بعض مساجد میں عورتوں کے لئے بھی تراویح کا انتظام ہوتا ہے، مگر امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورتوں کا مسجد میں جانا مکروہ ہے، ان کا اپنے گھر پر نماز پڑھنا مسجد میں قرآن مجید سننے کی بہ نسبت افضل ہے۔
(آپ کے مسائل اور اُن کا حل:۳/۶۸، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۔فتاویٰ عثمانی:۱/۵۱۶، کتب خانہ نعیمیہ دیوبند۔ کتاب الفتاویٰ:۲/۴۱۳،کتب خانہ نعیمیہ دیوبند)
http://ww2.anwar-e-islam.org/test-anwar/node/15846
صحیح بخاری -> کتاب الاذان
(صفۃ الصلوٰۃ)
باب : عورتوں کا رات میں اور ( صبح کے وقت ) اندھیرے میں مسجدوں میں جانا
حدثنا أبو اليمان، قال أخبرنا شعيب، عن الزهري، قال أخبرني عروة بن الزبير،
عن عائشة ـ رضى الله عنها ـ قالت أعتم رسول الله صلى الله عليه وسلم
بالعتمة حتى ناداه عمر نام النساء والصبيان. فخرج النبي صلى الله عليه وسلم فقال " ما ينتظرها أحد غيركم من أهل الأرض". ولا يصلى يومئذ إلا بالمدينة، وكانوا يصلون العتمة فيما بين
أن يغيب الشفق إلى ثلث الليل الأول.
أن يغيب الشفق إلى ثلث الليل الأول.
ہم سے ابو الیمان نے بیان کیا، کہا کہ ہمیں شعیب نے زہری سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ مجھے عروہ بن زبیر نے عائشہ رضی اللہ عنہا سے بیان کیا، آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ عشاء کی نماز میں اتنی دیر کی کہ عمر رضی اللہ عنہ کو کہنا پڑا کہ عورتیں اور بچے سو گئے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ( حجرے سے ) تشریف لائے اور فرمایا کہ دیکھو روئے زمین پر اس نماز کا ( اس وقت ) تمہارے سوا اور کوئی انتظار نہیں کر رہا ہے۔ ان دنوں مدینہ کے سوا اور کہیں نماز نہیں پڑھی جاتی تھی اور لوگ عشاء کی نماز شفق ڈو بن ے کے بعد سے رات کی پہلی تہائی گزرنے تک پڑھاکرتے تھے۔
تشریح : معلوم ہوا کہ عورتیں بھی نماز کے لیے حاضر تھیں، تب ہی تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے یہ جملہ بآواز بلند فرمایا تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں اور نماز پڑھائیں۔ ترجمہ باب اسی سے نکلتا ہے کہ عورتیں اور بچے سوگئے کیونکہ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورتیں بھی رات کو عشاءکی نماز کے لیے مسجد میں آیا کرتیں۔ اس کے بعد جو حدیث امام بخاری رحمہ اللہ نے بیان کی، اس سے بھی یہی نکلتا ہے کہ رات کو عورت مسجد میں جا سکتی ہے۔ دوسری حدیث میں ہے کہ اللہ کی بندیوں کو اللہ کی مسجدوں میں جانے سے نہ روکو۔ یہ حدیثیں اس کو خاص کرتی ہیں یعنی رات کو روکنا منع ہے۔ اب عورتوں کا جماعت میں آنا مستحب ہے یا مباح اس میں اختلاف ہے۔ بعضوں نے کہا جوان عورت کو مباح ہے اور بوڑھی کو مستحب۔ حدیث سے یہ بھی نکلا کہ عورتیں ضرورت کے لیے باہر نکل سکتی ہیں۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ نے کہا میں عورتوں کا جمعہ میں آنا مکروہ جانتا ہوں اور بڑھیا عشاءاور فجر کی جماعت میں آسکتی ہے اور نمازوں میں نہ آئے -
حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا قول خلاف حدیث ہونے کی وجہ سے حجت نہیں جیسا کہ خود حضرت امام رحمہ اللہ کی وصیت ہے کہ میرا قول خلاف حدیث چھوڑدو۔
حدیث نمبر : 865
حدثنا عبيد الله بن موسى، عن حنظلة، عن سالم بن عبد الله، عن ابن عمر ـ رضى الله عنهما ـ
عن النبي صلى الله عليه وسلم قال " إذا استأذنكم نساؤكم بالليل إلى المسجد فأذنوا لهن". تابعه شعبة عن الأعمش عن مجاهد عن ابن عمر عن النبي صلى الله عليه وسلم.
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے حنظلہ بن ابی سفیان سے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر نے، ان سے ان کے باپ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری بیویاں تم سے رات میں مسجد آنے کی اجازت مانگیں تو تم لوگ انہیں اس کی اجازت دے دیا کرو۔ عبیداللہ کے ساتھ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے ابن عمررضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
ہم سے عبیداللہ بن موسیٰ نے حنظلہ بن ابی سفیان سے بیان کیا، ان سے سالم بن عبداللہ بن عمر نے، ان سے ان کے باپ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے، وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے تھے کہ آپ نے فرمایا کہ اگر تمہاری بیویاں تم سے رات میں مسجد آنے کی اجازت مانگیں تو تم لوگ انہیں اس کی اجازت دے دیا کرو۔ عبیداللہ کے ساتھ اس حدیث کو شعبہ نے بھی اعمش سے روایت کیا، انہوں نے مجاہد سے، انہوں نے ابن عمررضی اللہ عنہما سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔
Comment