Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

نماز میں زبانی الفاظ کے ساتھ نیت کرنے کا حکم

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • نماز میں زبانی الفاظ کے ساتھ نیت کرنے کا حکم


    نماز میں زبانی الفاظ کے ساتھ نیت کرنے کا حکم

    لغت میں ’’نیت‘‘ دل کے ارادہ کو کہتے ہیں۔ اور ارادہ دل سے کیا جاتا ہے زبان سے نہیں۔

    (النية إرادةالدخولفیالصلوة، والشرط أن یعلم بقلبه أی صلوةیصلي، ولا عبرةللذکر باللسان، ولا یشترط نيةعددالرکعات،ونيةالکعبةلیستبشرطھوالصحیحوعلیه الفتوی)

    نیت دل کے ارادے کو کہتے ہیں اور نماز کے لیے شرط ہے کہ دل سے جانے کہ میں فلاں وقت کی نماز ادا کر رہا ہوں۔ اور زبان سے الفاظ ادا کرنے کا کوئی اعتبار نہیں ہے اور رکعتوں کی تعداد کی زبان سے نیت کرنی نماز کی شرط نہیں ہے اور کعبہ کی نیت (کہ منہ میرا کعبہ کی طرف) بھی نماز کی شرط نہیں ہے اور یہی بات صحیح ہے اور اسی پر فتوی ہے۔


    (فتاویٰ عالمگیری:۱/۵۰،۵۱)

    امام ابن ہمام حنفی اپنی کتاب ’’فتح القدیر شرح الہدایہ‘‘ (۱/۲۶۶،۲۶۷) میں فرماتے ہیں

    بعض حفاظ نے کہا ہے کہ کسی صحیح یا ضعیف سند سے بھی ثابت نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کی ابتدا کرتے وقت یہ فرماتے کہ میں فلاں نماز ادا کر رہا ہوں اور نہ ہی صحابہ یا تابعین میں سے کسی سے یہ منقول ہے۔ بلکہ جو منقول ہے وہ یہ کہ آپ جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ’اللہ اکبر‘ کہتے، اور یہ (زبان سے نیت کرنا) بدعت ہے۔

    علامہ حسن شرنبلالی حنفی نے اپنی کتاب ’’مراقی الفلاح شرح نور الایضاح‘‘ میں مذکورہ باتیں حافظ ابن القیم سے نقل فرمایا ہے ۔

    علامہ حموی حنفی اپنی کتاب ’’شرح الأشباہ والنظائر‘‘ (ص۴۵) میں (۵۔۶) اور علامہ ابن نجیم حنفی اپنی کتاب ’’بحر الرائق‘‘ (ص۲۱۰) میں لکھتے ہیں: ’’ابن امیر حاج ’’حلیہ شرح منیہ‘‘ میں ’’فتح القدیر‘‘ کی عبارت پر اضافہ کرتے ہیں کہ یہ فعل ائمۂ اربعہ سے بھی مروی نہیں۔‘‘ ابن نجیم کہتے ہیں: ’’ظاہر فتح القدیر سے بدعت ہونا ہی ثابت ہوتا ہے۔
    علامہ حسن شرنبلالی حنفی نے ’’مجمع الروایات‘‘ سے نقل کیا ہے کہ زبان سے نیت بولنے کو بعض علماء نے حرام کہا ہے اس لیے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کے کرنے والے کو سزا دی ہے۔

    (شرح نور الایضاح)

    فتاویٰ غربیۃ، کتاب الصلوۃ کے دسویں باب میں ہے: ’’کہا گیا ہے کہ زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔

    امام ابن عابدین حنفی اپنی کتاب ’’رد المحتار‘‘ (۱/۲۷۹) میں فرماتے ہیں: ’’زبان سے نیت کرنا بدعت ہے۔

    امام ملا علی قاری حنفی اپنی کتاب ’’مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح‘‘ (۱/۴۱) میں لکھتے ہیں: ’’الفاظ کے ساتھ نیت کرنا جائز نہیں ہے کیونکہ یہ بدعت ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع جس طرح آپ کے کاموں میں کرنا لازم ہے، اسی طرح اتباع کام کے نہ کرنے میں بھی لازم ہے، جو شخص آپ کے نہ کیے ہوئے پر اڑا رہےگا وہ بدعتی ہے...
    نیز فرماتے ہیں: تم جان چکے ہو کہ نہ بولنا ہی افضل ہے۔

    مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی نقشبندی حنفی لکھتے ہیں: ’’زبان سے نیت کرنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سند صحیح بلکہ سند ضعیف سے بھی ثابت نہیں اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اور تابعین عظام رحمۃ اللہ علیہم زبان سے نیت نہیں کرتے تھے بلکہ جب اقامت کہتے تو صرف ’اللہ اکبر‘ کہتے تھے، زبان سے نیت بدعت ہے۔

    (مکتوبات دفتر اول حصہ سوم، مکتوب نمبر ۱۸۶ ص۷۳)

    طحطاوی حنفی ’’شرح در مختار‘‘ (۱/۱۹۴) میں لکھتے ہیں: ’’صاحب در مختار‘‘ کے قول: ’’یعنی سلف نے اس کو پسند کیا ہے‘‘، اس میں اشارہ ہے اس امر کا کہ حقیقت میں نیت کے ثابت ہو نے کے بارے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے اس لیے کہ زبان سے بولنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں ہے اور نہ صحابہ وائمہ اربعہ سے، یہ تو محض بدعت ہے۔

    علامہ انور شاہ کاشمیری دیوبندی حنفی فرماتے ہیں: ’’نیت صرف دل کا معاملہ ہے۔

    (فیض الباری شرح صحیح البخاری :۱/۸)

    ۔ علامہ عبد الحی لکھنوی حنفی نے بھی اپنی کتاب ’’عمدۃ الرعایۃ حاشیہ شرح الوقایہ‘‘(۱/۱۵۹) میں اسے بدعت کہا ہے۔

    ۔ مولانا اشرف علی تھانوی اپنی کتاب ’’بہشتی زیور‘‘ (۲/۲۸) میں لکھتے ہیں: ’’زبان سے نیت کرنا ضروری نہیں ہے بلکہ دل میں جب اتنا سوچ لیوے کہ آج کی ظہر کے فرض پڑھتی ہوں اور اگر سنت نماز پڑھتی ہو تو یہ سوچ لے کہ ظہر کی سنت پڑھتی ہوں، بس اتنا خیال کر کے ’اللہ اکبر‘ کہہ کے ہاتھ باندھ لیوے تو نماز ہو جاوےگی اور جو لمبی چوڑی نیت لوگوں میں مشہور ہے اس کا کہنا کچھ ضروری نہیں ہے۔

    (*)
    پیران پیر محضرت شیخ عبد القادر جیلانی حنبلی اپنی کتاب ’’غنیۃ الطالبین‘‘ (ص۲۱) میں فرماتے ہیں: ’’نیت کی جگہ دل ہے یعنی وقتی فرض یا نفلی نماز کے ادا کرنے کی دل میں نیت کر لی جائے تاکہ اللہ تعالیٰ کے اس حکم کی جو بندوں پر واجب کر دیا گیا ہے ریا و شہرت کے بغیر تعمیل ہو جائے۔

    (*)
    امام ابن تیمیہ فرماتے ہیں: ’’اگر کوئی انسان سیدنا نوح علیہ السلام کی عمر کے برابر تلاش کرتا رہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم میں سے کسی نے زبان سے نیت کی ہو تو وہ ہرگز کامیاب نہیں ہوگا سوائے سفید جھوٹ بولنے کے، اگر اس میں کوئی بھلائی ہوتی تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم سب سے پہلے کرتے اور ہمیں بتا کر جاتے۔

    (اغاثۃ اللھفان لابن القیم:۱ /۱۵۸)

    (*)
    امام ابن قیم فرماتے ہیں: ’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو ’اللہ اکبر‘ کہتے اور اس سے پہلے کچھ نہ کہتے اور نہ زبان سے نیت کرتے اور نہ یوں کہتے کہ میں چار رکعت فلاں نماز منہ طرف قبلہ کے امام یا مقتدی ہو کر پڑھتا ہوں اور نہ ادا یا قضا یا فرض وقت کا نام لیا ہو، یہ دس بدعات ہیں اس بارے میں ایک لفظ بھی کسی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سند صحیح یا سند ضعیف یا مرسل سے قطعاً نقل نہیں کیا بلکہ آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی ایک سے بھی ایسا منقول نہیں اور نہ ہی کسی تابعی نے اسے پسند کیا اور نہ ائمہ اربعہ نے۔

    (زاد المعاد:۱/۲۰۱)

    (*)
    علامہ سیوطی شافعی فرماتے ہیں: ’’نیت نماز میں وسوسہ بدعات میں سے ہے، یہ (نیت بزبان) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ رضی اللہ عنہم کے عمل سے نہیں، وہ سوائے تکبیر کے نیت کا ایک لفظ تک نہ کہتے تھے، اور اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

    (لَقَدْ کَانَ لَکُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللہِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ)


    (سورہ الأحزاب :۲۱)
    ’’یقیناً تمہارے لیے رسول اللہ میں عمدہ نمونہ موجود ہے۔‘‘

    (ملاحظہ ہو: الأمر بالاتباع والنھی عن الابتداع :۱۹۸)

    غور وفکر سے کام لیں!!

    نماز سے پہلے نیت پڑھنا عقل، نقل اور لغت تینوں کے خلاف ہے

    ۱

    ۔ عقل کے خلاف اس لیے ہے کہ بےشمار ایسے کام ہیں جنہیں شروع کرتے وقت ہم زبان سے نیت نہیں پڑھتے، کیونکہ ہمارے دل میں انہیں کرنے کی نیت اور ارادہ موجود ہوتا ہے۔ مثلاً زکاۃ دینے لگتے ہیں تو کبھی نہیں پڑھتے: ’’زکاۃ دینے لگا ہوں‘‘ وغیرہ۔ تو کیا نماز ہی ایک ایسا کام ہے جس کیے آغاز میں اس کی نیت پڑھنا ضروری ہو گیا؟ نماز کی نیت تو اسی وقت ہو جاتی ہے جب آدمی اذان سن کر مسجد کی طرف چل پڑتا ہے اور اسی نیت کی وجہ سے اسے ہر قدم پر نیکیاں ملتی ہیں۔ لہذا نماز شروع کرتے وقت جو کچھ پڑھا جاتا ہے وہ نیت نہیں بدعت ہے۔

    ۲

    ۔ نقل (یعنی قرآن وحدیث اور عمل صحابہ) کے خلاف اس لیے ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم باقاعدگی کے ساتھ نمازیں پڑھا کرتے تھے اور اگر وہ اپنی نمازوں سے پہلے ’’نیت‘‘ پڑھنا چاہتے تو ایسا کر سکتے تھے ان کے لیے کوئی رکاوٹ نہیں تھی۔ لیکن ان میں سے کبھی کسی نے نماز سے پہلے مروجہ نیت نہیں پڑھی، اس کے برعکس وہ ہمیشہ اپنی نمازوں کا آغاز ’تکبیر تحریمہ‘ (اللہ اکبر) سے کرتے رہے۔ ثابت ہوا کہ نماز سے پہلے نیت پڑھنا بدعت ہے۔

    ۳

    ۔ لغت کے اس لیے خلاف ہے کہ نیت عربی زبان کا لفظ ہے۔ عربی میں اس کے معنی ’’ارادہ‘‘ ہیں اور ارادہ دل سے کیا جاتا ہے، زبان سے نہیں۔ بالکل اسی طرح جیسے دیکھا آنکھ سے جاتا ہے پاؤں سے نہیں۔ دوسرے لفظوں میں نیت دل سے کی جاتی ہے، زبان سے پڑھی نہیں جاتی ہے۔

    نوٹ

    بعض لوگ روزہ رکھنے کی دعا، حج کے تلبیہ اور نکاح میں ایجاب وقبول سے نماز والی مروجہ نیت کو ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ عرض یہ ہے کہ ’’روزہ رکھنے کی دعا، والی حدیث ضعیف ہے‘‘ لہذا حجت نہیں ہے۔ حج کا تلبیہ صحیح حدیثوں سے ثابت ہے۔ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی میں کہنا ضروری ہے۔ مگر نماز والی مروجہ نیت کسی حدیث میں وارد نہیں ہوئی۔ رہ گیا نکاح میں ایجاب وقبول کا مسئلہ، چونکہ نکاح کا تعلق حقوق العباد سے بھی ہے اور حقوق العباد میں محض نیت سے نہیں بلکہ اقرار، تحریر اور گواہی سے معاملات طے پاتے ہیں۔ جب کہ نماز میں تو بندہ اپنے رب کے حضور کھڑا ہوتا ہے جو تمام نیتوں کو خوب جاننے والا ہے۔ پھر وہاں نیت پڑھنے کا کیا تک بنتا ہے؟






    لہذا مسلمانوں سے گزارش ہے کہ وہ اس بدعت سے نجات پائیں اور سنت کے مطابق نماز شروع کر کے حب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا ثبوت دیں۔



Working...
X