ایک غلام ایک ایسے آقا کے ہاں تھا جو خود میدہ کی روٹی کھاتا تھا اور غلام کو بے چھنا آٹا کھلاتا تھا۔ غلام کو یہ چیز ناگوار معلوم ہوئی اس نے آقا نے فروخت کر دینے کا مطالبہ کیا۔ آقا نے فروخت کر دیا۔ اب اسکو ایک ایسے شخص نے خریدا جو خود بے چھنا آٹا کھاتا تھا اور اسکو بھوسہ کھلاتا تھا۔ غلام نے یہاں بھی بیچنے کا مطالبہ کیا، آقا نے فروخت کر دیا۔ اور اس مرتبہ اسے ایک ایسے شخص نے خریدا جو خود بھی کچھ نہیں کھاتا تھا اور اسے بھی کچھ نہ کھلاتا تھا۔ اور اسکا سر مونڈ کر رات بھر بٹھاۓ رکھتا اور ڈیوٹ مناور کی بجاۓ اسکے سر پر چراغ رکھتا تھا۔ غلام اسکے ہاں ٹھہر گیا اور بیچنے کا مطالبہ نہ کیا۔
بندہ فروش نے غلام سے کہا کہ اس شخص کے ہاں اس حالت میں اتنی مدت تک کسطرح خوش رہا؟
غلام نے کہا، اس اندیشے سے کہ کہیں اس مرتبہ کوئی ایسا شخص نہ خرید لے جو چراغ کی بجاۓ میری آنکھ میں بتی رکھا کرے۔
اس حکایت سے واضح ہے کہ اللہ پاک جس حال میں رکھے خوش رہنا چاہئے اور ناشکری ہر گز نہیں کرنی چاہئے، اس غلام کے ساتھ جو ہوا وہ اسکے ناشکرے ہونے کی سزا ہے۔ اللہ پاک ہمیں صبر اور شکر کرنے والا بناۓ۔ آمین
بندہ فروش نے غلام سے کہا کہ اس شخص کے ہاں اس حالت میں اتنی مدت تک کسطرح خوش رہا؟
غلام نے کہا، اس اندیشے سے کہ کہیں اس مرتبہ کوئی ایسا شخص نہ خرید لے جو چراغ کی بجاۓ میری آنکھ میں بتی رکھا کرے۔
اس حکایت سے واضح ہے کہ اللہ پاک جس حال میں رکھے خوش رہنا چاہئے اور ناشکری ہر گز نہیں کرنی چاہئے، اس غلام کے ساتھ جو ہوا وہ اسکے ناشکرے ہونے کی سزا ہے۔ اللہ پاک ہمیں صبر اور شکر کرنے والا بناۓ۔ آمین