Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے


    بعض مساجد میں عورتوں کے لئے بھی تراویح کا انتظام ہوتا ہے، مگر امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے، ان کا اپنے گھر پر نماز پڑھنا مسجد میں قرآن مجید سننے کی بہ نسبت افضل ہے۔


    (آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۳/۶۸، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۔فتاویٰ عثمانی:۱/۵۱۶، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۔ کتاب الفتاویٰ:۲/۴۱۳،کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)


    http://ww2.anwar-e-islam.org/test-anwar/node/15846



    صحیح بخاری -> کتاب الاذان

    (صفۃ الصلوٰۃ)

    باب : عورتوں کا رات میں اور ( صبح کے وقت ) اندھیرے میں مسجدوں میں جانا
    حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عروة بن الزبير،
    عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت أعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم
    بالعتمة حتى ناداه عمر نام النساء والصبيان‏.‏ فخرج النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ ما ينتظرها أحد غيركم من أهل الأرض‏"‏‏. ‏ ولا يصلى يومئذ إلا بالمدينة، وكانوا يصلون العتمة فيما بين
    أن يغيب الشفق إلى ثلث الليل الأول‏.‏


    ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ عشاء کی نماز میں اتنی دیر کی کہ عمر رضی اللہ عنہ کو کہنا پڑا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( حجرے سے ) تشریف لائے اور فرمایا کہ دیکھو روئے زمین پر اس نماز کا ( اس وقت ) تمہارے سوا اور کوئی انتظار نہیں کر رہا ہے۔ ان دنوں مدینہ کے سوا اور کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی تھی اور لوگ عشاء کی نماز شفق ڈو بن ے کے بعد سے رات کی پہلی تہائی گزرنے تک پڑھاکرتے تھے۔


    تشریح : معلوم ہوا کہ عورتیں بھی نماز کے لیے حاضر تھیں، تب ہی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ بآواز بلند فرمایا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں۔ ترجمہ باب اسی سے نکلتا ہے کہ عورتیں اور بچے سوگئے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں بھی رات کو عشاءکی نماز کے لیے مسجد میں آیا کرتیں۔ اس کے بعد جو حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کی، اس سے بھی یہی نکلتا ہے کہ رات کو عورت مسجد میں جا سکتی ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو۔ یہ حدیثیں اس کو خاص کرتی ہیں یعنی رات کو روکنا منع ہے۔ اب عورتوں کا جماعت میں آنا مستحب ہے یا مباح اس میں اختلاف ہے۔ بعضوں نے کہا جوان عورت کو مباح ہے اور بوڑھی کو مستحب۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ عورتیں ضرورت کے لیے باہر نکل سکتی ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا میں عورتوں کا جمعہ میں آنا مکروہ جانتا ہوں اور بڑھیا عشاءاور فجر کی جماعت میں آسکتی ہے اور نمازوں میں نہ آئے -
    حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول خلاف حدیث ہونے کی وجہ سے حجت نہیں جیسا کہ خود حضرت امام رحمہ اللہ کی وصیت ہے کہ میرا قول خلاف حدیث چھوڑدو۔
    حدیث نمبر : 865
    حدثنا عبيد الله بن موسى، عن حنظلة، عن سالم بن عبد الله، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ
    عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا استأذنكم نساؤكم بالليل إلى المسجد فأذنوا لهن‏"‏‏. ‏ تابعه شعبة عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏

    ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے حنظلہ بن ابی سفیان سے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر نے، ان سے ان کے باپ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری بیویاں تم سے رات میں مسجد آنے کی اجازت مانگیں تو تم لوگ انہیں اس کی اجازت دے دیا کرو۔ عبیداللہ کے ساتھ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے ابن عمررضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔




















  • #2
    Re: امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے

    آپ امام صاحب کے نزدیک جایا ہی نہ کرو





    Comment


    • #3
      Re: امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے

      Originally posted by lovelyalltime View Post

      بعض مساجد میں عورتوں کے لئے بھی تراویح کا انتظام ہوتا ہے، مگر امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے، ان کا اپنے گھر پر نماز پڑھنا مسجد میں قرآن مجید سننے کی بہ نسبت افضل ہے۔


      (آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۳/۶۸، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۔فتاویٰ عثمانی:۱/۵۱۶، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۔ کتاب الفتاویٰ:۲/۴۱۳،کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)


      http://ww2.anwar-e-islam.org/test-anwar/node/15846



      صحیح بخاری -> کتاب الاذان

      (صفۃ الصلوٰۃ)

      باب : عورتوں کا رات میں اور ( صبح کے وقت ) اندھیرے میں مسجدوں میں جانا
      حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عروة بن الزبير،
      عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت أعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم
      بالعتمة حتى ناداه عمر نام النساء والصبيان‏.‏ فخرج النبي صلى الله عليه وسلم فقال ‏"‏ ما ينتظرها أحد غيركم من أهل الأرض‏"‏‏. ‏ ولا يصلى يومئذ إلا بالمدينة، وكانوا يصلون العتمة فيما بين
      أن يغيب الشفق إلى ثلث الليل الأول‏.‏


      ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ عشاء کی نماز میں اتنی دیر کی کہ عمر رضی اللہ عنہ کو کہنا پڑا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( حجرے سے ) تشریف لائے اور فرمایا کہ دیکھو روئے زمین پر اس نماز کا ( اس وقت ) تمہارے سوا اور کوئی انتظار نہیں کر رہا ہے۔ ان دنوں مدینہ کے سوا اور کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی تھی اور لوگ عشاء کی نماز شفق ڈو بن ے کے بعد سے رات کی پہلی تہائی گزرنے تک پڑھاکرتے تھے۔


      تشریح : معلوم ہوا کہ عورتیں بھی نماز کے لیے حاضر تھیں، تب ہی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ بآواز بلند فرمایا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں۔ ترجمہ باب اسی سے نکلتا ہے کہ عورتیں اور بچے سوگئے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں بھی رات کو عشاءکی نماز کے لیے مسجد میں آیا کرتیں۔ اس کے بعد جو حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کی، اس سے بھی یہی نکلتا ہے کہ رات کو عورت مسجد میں جا سکتی ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو۔ یہ حدیثیں اس کو خاص کرتی ہیں یعنی رات کو روکنا منع ہے۔ اب عورتوں کا جماعت میں آنا مستحب ہے یا مباح اس میں اختلاف ہے۔ بعضوں نے کہا جوان عورت کو مباح ہے اور بوڑھی کو مستحب۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ عورتیں ضرورت کے لیے باہر نکل سکتی ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا میں عورتوں کا جمعہ میں آنا مکروہ جانتا ہوں اور بڑھیا عشاءاور فجر کی جماعت میں آسکتی ہے اور نمازوں میں نہ آئے -
      حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول خلاف حدیث ہونے کی وجہ سے حجت نہیں جیسا کہ خود حضرت امام رحمہ اللہ کی وصیت ہے کہ میرا قول خلاف حدیث چھوڑدو۔
      حدیث نمبر : 865
      حدثنا عبيد الله بن موسى، عن حنظلة، عن سالم بن عبد الله، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ
      عن النبي صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ إذا استأذنكم نساؤكم بالليل إلى المسجد فأذنوا لهن‏"‏‏. ‏ تابعه شعبة عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم‏.‏

      ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے حنظلہ بن ابی سفیان سے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر نے، ان سے ان کے باپ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری بیویاں تم سے رات میں مسجد آنے کی اجازت مانگیں تو تم لوگ انہیں اس کی اجازت دے دیا کرو۔ عبیداللہ کے ساتھ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے ابن عمررضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔

      تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

      وہ کیا ہے کہ جناب لولی صاحب اور ان کے باقی غیر مقلدین کو امام ابو حنیفہ رح سے خاص طور پہ بغض اور حسد ہے اس لئے ہر بار اعتراض امام ابو حنیفہ رح پہ ہی کرنا ہے۔

      لولی ایک بات یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ تم نے داؤد راز کی بخاری کا یونیکوڈ ورثن لیا اپنے غیر مقلدین کے فورم سے لیکن اس میں سے علامہ وحید الزماں کا نام کیوں ہٹا دیا؟؟؟
      حدیث کے نیچے جو تشریح ہے وہ اسی وحید الزمان غیر مقلد کی ہے۔
      علامہ وحید الزمان غیر مقلد کی تشریح تو پیش کر رہے ہو لیکن وہ بھی اس کا نام ہٹا کر۔
      پھر تم جیسے جاہل کہتے ہیں کہ علامہ وحید الزمان غیر مقلد نہیں تھا اور اس کی تشریح کے بغیر تم بخاری کا ایک لفظ نہیں پڑھ سکتے۔
      کہو تو لنک دے دوں اس آنلائن ورثن کا جہاں مکمل روایت ہے اور ساتھ علامہ وحید الزماں غیر مقلد کا نام بھی ہے جس کو تم نے ہٹایا ہے۔
      اپنے عالم سے اتنی نفرت کیوں کہ اس کا نام ہٹا دیا؟؟؟؟


      عورتوں کا مسجد جانا امام ابو حنیفہ رح نے مکروہ کہا ہمیں تسلیم ہے لیکن لولی ساتھ یہ بھی تو بتاو کہ اور کس کس نے عورتوں کو مسجد جانے سے منع کیا ہے۔۔


      آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا بابرکت زمانہ چونکہ شر و فساد سے خالی تھا، ادھر عورتوں کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے اَحکام سیکھنے کی ضرورت تھی، اس لئے عورتوں کو مساجد میں حاضری کی اجازت تھی، اور اس میں بھی یہ قیود تھیں کہ باپردہ جائیں، میلی کچیلی جائیں، زینت نہ لگائیں، اس کے باوجود عورتوں کو ترغیب دی جاتی تھی کہ وہ اپنے گھروں میں نماز پڑھیں۔


      چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

      ”لا تمنعوا نسائکم المساجد، وبیوتھن خیر لھن۔“
      (رواہ ابوداوٴد، مشکوٰة ص:۹۶)
      ترجمہ:…”اپنی عورتوں کو مسجدوں سے نہ روکو، اور ان کے گھر ان کے لئے زیادہ بہتر ہیں۔“


      مسندِ احمد میں حضرت اُمِّ حمید ساعدیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

      ”قد علمت انک تحبین الصلٰوة معی وصلٰوتک فی بیتک خیر لک من صلٰوتک فی حجرتک، وصلٰوتک فی حجرتک خیر من صلٰوتک فی دارک، وصلٰوتک فی دارک خیر لک من مسجد قومک، وصلٰوتک فی مسجد قومک خیر لک من صلٰوتک فی مسجدی۔ قال: فأمرت فبنی لھا مسجد فی اقصی شیٴ من بیتھا واظلمہ، فکانت تصلی فیہ حتی لقیت الله عز وجل۔“ (مسندِ احمد ج:۱ ص:۳۷۱، وقال الھیثمی ورجالہ رجال الصحیح غیر عبدالله بن سوید الأنصاری، وثقہ ابن حبان، مجمع الزوائد ج:۲ ص:۳۴)

      ترجمہ:…”مجھے معلوم ہے کہ تم کو میرے ساتھ نماز پڑھنا محبوب ہے، مگر تمہارا اپنے گھر کے کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنا گھر کے احاطے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور احاطے میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں (میرے ساتھ) نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ: حضرت اُمِّ حمید رضی اللہ عنہا نے یہ ارشاد سن کر اپنے گھر کے لوگوں کو حکم دیا کہ گھر کے سب سے دُور اور تاریک ترین کونے میں ان کے لئے نماز کی جگہ بنادی جائے، چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق جگہ بنادی گئی، وہ اسی جگہ نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جاملیں۔“


      ان احادیث میں عورتوں کے مساجد میں آنے کے بارے میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا منشائے مبارک بھی معلوم ہوجاتا ہے اور حضراتِ صحابہ و صحابیات رضوان اللہ علیہم اجمعین کا ذوق بھی۔
      یہ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ سعادت کی بات تھی، لیکن بعد میں جب عورتوں نے ان قیود میں کوتاہی شروع کردی جن کے ساتھ ان کو مساجد میں جانے کی اجازت دی گئی تو فقہائے اُمت نے ان کے جانے کو مکروہ قرار دیا۔


      اُمّ الموٴمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا کا ارشاد ہے:

      ”لو ادرک رسول الله صلی الله علیہ وسلم ما احدث النساء لمنعھن المسجد کما منعت نساء بنی اسرائیل۔“
      (صحیح بخاری ج:۱ ص:۱۲۰، صحیح مسلم ج:۱ ص:۱۸۳، موٴطا امام مالک ص:۱۸۴)

      ترجمہ:…”عورتوں نے جو نئی رَوش اختراع کرلی ہے، اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کو دیکھ لیتے تو عورتوں کو مسجد سے روک دیتے، جس طرح بنواسرائیل کی عورتوں کو روک دیا گیا تھا۔“

      حضرت اُمّ الموٴمنین رضی اللہ عنہا کا یہ ارشاد ان کے زمانے کی عورتوں کے بارے میں ہے، اسی سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ ہمارے زمانے کی عورتوں کا کیا حال ہوگا․․․؟

      اب اپنے علماء کا قیاس اور تشریح مت پیش کرنا شروع کر دینا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی اس روایت کے بارے میں۔


      Click image for larger version

Name:	gm 1.jpg
Views:	2
Size:	94.0 KB
ID:	2427148
      Click image for larger version

Name:	gm 2.jpg
Views:	1
Size:	399.1 KB
ID:	2427149

      اب لگانا فتوی ذرا ابن عمر رضی اللہ اور زبیر بن عوام رضی اللہ اور ابراہیم نخعی رح پہ جو عورتوں کو عید گاہ جانے سے منع کرتے تھے۔
      امام ابو حنیفہ رح کے بارےمیں تو تمہارے فتوے پہلے ہی شروع ہو جاتے ہیں۔


      چلو تم نے اوپر حدیث پیش کی مسجد جانے کی تو ذرا اپنے ان علماء ناصر الدین البانئ، علامہ شوکانی، عمران ایوب لاہوری پہ فتوی صادر کرو جو کہتے ہیں کہ عورتوں کو گھر نماز پڑھنی چایہے اور یہ افضل ہے۔



      Click image for larger version

Name:	gm.jpg
Views:	1
Size:	119.3 KB
ID:	2427150

      Comment


      • #4
        Re: امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے

        wah lovly k liye tough time





        Comment


        • #5
          Re: امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے

          Originally posted by i love sahabah View Post



          عورتوں کا مسجد جانا امام ابو حنیفہ رح نے مکروہ کہا ہمیں تسلیم ہے لیکن لولی ساتھ یہ بھی تو بتاو کہ اور کس کس نے عورتوں کو مسجد جانے سے منع کیا ہے۔۔











          حضور صلی اللہ وسلم نے تو عورتوں کا مسجد جانا اور عید کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنا منع نہیں کیا نہ اسے مکروہ کہا

          اگر کوئی مکروہ کہتا ہے تو حضور صلی اللہ وسلم کی حدیث پیش کرے کہ حضور صلی اللہ وسلم نے اس کو مکروہ کہا ہے
          اور عورتوں کو عید کی نماز جماعت کے ساتھ پڑھنے سے منع کیا ہے








          عورتوں کو مسجد جانے کی اجازت


          یزید بن زریع، معمر، زہری، سالم بن عبداللہ ، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا جب تم میں سے کسی کی عورت (مسجد جانے کی) اجازت مانگے تو وہ اس کو نہ روکے۔


          صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 856



          عبداللہ بن محمد، شیابتہ، ورقائ، عمروبن دینار، مجاہد، ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ عورتوں کو مسجد میں رات کے وقت جانے کی اجازت دے دو۔


          صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 834


          حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں

          “أُمِرْنَا أَنْ نُخْرِجَ الْحُيَّضَ يَوْمَ الْعِيدَيْنِ وَذَوَاتِ الْخُدُورِ فَيَشْهَدْنَ جَمَاعَةَ الْمُسْلِمِينَ وَدَعْوَتَهُمْ وَيَعْتَزِلُ الْحُيَّضُ عَنْ مُصَلاَّهُنَّ قَالَتِ امْرَأَةٌ يَا رَسُولَ اللهِ إِحْدَانَا لَيْسَ لَهَا جِلْبَابٌ قَالَ لِتُلْبِسْهَا صَاحِبَتُهَا مِنْ جِلْبَابِهَا”

          (صحيح البخاري حسب ترقيم فتح الباري 1/ 99)

          ہمیں عیدین میں جوان اور حائضہ عورتوں کو عید گاہ لے جانے کا حکم دیا گیا، وہ مسلمانوں کی جماعت اور ان کی دعا میں شریک ہونگی اور حائضہ عورتیں مصلیٰ (نماز کی جگہ ) سے الگ رہیں گی ایک عورت نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول ! ہم میں سے کسی کے پاس چادر نہ ہوتو ؟ آپ نے فرمایا : چاہئے کہ اسے اس کی کوئی ساتھی اپنی زائد چادر دیدے ۔

          اور ایک روایت میں ہے کہ آپ نے فرمایا : پردہ دار خواتین اور حائضہ عورتوں کو بھی جانا چاہئے ، حائضہ عورتیں مصلیٰ سے الگ رہیں گی اور خیر اور مسلمانوں کی دعامیں شریک ہوں گی، میں نے ان سے کہا : کیا حائضہ عورتیں بھی جائیں گی ؟ انھوں نے کہا: ہاں ، کیا حائضہ عورت عرفات اور فلان فلاں (مقامات مقدسہ) نہیں جاتیں ہیں؟

          (بخاری :۲/٤٦٩)



          اس طرح سے گویا بعض ذہنوں میں جو ایک اشکال اور شبہ پیدا ہوتا ہے کہ عید گاہ نماز، خطبہ اور ذکر الٰہی کی جگہ ہے ، وہاں ناپاک عورتیں کیسے جائیں گی ؟اس اشکال اور شبہ کو بھی دور کردیا کہ دیکھئے ناپاکی کی حالت میں عورت عرفات اور منیٰ وغیرہ مقدس مقامات پر جاتی ہے اور نماز و طواف کے علاوہ تمام ارکان حج ادا کرتی ہے ، عرفات میں دعائیں کرتی، خطبہ سنتی اور توبہ و استغفار اور ذکر الٰہی میں دن بھر مشغول رہتی ہے اسی طرح وہ عید گاہ بھی جاسکتی ہے اور نماز کے سوا باقی تمام اعمال کرسکتی ہے ۔



          کچھ لوگ کہتے ہیں کہ عورتوں کو عید گاہ نماز پڑھنے کے لئے نہیں جانا چاہئے بلکہ انہیں محلہ کی مسجد میں نماز عید پڑھ لینا چاہئے حالانکہ حضر ت ام عطیہ وغیرہا کی احادیث کو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں عور تیں بھی عید گاہ جایا کرتی تھیں ، اور وہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز ادا کرتی تھیں اور آپ انھیں بعد میں خطبہ دیتے اور نصیحت فرماتے تھے، ایسا نہیں ہوتا تھا کہ عورتیں مسجد میں نماز عید پڑھیں اوررسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مردوں کے سا تھ میدان میں ادا کریں۔



          اسی طرح بعض لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ عورتوں کو عید گاہ نہیں جانا چاہئے اورعیدکی نمازنہیں پڑھنی چاہئے وہ بھی غلط ہے، اس کی ممانعت صحیح مرفوع حد یث سے ثابت نہیں۔بلکہ صحیح احادیث میں انہیں عیدگاہ لے جانے کاحکم اورثبوت مو جو دہے۔


          یہاں پر میں چند حدیثیں ذکر کر رہا ہوں:



          (١)

          ابھی حضرت ام عطیہ رضی اللہ عنہا کی روایت گزر چکی ہے ، وہ فرماتی ہیں: کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیاکہ عید الفطر اور عید الاضحی میں کنواری جوان لڑکیوں ،حیض والی عورتوں اورپردہ وا لی خواتین کو عید گاہ لے جائیں ،حیض والی عورتیں نماز کی جگہ سے علیحدہ رہیں گی اورکار خیراور مسلما نو ں کی دعا میں شریک ہوں گی۔میں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول !ہم میں سے بعض کے پاس چادر نہیں ہوتی ؟آ پ نے فرمایا:اس کی بہن اسے اپنی چادر سے اڑھالے۔

          (رواہ الجماعۃ ،انظر صحیح البخاری : کتاب العیدین ،باب خروج النساء والحیّض: ۲/١٦٣ ،وصحیح مسلم : کتاب صلاة العیدین : ۲/٣٣٧ ،جامع الترمذی:۱/٣٧٩)



          (٢)

          حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید قرباں یا عید الفطر میں نکلے او ردو رکعت (نماز عید)ادا کی، نہ اس سے پہلے کوئی نماز پڑھی نہ اس کے بعد، پھر آپ نے خطبہ دیا ، پھر عورتوں کے پاس تشریف لے گئے ، آپ کے ساتھ حضرت بلال رضی اللہ عنہ بھی تھے ،آپ نے انہیں صدقہ کر نے کا حکم دیا تو کوئی عورت چھلّے نکال کر دینے لگی ، کوئی لونگوں کا ہار دینے لگی ، پھر آپ اور حضرت بلال گھر تشریف لے گئے ۔

          (متفق علیہ ، صحیح البخاری : ۲/ ٤٦٤-٤٦٧)


          اس حدیث سے صاف طور پر معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں خواتین نماز عید کے لئے عید گاہ جاتی تھیں اور وہ مردوں کے پیچھے رہتی تھیں اور مردوں میں خطبہ دینے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انہیں نصیحت کرنے کے لئے ان کے پاس تشریف لے جاتے تھے ۔اسی طرح آج کے مسلمانوں اور علماء کرام کو بھی کرنا چاہئے ۔


          (٣)

          حضرت حفصہ بنت سیرین رحمہا اللہ فرماتی ہیں کہ ہم اپنی لڑکیوں کو عید گاہ جانے سے روکتی تھیں ، پھر ایک خاتون باہر سے آئیں اور قصر بنو خلف میں انہوں نے قیام کیا ، میں ان سے ملاقات کےلئے حاضر ہوئی تو انھوں نے بیان کیا کہ ان کی بہن کے شوہر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بارہ غزووں میں شریک رہے تھے اور خود ان کی بہن اپنے شوہر کے ساتھ چھ غزووں میں شریک ہوئی تھیں ، ان کا بیان تھا کہ ہم مریضوں کی دیکھ بھال اور زخمیوں کا دواعلا ج کرتی تھیں۔ انہوں نے پوچھا: یا رسول اللہ !کیا ہم میں سے کسی کے پاس اگر چادر نہ ہواور اس وجہ سے وہ عید گاہ نہ جائے تو کوئی حرج ہے ؟ آپ نے فرمایا : اس کی سہیلی اور ساتھ کی عورت کو چاہئے کہ اپنی چادر سے اس کو اڑھادے ۔ پھر وہ خیر اور مسلمانوں کی دعاء میں شریک ہوں ۔




          (٤)

          ابن جریج رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ مجھے عطاء نے خبر دی ہے کہ انھوں نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے فرماتے ہوئے سنا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عید الفطر کے دن کھڑے ہوئے سب سے پہلے آپ نے نماز عید ادافرمائی ، پھر خطبہ دیا ، اس کے بعد عورتوں کے پاس تشریف لائے اور حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے ہاتھ کا سہارا لے کر آپ نے انہیں نصیحت فرمائی۔ حضرت بلال رضی اللہ عنہ اپنا کپڑا پھیلائے ہوئے تھے جس میں عورتیں صدقہ ڈال رہی تھیں۔ ابن جریج رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا : کیا وہ صدقۂ فطر دے رہی تھیں ؟ انھوں نے فرمایا: نہیں وہ ویسے ہی صدقہ دے رہی تھیں ۔ اس وقت اپنے چھلّے (وغیرہ ) برابر ڈال رہی تھیں پھر میں نے عطاء سے پوچھا: کیا آپ امام پر یہ حق سمجھتے ہیں کہ وہ عورتوں کے پاس جاکر انہیں نصیحت کرے ؟انھوں نے فرمایا : ہاں!ان پر یہ حق ہے ۔ انہیں کیا ہوا ؟ وہ ایسا کیوں نہیں کرتے؟

          (رواہ البخاری فی صحیحہ :باب موعظۃ الامام النساء یوم العید: 2/٤٦٦مع الفتح )



          ان صحیح حدیثوں سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتوں کو نہ صرف عید گاہ جانے کی اجازت ہے بلکہ اس کی تاکید اور حکم ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانۂ مبارک میں عورتیں عید گاہ جایا کرتیں تھیں اور آپ انھیں مردوں کے بعد الگ سے نصیحت فرماتے تھے ، اور ام عطیہ اور عطا وغیرہ بعد میں بھی اس کا فتویٰ دیا کرتے تھے ۔



          ان صریح اور صحیح حدیثوں کے ہوتے ہوئے زمانے کی خرابی اور خواتین کی بگاڑ کا حوالہ دے کر عورتوں کوعید گاہ جانے سے روکنا اور اسے حرام کہنا،فاسد خیالات کے ذریعہ صحیح احادیث کو رد کرنا ہے۔اس موقع پر میں ان مانعین سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ جب مردوں کی طرح عورتیں بھی رمضان کے روزے رکھتی ہیں ، قرآن کی تلاوت کرتی ہیں ، شب قدر میں جاگتی ہیں ،تراویح کی نماز پڑھتی ہیں اور صدقہ وخیرات میں حصہ لیتی ہیں توپھر کس بناء پر انھیں عید گاہ جانے اور ان تمام اعمال حسنہ کی انجام دہی پر خوشیاں منانے اور اپنے گھر والوں کے ساتھ شکرانے کی دو رکعت نماز عید پڑ ھنے اور وعظ ونصیحت کی باتوں کے سننے سے روکا جاتا ہے ؟ اسی طرح عید الاضحی میں اگر قربانی مردوں اور عورتوں سب کےلئے ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کی حیات مبارکہ اور ان کے کارنامے سب کے لے اسوہ اور نمونہ ہیں تو پھر عید گاہ جانے اور نماز عید پڑھنے میں کیوں انھوں مردوں سے الگ کردیا گیا ۔



          بعض حضرات اس سلسلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا قول پیش کرتے ہیں کہ انھوں نے فرمایا

          “لَوْ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صلی اللهعليه وسلم رَأَى مَا أَحْدَثَ النِّسَاءُ لَمَنَعَهُنَّ الْمَسْجِدَ كَمَا مُنِعَتْ نِسَاءُ بَنِى إِسْرَائِيلَ”

          ( صحيح البخاری: 1/ 219ا،صحيح مسلم: 2/ 34)

          یعنی اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم ان نئی نئی چیزوں کو دیکھتے جو آج عورتوں نے ایجاد کرلی ہیں تو آپ انہیں مسجد جانے سے منع فرمادیتے جیسا کہ بنی اسرائیل کی عورتوں کو منع کردیا گیا تھا ۔


          حالانکہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کایہ قول ان کے لئے کسی طرح بھی حجت نہیں ہے ،کیونکہ



          (١)

          حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا اس قول سے مقصد عورتوں کو مسجد یا عید گاہ جانے اور وہاں نماز پڑھنے سے روکنا نہیں تھا، بلکہ انھیں نِت نئے انداز سے بن سنور کر اور زیب وزینت کرکے مسجد میں جانے سے روکنا تھا ، اورانہیں یہ بتانا تھا کہ تمہاری یہ حرکتیں ایسی خراب ہیں کہ اگر انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دیکھ لیتے تو میرے خیال میں تم لوگوں کو مسجدوں میں جانے سے روک دیتے ۔ اس واسطے تم لوگوں کو سادہ لباس میں، بغیر خوشبولگائے اور زیب وزینت کئے مسجد جانا چاہئے ، تاکہ نہ فرمان رسول کی مخالفت ہو نہ اور کسی قسم کا فتنہ ۔



          (٢)


          اگر ماحول کے بگاڑ اور عورتوں میں نِت نئے انداز سے بننے سنورنے کی بیماری کے حوالے سے انھیں مسجد اور عید گاہ جانے سے روکنا ہے تو یہ حضرات بتائیں کہ انھیں مطلق بازار جانے اور شادی وغیرہ کی تقریبات میں شریک ہونے سے کیوں نہیں روکتے ؟


          کیا ہے کوئی مفتی اور عالم جو یہ فتوی صادر فرمائے کہ عورتوں کے لئے مطلق بازار جانا حرام ہے ؟اور کسی بھی سیروتفریح کے مقام پر خواہ کتنے ہی پردہ اور احتیاط سے کیوں نہ جائیں ان کاجانا قطعاً ناجائزہے ؟ اورکسی تقریب میں ان کی شرکت گناہ کبیرہ اور ارتکاب محرم ہے ؟!


          اور اگر کوئی ایسا فتویٰ صادرنہیں کرسکتا تو بتایا جائے کہ آخر صرف عید گاہ اور مسجدوں میں جانے سے عورتوں کوکیوں منع کیا جاتا ہے ، کیابازاروں ، سیروتفریح کے مقامات اور شادی وغیرہ کی تقریبات میں عورتوں کے گناہ میں پڑنے کا کوئی خدشہ نہیں ؟اور گناہوں کے سارے خطرات وخدشات بس مسجدوں ، عید گاہوں اور عبادت ونصیحت اور ذکر الٰہی کے مقامات پر ہی ہیں؟ جبکہ سب کو معلوم ہے کہ ان مقدس مقامات کا احترام اور ان کے تقدس کا احساس ہر مسلمان کے دل میں ہوتا ہے اور عموماً خواتین ان جگہوں پر صرف عبادت کی نیت سے ،سادہ لباس میں اور بغیر خوشبو لگائے اور ایسا زیور پہنے جن سے آواز پیدا ہو ،جاتی ہیں ،وہاں ان کے بیٹھنے اور نماز پڑھنے کی جگہ مردوں سے بالکل الگ ہوتی ہے ،پردے کا ہر طرح سے اہتمام و انتظام ہوتاہے ،اور آتے جاتے وقت ان کے ساتھ گھر کے لوگ اور محرم مرد رہتے ہیں جبکہ سیر وتفریح اور مارکٹنگ کے لئے جانے اور تقریبات میں شرکت کے وقت ان سب چیزوں کا اہتمام تقریبا ًنا کے برابر ہوتاہے ۔



          (٣)

          یہ محض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کاگمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کو دیکھتے تو عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے روک دیتے ۔ جو درست نہیں تھا کیونکہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہیں دیکھا تو اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اور ماکان ومایکون کا علم رکھتا ہے کو تو معلوم تھا کہ بعد میں عورتیں زیب وزینت کے لئے کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کریں گی ۔ اس کے باوجود بھی جب اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کو حکم نہیں دیا کہ بعد میں عورتیں ایسا ایسا کریں گی اس واسطے انھیں مسجدوں اور عید گاہ میں جانے سے منع کردیجئے ، تو بعد میں یہ کہنا کیسے درست ہوگا کہ اگر آپ ایسا دیکھتے تو منع فرمادیتے۔


          (٤)

          کتنی خواتین ایسی ہیں جو بڑی نیک و پرہیز گار اور شرع کی پابند ہیں اور مسجد اور عید گاہ جاتے وقت اس کے آداب و شروط کا پورا خیال رکھتی ہیں ،وہ ان مقدس مقامات پر صرف نمازیں پڑھنے خطبہ اور وعظ ونصیحت کی باتیں سننے اور مسلمانوں کی دعاؤں میں شرکت کے لئے جاتی ہیں ، آخر انہیں کس بنیاد پر مسجد اور عیدگاہ جانے سے منع کیا جاتا ہے ؟

          ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ خواتین کو مسجد اور عید گاہ جانے کے آداب وشروط بتائے جائیں اور جو عورتیں ان کی خلاف ورزی کریں انہیں سمجھایا جائے مگر افسوس کہ جس کا انہیں (یعنی عید گاہ جانے کا) حکم دیا گیا ہے اس سے روکا جاتاہے اور جن چیزوں سے انہیں روکا گیا ہے ( جیسے خوشبو لگا کر ، بغیر پردہ کے اور آواز والے زیور پہن کر باہر نکلنے سے ) ان کی خلاف ورزیوں پر سکوت اختیار کیا جاتا ہے، اس طرح عورتوں کی حق تلفی اور اسلام کی غلط نمائندگی کی جاتی ہے اور برائیوں اور خرابیوں کا ازالہ بھی نہیں ہوتا جبکہ اگر شریعت کے صحیح صحیح ا حکام پر عمل کیا جا ئے اور عورتوں کو عید گاہ اور مساجد جانے دیا جائے اور انہیں وہاں اچھی اچھی نصیحتیں کی جائیں ، پردہ اور عفت وپاکدامنی کی اہمیت و فضلیت پر روشنی ڈالی جائے تقویٰ وپرہیز گاری اور عبادات کی ترغیب دی جائے اور بے پرد گی وعریانیت اور دیگر برائیوں سے روکا جائے تو ان کی اصلاح بھی ہوگی اور عورتوں پراسلام نے جو احسانات کئے ہیں اور حقوق سے نوازا ہے انہیں اس کا احساس بھی ہوگا اور اعدائے اسلام کو شریعت اسلامیہ پر اعتراض کرنے اور عورتوں کی حق تلفی کا بیجا الزام لگانے کا موقع بھی نہیں ملے گا ۔



          مختصر یہ کہ اسلام نے عورتوں کو عید گاہ جانے اور نمازعید باجماعت پڑھنے اور اس کی خوشیوں میں شریک ہونے کا حق عطا کیاہے ،انہیں اس سے روکنا ان کے حق کو غصب کرنا ہے جس کی ہرگز اجازت نہیں ہے اللہ تعالیٰ ہم سب کو حق کے سمجھنے اور اس پر اخلاص کے ساتھ عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین.




          Comment


          • #6
            Re: امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے

            Comment


            • #7
              Re: امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے

              تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

              لولی پھر کاپی پیسٹ ہی کیا ہے نا۔۔۔
              اور یہ نہیں بتایا کہ علامہ وحید الزمان کی تشریح تمہارے لئے حجت ہے یا نہیں اور اس کا نام تم نے کیوں ہٹا دیا؟؟؟
              دال میں کچھ کالا تو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


              جناب میں نے کب ان روایات کا انکار کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عورت کو مسجد جانے کا حکم دیا تھا؟؟
              میں نے تو ساتھ احادیث کے حوالے پیش کئے کہ عورت کے لئے بہتر جگہ گھر ہے۔
              شاید تم نے میری پوسٹ پڑھی ہی نہیں۔

              مسندِ احمد میں حضرت اُمِّ حمید ساعدیہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں آپ کے ساتھ نماز پڑھنا پسند کرتی ہوں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

              ”قد علمت انک تحبین الصلٰوة معی وصلٰوتک فی بیتک خیر لک من صلٰوتک فی حجرتک، وصلٰوتک فی حجرتک خیر من صلٰوتک فی دارک، وصلٰوتک فی دارک خیر لک من مسجد قومک، وصلٰوتک فی مسجد قومک خیر لک من صلٰوتک فی مسجدی۔ قال: فأمرت فبنی لھا مسجد فی اقصی شیٴ من بیتھا واظلمہ، فکانت تصلی فیہ حتی لقیت الله عز وجل۔“ (مسندِ احمد ج:۱ ص:۳۷۱، وقال الھیثمی ورجالہ رجال الصحیح غیر عبدالله بن سوید الأنصاری، وثقہ ابن حبان، مجمع الزوائد ج:۲ ص:۳۴)

              ترجمہ:…”مجھے معلوم ہے کہ تم کو میرے ساتھ نماز پڑھنا محبوب ہے، مگر تمہارا اپنے گھر کے کمرے میں نماز پڑھنا گھر کے صحن میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور گھر کے صحن میں نماز پڑھنا گھر کے احاطے میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور احاطے میں نماز پڑھنا اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنے سے بہتر ہے، اور اپنے محلے کی مسجد میں نماز پڑھنا میری مسجد میں (میرے ساتھ) نماز پڑھنے سے بہتر ہے۔ راوی کہتے ہیں کہ: حضرت اُمِّ حمید رضی اللہ عنہا نے یہ ارشاد سن کر اپنے گھر کے لوگوں کو حکم دیا کہ گھر کے سب سے دُور اور تاریک ترین کونے میں ان کے لئے نماز کی جگہ بنادی جائے، چنانچہ ان کی ہدایت کے مطابق جگہ بنادی گئی، وہ اسی جگہ نماز پڑھا کرتی تھیں، یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ سے جاملیں۔
              اس روایت میں تو نبی کریم ﷺ نے ان صحابیہ رضی اللہ عنہا کو کہا کہ گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔۔
              اس بارے میں کیا کہو گے؟؟

              یہ محض حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کاگمان تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان چیزوں کو دیکھتے تو عورتوں کو مسجدوں میں آنے سے روک دیتے ۔ جو درست نہیں تھا کیونکہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں نہیں دیکھا تو اللہ تعالیٰ جو عالم الغیب ہے اور ماکان ومایکون کا علم رکھتا ہے کو تو معلوم تھا کہ بعد میں عورتیں زیب وزینت کے لئے کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کریں گی ۔ اس کے باوجود بھی جب اس نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم)کو حکم نہیں دیا کہ بعد میں عورتیں ایسا ایسا کریں گی اس واسطے انھیں مسجدوں اور عید گاہ میں جانے سے منع کردیجئے ، تو بعد میں یہ کہنا کیسے درست ہوگا کہ اگر آپ ایسا دیکھتے تو منع فرمادیتے۔
              اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا جواب میں تمہارے عالم نے قیاس کیا ہے۔ میں نے واضح روایت پیش کی تم نے اس کر ام المومنین رضی اللہ عنہا کا گمان ظاہر کر دیا جبکہ روایت میں الفاظ بلکل واضح ہیں۔

              وعن أبي عمرو الشيباني أنه رأى عبد الله يخرج النساء من المسجد يوم الجمعة ويقول أخرجن إلى بيوتكن خير لكن. رواه الطبراني في الكبير ورجاله موثقون.
              ابو عمر شیبانی رح کہتے ہیں کہ بیشک حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن عورتوں کو مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ تم گھر چلی جاو تمہارے لئے یہی بہتر ہے۔ علامہ ہیثمی نے کہا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔
              ( معجم الکبیر الطبرانی، جلد 9 صفحہ 340، مجمع الزوائد جلد 2 صفحہ 35)۔

              اب ذرا لگاو فتوی ابن مسعود رضی اللہ عنہ پہ جنہوں نے عورتوں کو کہا کہ تم گھر چلی جاو۔
              دوسرا میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ابراہیم نخعی رح کا حوالہ دیا تھا کہ انہوں نے عورتوں کو عید گاہ جانے سے منع کیا تم نے اس کا جواب نہیں دیا۔۔
              کیا فتوی لگاو گے ان پہ؟؟؟

              اتنا بتاو کہ اگر عورت کا مسجد میں نماز پڑھنا اتنا ہی افضل ہے تو علامہ شوکانی، البانی، عمران ایوب لاہوری نے گھر میں نماز پڑھنے کو افضل کیوں کہا؟؟




              Click image for larger version

Name:	gm4.jpg
Views:	1
Size:	168.1 KB
ID:	2427151

              لولی اگر حدیث میں نے کہ عورتیں نماز مسجد میں پڑھیں تو تمہارے اکابر ان کی گھر کی نماز کو افضل کیوں کہتے ہیں؟؟
              جو فتوی امام ابو حنیفہ رح پہ لگاتے ہو ذرا ان پہ لگا دو حدیث کی مخالفت کرنے پہ۔۔

              اور یہ امیج صرف تمہارے لئے ہے کیونکہ تمہیں بات کم ہی سمجھ میں آتی ہے اور صرف کاپی پیسٹ کرنا ہی آتا ہے۔

              Comment


              • #8
                Re: امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے

                Originally posted by i love sahabah View Post
                تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

                لولی پھر کاپی پیسٹ ہی کیا ہے نا۔۔۔
                اور یہ نہیں بتایا کہ علامہ وحید الزمان کی تشریح تمہارے لئے حجت ہے یا نہیں اور اس کا نام تم نے کیوں ہٹا دیا؟؟؟
                دال میں کچھ کالا تو ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


                جناب میں نے کب ان روایات کا انکار کیا کہ نبی کریم ﷺ نے عورت کو مسجد جانے کا حکم دیا تھا؟؟
                میں نے تو ساتھ احادیث کے حوالے پیش کئے کہ عورت کے لئے بہتر جگہ گھر ہے۔
                شاید تم نے میری پوسٹ پڑھی ہی نہیں۔



                اس روایت میں تو نبی کریم ﷺ نے ان صحابیہ رضی اللہ عنہا کو کہا کہ گھر میں نماز پڑھنا افضل ہے۔۔
                اس بارے میں کیا کہو گے؟؟



                اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت کا جواب میں تمہارے عالم نے قیاس کیا ہے۔ میں نے واضح روایت پیش کی تم نے اس کر ام المومنین رضی اللہ عنہا کا گمان ظاہر کر دیا جبکہ روایت میں الفاظ بلکل واضح ہیں۔

                وعن أبي عمرو الشيباني أنه رأى عبد الله يخرج النساء من المسجد يوم الجمعة ويقول أخرجن إلى بيوتكن خير لكن. رواه الطبراني في الكبير ورجاله موثقون.
                ابو عمر شیبانی رح کہتے ہیں کہ بیشک حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن عورتوں کو مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ تم گھر چلی جاو تمہارے لئے یہی بہتر ہے۔ علامہ ہیثمی نے کہا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔
                ( معجم الکبیر الطبرانی، جلد 9 صفحہ 340، مجمع الزوائد جلد 2 صفحہ 35)۔

                اب ذرا لگاو فتوی ابن مسعود رضی اللہ عنہ پہ جنہوں نے عورتوں کو کہا کہ تم گھر چلی جاو۔
                دوسرا میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ابراہیم نخعی رح کا حوالہ دیا تھا کہ انہوں نے عورتوں کو عید گاہ جانے سے منع کیا تم نے اس کا جواب نہیں دیا۔۔
                کیا فتوی لگاو گے ان پہ؟؟؟

                اتنا بتاو کہ اگر عورت کا مسجد میں نماز پڑھنا اتنا ہی افضل ہے تو علامہ شوکانی، البانی، عمران ایوب لاہوری نے گھر میں نماز پڑھنے کو افضل کیوں کہا؟؟




                [ATTACH]106805[/ATTACH]

                لولی اگر حدیث میں نے کہ عورتیں نماز مسجد میں پڑھیں تو تمہارے اکابر ان کی گھر کی نماز کو افضل کیوں کہتے ہیں؟؟
                جو فتوی امام ابو حنیفہ رح پہ لگاتے ہو ذرا ان پہ لگا دو حدیث کی مخالفت کرنے پہ۔۔

                اور یہ امیج صرف تمہارے لئے ہے کیونکہ تمہیں بات کم ہی سمجھ میں آتی ہے اور صرف کاپی پیسٹ کرنا ہی آتا ہے۔




                کیا بات ہے میرے بھائی کی . کیا یہاں نماز کے افضل ہونے کی بات ھو رہی ہے یا مسجد میں عورت نماز کے لیے جا سکتی ہے کی ھو رہی ہے


                آپ کوئی صحیح حدیث پیش کریں جسی میں حضور صلی اللہ وسلم نے عورتوں کا نماز کے لیے مسجد جانے کو مکروہ کہا ھو یا ان کو مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے سے روکا ھو



















                Comment


                • #9
                  Re: امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے

                  lovly bhai aap waheed u zama wali bat ka jwab kyo nahi dy rahe ho ...





                  Comment


                  • #10
                    Re: امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے




                    یہ لوگ کس طرح اپنے امام کی پوجا کرتے ہیں خود دیکھ لیں

                    اس پجاری نے یہ پیج پیش کیا




                    این اصل پیج دیکھتے ہیں






                    یہ لوگ کیسے لوگوں کو دھوکہ دیتے ھیں آپ خود دیکھ سکتے ہیں


                    یہ کسی ایک حدیث سے بھی ثابت نہیں کر سکتے کہ عورتوں کا مسجد نماز کے لیے جانا مکروہ ہے

                    اور ظلم یہ ہے کہ ایک طرف مکروہ کہتے ہیں اور دوسری طرف اجازت بھی دیتے ہیں






                    فیصلہ آپ کا اپنا


                    Comment


                    • #11
                      Re: امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے

                      یار یہ امام کا لفظ یوز نہ کرو

                      پھر میں آپ کے پیش کردہ مواد کو بھی امام کا ہی لکھا کہوں گا

                      اب تمھاری بات مان لیتے ہیں

                      چلو یہ امام کے پجاری ہوگئے

                      بات بھی غلط لکھی ہے کہ مکرہ بھی ہے

                      اور جا بھی سکتی ہے

                      لیکن وہ جو سوال اٹھا رہا ہے

                      آپ سے وحید الزماں صاحب کا نام ہٹا کر

                      پیش کرنا

                      اس کی بات کا آپ جواب کیوں نہیں دے رہے ہو ۔۔

                      آپ اس پر اپنا موقف کیوں پیش نہیں کرتے





                      Comment


                      • #12
                        Re: امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے

                        Originally posted by lovelyalltime View Post



                        یہ لوگ کس طرح اپنے امام کی پوجا کرتے ہیں خود دیکھ لیں

                        اس پجاری نے یہ پیج پیش کیا
                        این اصل پیج دیکھتے ہیں

                        یہ لوگ
                        کیسے لوگوں کو دھوکہ دیتے ھیں آپ خود دیکھ سکتے ہیں

                        یہ کسی ایک حدیث سے بھی ثابت نہیں کر سکتے کہ عورتوں کا مسجد نماز کے لیے جانا مکروہ ہے

                        اور ظلم یہ ہے کہ ایک طرف مکروہ کہتے ہیں اور دوسری طرف اجازت بھی دیتے ہیں


                        فیصلہ آپ کا اپنا



                        الحمدللہ یہ کٹ پیسٹ کرنا اور ادھورے حوالےد ینا میرا کام نہیں بلکہ تمہارا کام ہے۔۔

                        جو امیج تم نے فقہ اہلحدیث کا مکمل لگایا وہ اوپر میں نے ہی پوسٹ کیا تھا اور تم نے اوپر میری ہی پوسٹ سے لیا ہے۔
                        اتنی بھی عقل نہیں تم میں کہ اگر ادھورا حوالہ دینا ہوتا تو میں مکمل امیج پوسٹ کیوں کرتا۔۔


                        میں کوئی تمہاری طرح نہیں ہوں کہ حوالے کٹ کروں۔۔ تم نے وحید الزماں کی تشریح پیش کی لیکن اس کا نام کیوں کاٹا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
                        جب یہ تمہارا عالم نہیں تو اس کی تشریح تمہارے لئے حجت کیسے ہو گئی؟؟؟؟
                        میں نے کہا تھا کہ یہ امیج میں نے صرف تمہارے لئے بنایا ہے ۔ جب مسجد جانا جائز ہے تو گھر میں نماز افضل کیوں کہتے ہیں تمہارے علماء؟؟
                        تم نے ان صحابہ کرام کے حوالوں کا جواب نہیں دیا جو عورتوں کو منع کرتے تھے عیدگاہ جانے کے لئے؟؟؟

                        کیا یہ صحابہ کرام بھی معاذ اللہ حدیث کی مخالفت کرتے تھے؟؟؟؟؟
                        لولی کہاں تک ادھورے حوالے پیش کرو گے اور کہاں تک بھاگو گے ؟؟
                        لگاؤ فتوی اپنے علماء پہ اور ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پہ جن کے حوالے میں نے دئے۔۔
                        امام ابو حنیفہ کے بارے میں تو تمہاری زبان پہلے بولتی ہے اب یہاں کیا ہو گیا؟؟؟



                        وعن أبي عمرو الشيباني أنه رأى عبد الله يخرج النساء من المسجد يوم الجمعة ويقول أخرجن إلى بيوتكن خير لكن. رواه الطبراني في الكبير ورجاله موثقون.
                        ابو عمر شیبانی رح کہتے ہیں کہ بیشک حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن عورتوں کو مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ تم گھر چلی جاو تمہارے لئے یہی بہتر ہے۔ علامہ ہیثمی نے کہا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔
                        ( معجم الکبیر الطبرانی، جلد 9 صفحہ 340، مجمع الزوائد جلد 2 صفحہ 35)۔

                        اب ذرا لگاو فتوی ابن مسعود رضی اللہ عنہ پہ جنہوں نے عورتوں کو کہا کہ تم گھر چلی جاو۔
                        دوسرا میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ابراہیم نخعی رح کا حوالہ دیا تھا کہ انہوں نے عورتوں کو عید گاہ جانے سے منع کیا تم نے اس کا جواب نہیں دیا۔۔
                        کیا فتوی لگاو گے ان پہ؟؟؟


                        Click image for larger version

Name:	gm 1.jpg
Views:	2
Size:	94.0 KB
ID:	2427152

                        اب لگانا فتوی ذرا ابن عمر رضی اللہ اورعروہ بن زبیر بن عوام رضی اللہ اور ابراہیم نخعی رح پہ جو عورتوں کو عید گاہ جانے سے منع کرتے تھے۔

                        Comment


                        • #13
                          Re: امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے

                          Originally posted by i love sahabah View Post

                          الحمدللہ یہ کٹ پیسٹ کرنا اور ادھورے حوالےد ینا میرا کام نہیں بلکہ تمہارا کام ہے۔۔

                          جو امیج تم نے فقہ اہلحدیث کا مکمل لگایا وہ اوپر میں نے ہی پوسٹ کیا تھا اور تم نے اوپر میری ہی پوسٹ سے لیا ہے۔
                          اتنی بھی عقل نہیں تم میں کہ اگر ادھورا حوالہ دینا ہوتا تو میں مکمل امیج پوسٹ کیوں کرتا۔۔


                          میں کوئی تمہاری طرح نہیں ہوں کہ حوالے کٹ کروں۔۔ تم نے وحید الزماں کی تشریح پیش کی لیکن اس کا نام کیوں کاٹا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
                          جب یہ تمہارا عالم نہیں تو اس کی تشریح تمہارے لئے حجت کیسے ہو گئی؟؟؟؟
                          میں نے کہا تھا کہ یہ امیج میں نے صرف تمہارے لئے بنایا ہے ۔ جب مسجد جانا جائز ہے تو گھر میں نماز افضل کیوں کہتے ہیں تمہارے علماء؟؟
                          تم نے ان صحابہ کرام کے حوالوں کا جواب نہیں دیا جو عورتوں کو منع کرتے تھے عیدگاہ جانے کے لئے؟؟؟

                          کیا یہ صحابہ کرام بھی معاذ اللہ حدیث کی مخالفت کرتے تھے؟؟؟؟؟
                          لولی کہاں تک ادھورے حوالے پیش کرو گے اور کہاں تک بھاگو گے ؟؟
                          لگاؤ فتوی اپنے علماء پہ اور ان صحابہ کرام رضی اللہ عنھم پہ جن کے حوالے میں نے دئے۔۔
                          امام ابو حنیفہ کے بارے میں تو تمہاری زبان پہلے بولتی ہے اب یہاں کیا ہو گیا؟؟؟



                          وعن أبي عمرو الشيباني أنه رأى عبد الله يخرج النساء من المسجد يوم الجمعة ويقول أخرجن إلى بيوتكن خير لكن. رواه الطبراني في الكبير ورجاله موثقون.
                          ابو عمر شیبانی رح کہتے ہیں کہ بیشک حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن عورتوں کو مسجد سے نکلتے ہوئے دیکھا تو کہا کہ تم گھر چلی جاو تمہارے لئے یہی بہتر ہے۔ علامہ ہیثمی نے کہا ہے کہ اس کے راوی ثقہ ہیں۔
                          ( معجم الکبیر الطبرانی، جلد 9 صفحہ 340، مجمع الزوائد جلد 2 صفحہ 35)۔

                          اب ذرا لگاو فتوی ابن مسعود رضی اللہ عنہ پہ جنہوں نے عورتوں کو کہا کہ تم گھر چلی جاو۔
                          دوسرا میں نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور ابراہیم نخعی رح کا حوالہ دیا تھا کہ انہوں نے عورتوں کو عید گاہ جانے سے منع کیا تم نے اس کا جواب نہیں دیا۔۔
                          کیا فتوی لگاو گے ان پہ؟؟؟


                          [ATTACH]106806[/ATTACH]

                          اب لگانا فتوی ذرا ابن عمر رضی اللہ اورعروہ بن زبیر بن عوام رضی اللہ اور ابراہیم نخعی رح پہ جو عورتوں کو عید گاہ جانے سے منع کرتے تھے۔


                          حجت صرف اللہ کا قرآن اور محمد صلی اللہ وسلم کا فرمان ہے

                          حضور صلی اللہ وسلم نے عورتوں کو مسجد میں آنے سے نہیں روکا اور نہ ہی عید کی نماز پڑھنے سے روکا

                          امام صاحب کو کس نے اختیار دیا کہ اس کو مکروہ کہیں اور وہ بھی اندھوں کی طرح بغیر دلیل کے جس کا آپ کو بھی نہیں پتا

                          کس حدیث کے تحت وہ آنے سے روک رھے ہیں اور ساتھ ساتھ بوڑھی عورتوں کو جانے کی اجازت بھی دے رھے ہیں

                          آپ صحیح حدیث پیش کریں جس میں حضور صلی اللہ وسلم نے عورتوں کو مسجد میں جانے سے روکا ھو اور اسے مکروہ کہا ھو

                          اور ساتھ ہی یہ بھی کہا ھو کہ صرف بوڑھی عورتیں جا سکتی ہیں

                          اگر دلیل ہے تو پیش کریں ورنہ اپنے امام سے جا کر پوچھ کر آ جائیں کہ انہوں نے کس دلیل پر فتویٰ دیا ہے


                          خود حضرت امام رحمہ اللہ کی وصیت ہے کہ میرا قول خلاف حدیث چھوڑدو۔


                          لکن آپ لوگ امام صاحب کا قول نہیں چھوڑ سکتے کیوں کہ


                          فقہ حنفی کی کانونی و معتبر کتاب میں ہے کہ درالمختار مع شامی ص ۶۶ ج ۱۔


                          (فلعنة ربنا اعداد رمل علی من رد قول ابی حنفة ۔ )



                          یعنی اس شخص پر ریت کے زروں کے برابر لعنتیں ہو جو ابو حنیفہ کے قول کو رد کرتا ہے۔


                          خود پھر پڑھ لیں

                          http://library.islamweb.net/newlibra...bk_no=27&ID=39


                          پوری کتاب یہاں سے ڈونلوڈ کر لیں


                          http://www.feqhweb.com/dan3/uploads/13264050531.pdf











                          Comment


                          • #14
                            Re: امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے




                            یہ بھی دیکھ لیں کہ ان دھوکہ بازوں نے اپنے اوپر بھیجی گئی لعنت کو دوسروں پر منتقل کر دیا














                            مگر اب کو بھول گیا کہ امام عبدللہ بن مبارک کیا کہتے ہیں ام ابو حنیفہ کے بارے میں



                            أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ الحَنَّائِيُّ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الشَّافِعِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ السُّلَمِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبة الرَّبِیعُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ، قَالَ : مَنْ نَّظَرَ فِي کِتَابِ الْحِیَلِ لِأَبِي حَنِیفَة أَحَلَّ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ، وَحَرَّمَ مَا أَحَلَّ اللّٰہُ .

                            (تاریخ بغداد : 13/426)


                            ''ہمیں محمد بن عبیداللہ حنائی نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں : ہمیں محمد بن عبد اللہ شافعی نے خبر دی، انہوں نے کہا : ہمیں محمدبن اسماعیل سلمی نے بیان کیا ، وہ بیان کرتے ہیں : ہمیں ابوتوبہ ربیع بن نافع نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں : ہمیں امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے یہ بات بتائی کہ: جو شخص امام ابوحنیفہ کی
                            کتاب الحیل کا مطالعہ کرے گا ، وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کوحلال کہنے لگے گا اور اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانے لگے گا۔


                            اس روایت کی سند کے راویوں کے بارے میں ملاحظہ فرمائیے !

                            1

                            امام ابوبکر احمد بن علی، المعروف خطیب بغدادی رحمہ اللہ ثقہ
                            امام ہیں۔
                            ان کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ یوں رقمطراز ہیں :
                            أَحَدُ الْحُفَّاظِ الْـأَعْلَامِ، وَمَنْ خَتَمَ بَہِ اتْقَانُ ہٰذَا الشَّأْنِ، وَصَاحِبُ التَّصَانِیفِ الْمُنْتَشِرَۃِ فِي الْبُلْدَانِ .

                            ''آپ رحمہ اللہ ان علمائے کرام میں سے تھے جو حافظ الحدیث اور علامہ تھے۔ان پر علم کی پختگی ختم ہو گئی۔آپ کی بہت ساری تصانیف ہیں جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔''
                            (تاریخ الإسلام للذہبي : 10/175)
                            2
                            محمد بن عبیداللہ بن یوسف حنائی کے بارے میں امام خطیب فرماتے ہیں
                            کَتَبْنَا عَنْہُ، وَکَانَ ثِقَۃً مَّأْمُونًا، زَاہِدًا، مُلَازِمًا لِّبَیْتِہٖ
                            ہم نے ان سے احادیث لکھی ہیں۔ وہ ثقہ مامون ، عابد و زاہد تھے اور اپنے گھر میں ہی مقیم رہتے تھے۔
                            (تاریخ بغداد للخطیب البغدادي : 3/336)
                            3
                            امام ابوبکر محمد بن عبد اللہ بن ابراہیم شافعی کے بارے میں ناقد رجال حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اَلْإِمَامُ، الْمُحَدِّثُ، الْمُتْقِنُ، الْحُجَّۃُ، الْفَقِیہُ، مُسْنِدُ الْعِرَاقِ . ''آپ امام ، محدث، راسخ فی العلم ، حجت ، فقیہ اور عراق کے محدث تھے۔''
                            (سیر أعلام النبلاء للذہبي : 16/40,39)
                            4
                            محمد بن اسماعیل سلمی ثقہ حافظ ہیں۔
                            (تقریب التہذیب لابن حجر : 5738)
                            5
                            ابو توبہ ربیع بن نافع ثقہ حجت ہیں۔
                            (تقریب التہذیب لابن حجر : 1902)
                            6
                            امام عبد اللہ بن مبارک ثقہ ، ثبت ، فقیہ ، عالم ، جواد اور مجاہد ہیں۔
                            (تقریب التہذیب لابن حجر : 3570)
                            أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَیْدِ اللّٰہِ الحَنَّائِيُّ، قَالَ : أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللّٰہِ الشَّافِعِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِیلَ السُّلَمِيُّ، قَالَ : حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبة الرَّبِیعُ بْنُ نَافِعٍ، قَالَ : حَدَّثَنَا عَبْدُ اللّٰہِ بْنُ الْمُبَارَکِ، قَالَ : مَنْ نَّظَرَ فِي کِتَابِ الْحِیَلِ لِأَبِي حَنِیفَة أَحَلَّ مَا حَرَّمَ اللّٰہُ، وَحَرَّمَ مَا أَحَلَّ اللّٰہُ .
                            (تاریخ بغداد : 13/426)
                            ''ہمیں محمد بن عبیداللہ حنائی نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں : ہمیں محمد بن عبد اللہ شافعی نے خبر دی، انہوں نے کہا : ہمیں محمدبن اسماعیل سلمی نے بیان کیا ، وہ بیان کرتے ہیں : ہمیں ابوتوبہ ربیع بن نافع نے خبر دی ، وہ کہتے ہیں : ہمیں امام عبد اللہ بن مبارک رحمہ اللہ نے یہ بات بتائی کہ: جو شخص امام ابوحنیفہ کی کتاب الحیل کا مطالعہ کرے گا ، وہ اللہ تعالیٰ کی حرام کردہ چیزوں کوحلال کہنے لگے گا اور اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام ٹھہرانے لگے گا۔''
                            اس روایت کی سند کے راویوں کے بارے میں ملاحظہ فرمائیے !
                            1
                            امام ابوبکر احمد بن علی، المعروف خطیب بغدادی رحمہ اللہ ثقہ
                            امام ہیں۔ان کے بارے میں حافظ ذہبی رحمہ اللہ یوں رقمطراز ہیں :
                            أَحَدُ الْحُفَّاظِ الْـأَعْلَامِ، وَمَنْ خَتَمَ بَہِ اتْقَانُ ہٰذَا الشَّأْنِ، وَصَاحِبُ التَّصَانِیفِ الْمُنْتَشِرَۃِ فِي الْبُلْدَانِ .
                            ''آپ رحمہ اللہ ان علمائے کرام میں سے تھے جو حافظ الحدیث اور علامہ تھے۔ان پر علم کی پختگی ختم ہو گئی۔آپ کی بہت ساری تصانیف ہیں جو دنیا میں پھیلی ہوئی ہیں۔''
                            (تاریخ الإسلام للذہبي : 10/175)
                            2
                            محمد بن عبیداللہ بن یوسف حنائی کے بارے میں امام خطیب فرماتے ہیں
                            کَتَبْنَا عَنْہُ، وَکَانَ ثِقَۃً مَّأْمُونًا، زَاہِدًا، مُلَازِمًا لِّبَیْتِہٖ
                            ہم نے ان سے احادیث لکھی ہیں۔ وہ ثقہ مامون ، عابد و زاہد تھے اور اپنے گھر میں ہی مقیم رہتے تھے۔
                            (تاریخ بغداد للخطیب البغدادي : 3/336)
                            3
                            امام ابوبکر محمد بن عبد اللہ بن ابراہیم شافعی کے بارے میں ناقد رجال حافظ ذہبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں : اَلْإِمَامُ، الْمُحَدِّثُ، الْمُتْقِنُ، الْحُجَّۃُ، الْفَقِیہُ، مُسْنِدُ الْعِرَاقِ . ''آپ امام ، محدث، راسخ فی العلم ، حجت ، فقیہ اور عراق کے محدث تھے۔''
                            (سیر أعلام النبلاء للذہبي : 16/40,39)
                            4
                            محمد بن اسماعیل سلمی ثقہ حافظ ہیں۔
                            (تقریب التہذیب لابن حجر : 5738)
                            5
                            ابو توبہ ربیع بن نافع ثقہ حجت ہیں۔
                            (تقریب التہذیب لابن حجر : 1902)
                            6
                            امام عبد اللہ بن مبارک ثقہ ، ثبت ، فقیہ ، عالم ، جواد اور مجاہد ہیں۔
                            (تقریب التہذیب لابن حجر : 3570)

                            Comment


                            • #15
                              Re: امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے


                              اور اسی کتاب میں جس کا یہ صاحب حوالہ دے کر دوسروں کو گمراہ کر رھے ہیں لکھا ہے کہ

                              اگر

                              نکسیر پھوٹے اور
                              سوره فاتحہ کو خون کے ساتھ اپنے ماتھے اور ناک پر شفا حاصل کرنے کے لیے لکھا تو یہ جائز ہے- اسی طرح پیشاب کے ساتھ بھی (نعوذ با اللہ ) اگر یہ معلوم ھو کہ اس میں شفا ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں

                              ثبوت










                              اللہ ایسی فقہ سے ہم سب کو بچا کر رکھے





                              Comment

                              Working...
                              X