کیا انسان اشرف المخلوقات ہے ؟؟؟
اکثر تحریر و تقریر میں لوگ کہتے رہتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے لیکن ہمیں اب تک قران وحدیث* سے اس کے دلائل نہیں ملے بلکہ دلائل اس کے برعکس ملے مثلا
اللہ فرماتاہے
{وَلَقَدْ كَرَّمْنَا بَنِي آدَمَ وَحَمَلْنَاهُمْ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ وَرَزَقْنَاهُمْ مِنَ الطَّيِّبَاتِ وَفَضَّلْنَاهُمْ عَلَى كَثِيرٍ مِمَّنْ خَلَقْنَا تَفْضِيلًا } [الإسراء: 70]
یقیناً ہم نے اوﻻد آدم کو بڑی عزت دی اور انہیں خشکی اور تری کی سواریاں دیں اور انہیں پاکیزه چیزوں کی روزیاں دیں اور اپنی بہت سی مخلوق پر انہیں فضیلت عطا فرمائی ۔
خط کشیدہ الفاظ پر غور کیجئے اللہ نے یہ نہین فرمایا کہ ’’تمام مخلوق‘‘ پر فضیلت دی ، بلکہ کہا :’’ بہت سی ‘‘ مخلوق پر فضیلت دی یہ آیت اس سلسلے میں قاطع ہے کہ انسان اشرف المخلوقت نہیں ہے۔
حدیث* رسول ہے
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: أَنَا عِنْدَ ظَنِّ عَبْدِي بِي، وَأَنَا مَعَهُ إِذَا ذَكَرَنِي، فَإِنْ ذَكَرَنِي فِي نَفْسِهِ ذَكَرْتُهُ فِي نَفْسِي، وَإِنْ ذَكَرَنِي فِي مَلَإٍ ذَكَرْتُهُ فِي مَلَإٍ خَيْرٍ مِنْهُمْ، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ بِشِبْرٍ تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ ذِرَاعًا، وَإِنْ تَقَرَّبَ إِلَيَّ ذِرَاعًا تَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ بَاعًا، وَإِنْ أَتَانِي يَمْشِي أَتَيْتُهُ هَرْوَلَةً "
[صحيح البخاري 9/ 121 رقم7405]
صحابی رسول ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں اپنے بندے کے گمان کے ساتھ ہوں جو میرے متعلق وہ رکھتا ہے اور میں اس کے ساتھ ہوں جب وہ مجھے یاد کرے اگر وہ مجھے اپنے دل میں یاد کرتا ہے تو میں بھی اس کو اپنے دل میں یاد کرتا ہوں اور اگر مجھے ایک جماعت کے درمیان یاد کرتا ہے تو میں بھی اسے ایسی جماعت(فرشتوں) میں یاد کرتا ہوں جو اس(انسان) کی جماعت سے بہتر ہے ۔ اگر وہ مجھ سے ایک بالشت قریب ہو تو میں ایک گز اس کے قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ ایک گز قریب ہوتا ہے تو میں اس سے دونوں ہاتھوں کے پھیلاؤ کے برابر قریب ہوتا ہوں اور اگر وہ میری طرف چل کر آئے تو میں اس کی طرف دوڑ کر آتا ہوں۔
خط کشید الفاظ کو بغور پڑھیں حدیث* کے یہ الفاظ بتلارہے ہیں کہ فرشتے انسانوں* سے افضل واشرف ہیں یعنی انسان اشرف المخلوقات نہیں ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ کا موقف
قلت: ولقد كان التوقف المذكور هو الذي يقتضيه النظر والتأمل في أدلة الفريقين، وجواب كل منهما عن أدلة الآخر، لولا حديث البخاري الذي قال فيه القرطبي: إنه نص في المسألة كما تقدم؛ وقد حكاه الحافظ العسقلاني عن ابن بطال أيضاً، وإن كان الحافظ تكلف في رد دلالته وتأويله:"بأن الخيرية إنما حصلت بالذاكر والملأ معاً؛ فالجانب الذي فيه رب العزة خير من الجانب الذي ليس هو فيه بلا ارتياب، فالخيرية حصلت بالنسبة للمجموع على المجموع ".
وقد كنت وقفت منذ القديم في "الترغيب والترهيب " على حديث من رواية البزار وابن حبان في "صحيحه " هو نص في الموضوع وأقوى؛ لأنه يبطل التأويل المذكور، ونصه
"أول من يدخل الجنة من خلق الله: الفقراء المهاجرون الذين تسد بهم الثغور، وتتقى بهم المكاره، ويموت أحدهم وحاجته في صدره لا يستطيع لها قضاء، فيقول الله لملائكته: ائتوهم فحيوهم، فتقول الملائكة:ربنا! نحن سكان سماواتك، وخيرتك من خلقك، أفتأمرنا أن نأتي هؤلاء فنسلم عليهم؛! قال: إن هؤلاء كانوا عباداً لي يعبدوني لا يشركون بي شيئاً، وتسد بهم الثغور..، قال: فتأتيهم الملائكة عند ذلك؛ فيدخلون عليهم من كل باب: (سلام عليكم بما صبرتم فنعم عقبى الدار) . وقال المنذري (4/86) ، والهيثمي (10/259) :"ورجاله ثقات "وهو في "موارد الظمآن " (2565) - والسياق له-، ومخرج في المجلد السادس من "الصحيحة" برقم (2559) . وإني لأستغرب جدا كيف فات على أولئك العلماء من الفريقين إيراده احتجاجاً ودفعاً؟! وبخاصة الحافظ ابن حجر العسقلاني، لنعلم رأيه في شهادة الملائكة أمام ربهم: أنهم خيرة خلقه، وما أظن أنه يجد له تأويلاً إلا التسليم لدلالته!
[سلسلة الأحاديث الصحيحة وشيء من فقهها وفوائدها 7/ 1038، 1039]
Comment