوگیا۔۔ایک دن اس نے ایک مصری کو ہلاک کیا اور بھاگ کر مدین پہنچا یہاں اس کی ملاقات اک راہب سے ہوتی ہے جس کی سات لڑکیاں تھیں ان میں سے ایک سے شادی کرلی اور بیھڑیں چرانے لگا۔۔یہ نجوان موسیٰ تھے۔۔
ایک دن بھیڑیں چراتے ایک مشتعل جھاڑی کے اندر خدا ظاہر ہوا اور موسیٰ کو حکم دیا کہ فرعون سے جا کر بنی اسرائیل کی آزادی کا مطالبہ کرو اور ان کے ساتھ بیضا اور عصا کا معجزہ بھی عطا کیا۔۔۔ عصا کا مجزہ یہ تھا کہ جس وقت موسیٰ نے اسے زمین پر ڈالا تو سانپ بن جاتا تھا اور جب اٹھا لیتے تو عصا کا عصا۔۔ید بیضا یہ کہجب وہ اپنے گریباں میں ہاتھ ڈالتے اور نکالتے تو وہ چمکنے لگتا تھا۔۔
الغرض موسیٰ ان معجزات کے حربہ سے آراستہ ہو کر مصر چلے ان کے بھائی ہارون بھی ان کی اعانت کے لیے مامور کئے گئے مصر پہنچ کر بنی اسرائیل کو جمع کیا اور معجزے دکھا کر پیا م خدا وندی سنایا۔۔۔ سب نے ان کو پیغمبر تسلیم کر لیا تو یہ فرعون کےپاس گئے اور خدا کا پیام سنا کر بنی اسرائیل کی آزای کامطالبہ پیش کیا لیکن فرعون نے اور زیادہ سختی کر دی موسیٰ نے خدا سے عرض کیا کہ فرعون نہیں سنتا۔۔حکم ہوا کہ پھر جائو چنانچہ یہ گئے اور اس مرتبہ اپنے عصا کا معجزہ دکھایا۔۔۔فرعون نے اپنے جادوگروں کو بلایا انہوں نے اپنی لکڑیاں سانپ بنا کر پیش کی جنہیں موسیٰ کا عصا نگل گیا لیکن اس کا نتیجہ اس کے سوا کچھ نہ وہا کہ فرعون نے موسیٰ کو ایک بڑا جادوگر سمجھ کر ان کا مطالبہ رد کر دیا۔۔
حیرت ناک امر یہ ہے کہ موسیٰ و ہاروں نے فرعون کے پاس جا کر ایک لفظ بھی آزادی کی حمائت اور غلامی کی مزمت میں نہیں کہا۔۔انہوں ے مطلقا بحث بھی نہیں کی کہ نوع انسانی اپنی محنت کی پیداوار س پورا فائدہ اٹھانے کی مستحق ہے اور ایسے مالک و آقا جو مزدوروں اور غلاموں کے منہ سے نوالہ چھین لیتے ہیں عرصہ تک برسر اقتدار نہیں رہسکتے اور وہ قوم جو دوسروں کا غلام بنا لیتی ہے خود بھی غلام ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔۔
کس قدر عجیب بات ہے کہ موسیٰ اپنی قوم کو غلامی سے آزادی دلوانا چاہتے تھے لیکن فرون کے پاس جا کر ایک لفظ بھی پند و نصیحت کا نہیں کہتے اور فورا عصا کو سانپ بن اکر خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں کیا کسی مصلح یا پیغمبر کے اس طرز عمل کو مستحن سمجھا جا سکتا ہے کہ درستگی اخلاق کا درس دینے کے بجائے وہ صرف ایسے مظاہروں سے کام لے جنہیں فریق ثانی بھی شعبدہ سے زیادہ کوئی حیثیت نہ دے سکے۔۔۔اس لئے اگر فرعون نے عصائے موسی کو معجزہ دیک کر بھی مطالبہ ازادی پورا نہیں کیا تو تعجب کی بات نہیں کیونکہ خرق عدات کی نمائش اصلاح اخلاق کے لیے کبھی مفید نہیں ہو سکتی،،،
جاری ہے
Comment