سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک اعرابی سے گھوڑا خریدا ، خرید و فروخت کے وقت اعرابی اور حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے علاوہ کوئی اور موجود نہیں تھا ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعرابی سے فرمایا کہ میرے ساتھ آؤ میں تمہیں رقم دیتا ہوں ، رستے میں کسی شخص نے اعرابی کو زیادہ قیمت لگادی تو اعرابی لالچ میں آگیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کیے گئے سودے سے مکر گیا ، جب لوگوں کو علم ہوا تو سب نے اعرابی کو سمجھایا کہ تیری نیت خراب ہوگئی ہے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبان سے سچ کے سوا دوسری بات نہیں نکل سکتی ، اس نے جواب دیا اگر سچ ہے تو گواہ پیش کریں ۔
لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے خرید و فروخت کے وقت کوئی بھی وہاں موجود نہ تھا اس لئے گواہی نہ دے سکے ۔ اتنے میں کہیں سے حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ آگئے ، انہوں نے اعرابی کو مخاطب کر کے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نےاپنا گھوڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر فروخت کیا ہے ، اعرابی خاموش ہوگیا اور گھوڑا حوالے کرنا پڑا ۔
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور دریافت فرمایا ۔ خزیمہ ! تم واقعہ کے وقت موجود ہی نہیں تھے ، تم نے شہادت کیسے دی؟
حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی زبان حق ترجمان سے سن کر جب ہم آسمان کی خبر پر شہادت دیتے ہیں تو زمین کی خبر پر ہمیں شہادت دینے میں کیا تامل ہو سکتا ہے، یقین کا چشمہ ء حقیقی آپ کی زبان مبارک ہے ، ہماری آنکھ نہیں!
سرکار سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ جواب سن کر بے حد مسرور ہوئے اور انعام خسروانہ کے طور پر فرمایا کہ خزیمہ اکیلے کی گواہی دو آدمیوں کی گواہی کے برابر ہے اور پھر اس دن سے یہ قانون بن گیا کہ حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی ایک گواہی دو گواہوں کے برابر ہوگئی ۔
(مجمع الزوائد جلد۹، ص:۳۲۳ )
لیکن صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین میں سے خرید و فروخت کے وقت کوئی بھی وہاں موجود نہ تھا اس لئے گواہی نہ دے سکے ۔ اتنے میں کہیں سے حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ آگئے ، انہوں نے اعرابی کو مخاطب کر کے کہا میں گواہی دیتا ہوں کہ تو نےاپنا گھوڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاتھ پر فروخت کیا ہے ، اعرابی خاموش ہوگیا اور گھوڑا حوالے کرنا پڑا ۔
سرورِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی طرف متوجہ ہوئے اور دریافت فرمایا ۔ خزیمہ ! تم واقعہ کے وقت موجود ہی نہیں تھے ، تم نے شہادت کیسے دی؟
حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ، یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کی زبان حق ترجمان سے سن کر جب ہم آسمان کی خبر پر شہادت دیتے ہیں تو زمین کی خبر پر ہمیں شہادت دینے میں کیا تامل ہو سکتا ہے، یقین کا چشمہ ء حقیقی آپ کی زبان مبارک ہے ، ہماری آنکھ نہیں!
سرکار سرور کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یہ جواب سن کر بے حد مسرور ہوئے اور انعام خسروانہ کے طور پر فرمایا کہ خزیمہ اکیلے کی گواہی دو آدمیوں کی گواہی کے برابر ہے اور پھر اس دن سے یہ قانون بن گیا کہ حضرت خزیمہ رضی اللہ عنہ کی ایک گواہی دو گواہوں کے برابر ہوگئی ۔
(مجمع الزوائد جلد۹، ص:۳۲۳ )