Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

شام کے نصیری شیعہ کے بارے میں اہم معلومات

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • شام کے نصیری شیعہ کے بارے میں اہم معلومات

    یہ نُصیری جو کہ عوام میں اپنے آپ کو علوی کہلوانا پسند کرتے تھے اپنے کو حضرت علیؓ سے منسوب کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی نسبت ابوصہیب محمد سے ہے جو کہ ابن نُصیر (ن کی پیش اور ص کی زبر کے ساتھ نُصَیر) کہلاتا ہے۔ اس شخص کا دعویٰ تھا کہ یہ رسول کریم ؐ کے سلسلے کے آخری تین اماموں (شیعہ روایت کے مطابق) کی صحبت سے فیضیاب ہوا ہے جن میں گیارہویں امام حسن عسکری بھی شامل ہیں۔ اس نے اپنے آپ کو سچائی کا دروازہ قرار دیا۔



    یہ فرقہ ابن نُصیر کے ایک پیروکار عبداﷲ الاکشبی نے منظم کیا جس کی موت 969ء میں حلب میں ہوئی۔ اس کا پوتا اور شاگرد الطبرانی 1032ء میں لاتیکا میں منتقل ہوا جو کہ شام کی ساحلی پہاڑی پٹی ہے۔ اس وقت یہ علاقہ قسطنطینی سلطنت کے زیر اہتمام تھا۔ اس نے اور اس کے شاگردوں نے شام کی ساحلی پٹی کے رہنے والوں کو علوی یا نُصیری عقائد کی تبلیغ کی۔ یہ عقائد کیا تھے ان کی مختصر تفصیل دلچسپی سے خالی نہ ہو گی۔
    یارون فریڈ مین (Yaron Friedman)اور مالسی روتھ وین(Malise Ruthven) [مشہور صحافی اور مشرق وسطیٰ کے معاملات کا ماہر۔ بی بی سی کی عربی سروس کا اسکرپٹ رائٹر] ان کے عقائد کو کچھ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں۔



    ’’تقیہ:نُصیری اپنے بنیادی عقائد کو چھپائے رکھتے ہیں ۔ تقیہ ان کے عقیدے کے بنیادی جزو ہے۔



    اسلام کے پانچ بنیادی ارکان ہیں لیکن نُصیریوں کے عقائد کے مطابق کلمہ، عمل، نماز، حج اور رمضان کے روزے اسلام کی ظاہری علامتیں ہیں جن پر عمل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔نُصیریوں کے دین کے دو بنیادی اصول ہیں۔
    حضرت علیؓ کی عبادت (نعوذ باﷲ) ولایتہ: ان کے مطابق اﷲ سات زمانوں میں سات صورتوں میں ظاہر ہوا اس کا پہلا ظہور حضرت آدم ؑ کی صورت تھا اور آخری حضرت محمد ؐ اور حضرت علیؓ کی صورت میں۔
    اس طرح یہ حضرت علیؓ کی الوہیت کے قائل ہیں ۔ اس طرح یہ ان بقیہ رافضیوں سے زیادہ غلو کرتے ہیں جو صرف حضرت علیؓ کے پہلے اور سچے خلیفہ ہونے پر مصر ہیں۔
    عقیدہ تثلیث: ان کے مطابق محمدؐ ، علیؓ اور سلمان فارسیؓ الوہیت کے تین روپ ہیں جو ایک ہی وقت میں جلوہ گر ہوئے۔ ستارہ شناسی کو ان کے ہاں خاص مرتبہ حاصل ہے اس لئے وہ یقین رکھتے ہیں کہ تمام انسان آسمان کے ستارے تھے جو کہ اپنے گناہوں کی وجہ سے آسمان سے گر گئے اور وہ سات جنموں کے بعد دوبارہ ستاروں پر لوٹ جائیں گے جہاں کے بادشاہ حضرت علیؓ ہیں اور جو ان کا انکار کرتا ہے وہ ایک جانور بن کر پیدا ہو گا۔ عورتیں بہرحال ستارے ہونے سے مستثنیٰ ہیں کیونکہ وہ شیطانوں کے گناہوں کی پیداوار ہیں۔ اب تو کچھ نُصیری یہ بھی یقین رکھتے ہیں کہ عورتوں میں روح سرے سے موجود ہی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ یہ کرسمس منانے کے بھی قائل ہیں۔ ان کے عقائد کی تفصیل بے شمار ہے جن کو پوری طرح بیان کرنے کا یہ مقام نہیں ہے۔ ان کے بارے میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ کے یہ الفاظ ہی کافی ہیں۔
    ’’یہ لوگ جو اپنے آپ کو نُصیری کے نام سے منسوب کرتے ہیں اور وہ گروہ جو کہ قرامطہ اور باطنیہ ہیں عیسائیوں اور یہودیوں سے بھی بڑے کافر ہیں۔ نہ صرف اُن سے بلکہ یہ مشرکین سے بھی بڑے کافر ہیں اور امت محمدیہ کو ان سے پہنچنے والا نقصان اس گروہ کے نقصان سے بڑا ہے جو کہ مسلمانوں سے لڑتے ہیں جیسے کہ تاتاری ، فرنگی کافر وغیرہ ‘‘
    شائد انہی عقائد کے سبب سے دوسرے رافضی فرقے بھی انہیں 1974ء تک مسلمان نہ مانتے تھے بلکہ اہلسنت و الجماعت کی طرح انہیں غالی کہتے تھے ۔ نُصیری فرقہ جو کہ عثمانی خلافت کے زمانے تک مسلمانوں کے رعب کی وجہ سے دبکا رہا۔ سقوط خلافت کے ساتھ ہی اپنے پرزے نکالنے شروع کئے۔ 1936ء میں جب فرانسیسی حکمرانوں نے نُصیری ریاست اور شام کے دوبارہ الحاق کا ارادہ کیا تو نُصیری قبیلوں کے سرداروں نے فرانس میں قائم شدہ پاپولر فرنٹ کے سربراہ کو ایک میمو رنڈم بھیجا، جس کے اہم نکات درج ذیل ہیں:
    ۱۔علوی لوگ جنہوں نے کئی سالوں تک بڑی غیرت اور قربانیوں کے ساتھ اپنی آزادی کی حفاظت کی ہے ، دوسرے سنی مسلمانوں سے مختلف ہیں۔
    ۲۔علوی، مسلم شام کے ساتھ اپنے الحاق کا انکار کرتے ہیں کیونکہ شام کا سرکاری دین اسلام ہے اور اسلام کے مطابق علوی کافر ہیں۔
    ۳۔ہم اس بات کا ادراک رکھتے ہیں کہ دمشق کے مسلمانوں نے اپنے درمیان رہنے والے یہودیوں کو ایک دستاویز پر دستخط پر مجبور کیا کہ وہ فلسطین میں رہنے والے اپنے بدقسمت یہودی بھائیوں کو مدد نہیں بھیجیں گے۔ یہودیوں کی فلسطین میں قابل رحم حالت اسلام میں موجود اس زیادتی کی واضح مثال ہے جو کہ وہ غیرمسلموں سے روا رکھتا ہے۔ حالانکہ ان اچھے یہودیوں نے عربوں کے اندر تمدن اور امن کی آبیاری کی ، سونا بانٹا او ر بغیر کسی کا مال لوٹے اور نقصان پہنچائے فلسطین میں خوشحالی لے آئے۔ پھر بھی مسلمانوں نے ان کے ساتھ اعلان جنگ کیا اور سرکار برطانیہ کی فلسطین میں موجودگی اور فرانس کی شام میں موجودگی کے باوجود ان کا قتل عام کرنے سے کبھی نہ ہچکچائے۔ چنانچہ رائے عامہ کا احترام نہ کرتے ہوئے اگرمسلم شام کو مسلم فلسطین کے ساتھ اکٹھا کر دیا گیا تو ان یہودیوں اور دوسری اقلیتوں کا بدترین انجام ہو گا ۔
    ایک اور خط میں رقمطراز ہیں :
    کیا فرانسیسی اس بات سے بے خبر ہیں کہ صلیبی جنگیں کامیاب ہو جاتیں اگر ان کے قلعے شام کے شمال مشرق میں نُصیری سرزمین پر ہوتے۔



    ہم نے اس تفصیل کو اس لئے اکٹھا کیا ہے تاکہ موجودہ فساد کی تھوڑی سی تاریخ بھی قارئین تک پہنچائی جا سکے۔ اوپر والے میمو رنڈم میں اسلام دشمنی اور یہود سے دوستی ایک ایک لفظ سے ٹپکتی ہے۔ اس میمورنڈم پر دستخط کرنے والوں میں سے ایک نام’’سلمان الاسد‘‘ کاہے جو کہ کلبیہ قبیلے کا سردار تھا۔ یہی ’’سلمان‘‘ موجودہ صدر بشار الاسد کا دادا اور حافظ الاسد کا باپ ہے۔
    شام کے فرانسیسی حکمرانوں نے جن کو اصل خطرہ سنی اسلام سے تھا ان علویوں کی ایک علیحدہ فوج تشکیل دی اور انہیں بڑے بڑے عہدوں پر فائز کیا۔ یہی فوج فرانسیسی سامراج سے آزادی کے بعد شامی نیشنل آرمی کہلائی۔ 1946ء میں ایک علوی خاندان کے ہونہار فرزند نے صرف 16سال کی عمر میں بعث پارٹی میں شمولیت اختیار کر لی ۔ یہ نوجوان کوئی اور نہیں حافظ الاسد ہی تھا جس نے سیاست میں شمولیت کے ساتھ ساتھ نیشنل آرمی بھی جوائن کر لی تھی۔
    بعث پارٹی جس کا منشور ’’وحدہ، حریہ، اشتراکیہ‘‘ تھا اور جو عرب نیشنلزم کی علمبردار تھی اس نے جب 1958ء میں ناصر کی تعلیمات سے متاثر ہو کر شام کا مصر کے ساتھ الحاق کرنے کا ارادہ کر لیا تو بعث پارٹی میں موجود علویوں نے اسے بھی اپنے سر پر بجنے والی خطرے کی گھنٹی سمجھا ۔ انہیں عرب نیشنلزم میں بھی یہ خطرہ نظر آیا کہ اس میں سنیوں کی اکثریت ہو گی چنانچہ 1963ء میں ایک علومی ’’صالح حدید‘‘ کی قیادت میں انہوں نے بغاوت کر دی۔ حافظ الاسد جو کہ ایک فائٹر پائلٹ تھا یکایک ایئرفورس کمانڈر بنا دیا گیا۔ فوج کے تقریباً سات سو عہدوں پر پرانے افسروں کو نکال کر نئے نُصیری کمانڈر تعینات کئے گئے۔ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں شام کی شکست کے بعد حافظ الاسد جو کہ اب وزیر دفاع بن چکا تھا نے شامی حکومت پر اسرائیل کے ساتھ خفیہ مراسم رکھنے کا الزام لگایا اور ایک محلاتی سازش کے تحت1970ء میں اقتدار پر قبضہ کر لیا ۔ اس طرح اقتدار پر علویوں کی پکڑ مضبوط ہو گئی۔



    اس پکڑ کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1982ء میں جس سینتالیسویں شامی ٹینک بریگیڈ نے حمص میں تقریباً بیس سے تیس ہزار اخوانیوں کو شہید کیا تھا اس کے 70فیصد سے زیادہ آفیسرز علوی تھے اور اس آپریشن کی قیادت حافظ الاسد کے سگے بھائی رفعت الاسد نے کی تھی۔ یہ آپریشن آج بھی جدید مشرق وسطیٰ میں اپنی ہی عوام پر فوج کشی کی بدترین مثال ہے۔
    علویوں کا اقتدار میں آ جانا شامیوں کے لئے کسی سانحے سے کم نہ تھا۔ ایک کافر بھلا مسلم سٹیٹ کا سربراہ کیسے ہو سکتا ہے؟
    مغربی مورخ ( ڈینئل پائپز )اپنی تصنیف ''دی گریٹ سیریا) میں لکھتا ہے کہ "شام میں کسی علوی کا برسر اقتدار آ نا ایسا ہی ہے جیسے ہندوستان میں کسی شودر یا روس میں کسی یہودی کو زار بنا دیا جائے"۔ (واضح رہے کہ ان دونوں ممالک میں مذہبی تفاوت کی وجہ سے ایسا ہونا ناممکنات میں سے تھا۔)
    اسی وجہ سے حافظ الاسد کے صدر بنتے ہی شامی قانون میں ایک تبدیلی کی گئی۔ وہ قانون جو کہ شام کا صدر بننے کیلئے سنی مسلمان ہونا ضروری قرار دیتا تھا اس کی شق کو بدل کر حکمران کا صرف مسلمان ہونا کافی قرار دیا گیا۔
    رافضی فتنہ جو کب سے عرب دنیا میں اپنا پنجہ گاڑنے کے لئے تیار بیٹھا تھا بھلا اس موقع کو ضائع کیسے جانے دیتا۔ چنانچہ لبنان کے اثنا عشری رافضی امام موسی الصدر نے 1973ء میں ایک فتویٰ جاری کیا جس کہ مطابق نُصیریوں کو باقاعدہ شیعوں فرقے کا ایک گروپ تسلیم کر لیا گیا۔ یہ فتویٰ مذہبی سے زیادہ سیاسی تھا جس کے پیچھے عرب عالم میں رافضی اقتدار کو فروغ دینا تھا ۔ یاد رہے کہ یہ موسی الصدر جو کہ امام موسیٰ کے نام سے بھی مشہور ہے مقتدیٰ الصدر جس کی عراق میں مہدی آرمی ہے جو کہ ہزاروں سنی مسلمانوں کی قاتل ہے کا کزن ہے۔
    ان واقعات نے شام میں اضطراب کی ایک لہر دوڑا دی۔ شامی مسلمان ایک تو مذہبی حمیت کی وجہ سے کسی نُصیری کو اپنا حکمران ماننے پر تیار نہ تھے دوسری طرف وہ سمجھتے تھے کہ 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ میں نُصیری حکومت نے واقع اسرائیل کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا تھا جس کے افشا ہونے پر حکومت چھن جانے کے خوف سے حافظ الاسد جو کہ نُصیری وزیر دفاع بھی تھا اپنی ہی جماعت کے خلاف بغاوت کر ڈالی ۔
    اس کے علاوہ شامی فوج میں نُصیریوں کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ اور تمام عہدوں پر نُصیریوں کے براجمان ہو جانے پر بھی نہ صرف سنی اکثریت بلکہ دوسری اقلیتیں بھی سخت سیخ پا تھیں۔ تمام سول سرکاری اداروں میں بھی نُصیریوں کی عملداری تھی جس سے اکثریتی سنی عوام میں بے چینی پائی جاتی تھی۔ اس کے علاوہ یہ خیال بھی عام ہے کہ شامی فوج کو طاقتور کرنا اسرائیل کے خلاف نہ تھا بلکہ مستقبل میں ہونے والی کسی سنی بغاوت کو کچلنا تھا۔ اسرائیل مخالف پالیسی صرف سنی اکثریت کے درمیان اپنے اقتدار کو جواز فراہم کرنے کی ایک کوشش ہے
    اسرائیل کی حیفہ یونیورسٹی کا ماہر لسانیات جان ماہل John Myhillلکھتا ہے کہ ’’سنی اکثریت کے درمیان اپنے اقتدار کی قانونی و اخلاقی حیثیت کو برقرر رکھنے کیلئے انہیں اپنے آپ کو عوام کے اندر عرب ازم کا چیمپئین منوانا ضروری ہے جس کی وجہ سے وہ اسرائیل کو دشمن قرار دیتے ہیں اور اس کے دشمنوں سے دوستی رکھتے ہیں۔ ‘‘
    لیکن عملاً اسد خاندان اسرائیل سے کسی قضیے میں نہیں الجھنا چاہتا ۔ ماہل تو 1973کی شام اسرائیل جنگ کو بھی عرب ہمسایوں کے درمیان اپنی ’’موجودگی برقرار‘‘ رکھنے کی کوشش قرار دیتا ہے۔ ماہل مزید لکھتا ہے کہ علویوں کے مذہبی عقائد اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ وہ یہودی حامی اور سنی دشمن ہیں اور تو اور اسرائیل کے نقطہ نظر سے بھی یہ ان کے لئے بہتر ہے کہ شام میں نُصیری برسراقتدار رہیں۔ اگر شام میں سنی اقتدار میں آتے ہیں تو کسی بھی وسیع پیمانے کا فلسطینی، اسرائیل جھگڑا آپریشن Cast Lead کی طرز کا ایک جذباتی ردعمل کو جنم دے گا اور شام کو نتائج کی پرواہ کئے بغیر اسرائیل کے ساتھ ایک بین الاقوامی جنگ میں کھینچ لائے گا۔
    وہ مزید لکھتا ہے کہ ’’شام سرکاری طور پر اسرائیل کے ساتھ کسی امن معاہدے کو کبھی قبول نہ کرے گا۔ ایسا کرنے سے وہ اپنے ہی سنی عوام اور عرب اور اسلامی دنیا میں اپنے اقتدار کاقانونی و اخلاقی جوازختم کر بیٹھے گا۔‘‘
    اگرچہ علوی اور ریاست اسرائیل کے درمیان ایک علان شدہ اتحاد ناممکن سی بات ہے۔ لیکن یہ امر ناممکن نہیں کہ دونوں ملکوں کے رہنما باہمی رضا مندی سے ایسی پالیسی مرتب کریں جو کہ دونوں کے مشترکہ مقصد ’’سنیوں کے اثر و رسوخ‘‘ کو روکنے میں مددگار ہو۔
    جان ماہل کے بیان کردہ بیان کو اگر تاریخی حقائق کے پس منظر میں دیکھاجائے تو قرائن و شواہد اس بات کو پایہ ثبوت تک پہنچا دیتے ہیں کہ شام میں نُصیریوں کی حکومت اسرائیل کے مفاد میں ہے۔ شائد اسی لئے مغرب کا رویہ شام میں ہونے والے قتل و خون کے متعلق مذمتی بیانوں یا چند معاشی پابندیوں سے آگے نہیں بڑھا۔
    اسی اضطراب نے 1980ء میں حماۃ شہر میں اس انقلاب کو جنم دیا جس کا نتیجہ تقریباً تیس ہزار سے زائد مسلمانوں کی شہادت کی صورت میں سامنے آیا۔ حافظ الاسد کے خون آشام نُصیری دستوں نے حماۃ کی اینٹ سے اینٹ بجا دی اور مسلمانوں کا خون پانی کی طرح بہایا ۔ صرف جیلوں میں موجود1200 اخوان المسلمین کے قید یوں کو بغیر مقدمہ چلائے مار دیا گیا اور حماۃ کے اوپر ٹینک چڑھا دئیے گئے۔
    اس سے صرف ایک سال پہلے ایران میں نام نہاد اسلامی انقلاب بپا ہو چکا تھا۔ رافضی انقلاب کو ستمبر1980ء میں عراق کے ساتھ ایک لمبی جنگ میں الجھنا پڑا۔ اس تنازع کے دوران شام عرب دنیا کا وہ واحد ملک تھا جس نے ایران کا کھلم کھلا ساتھ دیا۔
    حیرت کی بات ہے کہ اس وقت عراق پر بھی صدام حسین کی قیادت میں بعث پارٹی کی حکومت تھی جو کہ شام میں بھی برسر اقتدار تھی۔ دونوں کا منشور ’’عرب نیشنلزم ‘‘ اور ’’سوشلزم‘‘ تھا ۔ اس کے علاوہ شام کیلئے عراق کی جغرافیائی اہمیت ایران سے بڑھ کر تھی۔ دونوں کی سرحد مشترک تھی اور دونوں اسرائیل دشمنی کیلئے مشہور تھے۔ پھر بھی اس پورے تنازع کے درمیان ایران کا ساتھ دینا اس بات کی واضح دلیل تھی کہ شام ملک و ملت ، سیاسی منشور اور جغرافیائی سرحدوں سے بالا تر ہو کر اپنے ’’رافضی ‘‘ بھائی کا ساتھ دینا چاہتا تھا۔


    [نصیری رافضی کمیونسٹ تعاون کا ایک مظہر: آپکو یاد ہوگا یہاں کی ایک دہشت گرد تنظیم ’’الذوالفقار‘‘، جوکہ بھٹو خاندان کے چشم و چراغ کی سرپرستی کے تحت کام کرتی تھی، 1981 ؁ کراچی سے پی آئی اے کا ایک طیارہ اغواء کرکے دمشق لے گئی تھی، جہاں اس کو مکمل مدد فراہم کی گئی۔ یہیں سے اِس خاندان کو بہوؤیں ملیں۔ یہ ساری مدد افغان جہاد کے دنوں میں کمیونسٹ کیمپ میں حصہ ڈالنے کے طور پر ہورہی تھی۔]
    یہاں پر کوئی یہ نہ سمجھے کہ ہم اس بات کا فیصلہ کرنے لگے ہیں کہ اس آٹھ سالہ جنگ میں عراق حق پر تھا کیونکہ اس کا ساتھ دوسرے عرب ممالک دے رہے تھے بلکہ یہاں یہ ثابت کرنا مقصود ہے کہ ان نُصیریوں کا ’’عرب قومیت‘‘ کا نعرہ بھی صرف اپنے عوام کو گمراہ کرنے اور اقتدار کو طول دینے کی ایک کوشش تھی۔ جبکہ ان کے سیاسی اور مذہبی نعرے ’’عرب قومیت‘‘ اور ایران میں بپا ہوئے 1979ء کے رافضی انقلاب میں زمین و آسمان کا فرق تھا جو کہ ایک عام عامی کی نظر سے بھی پوشیدہ نہیں۔ اصل میں اس اتحاد کا مقصد بھی عرب دنیا میں آنے والی کسی سنی تبدیلی (اسلامی تبدیلی) کا راستہ روکنا ہے کیونکہ دونوں ریاستوں کو اصل خطرہ اسرائیل یا امریکہ سے نہیں بلکہ خطے میں اسلامی نظام کے لئے برسر پیکار مسلم قوتوں سے ہے۔
    اس کے علاوہ رافضی ایران ہی شام کے نُصیری حکمرانوں کو قانونی تحفظ فراہم کرتا ہے بلکہ انہیں اثنا عشری شیعہ کا عقائدی حصہ دار سمجھتا ہے۔ اس اتحاد کا ایک مظہر لبنان میں حزب اﷲ کی تشکیل ہے جو کہ ایک بدترین رافضی گروہ ہے۔ یہ لبنان میں ہزاروں مسلمانوں کی قاتل ہے۔ اس کو عسکری مدد ایران سے ملتی ہے جب کہ اس کا سیاسی پشت بان شام کا نُصیری حکمران ہے۔
    اس بات کے ثبوت کیلئے کہ شام کی نُصیری حکومت اصلاً اسرائیل کی پروردہ ہے اور اس کو اصل خطرہ سنی انقلاب سے ہے نہ کہ ریاست اسرائیل سے اسرائیل کی وزارت خارجہ کے سیاسی اور حفاظتی بیورو کے سربراہ عاموس جلعاد "Amos Gillad" کا یہ بیان کافی ہے جو کہ اس نے 16نومبر 2011 کو دیا اور اسے کئی عرب اخبارات اور میڈیا رپورٹس نے شہ سرخیوں میں شائع کیا ۔ وہ کہتا ہے:’’ شامی رہنما (بشار الاسد) کی اقتدار سے رخصتی اسرائیل کے لئے تباہ کن ثابت ہو گی۔ اگر یہ انقلاب کامیاب ہو گیا تو مشرق وسطیٰ میں اخوان المسلمین کی زیر قیادت ایک نئی اسلامک سلطنت کا آغاز ہو گا جو کہ شام، مصر اور اردن پر مشتمل ہوگی۔ اسرائیل کو ان تینوں ممالک کی طرف سے جنگ کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا ۔ اسرائیل کو اس خطرے کا بخوبی اندازہ ہے اس لئے اس نے ترکی سے اپنے مراسم بڑھانے کا فیصلہ کیا ہے تاکہ اسے مسلمانوں سے جنگ نہ کرنا پڑے۔ اگراسرائیل کو مابعد انقلاب اسلامی ملکوں سے جنگ کرنا پڑی تو یہ اسرائیل کے مکمل خاتمے پر منتج ہو گا۔‘‘
    شام کی یہ پالیسیاں نُصیری اقتدار کے آغاز سے جاری ہیں۔ اس کے علاوہ خود اپنی عوام کے اندر معاشی انقلاب کے نعرے نُصیری فرقے یا اپنے وفاداروں کو نوازنے کے طریقے ہیں۔ شامی فوج کی تقریباً ساری قیادت نُصیری شیعوں پر مشتمل ہے جن کا اول کام سرحدوں سے زیادہ نُصیری حکمران کی حفاظت ہے۔ شامی قانون کے مطابق صدر کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں۔ وہ ہر قسم کے احتساب سے بالاتر ہے اور کسی قسم کا قانون بھی نافذ کر سکتا ہے اس کی توہین یا حکم عدولی کی سزا موت ہے۔
    فوج کے علاوہ دیگر سول اداروں میں بھی یہی حال ہے ۔ سنی جو کہ شامی آبادی کا تقریباً 70%ہیں طرح طرح کے مشکلات کا شکار ہیں۔ خاص طور پر وہ علاقے جو کہ 1980ء کے انقلاب میں بڑے سرگرم تھے جیسے کہ حماۃ ،درہ، حمص ، یہی وجہ ہے کہ موجودہ انقلاب بھی جو کہ مارچ 2011سے شروع ہوا انہی شہروں سے شروع ہوا۔ اس کا آغاز چند لڑکوں کی گرفتاری سے ہوا جنہوں نے اپنے چہروں پر اسد مخالف نعرے درج کروائے ۔ ان کو پولیس نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا۔ ان کی کھالیں ادھیڑ دیں گئیں اور چہرے بگاڑ دئیے گئے۔ اس واقعے کے خلاف لوگ سراپا احتجاج بن گئے اور سڑکوں پر نکل آئے۔ ان پرامن مظاہرین پر شامی فوج نے گولیاں چلا کر درجنوں کو شہید کر دیا۔
    اس ظلم وستم کے باوجود احتجاج کا سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور نُصیریوں کی ظالم فوج نے سینکڑوں مرد و خواتین کو خون میں نہلا دیا۔ درہ اور حماۃ کا محاصرہ کیا گیا اور 1980ء کی طرح اس میں ہونے والے قتل و خو ن سے دنیا ابھی تک بالکل بے خبر ہے کیونکہ تمام بین الاقوامی ، علاقائی اور مقامی میڈیا کو خیررسانی سے روک دیا گیا ہے۔ سوشل میڈیا جیسے Youtubeوغیرہ پر اس بربریت کی ایک ہلکی سی جھلک دیکھی جا سکتی ہے جو کہ رافضی فوجوں نے وہاں روا رکھی ہے۔ حال ہی میں وہ لوگ جنہوں نے شام سے بھاگ کر ترکی کے کیمپوں میں پناہ لی ہے انہوں نے وحشت اور بربریت کی ایسی کہانیاں بیان کیں ہیں جن کو سن کر چنگیز اور ہلاکو بھی شرما جائیں۔
    مغربی میڈیا اور عینی شاہدین سے ملنے والی رپورٹوں سے یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچ چکی ہے کہ ایران کی انقلابی گارڈ کے فوجی اور حزب اﷲ کے تربیت یافتہ دہشت گرد اس قتل عام میں شامی حکمرانوں کی مدد کر رہے ہیں۔ ان نُصیری غنڈوں کی سربراہی بشار الاسد کا چھوٹا بھائی مہر الاسد اور بہنوئی کر رہے ہیں۔ نہتے مظاہرین پر گولی باری، مشہور سنی علماء کا قتل یا گرفتاری ، عورتوں کے ساتھ زیادتی ، معصوم بچوں کا قتل ، لوگوں کو گھروں میں زندہ جلا دینا، شہروں پر ٹینکوں کے ذریعے چڑھائی اور عوام کو جلاوطن کرنا جیسے ہولناک جرائم اس رافضی گروہ سے سرزد ہو رہے ہیں۔ ان میں سب سے ظالم ’’شبابیہ‘‘ ہیں جو کہ ایک طرح کی نجی فوج ہے جس کے تمام اراکین نُصیریوں سے چنے جاتے ہیں۔ یہ معصوم سنی مسلمانوں کے خلاف بدترین جرائم کے مرتکب ہیں۔
    دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ہونے والے ظلم عظیم پر مسلم دنیا بالکل خاموش ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ عرب لیگ اس ظلم پر آگے بڑھ کر بزور اس کا راستہ روکتی لیکن تادم تحریر وہ مذمتی بیانوں اور معاشی پابندیوں کی دھمکیوں سے آگے نہیں بڑھ پائی ۔
    مغربی ممالک اس معاملے میں خاموش تماشائی کا کردار ادا کر رہے ہیں۔ وہ ابھی تک شام میں کسی ایسے گروپ کے ابھر آنے کا انتظار کر رہے ہیں جو کہ بشار الاسد کی رخصتی کی صورت میں ان کے مفادات کو ضرب نہ پہنچنے دے جن میں سے سب سے اہم ریاست اسرائیل کی بقا ہے۔ ایسے کئی گروپس سے وہ ترکی میں مل چکے ہیں اور اگر مسلم دنیا اور نام نہاد عرب لیگ یونہی خاموش رہی تو پھر ممکن ہے کہ شام کے مسلمان بھی مغرب کی مدد لینے پر مجبور ہو جائیں اور آزادی کی یہ تحریک بھی مغرب ہای جیک کر لے۔
    اگر شامی عوام نے خود ہتھیار اٹھا لیے تو ممکن ہے کہ رافضی حکمران اپنے آپ کو اسرائیل کے ساتھ کسی "مقرر کردہ" جنگ میں الجھا لیں۔جس کا مظاہرہ ہم ماضی قریب میں حزب اللہ اور اسرائیل جنگ کی صورت میں دیکھ چکے ہیں۔اس جنگ کا مقصد دنیا کی نظراس قتل خون سے ہٹانا ہو گی جو کہ وہاں جاری ہے۔



    ایران کے رافضی ہوں یا امریکہ اور اسرائیل،ان کی نظریں اس اسلامی انقلاب پر لگی ہوئی ہے جو کہ یکدم سے اس خطے میں امڈ آیا ہے۔ مصر میں اسلامی جماعتوں کی کام یابی نے اس خوف میں اضافہ کر دیا ہے۔ انہیں ہر صورت اس تحریک کا راستہ روکنا ہے۔اگرچہ امریکہ کے لئے اب یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ ایک اور مسلم ملک پر فوج کشی کر سکے لیکن اسرائیل کا تحفظ بہرحال اس کے لئے مقدم ہے۔اس لئے اس بات کا خدشہ ہے کہ باہمی رضامندی سے وہ ایک ایسی جنگ شروع کر دے جس کا مقصد جنگ کی آ ڑ میں اسلامی قوتوں کا خاتمہ ہو۔ یہ صرف قیاس آرائی نہیں ہے بلکہ ان ممالک کے درمیان پائی جانے والی موجودہ مخاصمت اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ اس پر عمل شروع ہو چکا ہے۔ اس جنگ کا مقصد نہ صرف اس ظلم سے نظر ہٹانا ہو گا بلکہ رافضہ کو وہ اخلاقی پوزیشن اور عسکری مقام بھی دینا ہو گا جس کی آ ڑ میں وہ اسلامی سرزمین پر اپنے پنجے گاڑے رکھ سکے۔





  • #2
    Re: شام کے نصیری شیعہ کے بارے میں اہم معلومات

    hmmm interesting
    shuru ka hissa parha hai abhi ..kitnay diff diff aqaid k loog paye jatay hian ....
    اللھم صلی علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما صلیت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔
    اللھم بارک علٰی محمد وعلٰی آل محمد کما بارکت علٰی ابراھیم وعلٰی آل ابراھیم انک حمید مجید۔

    Comment

    Working...
    X