Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

شب برأت اور اس کی رسومات و عبادات کی حقیقت

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • شب برأت اور اس کی رسومات و عبادات کی حقیقت



    اسلام ایک مکمل دین ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں ہماری مکمل رہنمائی کرتا ہے' عبادات اور معاملات میں ہر طرح کی راہنمائی کتاب و سنت میں موجود ہے۔ کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی' خواہش اور چاہت کے مطابق عبادت کے طریقے وضع کرلے یا کسی معاشرے کی رسومات اور بدعات کو رواج دے۔ اہل اسلام نے یہود و نصاریٰ یا پاک و ہند میں ہندووانہ طور طریقے جو اختیار کر رکھے ہیں' یہ اغیار کے اختلاط کا شاخسانہ ہے۔ اسی طرح بعض طرق صوفیاء کے وضع کردہ ہیں جن کی عوام الناس اندھا دھند پیروی کرتے چلے جاتے ہیں اور انہیں اولیاء اللہ سمجھ کر بغیر تحقیق کے دین کا حصہ سمجھ لیتے ہیں۔ اگرچہ ان مسائل اور طرق کی پشت پر خواہ سرے سے کوئی دلیل بھی موجود نہ ہو۔

    شب برأت اور اس کی رسومات و عبادات کی حقیقت

    صوفیاء اور زھاد نے کئی ایک مصنوعی اور وضعی نمازیں ایجاد کرکے امت مسلمہ میں بدعات کو رواج دیا ہے۔ ان کی ایجاد کردہ اشیاء میں سے شعبان کی پندرھویں رات میں وضعی نمازکا وہ طریقہ عبادت بھی ہے جس کا ہم آگے چل کر تذکرہ کریں گے۔ اس رات کو مساجد اور دینی مراکز میںخصوصاً چراغاں کیا جاتاہے اور اسلامیان پاک و ہند بالخصوص آتش بازی ' پٹاخے وغیرہ رات کو جلاتے ہیں حالانکہ عبادت کے ذیل میں پٹاخوں اور آتش بازی کا کچھ دخل نہیںہے اور نہ ہی اسلامی دائرہ کار میں ان کا کوئی ثبوت ہے۔ شریعت اسلامیہ نے کسی بھی موقع پر آتش بازی کو عبادت کے ضمن میں قبول نہیں کیا۔ جب نماز کے لئے اذان کی ابتدا ہوئی تھی تو کئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیم نے مشورہ دیا کہ نماز کی اطلاع کے لئے آگ روشن کردی جائے تاکہ لوگ اسے دیکھ کر نماز کے لئے اکٹھے ہوجائیں لیکن نبی ﷺ نے اس بات کو پسند نہیں فرمایا۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں۔

    کَانَ الْمُسْلِمُونَ حِینَ قَدِمُوا الْمَدِینَۃَ یَجْتَمِعُونَ فَیَتَحَیَّنُونَ الصَّلَوَاتِ وَلَیْسَ یُنَادِی بِہَا أَحَدٌ فَتَکَلَّمُوا یَوْمًا فِی ذَلِکَ فَقَالَ بَعْضُہُمْ اتَّخِذُوا نَاقُوسًا مِثْلَ نَاقُوسِ النَّصَارَی وَقَالَ بَعْضُہُمْ قَرْنًا مِثْلَ قَرْنِ الْیَہُودِ فَقَالَ عُمَرُ أَوَلَا تَبْعَثُونَ رَجُلًا یُنَادِی بِالصَّلَاۃِ قَالَ رَسُولُ اللَّہِ صَلَّی اللَّہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یَا بِلَالُ قُمْ فَنَادِ بِالصَّلَاۃِ

    (صحیح مسلم کتاب الصلوۃ باب بدء الاذان 377/1)

    مسلمان جب مدینہ منورہ تشریف لائے' وہ اکٹھے ہوتے اور نماز کے لئے وقت مقرر کرتے اور نماز کے لئے کوئی اذان نہیں کہتا تھا' ایک دن انہوں نے آپس میں اس کے بارے میں گفتگو کی بعض نے کہا' نصاریٰ کے ناقوس کی طرح ناقوس بجائو بعض نے کہا' یہود کی طرح قرن (سینگ) مقرر کرلو۔ عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے تم ایک آدمی کو کیوں نہیں بھیجتے جو نماز کے لئے ندا دے' رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ''اے بلال! اٹھ نماز کے لئے ندا دے ۔ انس بن مالکؓ کی روایت میں ہے۔

    ذَکَرُوا أَنْ یُعْلِمُوا وَقْتَ الصَّلَاۃِ بِشَیْء ٍ یَعْرِفُونَہُ فَذَکَرُوا أَنْ یُنَوِّرُوا نَارًا أَوْ یَضْرِبُوا نَاقُوسًا فَأُمِرَ بِلَالٌ أَنْ یَشْفَعَ الْأَذَانَ وَیُوتِرَ الْإِقَامَۃَ

    (صحیح مسلم کتاب الصلوۃ 378/3
    )

    صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم نے ذکر کیا کہ وہ کس چیز کے ذریعے نماز کا وقت معلوم کرائیں تاکہ وہ وقت پہچان جائیں تو انہوںنے ذکر کیا کہ وہ آگ روشن کریں یا ناقوس بجائیں تو بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا گیا' وہ اذان کے کلمات جفت اور اقامت کے طاق کہیں۔

    ایک اور روایت میں تصریح ہے کہ جب آپ کے سامنے آگ کا ذکر ہوا تو آپ نے فرمایا ''ذاک للمجوس'' یہ مجوسیوں کے لئے ہے۔

    (فتح الباری 80/2)

    اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آتش پرستی مجوسیوں کا طریقہ ہے اور آج بھی خوشی کے موقع پر آگ کا مظاہرہ کرنا مجوسیوں کا مذہب ہے اور اسی کی یاد میں آج تک ایران میں جشن نوروز منایا جاتا ہے اور چراغاں کیا جاتا ہے اور ہندوستان میں ہندوئوں کے ہاں دیوالی اسی آتش پرستی کی یادگار کے لئے منائی جاتی ہے۔ اغیار کے اختلاط اور میل جول کی بنا پر مسلمانوں نے بھی اپنی عبادات کی ذیل میں آتش بازی اور پٹاخوں کو داخل کردیا ہے۔

    مجوسیوں میں سب سے معروف و مشہور طبقہ برامکہ ہے۔ لفظ برامکہ برمک کی جمع ہے جو ان برامکہ کا جد اعلی تھا۔ یہ ایک آتش کدے کا مجاور تھا۔ علامہ طاہر پٹنی ہندی رقمطراز ہیں۔

    قال علی واول حدوث الوقود من البرامکہ وکانوا عبدۃ النار فلما اسلموا ادخلوا فی الاسلام ما یموھون انہ من سنن الدین مقصودھم عبادۃ النیران ولم یات فی الشرع استحباب زیادۃ الوقود علی الحاجۃ فی موضع''

    (تذکرہ الموضوعات الخامس فی البرائۃ ووصلوتھا وکثرۃ وقودھا واجتماع الرجال والنساء للصلوۃ ص ۴۶ مطبوعۃ ملتان)

    علی بن ابراہیم نے کہا

    آگ روشن کرنے کی بدعت سب سے پہلے برامکہ نے جاری کی۔ وہ آگ کے پجاری تھے ۔ جب اسلام میں داخل ہوئے تو انہوں نے اسلام میں ایسی چیز کو داخل کردیاجس کو ملمع سازی کے ذریعے وہ دین کی سنت کہتے تھے حالانکہ ان کا مقصد آگ کی عبادت تھا اور شریعت میں کسی بھی موقعہ پر ضرورت سے زیادہ چراغاں کرنے کی اجازت وارد نہیں ہے۔ نیز دیکھیں

    تحفۃ الاحوذی 505/3 ط بیروت مرقاۃ شرح مشکوۃ از ملا علی قاری 388/3

    معلوم ہوا کہ چراغاں اور آتش بازی کی بدعت برامکی مجوسیوں کی ایجاد ہے۔ اسلام اور اہل اسلام کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں۔ پھر اس شب برات کی ایجاد چوتھی صدی ہجری کے بعد کی ہے۔ امام ابومحمد عز الدین بن عبدالسلام المقدسی فرماتے ہیں۔

    لم یکن ببیت المقدس قط صلوۃ الرغائب فی رجب ولا صلوۃ نصف شعبان فحدث فی سنۃ ثمان واربعین واربعمائۃ ان قدم علینا رجل من نابلس یعرف باب الحی وکان حسن التلاوۃ فقام فصلی فی المسجد الاقصی لیلۃ النصف من شعبان فاحرم خلفہ رجل ثم اتصاف ثالث ورابع فما ختم الاوھم جماعۃ کثیرۃ ثم جاء فی العام المقبل فیصلی معہ خلق کثیر وانتشرت فی المسجد الاقصی وبیوت الناس منازلھم ثم استقرت کانھا سنۃ الی یومنا ھذا

    (حلبی الکبیر 434) الباعث علی انکار البدع والحوادث ص 32)

    بیت المقدس میں رجب کے مہینے میں صلوٰۃ الرغائب اور نصف شعبان کی صلوٰۃ قطعاً نہ تھیں۔ یہ بدعت 448ھ میں ایجاد ہوئی۔ نابلس میں سے ایک آدمی جو ابو الحی کے نام سے معروف تھا' ہمارے ہاں آیا وہ اچھی تلاوت والا شخص تھا۔ وہ نصف شعبان کی رات مسجد اقصی میں نماز کے لئے کھڑا ہوگیا۔اس کے پیچھے ایک آدمی پھر تیسرا' چوتھا ملتے گئے۔ نماز کے اختتام پر بہت سے لوگ جمع ہوگئے تھے۔ پھر وہ آئندہ سال آیا۔ اس کے ساتھ ایک جم غفیر نے نماز ادا کی اور یہ نماز مسجد اقصی میں اور لوگوں کے گھروں اور منزلوں میں عام ہوگئی۔ پھر اس نے اس طرح قرار پکڑا گویا کہ یہ سنت ہے اور آج تلک یہ بدعت چلی آرہی ہے۔

    اسی طرح پھر اس رات کو لوگ صلوۃ الالفیہ یا صلوۃ البراءۃ بھی ادا کرنے لگے یعنی 100 رکعات نماز ادا کرتے ہیں ا ور ہر رکعت مین 10 مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھتے ہیں۔ اس طرح ایک ہزار مرتبہ سورۃ اخلاص پڑھی جاتی ہے اور لوگ اسے صلوٰۃ الالفیہ کہتے ہیں۔ علامہ محمد طاہر پٹنی ہندی رحمۃ اللہ علیہ رقم طراز ہیں۔

    نصف شعبان کی رات جو نماز الفیہ ادا کی جاتی ہے' یہ بدعات میں سے ہے۔ اس نماز میں 100 رکعات کے اندر ہر رکعت میں 10 بار سورۃ اخلاص پڑھی جاتی ہے اور لوگوں نے عیدوں سے زیادہ اس کا اہتمام کیاہے۔ اس کے متعلق اخبار و آثار جو مروی ہیں وہ یا تو ضعیف ہیں یا موضوع۔
    امام غزالی وغیرہ نے احیاء العلوم وغیرہ میںجو اس کا ذکر کیاہے' اس سے دھوکہ نہ کھایاجائے اور نہ ہی تفسیر ثعلبی سے دھوکہ کھائیں کہ اس نے اسے شب قدر قرار دے دیا ہے' اس کی وجہ سے عوام الناس ایک عظیم فتنہ میں مبتلا ہوگئے ہیں حتی کہ اس کے باعث وہ کثرت سے چراغاں کرتے ہیں اور اس پر فسق و فجور و عفت و عصمت دری کا وقوع و ترتب رہتا ہے جو کہ ناقابل بیان ہے۔ یہ نماز سب سے پہلے بیت المقدس میں 448ھ میںجاری کی گئی۔

    (تذکرہ الموضوعات ص45)

    زید بن اسلم نے کہا

    ''ما ادرکنا احدا من مشائخنا وفقھاء یلتفتون الی لیلۃ البراۃ وفضلھا علی غیرھا''

    (تذکرہ الموضوعات میں ص45)

    ہم نے اپنے مشائخ اور فقہاء میں سے کسی ایک کو بھی شب برأت کی طرف التفات کرتے ہوئے نہیں پایا اور نہ ہی شب برأت کی فضیلت اس کے علاوہ دیگر راتوں پر دیتے ہوئے کسی کو پایا ہے۔

    ابن دحیہ نے کہا

    ''احادیث صلوٰۃ البرأۃ موضوعۃ وواحد مقطوع ومن عمل بخبر صح انہ کذب فھو خدم الشیطان''

    (تذکرۃ الموضوعات ص 45' 46 شب برات کی نماز کے متعلق روایات وضعی اور من گھڑت ہیں اور ایک بات قطعی ہے جس نے کسی روایت کو صحیح قرار دے کر اس پر عمل کیا' حالانکہ وہ جھوٹ ہو تووہ شیطان کے خادموں میں سے ہے لہٰذا شب برأت کے متعلق کوئی صحیح روایت موجود نہیں ہے۔

    کیا لیلہ مبارکہ شب برأت ہے

    بعض لوگوں نے شب برأت کا جواز قرآن سے نکالنے کی کوشش کی ہے وہ سورۃ دخان کی اس آیت سے استدلال کرتے ہیں۔

    إِنَّا أَنْزَلْنَاہُ فِی لَیْلَۃٍ مُبَارَکَۃٍ إِنَّا کُنَّا مُنْذِرِینَ o فِیھَا یُفْرَقُ کُلُّ أَمْرٍ حَکِیمٍ

    (الدخان 4,3)

    بے شک ہم نے اس قرآن کو برکت والی رات میں نازل کیا ہے بے شک ہم لوگوں کو ڈرانے والے ہیں۔ اس رات میں ہر حکیمانہ فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔

    اس کی تفسیر یہ بیان کی جاتی ہے کہ لیلۃ مبارکہ شب براء ت ہے جس میں سال بھر کے امور کے فیصلے کئے جاتے ہیں یہ تفسیر کسی طرح بھی درست نہیں لیلۃ مبارکہ ہے سے مراد لیلۃ القدر ہے جس کی تفسیر خود قرآن حکیم نے کردی ہے جس رات نزول قرآن ہوا وہ لیلۃ القدر ہے' یہ ایک رات کے دو نام ہیں اور اس ماہ مبارک کا تعین بھی قرآن نے کردیا ہے کہ وہ رمضان المبارک ہے۔

    ارشاد باری تعالیٰ ہے

    شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِی أُنْزِلَ فِیہِ الْقُرْآَنُ

    (البقرہ 185)

    رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔

    امام ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ فرماتے ہیں۔

    المسألۃ الثالۃ تعیین ھذہ اللیلۃ وجمہور العلماء علی انھا لیلۃ القدر ومنھم من قال انھا لیلۃ النصف من شعبان وھو باطل لان اللہ تعالی قال فی کتابہ الصادق القاطع شھر رمضان الذی انزل فیہ القرآن فنص ان میقات نزولہ رمضان ثم عبر عن زمانیۃ الیل ھاھنا بقول فی لیلۃ مبارکۃ فمن زعم انہ فی غیرہ فقد اعظم الفریہ علی اللہ ولیس فی لیلۃ النصف من شعبان حدیث یعول علیہ لا فی فضلھا ولا فی نسخ الاجال فیھا فلا تلفتوا الیھا ۔

    (احکام القرآن1690/4)

    تیسرا مسئلہ اس رات کی تعیین کا ہے۔ جمہور علماء اس بات کے قائل ہیں کہ لیلہ مبارکہ سے مراد لیلۃ القدر ہے اور بعض نے نصف شعبان کی رات قرار دیا ہے اور یہ باطل ہے۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنی سچی اور قطعی کتاب میں فرمایا ہے ''رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ہے'' اس نے واضح طور پر بیان کردیا ہے کہ اس کے نزول کا وقت رمضان میں ہے۔ پھر رات کے وقت کی یہاں تعبیر لیلہ مبارکہ سے کی ہے جس نے یہ کہا کہ رمضان کے علاوہ کسی رات میں نازل ہوا اس نے اللہ پر جھوٹ باندھا ہے اور نصف شعبان کی رات کے حوالے سے اس کی فضیلت اور اس میں مردوں کے نام لکھے جانے کے بارے میں کوئی قابل اعتماد روایت موجود نہیں ہے اس کی طرف التفات مت کرو۔

    مزید تفصیل کے لئے تفسیر قرطبی 85,84/16 تفسیر زاد المسیر 337,336/7 جامع البیان للطبری 221/11 فتح القدیر للشوکانی 184-182/1' 570/4 تفسیر المراغی 119-118/9 تفسیر ابن کثیر 538/5 بتحقیق عبدالرزاق المہدی۔

    شب برات کے متعلق جس قدر روایات مروی ہیں سب ناقابل حجت اور اور ضعاف و مناکیر ہیں۔ مجلہ کے صفحات روایات پر مفصل نقد کرنے سے مانع ہیں۔ میں صرف چند ائمہ کے فیصلے نقل کردیتا ہوں' تفصیل کے لئے راقم الگ بحث رقم کر رہا ہے۔ شائقین رجوع فرما سکتے ہیں۔

    امام عقیلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

    وفی النزول فی لیلۃ النصف من شعبان احادیث فیھا لین ولروایۃ فی النزول فی کل لیلہ احادیث ثابتۃ صحاح فلیلۃ النصف من شعبان داخلۃ فیھا ان شاء اللہ تعالی

    (الضعفاء الکبیر29/3 تحت ترجمہ عبدالملک بن عبدالملک عن مصعب بن ابی ذئب)

    نصف شعبان کی رات میں نزول باری تعالیٰ کے متعلق مروی روایات کمزور ہیں اور ہر رات میں نزول کے بارے میں احادیث ثابتہ صحیحہ موجود ہیں۔ تو نصف شعبان کی رات بھی ان شاء اللہ ان میں داخل ہے۔ یعنی خاص 15 شعبان کی رات اللہ کے آسمان دنیا پر نزول کرنے کے متعلق کوئی صحیح حدیث موجود نہیں البتہ ہر رات آسمان دنیا پر اللہ تعالیٰ نزول کرتا ہے اور نصف شعبان کی رات بھی اس میں شامل ہے۔ الگ سے اس کی فضیلت موجود نہیں ہے۔

    حافظ ابوالخطاب ابن دحیہ نے کہا

    قال اھل التعدیل والتجریح لیس فی حدیث لیلۃ النصف من شعبان حدیث یصح

    (الباعث علی انکار البدع والحوادث ص 34)

    اھل الجرح والتعدیل نے کہا ہے کہ نصف شعبان کی رات کے بارے میں کوئی صحیح حدیث نہیں ہے۔

    حافظ ابوشامہ الشافعی ؒفرماتے ہیں۔

    کل ذالک باسانید ضعاف

    (الباعث ص 35)

    اس کے متعلق تمام روایات ضعیف ہیں۔

    شب برات اور رجب میں صلوۃ الرغائب کے نام پر جو نمازیں ادا کی جاتی ہیں' ان کے بارے میں امام نوویؒ فرماتے ہیں۔

    وھاتان الصلواتان بدعتان مذمومتان منکرتان قبیحتان ولاتفتر بذکرھما فی کتاب قوت القلوب ولاحیاء ولیس لاحد ان یستدل علی شرعیتھما

    (حلبی کبیر ص 343)

    یہ دو نمازیں بدعت مذمومہ منکرہ قبیحہ ہیں۔ قوت القلوب از ابوطالب مکی اور احیاء العلوم از غزالی میں ان کے تذکرے سے دھوکہ نہ کھائو اور کسی کے لئے ان کی مشروعیت پر استدلال کرنا جائز نہیں ہے۔

    خلاصۃ القول شب برات کی تخصیص اور اس کے متعلق نماز کے حوالے سے کوئی صحیح روایت موجود نہیں۔ یہ 448ھ کی ایجاد ہے جسے بیت المقدس میں بعض صوفیاء نے رواج دیا ہے۔ اہل حجاز اور دیگر بلاد اسلامیہ میں اس کا کوئی وجود نہ تھا اور نہ ہی کتاب و سنت کے دلائل میں اس کا تذکرہ ہے۔ اسی طرح اس رات کے حوالے سے آتش بازی' پٹاخے' فائرنگ وغیرہ بے اصل ہیں۔
    ماہ شعبان کے مسنون فضائل

    شعبان کے متعلق عمومی فضائل یہ ہیں کہ اس ماہ نبی ﷺ رمضان کے بعد باقی مہینوں سے زیادہ عبادت کرتے اور زیادہ روزہ رکھتے تاکہ رمضان کی تیاری کی جا سکے البتہ پندرہ شعبان کے بعد زیادہ اہتمام نہ کرتے او رنہ ہی رمضان سے ایک دن پہلے استقبال رمضان کا خصوصی روزہ رکھتے الّا یہ کہ وہ آپ کے پورے سال کے معمول کے روزوں میں آجائے۔

    ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب


  • #2
    Re: شب برأت اور اس کی رسومات و عبادات کی حقیقت

    ے۔ کسی فرد کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ اپنی مرضی' خواہش اور چاہت کے مطابق عبادت کے طریقے وضع کرلے یا کسی معاشرے کی رسومات اور بدعات کو رواج دے





    Comment

    Working...
    X