اصحابُ الاخدود کا واقعہ
بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ تھا، جس نے اپنے پاس ایک جادوگررکھا ہوا تھا۔ جب جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے ایک سمجھدار لڑکا دیجئے جسے میں اپنا تمام عمل سکھادوں، تاکہ وہ میرے بعد تیرے کام آسکے۔ بادشاہ نے ایک لڑکا مقرر کردیا۔ جو اس سے جادو سیکھنے لگا۔ اس لڑکے کے گھر اور جادو گر کے درمیان کے راستہ میں ایک عبادت گاہ تھی جس میں ایک راہب ﴿یہود کا عالم﴾اللہ کی عبادت کرتااور لوگوں کودین سکھایاکرتا تھا۔ لڑکا اس کے پاس بھی جاکر دین کا علم سیکھنے لگا۔ اتفاق سے ایک دن ایسا ہوا کہ جب وہ راہب کے پاس سے جادوگر کے پاس جانے کے لئے نکلا تو اس نے دیکھاکہ ایک بہت بڑا اژدھا لوگوں کے راستہ میں آکر کھڑا ہوگیاہے جس سے لوگوں کی آمد ورفت رک گئی ہے۔ اس نے سوچا یہ موقع اچھا ہے اس بات کی تصدیق ہو جائے کہ جادو گر کا مذہب سچا ہے یا اس راہب کا۔ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور اللہ سے دعاکی کہ اگر راہب کا دین سچا ہے تو یہ جانور مرجائے ورنہ ، نہ مرے۔ یہ کہہ کر اس نے پتھر مارا تو اژدھا فوراً مرگیا۔ لوگوں نے یہ دیکھ کر لڑکے کے علم کا اعتراف کرلیا۔ ایک اندھا اس کے پاس آیا اور کہا کہ اگر تو اپنے اسی علم کی بدولت میری بینائی لوٹا دے تو میں تجھے اپنی ساری دولت دے دوںگا۔ لڑکے نے کہاکہ مجھے تم سے کوئی انعام نہیں چاہئے یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے،ہاں اگر تمہاری بینائی لوٹ آئی تو کیا تم اللہ پر ایمان لے آؤ گے؟ اس نے کہا جی ہاں۔ چنانچہ لڑکے نے دعا کی اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹادی تو وہ ایمان لے آیا۔ جب بادشاہ کو اس بات کی خبر ہوئی تو اس نے راہب، لڑکے اور سابق نابینا کو اپنے دربار میں بلوایا اور کہا کہ کیا میرے علاوہ بھی تمہارا کوئی رب ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ ہی ہم سب کا رب ہے۔ بادشاہ نے لڑکے کے علاوہ ان دونوں کو آرے سے چیرکر دوٹکڑے کرادیا۔ اور لڑکے کے بارے میں اپنی فوج کے ایک دستہ کوحکم دیا کہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکراس سے اللہ کا دین چھوڑنے کا پوچھنا اگر چھوڑدے تو ٹھیک ، ورنہ دھکا دے دینا تاکہ نیچے گرکر مر جائے۔ جب وہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس لڑکے نے اللہ سے یہ دعا کی :۔ ’’اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْھِمْ بِمَا شِئْتَ‘‘﴿اے اللہ جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچالے﴾۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر لرزہ طاری کردیاوہ ساری فوج جو اس کومارنے گئی تھی ، خود گر کر مرگئی۔ اور لڑکا صحیح وسلامت دوبارہ بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ میرے فوجی کہاں ہیں۔ اس نے کہا کہ ان تمام کو میرے رب نے مارڈالا اور مجھے بچالیا۔ بادشاہ نے پھر دوسرے دستہ کو حکم دیا کہ اسے سمندر میں لے جاؤ اور جب درمیان میں پہنچو تو اس سے ﴿اللہ کا﴾ دین چھوڑنے کا پوچھنا اگر چھوڑدے تو ٹھیک ورنہ ڈبو دینا۔ وہ اسے لے گئے جب درمیان میںپہنچے تو اس لڑکے نے پھر اللہ سے وہی دعاکی، اللہ نے تمام کو غرق کردیا اور اس لڑکے کو بچالیا۔ وہ پھر بادشاہ کے دربار میںپہنچاتو بادشاہ نے پوچھا کہ میرے فوجی کہاں ہیں۔ اس نے پھر وہی جواب دیا اور کہا کہ اگر تو مجھے مارنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑے میدان میں تمام رعایا کو جمع کر اور میرے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر میری کمان میں لگا کر یہ کلمات : ’’بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلاَمِ‘‘﴿ال لہ کے نام کے ساتھ میں تیر چلاتا ہوں جو اس لڑکے کا رب ہے﴾ پڑھ کر مجھ پر تیر پھینک، میں مر جاؤں گا۔ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا مر گیا تو ساری قوم جو یہ منظر دیکھ رہی تھی فوراً اللہ پر ایمان لے آئی اور اس کی بندگی کا اقرار کرلیا۔ بادشاہ یہ دیکھ کربہت پریشان ہوا اور اس نے اپنے فوجیوں کو خندقیں کھودنے اور ان میں لکڑیوں کے ذریعہ آگ جلانے کا حکم دیا اور تمام کو اس کے گرد اکھٹاکرکے ہر ایک سے اس کے دین کے بارے میںپوچھاجاتا، جو توحید کا اقرار کرتا اسے زندہ آگ میں پھینک دیا جاتا۔ اس طرح بہت سارے مومن مردوں اور عورتوں کو آگ میں زندہ جلادیاگیا۔ وہ آگ بہت ہی زیادہ بھیانک اور بڑی تیز تھی۔مومنین کو اس لئے انتقام کا نشانہ بنایاگیا کہ وہ اللہ ربُّ العالمین پر ایمان لاچکے تھے۔
﴿مسلم۔ عن صہیب رضی اللہ عنہ )
قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِالن َّارِ o ذَاتِ الْوَقُودِoإِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌoوَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِين َ شُهُودٌoوَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِoالَّ ذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
" خندقوں والے ہلاک کئے گئے وہ ایک آگ تھی ایندھن والی جبکہ وہ لوگ اس کے آس پاس بیٹھے تھے اور مسلمانوں کے ساتھ جو کر رہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے۔ یہ لوگ ان مسلمانوں (کے کسی اور گناہ) کا بدلہ نہیں لے رہے تھے، سوائے اس کے کہ وہ اللہ غالب لائق حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے جس کے لئے آسمان و زمین کا ملک ہے۔ اور اللہ تعالٰی کے سامنے ہے ہر چیز۔
بنی اسرائیل میں ایک بادشاہ تھا، جس نے اپنے پاس ایک جادوگررکھا ہوا تھا۔ جب جادوگر بوڑھا ہوگیا تو اس نے بادشاہ سے کہا کہ مجھے ایک سمجھدار لڑکا دیجئے جسے میں اپنا تمام عمل سکھادوں، تاکہ وہ میرے بعد تیرے کام آسکے۔ بادشاہ نے ایک لڑکا مقرر کردیا۔ جو اس سے جادو سیکھنے لگا۔ اس لڑکے کے گھر اور جادو گر کے درمیان کے راستہ میں ایک عبادت گاہ تھی جس میں ایک راہب ﴿یہود کا عالم﴾اللہ کی عبادت کرتااور لوگوں کودین سکھایاکرتا تھا۔ لڑکا اس کے پاس بھی جاکر دین کا علم سیکھنے لگا۔ اتفاق سے ایک دن ایسا ہوا کہ جب وہ راہب کے پاس سے جادوگر کے پاس جانے کے لئے نکلا تو اس نے دیکھاکہ ایک بہت بڑا اژدھا لوگوں کے راستہ میں آکر کھڑا ہوگیاہے جس سے لوگوں کی آمد ورفت رک گئی ہے۔ اس نے سوچا یہ موقع اچھا ہے اس بات کی تصدیق ہو جائے کہ جادو گر کا مذہب سچا ہے یا اس راہب کا۔ اس نے ایک پتھر اٹھایا اور اللہ سے دعاکی کہ اگر راہب کا دین سچا ہے تو یہ جانور مرجائے ورنہ ، نہ مرے۔ یہ کہہ کر اس نے پتھر مارا تو اژدھا فوراً مرگیا۔ لوگوں نے یہ دیکھ کر لڑکے کے علم کا اعتراف کرلیا۔ ایک اندھا اس کے پاس آیا اور کہا کہ اگر تو اپنے اسی علم کی بدولت میری بینائی لوٹا دے تو میں تجھے اپنی ساری دولت دے دوںگا۔ لڑکے نے کہاکہ مجھے تم سے کوئی انعام نہیں چاہئے یہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے،ہاں اگر تمہاری بینائی لوٹ آئی تو کیا تم اللہ پر ایمان لے آؤ گے؟ اس نے کہا جی ہاں۔ چنانچہ لڑکے نے دعا کی اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اس کی بینائی لوٹادی تو وہ ایمان لے آیا۔ جب بادشاہ کو اس بات کی خبر ہوئی تو اس نے راہب، لڑکے اور سابق نابینا کو اپنے دربار میں بلوایا اور کہا کہ کیا میرے علاوہ بھی تمہارا کوئی رب ہے؟ انہوں نے کہا کہ اللہ ہی ہم سب کا رب ہے۔ بادشاہ نے لڑکے کے علاوہ ان دونوں کو آرے سے چیرکر دوٹکڑے کرادیا۔ اور لڑکے کے بارے میں اپنی فوج کے ایک دستہ کوحکم دیا کہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے جاکراس سے اللہ کا دین چھوڑنے کا پوچھنا اگر چھوڑدے تو ٹھیک ، ورنہ دھکا دے دینا تاکہ نیچے گرکر مر جائے۔ جب وہ اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے گئے تو اس لڑکے نے اللہ سے یہ دعا کی :۔ ’’اَللّٰھُمَّ اکْفِنِیْھِمْ بِمَا شِئْتَ‘‘﴿اے اللہ جس طرح تو چاہے مجھے ان سے بچالے﴾۔ اللہ تعالیٰ نے پہاڑ پر لرزہ طاری کردیاوہ ساری فوج جو اس کومارنے گئی تھی ، خود گر کر مرگئی۔ اور لڑکا صحیح وسلامت دوبارہ بادشاہ کے دربار میں پہنچ گیا۔ بادشاہ نے پوچھا کہ میرے فوجی کہاں ہیں۔ اس نے کہا کہ ان تمام کو میرے رب نے مارڈالا اور مجھے بچالیا۔ بادشاہ نے پھر دوسرے دستہ کو حکم دیا کہ اسے سمندر میں لے جاؤ اور جب درمیان میں پہنچو تو اس سے ﴿اللہ کا﴾ دین چھوڑنے کا پوچھنا اگر چھوڑدے تو ٹھیک ورنہ ڈبو دینا۔ وہ اسے لے گئے جب درمیان میںپہنچے تو اس لڑکے نے پھر اللہ سے وہی دعاکی، اللہ نے تمام کو غرق کردیا اور اس لڑکے کو بچالیا۔ وہ پھر بادشاہ کے دربار میںپہنچاتو بادشاہ نے پوچھا کہ میرے فوجی کہاں ہیں۔ اس نے پھر وہی جواب دیا اور کہا کہ اگر تو مجھے مارنا چاہتا ہے تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ ایک بہت بڑے میدان میں تمام رعایا کو جمع کر اور میرے ترکش میں سے ایک تیر نکال کر میری کمان میں لگا کر یہ کلمات : ’’بِسْمِ اللّٰہِ رَبِّ الْغُلاَمِ‘‘﴿ال لہ کے نام کے ساتھ میں تیر چلاتا ہوں جو اس لڑکے کا رب ہے﴾ پڑھ کر مجھ پر تیر پھینک، میں مر جاؤں گا۔ بادشاہ نے ایسا ہی کیا اور لڑکا مر گیا تو ساری قوم جو یہ منظر دیکھ رہی تھی فوراً اللہ پر ایمان لے آئی اور اس کی بندگی کا اقرار کرلیا۔ بادشاہ یہ دیکھ کربہت پریشان ہوا اور اس نے اپنے فوجیوں کو خندقیں کھودنے اور ان میں لکڑیوں کے ذریعہ آگ جلانے کا حکم دیا اور تمام کو اس کے گرد اکھٹاکرکے ہر ایک سے اس کے دین کے بارے میںپوچھاجاتا، جو توحید کا اقرار کرتا اسے زندہ آگ میں پھینک دیا جاتا۔ اس طرح بہت سارے مومن مردوں اور عورتوں کو آگ میں زندہ جلادیاگیا۔ وہ آگ بہت ہی زیادہ بھیانک اور بڑی تیز تھی۔مومنین کو اس لئے انتقام کا نشانہ بنایاگیا کہ وہ اللہ ربُّ العالمین پر ایمان لاچکے تھے۔
﴿مسلم۔ عن صہیب رضی اللہ عنہ )
قُتِلَ أَصْحَابُ الْأُخْدُودِالن َّارِ o ذَاتِ الْوَقُودِoإِذْ هُمْ عَلَيْهَا قُعُودٌoوَهُمْ عَلَى مَا يَفْعَلُونَ بِالْمُؤْمِنِين َ شُهُودٌoوَمَا نَقَمُوا مِنْهُمْ إِلَّا أَنْ يُؤْمِنُوا بِاللَّهِ الْعَزِيزِ الْحَمِيدِoالَّ ذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ وَاللَّهُ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ
" خندقوں والے ہلاک کئے گئے وہ ایک آگ تھی ایندھن والی جبکہ وہ لوگ اس کے آس پاس بیٹھے تھے اور مسلمانوں کے ساتھ جو کر رہے تھے اس کو اپنے سامنے دیکھ رہے تھے۔ یہ لوگ ان مسلمانوں (کے کسی اور گناہ) کا بدلہ نہیں لے رہے تھے، سوائے اس کے کہ وہ اللہ غالب لائق حمد کی ذات پر ایمان لائے تھے جس کے لئے آسمان و زمین کا ملک ہے۔ اور اللہ تعالٰی کے سامنے ہے ہر چیز۔