ہمارا وجود دو چیزوں سے بنا ہے ایک جسم جو ظاہری طور پر ہمیں نظر آتا ہے اور دوسری روح جوظاہری آنکھ سے نظر نہیں آتی۔ دونوں کے ملاپ سے زندگی کا حسن قائم ودائم ہے۔ دونوں کی جدائی موت ہے۔ یورپ نے جسم کو بنایا سنوارا اور مادیت میں اتنا آگے نکل گیا کہ اسے روحانیت کا احساس ہی نہ رہا۔ وہ مادی ترقی کا اسیر ہوکر روحانی اقدار کو بھول گیا ہے اور مشرق روحانی ترقی میں اتنا ڈوب گیا ہے کہ اپنے وجود سے ہی محروم ہوگیا ہے۔ صرف روحانی باتوں سے وہ سب کچھ پانا چاہتا ہے۔ یہی مشرقی اقوام کی کم عقلی ہے۔
حقیقت میں اسلام مادیت اور روحانیت کا مجموعہ ہے۔ روح بیمار ہو تو جسم کا رنگ و روغن بھی کسی بھیانک تصویر سے کم نہیں ہوتا اگر جسم توانا ہے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ روح اپنے جلوے دکھارہی ہے۔ یہی روح ہے جس سے روحانیت کی دنیا آباد ہوتی ہے جسم کی پرواز محدود ہے جبکہ روحانی پرواز سات آسمانوں کو چیر کر جہاں تک جانا چاہتی ہے چلی جاتی ہے۔ یہ روحانی زندگی کا کمال ہے کہ ہم اپنے گھرمیں بیٹھ کر پوری دنیا کی سیر کرتے ہیں۔ ہماری روحانی پرواز جتنی بلند ہوتی ہے ہمارے امکانات اتنے ہی روشن ہوتے ہیں۔ زندگی اتنی ہی زیادہ سمجھ دار ہے کیونکہ اس کے نظارے روحانیت میں رکھ دئیے گئے ہیں یہ راز اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے اپنے بے تار (Wire Less) سسٹم میں کیا کچھ رکھ دیا ہے۔روح نظر نہیں آتی۔ نہ کوئی ثابت کرسکا ہے اور نہ کرے گا۔ مگر انسان پیٹ سے فارغ ہوکر روحانی مسائل کی طرف آئے گا تو روحانی جلوے اس پر نمودار ہوں گے۔ ہر انسان چند الفاظ کے ورد سے غیبی طاقتیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ روحانیت کے کمال درجے تک پہنچنا چاہتا ہے اور اس کام کیلئے وہ روحانی ہستیوں سے ملتا ہے مگر مایوس ہوکر لوٹ آتا ہے کیونکہ روح اور روحانیت کی دنیا کچھ اور ہے۔ اس میں لٹانا زیادہ ہے اور پانا کم ہے۔
روحانی کمالات کا آغاز اپنی ذات کی نفی سے ہوتا ہے۔ غریبوں اور بے کسوں کی دعاؤں میں یہ نظر آتی ہے۔ کسی کا دل بن جائیں تو ہمارا دل سکون و قرار حاصل کرتا ہے۔ روحانی معاملات دل کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ نظر نہیں آتے۔ بس محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے قوانین ذرا مادی دنیا سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ ان کا فلسفہ عام قوانین سے قدرے مشکل ہے‘ بس سادہ سا ایک فارمولہ ہے کہ خوش رہنا چاہتے ہو تو اپنے جیسوں کو خوش رکھو… کسی کا دل بن جاؤ یا کسی کی جان بن جاؤ۔
حقیقت میں اسلام مادیت اور روحانیت کا مجموعہ ہے۔ روح بیمار ہو تو جسم کا رنگ و روغن بھی کسی بھیانک تصویر سے کم نہیں ہوتا اگر جسم توانا ہے تو یہ سمجھنا چاہیے کہ روح اپنے جلوے دکھارہی ہے۔ یہی روح ہے جس سے روحانیت کی دنیا آباد ہوتی ہے جسم کی پرواز محدود ہے جبکہ روحانی پرواز سات آسمانوں کو چیر کر جہاں تک جانا چاہتی ہے چلی جاتی ہے۔ یہ روحانی زندگی کا کمال ہے کہ ہم اپنے گھرمیں بیٹھ کر پوری دنیا کی سیر کرتے ہیں۔ ہماری روحانی پرواز جتنی بلند ہوتی ہے ہمارے امکانات اتنے ہی روشن ہوتے ہیں۔ زندگی اتنی ہی زیادہ سمجھ دار ہے کیونکہ اس کے نظارے روحانیت میں رکھ دئیے گئے ہیں یہ راز اللہ ہی جانتا ہے کہ اس نے اپنے بے تار (Wire Less) سسٹم میں کیا کچھ رکھ دیا ہے۔روح نظر نہیں آتی۔ نہ کوئی ثابت کرسکا ہے اور نہ کرے گا۔ مگر انسان پیٹ سے فارغ ہوکر روحانی مسائل کی طرف آئے گا تو روحانی جلوے اس پر نمودار ہوں گے۔ ہر انسان چند الفاظ کے ورد سے غیبی طاقتیں حاصل کرنا چاہتا ہے۔ روحانیت کے کمال درجے تک پہنچنا چاہتا ہے اور اس کام کیلئے وہ روحانی ہستیوں سے ملتا ہے مگر مایوس ہوکر لوٹ آتا ہے کیونکہ روح اور روحانیت کی دنیا کچھ اور ہے۔ اس میں لٹانا زیادہ ہے اور پانا کم ہے۔
روحانی کمالات کا آغاز اپنی ذات کی نفی سے ہوتا ہے۔ غریبوں اور بے کسوں کی دعاؤں میں یہ نظر آتی ہے۔ کسی کا دل بن جائیں تو ہمارا دل سکون و قرار حاصل کرتا ہے۔ روحانی معاملات دل کی دنیا سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ نظر نہیں آتے۔ بس محسوس ہوتے ہیں۔ ان کے قوانین ذرا مادی دنیا سے ہٹ کر ہوتے ہیں۔ ان کا فلسفہ عام قوانین سے قدرے مشکل ہے‘ بس سادہ سا ایک فارمولہ ہے کہ خوش رہنا چاہتے ہو تو اپنے جیسوں کو خوش رکھو… کسی کا دل بن جاؤ یا کسی کی جان بن جاؤ۔
خوشی آپ کے اندر ہے: خوشی آپ اپنے اندر سے تلاش کرسکتے ہیں۔ صرف اپنے انداز فکر کو بدلیے۔ مثبت انداز فکر کو اپنائیے۔ تصویر کا ہمیشہ روشن پہلو ہی مدنظر رکھا کریں۔ تاریک پہلو یا منفی سوچیں آپ کو ڈیپریشن یا اداسی ہی بخش سکتی ہیں خوشی ہرگز نہیں دے سکتی ہیں۔ مشکل حالات سے نبٹنا سیکھیں امید کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑیں۔ امید کی ہلکی سی کرن بھی دل میں خوشی کا احساس زندہ رکھتی ہے۔
مسائل کو اپنے اوپر سوار مت کریں: اگر قدرت کی طرف سے آپ پر کوئی پریشانی یا مصیبت نازل ہوتی ہے تو ہر وقت صرف میں ہی کیوں؟ جیسی سوچیں اس پریشانی میں کئی گنا اضافے کا باعث بن جاتی ہے۔ اس کے بجائے ٹھنڈے دل سے مسئلے کے بارے میں سوچیں۔ ان لوگوں کو مدنظر رکھیں جو آپ سے بھی بڑی کسی مصیبت میں مبتلا ہیں تو آپ کو اپنی پریشانی بہت چھوٹی لگے گی اور آپ اپنے مسائل کا بہتر حل سوچ سکیں گے۔
مسائل کو بلاوجہ مت لٹکائیں: اگر آپ کسی بھی مسئلے کو طول دیتے جائیں گے اور متعلقہ غیرمتعلقہ سب لوگوں سے صلاح مشورہ کریں گے تو آپ زیادہ پریشانی کا شکار ہوسکتے ہیں۔ مشورہ ضرور کیجئے مگر صرف اپنے خیرخواہوں سے مگر اپنی قوت فیصلہ کو بھی مضبوط بنائیے۔ بروقت اور صحیح فیصلہ کرنے کی عادت آپ کی کئی پریشانیوں کو کم کرکے آپ کو پرسکون کرسکتی ہے۔
آخری اور سب سے اہم نکتہ یہ ہے کہ بحیثیت مسلمان ہم سب تقدیر پر ایمان رکھتے ہیں اس یقین کو مضبوط بنائیے۔ اللہ سے ہمیشہ بہتری کی دعا کریں اور اگر کوئی مصیبت آجائے تو اسے صبر اور حوصلے سے برداشت کریں اور یہ یقین رکھیں کہ آپ کا رب آپ سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتا ہے وہ یقیناً آپ کو مشکل سے نکالے گا۔ مایوس ہونے کی بجائے اللہ کی ان نعمتوں کا شکرادا کرنا نہ بھولیے گا جو اس نے آپ کو عطا کی ہیں۔ وہ شکر اور صبر کرنے والوں کو زیادہ نوازتا ہے۔
Comment