Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

غمِ ہجر

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • غمِ ہجر

    غمِ ہجر: حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم سے بڑی محبت تھی حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا جب وصال ہوگیا تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ مدینہ کی گلیوں میں یہ کہتے پھرتے تھے کہ لوگو! تم نے کہیں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو دیکھا ہے تو مجھے بھی دکھا دو یا مجھے آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کا پتا بتادو۔ پھر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس غم ہجر میں مدینے کو چھوڑ کر ملک شام کے شہر حلب میں چلے گئے۔ ایک سال کے بعد آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو خواب میں دیکھا حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم نے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ اے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ !تم نے ہم سے ملنا کیوں چھوڑ ا ؟کیا تمھارا دل ہم سے ملنے کو نہیں چاہتا؟
    حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ خواب دیکھ کر ،لبیک یا سیدی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم! اے آقا! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم غلام حاضر ہے، کہتے ہوئے اٹھے اور اسی وقت رات ہی کو اونٹنی پر سوار ہو کر مدینے کو چل پڑے۔ رات دن برابر چل کر مدینہ منورہ میں داخل ہو ئے۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ پہلے سیدھے مسجد نبوی(علی صاحبہ الصلوۃوالسلام) پہنچے اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو ڈھونڈا ،مگر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو نہ دیکھا ،پھر حجروں میں تلاش کیا جب وہاں بھی نہ ملے تب مزارانور پر حاضر ہوئے اورروکر عرض کیا: یا رسول اللہ! صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم حلب سے غلام کو یہ فرما کر بلایا کہ ہم سے مل جاؤ اور جب بلال زیارت کے لئے حاضر ہوا تب حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم پردہ میں چھپ گئے۔ یہ کہہ کر آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بے ہوش ہو کر قبر انور کے پاس گر گئے ،بہت دیر میں جب آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہوش آیا تو لوگ قبر انور سے اٹھا کر باہر لائے ۔
    اس عرصہ میں حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے آنے کا سارے مدینہ میں غل ہوا کہ آج رسول اللہ عزوجل وصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے مؤذن بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ آئے ہیں ۔ سب نے مل کرحضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے درخواست کی اللہ عزوجل کے لئے ایک دفعہ وہ اذان سنادوجو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو سناتے تھے۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرمانے لگے،دوستو! یہ بات میری طاقت سے باہر ہے کیونکہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی حیات ظاہری میں اذان دیتا تھا تو جس وقت اشھدان محمدا رسول اللہ کہتا تھاتو رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو سامنے آنکھوں سے دیکھ لیتا تھا۔ اب بتاؤ کہ کسے دیکھوں گا؟ مجھے اس خدمت سے معاف رکھو۔ ہر چند لوگوں نے اصرار کیا مگر حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے انکار ہی کیا۔
    بعض صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کی یہ رائے ہوئی کہ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کسی کا کہنا نہیں مانیں گے تم کسی کو بھیج کر حضرت حسن و حسین رضی اللہ عنھما کو بلالو،اگر وہ آکر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے اذان کی فرمائش کریں گے تو بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ضرور مان جائیں گے، کیونکہ حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے اہل بیت رضی اللہ تعالیٰ عنہم سے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو عشق ہے۔ یہ سنکر ایک صاحب جا کر حضرت حسن اورحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہماکو بلالائے۔ حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے آکر بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر فرمایا کہ اے بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ ! آج ہمیں بھی وہی اذان سنا دو جو ہمارے نانا جان صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو سنایا کرتے تھے۔ حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گود میں اٹھا کر کہا۔ تم میرے محبوب صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے جگر پارہ ہو، نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کے باغ کے پھول ہو ،جو کچھ تم کہو گے منظور کروں گا، تمہیں رنجیدہ نہ کروں گا کہ اس طرح حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو مزارمبارک میں رنج پہنچے گا اور پھر فرمایا: حسین !رضی اللہ تعالیٰ عنہ مجھے لے چلو جہاں کہو گے اذان کہہ دو ں گا۔
    حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کو مسجد کی چھت پر کھڑا کردیا۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اذان کہنا شروع کی اللہ اکبر! اللہ اکبر ! مدینہ منورہ میں یہ وقت عجب غم اور صدمہ کا وقت تھا۔ آج مہینوں کے بعد اذانِ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی آواز سنکر حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کی دنیوی حیات مبارک کا سماں بندھ گیا۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی اذان سنکر مدینہ منورہ کے بازار وگلی کوچوں سے لوگ آن کر مسجد میں جمع ہوئے ہرایک شخص گھر سے نکل آیا ۔ پردہ والی عورتیں باہر آگئیں اپنے بچوں کو ساتھ لائیں۔ جس وقت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اشھد ان محمدا رسول اللہ منہ سے نکالا ہزار ہا چیخیں ایک دم نکلیں اس وقت رونے کا کوئی ٹھکانا نہ تھا۔عورتیں روتی رہیں بچے اپنی ماؤں سے پوچھتے تھے کہ تم بتاؤ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ مؤذنِ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم تو آگئے۔ مگر رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم مدینہ کب تشریف لائيں گے۔
    حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اشہد ان محمدا رسول اللہ منہ سے نکالا اور حضورصلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلم کو آنکھوں سے نہ دیکھا تو غم ہجر میں بے ہوش ہو کر گر گئے اور بہت دیر کے بعد ہوش میں آکراٹھے اور روتے رہے۔پھر ملک شام چلے گئے۔

    (مدارج النبوت،باب دہم،درذکر مؤذنین...الخ،ج۲،ص۵۸۳)




  • #2
    Re: غمِ ہجر

    جزاک اللہ۔
    :star1:

    Comment


    • #3
      Re: غمِ ہجر

      jazakAllah khair

      Comment

      Working...
      X