حدیثِ شریف :عن أبي امامة الباهلي قال سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول " بينا انا نائم اذ اتاني رجلان فاخذا بضبعي فاتيا بي جبلا وعرا فقالا اصعد فقلت اني لا اطيقه فقالا انا سنسهله لك فصعدت حتى اذا كنت في سواء الجبل اذا باصوات شديدة قلت ما هذه الأصوات قالوا هذا عواء اهل النار ثم انطلق بي فاذا انا بقوم معلقين بعراقيبهم مشققة اشداقهم تسيل اشداقهم دما قال قلت من هؤلاء قال هؤلاء الذين يفطرون قبل تحلة صومهم....الحديث
[ صحیح ابن خزیمہ :1986- صحیح ابن حبان :7448 – مستدرک الحاکم :1/420
ترجمہ : حضرت ابو اُمامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے سنا کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم فرما رہے تھے '' میں سورہا تھا کہ میرے پاس دو آدمی آئے اور میرے دونوں بازو کو پکڑ کر مجھے ایک دشوار گزار پہاڑ کی طرف لے چلے پھر مجھ سے کہا کہ اس پہاڑ پر چڑھو ، میں نے جواب دیا کہ میں اس پر نہیں چڑھ سکتا ، ان دونوں نے کہا کہ ہم آپ کی مدد کرتے ہیں ، چنانچہ میں چڑھنے لگا اور جب میں پہاڑ کی چوٹی پر پہنچا تو مجھے تیز آوازیں سنائی دیں میں نے پوچھا یہ آوازیں کیسی ہیں ؟ ان لوگوں نے کہا کہ یہ جہنمیوں کی چیخ و پکار ہے پھر وہ دونوں مجھے آگے لیکرچلے ، تو میں نے کچھ لوگوں کو دیکھا کہ وہ اُلٹے لٹکائے گئے ہیں ، ان کے جبڑے پھاڑے جارہے ہیں اور جبڑوں سے خون بہہ رہا ہے ، میں نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں کہا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو افطار کا وقت ہونے سے قبل روزہ افطار کردیتے ہیں
صحیح ابن خزیمہ ، صحیح ابن حبان
تشریح : رمضان المبارک کا روزہ دین اسلام کا ایک ُرُکن اور اللہ تعالٰی کا مقرر کردہ ایک عظیم فریضہ ہے ، رمضان المبارک کا روزہ دین کا ایک بڑا حصہ اور اس سے محرومی رحمن کے غضب کو دعوت دینا ہے ، اگر کسی نے بغیر عُذرِ شرعی کے ایک دن کا روزہ چھوڑ دیا تو ساری عمر کا روزہ بھی اس کمی کو پورا نہیں کرسکتا ، اسی لئے علماء نے بغیر عذر رمضان کے روزوں کو چھوڑنے کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے ، امام ذہبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے یہاں یہ بات مُسلّم چلی آرہی ہے کہ جو شخص رمضان کا روزہ بیماری اور عذر شرعی کے بغیر چھوڑ دیتا ہے تو وہ زنا کرنے والے ، ظُلماً ٹیکس وصول کرنے والے اور دائمی شراب خور سے بھی زیادہ بُرا ہے بلکہ علماء اس کے اسلام کے بارے میں شک کرتے
ہیں اور یہ گمان رکھتے ہیں کہ کہیں یہ شخص زِندیق اور بے دین تو نہیں ہے ۔
الکبائر ، کبیرہ ص: 57، رقم :10
اہلِ علم کہتے ہیں کہ جو شخص روزہ کی فرضیت کا مُنکر ہے یا اس کے بارے میں شک وشبہ میں مبتلا ہے یا اس کے نزدیک روزہ رکھنا اور نہ رکھنا برابر ہے یا روزے کی فرضیت اور روزہ داروں کا مذاق اڑاتا ہے تو وہ کافراور دینِ اسلام سے مُرتد شمار ہے ، اور اس پر مُرتد کے تمام احکام جاری ہوں گے اور اگر دل وزبان سے روزہ کی فرضیت و رُکنیت کا اقرار کرتا ہے ، اسے اسلام کا ایک رُکن اور جُزء سمجھتا ہے لیکن سُستی و کاہلی سے رمضان کا روزہ نہیں رکھتا تو ایسا شخص فاسق ، گناہِ کبیرہ کا مرتکب ، رحمت الٰہی سے محروم اور زیر بحث حدیث میں مذکور وعید کا مُستحق ہے کہ قیامت سے پہلے عالمِ برزخ میں اِسے اُلٹا لٹکادیا جائے گا ، جس طرح کہ بکری کو ذبح کرکے اس کی کھال نکالنے کے لئے الٹا لٹکادیا جاتا ہے اور اس کے جبڑوں کو لوہے کی قینچی سے کاٹا جائے گا جس سے خون بہہ رہا ہوگا کیونکہ اس شخص نے اس مبارک ماہ کی حُرمت کا لحاظ نہیں رکھا ، اللہ کے فریضے پر توجہ نہیں دی ، بھوکا پیاسا رہنے کے دن کو کھانے پینے کا دن بنالیا ہے ، اس لئے اُسے اُلٹا لٹکادیا گیا تا کہ پیٹ کا کھانا آنتوں میں جانے کے بجائے واپس حلق کی طرف آئے اور وہ منہ جس نے اس کھانے کو کھایا ہے اسے پھاڑ کر اب کھانے پینے کے لائق نہ چھوڑا جائے کیونکہ جیسی کرنی ویسی بھرنی ۔ "تیرے پروردگار کی پکڑ کا یہی طریقہ ہے جب وہ ظالم بستیوں کو پکڑتا ہے ، یقینا اس کی پکڑ بڑی دُکھ دینے والی اور نہایت سخت ہے - بیشک اس میں ان لوگوں کے لئے نشانِ عبرت ہے جو قیامت کے عذاب سے ڈرتے ہیں" ۔
سورۃ ھود : 102- 103
فضیلۃ الشیخ /ا بوکلیم مقصود الحسن فیضی حفظہ اللہ
الغاط، سعودی عرب