پچھلے دنوں ایک واقعہ نظروں سے گزرا۔۔۔۔ جو کمرشل مولویوں کی دوغلا پن کا تھا اور اپنے لیے کچھ اور اپنے مقتدیوں کے لیے کچھ اور کا تھا۔۔۔۔ اپنی بیٹیوں اور بہنوں پر کچھ اور فتوی دینے کا تھا۔۔۔ اور غیر کی بیٹی کے لیے خود کو پیش کرنے کا تھا۔۔۔۔۔۔ جس نے مجھے قلم اٹھانے پر مجبور کیا
واقعہ آپ بھی سنیے !!!
میری فیملی کے ایک گھرانے میں طلاق ہوگئی۔ لڑکا بھی میرا کزن تھا(بڑے چچاکا بیٹا) اور لڑکی بھی میری کزن تھی۔ (چھوٹے چچا کی لڑکی) طلاق کے کچھ دنوں بعد پچھتاوا ہوا تو صلح کی کوششیں شروع ہوگئیں۔ اب صلح کیسے ہو اس کے لیے مسئلہ پوچھنا تھا لیکن جس مولوی صاحب کے پاس مسئلہ بھیجا جانا تھا وہ بھی ان کا رشتہ دار تھا تو فیصلہ یہ کیا گیا کہ مولوی صاحب کے پاس ناواقف بندے کو بھیج کر مسئلہ دریافت کیا جائے۔ تو ایک آدمی کو جو مولانا صاحب کا نا واقف تھا مسئلہ دریافت کرنے لے لیے بھیجا گیا۔ تو مولانا صاحب نے حلالہ کرنے کا مشورہ دیا۔ بستی میں جتنے بھی رشتہ داروں کے گھر تھے ان سب کو بلوایا اور مشورہ کیا گیا تو فیملی کا کوئی بھی بندہ حلالہ کے لیے تیار نہ ہوا۔ اور باہر کے لوگوں سے حلالہ کروانے کی غیرت گوارا نہیں کرتی تھی۔ تو فیصلہ کیا گیا کہ شہر جا کر مولانا صاحب کو سچ سچ بتا دیا جائے کہ یہ کسی اور کا نہیں بلکہ ان کے اپنے رشتہ داروں کا مسئلہ ہے۔ تاکہ کوئی اچھا اور مناسب حل ڈھونڈا جا سکے۔ جب یہ وفد مولانا صاحب کے پاس گیا اور حقیقت بتائی گئی کہ حلالہ کی چھری سے ذبح ہونے والی مطلقہ محترمہ کوئی اور نہیں ان کی اپنی رشتہ دار ہے تو مولانا صاحب پریشان ہوگئے۔اور ایک عجیب و غریب فیصلہ کیا کہ ایسا کرو فلاں جگہ پر جاؤ وہاں پر ایک اہل حدیث مدرسہ ہے اس کے مہتمم سے فتویٰ لے لو۔ ان شاء اللہ تمہارا کام بن جائے گا۔ جب یہ لوگ وہاں گئے تو مولانا نے فتوی ٰ دے دیا لیکن ساتھ ساتھ تقلید کے خطرناک نتائج سے آگاہ کیا اور قرآن وسنت کی طرف پلٹنے کی دعوت دی۔ اور کہا کہ اب نہیں نصیحت پکڑو گے تو پھر کب پکڑوگے؟
اب آئیے دیکھتے ہیں قرآن وحدیث کی روشنی میں ہمیشہ اِس مسئلہ کا حل کیا ملتا ہے!!!
ارشاد باری تعالیٰ ہے
فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَا تَحِلُّ لَهٗ مِنْۢ بَعْدُ حَتّٰي تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهٗ ۭ فَاِنْ طَلَّقَھَا فَلَاجُنَاحَ عَلَيْھِمَآ اَنْ يَّتَرَاجَعَآ اِنْ ظَنَّآ اَنْ يُّقِيْمَا حُدُوْدَ اللّٰهِ ۭ وَتِلْكَ حُدُوْدُ اللّٰهِ يُبَيِّنُھَا لِقَوْمٍ يَّعْلَمُوْنَ
٢٣٠
پھر اگر اس عورت کو طلاق دی تيسر ی بار تو اب حلال نہیں اسکو وہ عورت اسکے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے اس کے سوا پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہں ان دونوں پر کہ پھر باہم مل جاویں اگر خاال کریں کہ قائم رکھں گے اللہ کا حکم اور یہ حدیں باندھی ہوئی ہںو اللہ بابن فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے۔
مذكورہ بالا آیت ميں اللہ تعالي نے واضح الفاظ ميں بتا ديا كہ اگر كسي نے تيسري طلاق بھي دے دي تو اس كے بعد وہ عورت اس كے لئے حلال نہيں ہو تي وقيتكہ وہ كسي دوسرے شخص سے شادي كر كے اس كے ساتھ وظيفہ زوجيت ادا كر لے۔۔ اور ايسا كرنے كے بعد اگر كسي وجہ سے ان دونوں ميں جدائي ہوتي ہے۔۔۔ يا شوہر كا انتقال ہو جاتا ہے تو اب اس عورت كو يہ اختيار حاصل ہے كہ اگر وہ اور اس كا سابقہ شوہر دونوں اس بات پر راضي ہوں كہ وہ دوبارہ نكاح كر كے ساتھ رہيں تو ان كو ايسا كرنے كي اجازت ہے۔۔۔ ليكن اگر عورت نے دوسرے شوہر سے ازدواجي تعلقات قائم نہ كئے تو سابقہ شوہر كے لئے حلال نہيں ہوگي۔۔
اس كا يہ مطلب نہيں ہے كہ عورت يا مرد كو يہ ترغيب دي جا رہي ہے كہ وہ طلاق كے بعد ضرور اس عورت كا كسي مسلمان سے نكاح كروا كر پھر اس سے طلاق لي جائے۔۔ جیسے کہ مقلدین اور کچھ جاہل مولویوں نے اِس کا الٹ مطلب کے کر عورت کو بکائو مال سمجھ کر یہ کہا کہ اِس کو ایک دن اور ایک رات یا کچھ دنوں کے لیے کسی سے نکاح کروا دو۔۔ ۔۔۔۔۔ یہ ایک رات کسی کے بستر پر رہے گی تو تیرے لیے حلال ہوجائے گی۔۔۔۔۔۔ مگر احادیث میں اِس کو زنا کہا گیا ہے اور اِیسا کرنے والے اور کروانے والے پر پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے لعنت فرمائی ہے۔ ۔۔۔۔
حلالہ كی ممانعت نبی كريم صلی اللہ عليہ وآلہ سلم كی صحيح احاديث سے ثابت ہے
ابو داود ميں حديث مروى ہے كہ
نبی كريم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا
” اللہ تعالٰی حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے ”
سنن ابو داود حديث نمبر 2076
اور سنن ابن ماجہ ميں عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے مروى ہے كہ نبی كريم صلی اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا
كيا ميں تمہيں كرائے يا عاريتاً لئے گئے سانڈھ كے متعلق نہ بتاؤں ؟
صحابہ كرام رضی اللہ عنہم نے عرض كيا: كيوں نہيں اے اللہ تعالٰی كے رسول صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم آپ ضرور بتائيں
تو رسول كريم صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم نے فرمايا
” وہ حلالہ كرنے والا ہے، اللہ تعالٰی حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والے پر لعنت كرے ”
سنن ابن ماجہ حديث نمبر 1936
عمر بن خطاب رضی اللہ تعالٰی عنہ سے روايت ہے كہ انہوں نے لوگوں كو خطبہ ديتے ہوئے فرمايا
” اللہ كی قسم ميرے پاس جو حلالہ كرنے اور حلالہ كروانے والا لايا گيا ميں اسے رجم كر دونگا ”
مصنف عبدالرزاق
( 6 / 265 )
امام حاكم رحمہ اللہ نے نافع سے روايت كيا ہے كہ ايك شخص نے ابن عمر رضى اللہ تعالى عنہما سے عرض كيا
ايك عورت سے نكاح اس ليے كيا كہ اسے پہلے خاوند كے ليے حلال كروں نہ تو اس نے مجھے حكم ديا اور نہ وہ جانتا ہے، تو ابن عمر كہنے لگے
“نہيں ۔ نكاح تو رغبت كے ساتھ ہے ۔ اگر وہ تو تجھے اچھی لگے اور پسند ہو تو اسے ركھو اور اگر اسے ناپسند كرو تو اس كو چھوڑ دو
وہ بيان كرتے ہيں: “ہم تو رسول كريم صلی اللہ عليہ وآلہ و سلم كے دور ميں اسے زنا شمار كرتے تھے.
اور امام احمد رحمہ اللہ سے دريافت كيا گيا كہ
“ايك شخص نے كسی عورت سے شادى كی اور اس كے دل ميں تھا كہ وہ اس عورت كو اپنے پہلے خاوند كے ليے حلال كريگا، اور اس كا عورت كو علم نہ تھا ؟”
تو امام احمد رحمہ اللہ نے جواب ديا
“يہ حلالہ كرنے والا ہے، جب وہ اس سے حلالہ كا ارادہ ركھے تو وہ ملعون ہے”
جبکہ صحیح اسلام یہ ہے:::::
(1)
۔۔۔ طلاق كے بعد اپني مرضي سے عورت كا دوسري شادي كرنا۔۔ اس پر كوئي جبر نہيں كر سكتا نہ خاندان نہ سابقہ شوہر۔
(2)
۔۔۔ دوسرے شوہر سے وظيفہ زوجيت كي ادائيگي كو ضروري قرار ديا گيا۔
(3)
۔۔۔ دوسرا شوہر خود ہي كسي وجہ سے اس كو طلاق دے دے يا فوت ہو جائے۔
(4)
۔۔۔ اس كي طلاق يا وفات كي عدت اس عورت پر گذارنا ضروري ہو گا۔
(5)
۔۔۔ اس كے بعد اب اگر سابقہ شوہر چاہے كہ ميں اس سے دوبارہ شادي كر لوں تو۔ تو وہ ايسا عورت كي مرضي كے بغير نہيں كر سكتا۔
آخر تيسري طلاق كے بعد مرد پر اتني پابندياں كيوں عائد كي گئي ہيں۔۔۔ اس كو سمجھنے كے لئے اسلام ميں عورت كے مقام۔ اسلام ميں نكاح اور نظام طلاق كو سمجھنا بہت ضروري ہے۔۔ اگر وہ آپ سمجھ ليں گے تو پھر خود بخود يہ بات سمجھ ميں آ جائے گي۔ كہ
چونكہ اللہ كے حكم وجہ سے ايك اجنبي عورت اس شخص كي بيوي بن كر دنیا كي سب سے قريب ترين ہستي بن جاتي ہے۔ جس كي قدر و منزلت اور اس كے حقوق كا خيال ركھنا اس شخص كا فريضہ قرار ديا گيا ہے۔حتي الامكان اس رشتہ كو قائم ركھنا شريعت ميں مطلوب ہے۔۔۔ ليكن اگر بعض نا گزير حالات كي وجہ سے جدائي كي نوبت آ ہي جائے تب بھي شريعت نے اس كا ايك خاص نظام بنايا ہے جس كو طلاق كا نام ديا گيا ہے۔۔ اس نظام طلاق كے مختلف درجات مقرر كئے گئے ہيں۔ تا كہ وہ اس شخص كو خوب سوچنے سمجھنے كا موقع مل سكے۔۔ اور وہ اللہ كي مقرر كردہ حدود سے تجاوز نہ كر ے۔طلاق كے اللہ نے تين درجات مقرر كئے ہيں۔ان درجات كي تفصيل گذر چكي ہے۔ ان ميں سے دو طلاق تك اس شخص كو اپني بيوي سے رجوع كرنے كا اختيار حاصل ہے۔ عدت كے دوران۔۔جس ميں بيوي كي رضا مندي ضروري نہيں۔ ليكن عدت كے بعد بھي وہ رجوع كر سكتا ہے ليكن اس كے لئے بيوي كي رضا مندي اور نئے نكاح اور نئے حق مہر كا تعين ضروري ہو گا۔۔
اتني رعايت دينے كے باوجود بھي ہمارے اكثر مسلمان بھائي انتہائي اقدام اٹھانا ہي اپني جہالت كي وجہ سے پسند كرتے ہيں۔۔ اور پھر اس كا اثر تو مرتب ہو گا ہي۔۔ وہ اثر اللہ نے يہي بتايا ہے كہ اب وہ عورت ايسے شخص كو دوبارہ كبھي نہيں مل سكتي۔ تا وقتكيہ وہ دوسرے شوہر سے نكاح كر كے اس كي بيوي نہ بن جائے۔۔۔ اور اس كے بعد اگر وہ عورت چاہے تو اس سے دوبارہ نكاح كر سكتي ہے۔۔ مرد كوتنہا اختيار حاصل نہيں ہے۔
Comment