Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ضعیف احادیث کے بارے میں محدثین کے اصول

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ضعیف احادیث کے بارے میں محدثین کے اصول




    محترم ساتھیو! السلام علیکم

    ہم نے جس موضوع پر قلم اٹھایا ہے وہ آج کے دور کا ایک اہم ترین موضوع ہے جس کے بارے میں لکھنا ہمارے نزدیک ضروری تھا۔ آج کے دور میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جو احادیث کے بارے میں یہ بات پھیلانے میں مشغول ہے کہ احادیث سے حجت لینے کے بارے میں دلائل نقل کیے گئے ہیں تاکہ ان ادھورے اور ناقص دلائل سے عوام الناس کو اس بارے میں غلط فہمی کا شکار بنایا جا سکے کہ احادیث ضعیفہ سے فضائل کے باب میں استدلال درست ہے۔ چنانچہ ہم نے ایسے ہی لوگوں کے لیے یہ ادنی سی سعی کی ہے جو اصول حدیث کو اپنے مسلک کے دفاع کے لیے یکسر تبدیل کرنا چاہتے ہیں ہم انہی اصولوں کو عوام الناس کے سامنے بیان کریں گے تاکہ یہ واضح ہو کہ ان لوگوں کے نزدیک مسلک کے لیے سب کچھ چھوڑا جا سکتا ہے مگر مسلک کو نہیں چھوڑا جاتا ہے۔ اس مختصر سی تمہید کے بعد ہم اپنے موضوع کا آغاز کرتے ہیں۔

    (وتوفیق باللہ)

    احادیثِ ضعیفہ سے استدلال کے دلائل

    اس عنوان کے تحت ہم اس مضمون میں پیش کیے گئے دلائل نقل کریں گے جو احادیث ضعیفہ سے فضائل کے باب میں استدلال کرتے ہیں۔
    فضائل اعمال ترغیب و ترہیب قصص، مغازی وغیرہ میں اس کو دلیل بنایا جا سکتا ہے ، بشرطیکہ موضوع نہ ہو ۔ چنانچہ ابن مہدی اور امام احمد وغیرہ سے منقول ہے

    ’’اذا روینا فی الحلال والحرامواذا روینا فی الفضائل ونحو ہاتسا ہلنا‘‘

    (فتح المغیث)

    اور ضعیف حدیث بعض کے نزدیک احکام میں بھی حجت ہے جبکہ بعض کے نزدیک سرے سے حجت نہیں ہے۔
    ضعیف حدیث احکام کے باب میں

    جہاں تک احکام شرعیہ میں ضعیف حدیث کے استعمال کا تعلق ہے تو جمہور محدثین و فقہا کے طرز عمل سے صاف ظاہر ہے کہ ضعیف سے حکم شرعی پر استدلال کیا جا سکتاہے جبکہ ضعف شدید نہ ہو ۔ یعنی سند میں کوئی مہتم اور کذاب نہ ہو۔ ضعیف حدیث سے استدلال کی چند صورتیں ہیں۔

    ۱)

    مسئلہ میں اس کے علاوہ کوئی مضبوط دلیل نہ ہو مختلف مکاتب فکر کے تعلق سے اس کی تفصیل حسب ذیل ہے۔

    حنفیہ

    امام ابو حنیفہ فرماتے ہیں

    ’’الخبر الضعیف عن رسول اللہ اولی م القیاس ‘‘

    (المحلی ابن حزم)

    اس کے علاوہ چند احکام بھی نقل کیے گئے ہیں۔

    ’’اکثر الحیض عشرة ایام‘‘ یہ حدیث بالاتفاق محدثین کے نزدیک ضعیف ہے ۔ حنفیہ نے اسے قیاس پر مقدم کیا ہے۔ مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھنا یہ روایت ضعیف ہے اور ابوامامہ سے مسند احمد اور حاکم سے روایت موجود ہے کہ قبر پر مٹی ڈالنا اور دعا پڑھنا یہ روایت بھی ضعیف ہے۔

    شافعیہ اور مالکہ

    امام مالک کے بارے میں بیان کیا ہے کہ وہ مرسل بمعنی منقطع کو حجت مانتے تھے جو جمہور کے نزدیک ضعیف ہے اور اسی طرح امام شافعی کے بارے میں نقل کیا ہے کہ ان کے نزدیک مرسل ضعیف ہے ۔ مگر اگر مسئلہ میں کو اور دلیل نہ ہو تو اس سے حجت لیا کرتے ہیں۔ امام شافعی کے نزدیک مرسل کئی شرائط کے بعد قابل استدلال بنتی ہے وگرنہ نہیں۔

    امام احمد بن حنبل اور امام اوزاعی

    امام احمد بن حنبل کے بارے میں نقل کیا گیا ہے کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث قوی الرائے سے بہتر ہے اور امام اوزاعی مقطوعات اور اہل شام کے مراسیل سے استدلال کرتے تھے۔

    امام ابو داؤد اور امام ابن حزم

    امام ابو داؤد سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ ضعیف حدیث کو قیاس سے قوی تر مانتے تھے اگر کسی باب میں ضعیف حدیث کے علاوہ کوئی حدیث نہ ملتی تو وہ اس کا اخراج کر لیتے تھے اور ابن حزم سے نقل کیا ہے کہ وہ اپنے تشدد میں مشہور تھے مگر انہوں نے بھی قنوت وتر قبل رکوع کی روایت جو حسن بن علی رضی اللہ عنہ سے نقل ہوئی ہے اس کے بارے میں فرماتے ہیں کہ یہ روایت اس قابل نہیں ہے کہ اس سے استدلال کیا جا سکے مگر نبی ﷺ سے اس کے علاوہ ہمیں اور کچھ نہیں ملا اس لیے اس کو قبول کیا گیا ہے۔

    دلائل کا رد

    یہ وہ اصولی بحث ہے جو اس ضمن میں کی گئی ہے۔ امام احمد سے اور دیگر محدثین کے جو اقوال نقل کیے گئے ہیں ان کا مدار فقط اس بات پر منحصر ہے کہ ان محدثین نے ضعیف حدیث سے استدلال کیا ہے حدیث کی چار مشہور اقسام ہیں، جن کو مختلف اصول کی کتب میں نقل کیا گیا ہے اور اہل علم اس سے بخوبی واقف ہیں۔ وہ اقسام درج ذیل ہیں

    ۱)صحیح لذاتہ ۲) صحیح لغیرہ ۳) حسن لذاتہ ۴) حسن لغیرہ

    یہ چار اقسام حدیث تمام محدثین کے نزدیک بلاتفاق قابل حجت ہیں۔ اس میں سب سے آخری درجہ حسن لغیرہ کا ہے یہ وہ روایت ہوتی ہے جو ضعیف ہی ہوتی ہے ، لیکن ایک تو وہ دوسری یا کئی اسناد سے ثابت ہوتی ہے مگر اس کا ضعف شدید نہیں ہوتا ہے۔

    اس کے ضعف کا سبب راوی کا حافظہ میں معمولی خرابی ہوتی ہے۔

    اس کی سند میں انقطاع خفیف ہوتا ہے۔

    اس کے کسی راوی کا مجھول ہونا ہوتا ہے ۔

    ایسی روایت کی دوسری اسناد کو دیکھا جاتا ہے کہ اگر دوسری اسناد میں اسی قسم کا ضعف پایا جاتا ہے جو ہم نے اوپر بیان کیا ہے یا روایت اس سند سے قوی الاسناد ہے تو وہ روایت حسن لغیرہ تک پہنچ جاتی ہے اور اگر اس روایت کی دوسری اسناد خواہ ایک ہو یا اس سے زیادہ ان اسناد میں ضعف کا باعث راوی کا فسق، کذب، مہتم ہونا ہے، تو وہ روایت کسی طرح حسن لغیرہ کے درجے پر نہیں پہنچ سکتی ہے۔

    (دیکھیے تیسیر مصطلح الحدیث)

    ایک بات تو واضح ہو گئی کہ حسن لغیرہ ضعیف حدیث ہی ہوتی ہے جو ان شرائط پر اترنے کے بعد حسن لغیرہ ہو جاتی ہے۔ اب اصل نقطہ کی جانب آتے ہیں ۔ یہ جو حوالہ جات دیے گئے ہیں ان سے فقط یہی بات سامنے آتی ہے کہ جن مکاتب فکر نے ضعیف احادیث سے استدلال کیا ہے یا جن کے نزدیک ضعیف حدیث قیاس سے یا قوی الرائے سے بہتر ہے یا انہوں نے فضائل کی روایات میں تسائل سے کام لیا ہے وہ ضعیف کی اس قسم حدیث میں سے ہے اور اس بات کو متعدد ائمہ اور محدثین نے اپنی کتب میں نقل کیا ہے۔

    ابن قیم فرماتے ہیں

    وھو الذی رحّجہ علی القیاس ولیس المراد بالضعیف عندہ الباطل ولا المنکر ولا مافی رواتہ متھم بحیث لا یسوغ الذھاب الیہ والعمل بہ ، بل الحدیث الضعیف عندہ قسم الصحیح وقسم من اقسام الحسن ولم یکن یقسم الحدیث الی صحیح وحسن وضعیف ، بل الی صحیح وضعیف

    (اعلام الموقعین۲،ص۵۵ فصل الرابع اخذا لمرسل)

    اور یہی بات علامہ ابن علان نے شرح الاذکار اور امام ابن ابن تیمیہ نے القائدہ الجلیہ میں نقل کی ہے۔ امام ابن قیم کی مراد اس سے یہی ہے کہ امام احمد کے دور میں حدیث صحیح اور ضعیف میں تقسیم ہوتی تھی اور حسن کی اصطلاح ان کے دور میں نہیں تھی اور ان کی ضعیف صحیح کی قسم حسن میں سے تھی جس میں کوئی ایسا راوی نہیں ہوتا تھا جس سے حدیث نہ لی جاتی ہو۔ یہ بات واضح ہوگئی ہے کہ ضعیف حدیث جن کو امام احمد وغیرہ نے قیاس پر مقدم مانا ہے وہ حسن حدیث ہوتی تھی مگر ان کے دور میں حسن کی اصطلاح موجود نہ تھی اور امام اوزاعی اہل شام کے مراسیل سے استدلال کیا کرتے تھے ۔ تو کیا اس کے علاوہ دوسرا کوئی بھی ان سے مراسیل بیان نہیں کرتے تھا۔ امام اوزاعی کا اہل شام کے مراسیل سے حجت لینا از خود ہماری دلیل کو ثابت کرتا ہے کہ ان کے علاوہ دیگر مراسیل کو نا قابل حجت مانتے تھے اور امام ابو داؤد کے بارے میں جو بیان کیا گیا ہے کہ تو امام ابو داؤد نے امام احمد کے اصول کو اپنایا ہے اور انہوں نے بیشتر روایات جو قیاس پر مقدم کی ہیں وہ منقطع اور مرسل اور جن میں معمولی ضعف ہیں جو تعداد طرق سے حسن میں داخل ہو جاتی ہیں اور اس کی متعدد مثالیں موجود ہیں ۔ صلوة التسبیح والی روایت ، ابو داؤد میں ضعیف ہے مگر تعداد طرق اور ان شرائط کی بنا پر جو ہم نے اوپر نقل کی ہیں حسن درجے تک پہنچتی ہے ۔ ابن حزم نے جو قنوت وتر کی روایت کو ضعیف کہا ہے تو اس میں ایسے رواة منقول نہیں ہے جو منکر اور کذاب ہوں اور یہی وجہ ہے کہ یہ روایت حسن درجے تک پہنچی ہے ۔ چنانچہ امام ترمذی وغیرہ نے اس کو حسن کہا ہے محدث العصر علامہ البانی نے اس روایت پر مفصل بحث کی ہے اور اسے حسن قرار دیا ہے۔

    (ارواء الغلیل ، جلد ۲، ص ۱۷۲، رقم ۴۲۹)

    حنفیہ کا استدلال: اس باب میں حنفیہ سے جو دلائل دیے ہیں وہ ہم نے اوپر نقل کیے ہیں انہوں نے ضعیف روایات سے استدلال کیا ہے۔

    اکثر الحیض والی روایت ضعیف نہیں ہے بلکہ موضوع (من گھڑت) ہے اس میں محمد بن الحسن الصدفی ہے جس کی بابت امام ذہبی فرماتے ہیں: ’’لا یصح حدیثہ‘‘
    (میزان الاعتدال، ترجمہ: ۷۸۳۳۳) اور امام ابن حزم نے اسے من گھڑت قرار دیا ہے۔

    (المحلی جلد ۲، ص ۸۹)

    مغرب کے بعد چھ رکعت والی روایت بہت ضعیف ہے۔ امام ترمذی نے اس روایت کو نقل کرنے کے بعد لکھا ہے

    ﴿حدیث ابی ہریرہ حدیث غریب لا نعرفہ الا من حدیث زید بن الحباب عن عمر بن ابی خثعم وسمعت محمد بن اسماعیل یقول عمر بن عبداللہ منکر الحدیث﴾

    (ترمذی کتاب الصلوة باب ماجاء فضل التطوع وست رکعات بعد مغرب)

    ترجمہ

    (اس روایت کو ہم اسی طریق سے جانتے ہیں اور محمد بن اسماعیل ( امام بخاری) فرماتے ہیں کہ عمر بن عبداللہ منکر الحدیث ہے۔ )

    اور ابن صلاح اپنے مقدمہ میں نقل فرماتے ہیں کہ جس راوی کے بارے میں امام بخاری فرما دیں کہ یہ منکر الحدیث ہے اس سے روایت لینا حلال نہیں ہے۔ تو یہ روایت کس طرح استدلال کے قابل ہو سکتی ہے مغرب کے بعد صلاة اوابین کسی صحیح حدیث سے ثابت نہیں ہے۔

    قبر پر تین لیپ مٹی ڈالتے وقت دعا پڑھنے والی روایت بھی بہت زیادہ ضعیف ہے ، اس روایت کو امام احمد بن حنبل نے اپنی مسند اور امام حاکم نے اپنی مستدرک میں روایت کیا ہے اور اس کی سند میں علی بن یزید نامی راوی ضعیف ہے۔

    ﴿قال یعقوب: علی بن یزید واھی الحدیث کثیر المنکرات وقال ابن ابی حاتم احادیثہ منکرة وقال لبخاری منکر الحدیث ﴾

    (تھذیب التھذیب ، ترجمة ۴۹۶۷)

    ترجمہ

    (یعقوب بن شیبہ فرماتے ہیں وہ بے اعتبار راوی ہے اور اس کی کثیر روایات منکرات ہیں اور امام حاتم نے بھی یہی فرمایا ہے اور امام بخاری نے منکر الحدیث کہا ہے۔)

    اور امام بخاری کا کسی راوی کو منکر الحدیث کہنے کے بارے میں ہم ابن صلاح کے حوالے سے نقل کر چکے ہیں یہ روایات جن سے حنفیہ نے استدلال کیا ہے وہ خود ضعیف حدیث سے استدلال کرنے والوں کے اصول کے خلاف ہے۔ کیونکہ ان کے مطابق روایت کا ضعف شدید نہ ہو جیسا اوپر نقل کیا گیا ہے ۔ مگر یہ روایات تو موضوع (من گھڑت) کے قریب ہیں تو یہ لوگ کس طرح اس سے استدلال کے دعوے کرتے ہیں جبکہ خود انہوں نے جو اصول ضعیف روایات کو ماننے کے بارے میں بیان کیے وہ اصول از خود ان روایات کو ماننے کے خلاف ہیں۔

    شافعیہ اور مالکیہ


    امام مالک کے نزدیک مرسل حجت تھی تو ہو سکتا ہے کہ امام مالک چند خاص مراسیل سے حجت لیتے ہوں جیسا کہ ابن العربی نے بیان کیا ہے

    ﴿وقال ابن العربی تحقیق مذہب مالک انہ لا تقبل الا مراسیل اھل المدینة﴾

    (عارضہ الاحوذی شرح سنن ترمذی ۲۴۶/۱)

    امام مالک اہل مدینہ کی مراسیل سے حجت لیا کرتے تھے ۔ (واللہ اعلم) اور امام شافعی کو اگر کسی مسئلہ میں دلیل نہ ملے تو وہ ہر مرسل سے حجت نہیں لیا کرتے تھے بلکہ ان کے نزدیک سعید بن مسیّب کی مرسل کے علاوہ دیگر مرسل کو قبول کرنے کی چند شرائط تھیں۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے امام شافعی کے حوالے سے نقل کیا ہے

    ﴿ان لا مراسیل لا یجوز الاحتجاج بہ الامراسیل الصحابہ ومراسیھل سید بن المسیب وما انعقد الاجماع علی اعمل بہ ﴾

    (النکت ص۲۰۲ باب حکم المراسیل)

    صحابہ اور سعید بن المسیب کی مراسیل کے علاوہ کوئی مرسل قابل احتجاج نہیں ہے۔
    اسے کسی اور راوی نے مسنداً بیان کیا ہو۔
    کسی دوسرے نے اسے بطور مرسیل روایت کیا ہو۔
    اس کے قول کی تائید صحابی سے ہوتی ہو۔
    اہل علم کی اکثریت نے اس کی تائید کی ہو۔
    راوی کے حالات واضح ہوں کہ وہ ثقہ راویوں سے روایت کرتا ہے۔

    ان شرائط سے کوئی ایک شرط بھی ہوتی تو امام شافعی مرسل روایت سے حجت اخذ کرتے مگر کوئی روایت ان شرائط میں سے کسی ایک پر بھی پوری نہیں اترتی تو وہ مرسل امام شافعی کے نزدیک قابل حجت نہیں ہے۔ چنانچہ یہ کہنا دینی خیانت پر مبنی ہے کہ امام شافعی ہر مرسل سے حجت اخذ کیا کرتے تھے۔

    ائمہ کے اقوال سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی ان ضعیف روایات سے استدلال نہیں کیا ہے جس میں کوئی راوی متھم ، کذاب، فحش خطا یا جس سے روایت لینا جائز نہ ہو ان سے روایات نہیں لیں ہیں، بلکہ وہ حسن درجے کی روایت ہوتی تھی ۔ مگر احمد بن الصدیق الغماری المالی کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ مالکیہ کے علاوہ چاروں ائمہ نے ضعیف بلکہ بعض روایات تو تقریباً موضوع کے قریب ہیں جن سے حجت لی گئی ہے اور ضعیف حدیث سے احکام میں عمل نہیں کیا جائے گا۔ اس اصول کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔ یہ بات جو ائمہ کے حوالے سے نقل کی گئی ہے اس کے بارے میں ہم یہی کہتے ہیں کہ ان ائمہ تک ان روایات کا ضعف ہونا پائے ثبوت تک نہیں پہنچا ہوگا اور اس بنا پر انہوں نے اس سے استدلال کو جائز قرار دیا ہوگا۔ چنانچہ امام ابن تیمیہ نے الوسیلہ میں نقل کیا ہے

    ’’امام احمد بن حنبل وغیرہ علماء نے فضائل اعمال سے متعلق ایسی احادیث کو روایت کرنا جائز قرار دیا ہے جو اگرچہ ثابت نہ ہوں لیکن ان کا کذب معلوم نہ ہو۔ ‘‘اس کی وجہ یہ ہے کہ اگر کسی عمل کے بارے میں معلوم ہو جائے کہ وہ دلیل شرعی کی بنا پر جائز ہے اور اس کی فضیلت میں حدیث بھی ملتی ہے تو اس پر ثواب برحق ہوگا ۔ کسی امام نے یہ نہیں کہا ہے کہ کسی ضعیف حدیث کی بنیاد پر کوئی کام واجب اور مستحب قرار پائے گا جو شخص اس بات کا قائل ہے وہ اجماع امت کا مخالف ہے۔‘‘

    (الوسیلہ ص ۱۸۷)

    امام ابن تیمیہ کے قول سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ فضائل میں بھی فقط ائمہ نے روایت کرنا اس بنا پر جائز رکھا کہ اس روایت کا کذب معلوم نہ تھا تو احکام میں بدرجہ اولی یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہیں روایات کے کذب کا علم نہ ہوا ہوگااور کسی امام نے کسی ضعیف حدیث سے کسی عمل کو واجب اور مستحب قرار نہیں دیا ہے اور امام ابن تیمیہ نے اس پر اجماع نقل کیا ہے تو اس سے یہی بات معلوم ہوتی ہے کہ کسی امام نے بھی ضعیف سے جب کے اس کا کذب معلوم ہو جائے استدلال نہیں کیا ہے تو وہ کس طرح ایک روایت جس کا کذب معلوم ہو اس کو دلیل بنا سکتے ہیں ۔ یہ بڑی علمی خیانت کی بات ہے جو ان ائمہ کے بارے میں کہی گئی ہے یہ حقائق اس بات کو عیاں کرتے ہیں کہ کسی امام نے ضعیف حدیث سے استدلال نہیں کیا ہے وہ حسن روایت ہوتی تھی جو ان کے دور میں ضعیف کی قسم میں سے تھی۔

    ائمہ کے مسائل پر اور ان کے احکام میں ضعیف سے استدلال کے مؤقف کو سمجھنے کے بعد چند دلائل اس بارے میں بھی نقل کیے گئے ہیں کہ جو محدثین ضعیف روایت کو فضائل اعمال میں بھی بیان کرنے کو جائز نہیں سمجھتے ہیں ان کے حوالے سے چند استدلال پیش کیے گئے ہیں ، جس سے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی ہے کہ وہ ضعیف حدیث پر عمل میں جمہور سے علیحدہ نہیں ہیں۔ جمہور کا مؤقف اس بارے میں کیا ہے ہم آگے بیان کریں گے کہ انہوں نے کن شرائط پر ضعیف کو فضائل اعمال میں قبول و رد کیا ہے مگر اس سے قبل ان محدثین کے حوالے سے جو غلط بیانی کی گئی ہے اسے واضح کرنا ضروری ہے۔

    امام بخاری

    امام بخاری کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ بھی فضائل میں جمہور سے الگ نہیں رہے ہیں، امام بخاری کی الادب المفرد میں احادیث و آثار کی بڑی مقدار تخریج کی ہے بلکہ بعض ابواب تو آباد ہی ضعیف سے ہیں ، اور امام بخاری نے اس سے استدلال کیا ہے۔

    اس بے بنیاد استدلال کی بنا پر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ امام بخاری نے ادب المفرد میں ضعیف سے استدلال کیا ہے مگر یہ بات سراسر کم فہمی پر مبنی ہے۔ حافظ ابن حجر نے مقدمہ فتح الباری میں امام بخاری کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ
    امام بخاری فرماتے ہیں کہ پہلے مسانید صحیح ، حسن کے ساتھ ضعیف پر مشتمل ہوتی تھی اس کے بعد امام بخاری کے شیخ اسحاق بن راھویہ نے انہیں مشورہ دیا کہ آپ کوئی کتب حدیث کا ایسا مجموعہ جمع کرو جس میں تمام حدیث صحیح ہوں۔ تب امام بخاری نے صحیح بخاری کی جمع کرنے کی کوشش کی۔

    اس بات سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ کتب احادیث میں ضعیف اور من گھڑت روایات موجود ہوتی تھیں اس کا معنی یہ نہیں ہے کہ محدثین نے اس سے استدلال لیا ہے ۔ امام بیہقی نے دلائل نبوی میں خطا آدم والی روایت کو نقل کیا ہے اور اس پر ضعیف کا حکم لگایا ہے اس سے یہ سمجھا جائے کہ ان کی اس روایت کو نقل کرنا اس بات کی دلیل ہے اس روایت سے انہوں نے استدلال کیا ہے ۔ امام بخاری نے الادب المفرد میں جو حدیث انہیں ادب سے متعلق ملی اسے شامل کر لیا۔ جیسا ان سے پہلے محدثین کرتے رہے ہیں اور امام بخاری نے فقط بخاری کے لیے ہی یہ شرط رکھی ہے کہ اس میں صحیح احادیث کو جمع کریں گے ۔ امام بخاری نے الادب المفرد کے بارے میں کوئی ایسی بات نقل نہیں کی ہے۔ انہوں نے الادب المفرد کو اسی طرز پر جمع کیا ہے جس پر اس سے پہلے کتب حدیث جمع ہوتی رہی تھیں۔

    صحیحین پر اعتراض

    بخاری کے حوالے سے نقل کیا ہے خود الجامع الصحیح میں ایسی مثالیں موجود ہیں جن کی روایت میں بھی کوئی متکلم فیہ راوی موجود ہے۔ جس کی حدثیں محدثین کے اصول پر کسی طرح حسن سے اوپر نہیں اٹھ سکتی بلکہ بعض حدیثوں میں ضعیف راوی منفرد ہے اور اس کو داخل صحیح کرنے کی اس کے علاوہ کوئی تاویل نہیں ہو سکتی کہ اس کا مضمون غیر احکام سے متعلق ہیں اور شارحین نے بھی اس کی یہی تاویل کی ہے۔

    محمد بن عبدالرحمن الطفاوی : حافظ ابن حجر فتح الباری میں اس کے بارے میں لکھتے ہیں

    ﴿قال ابو زرعہ منکر الحدیث واورد لہ ابن عدی عدة احادیث قلت: لہ فی البخاری ثلاث احادیث ، لیس فیھا شئی مما استنکرہ ابن عدی ثالثھا فی الرقاق ’’کن فی الدنیا کئانک غریب‘‘ دھذا تفرد بہ الطفاوی ھو من غرائب الصحیح وکان البخاری لم یشدد فیہ لکونہ من احادیث الترغیب والترھیب﴾
    محمد بن طلحہ: عن مصعب بن سعد قال: رای سعد ابن لہ فضلا علی من دونہ فقال ان النبی ﷺ ’’تنصرون وترزقون الیضعفائکم ‘‘

    محمد بن طلحہ

    ﴿محمد بن طلحة بن سعد قال: رای سعد ان لہ فضلا علی من دونہ فقال ان النبی ﷺ ’’تنصرون و ترزقون الیضعافائکم﴾

    محمد بن طلحہ بن مصرف الکوفی کا سماع اپنے والد سے کمسنی میں ہوا تھا، امام نسائی ، ابن معین وغیرہ نے ان کو ضعیف کہا ہے اور تقریب میں ہے ’’صدوق لہ اوھام انکروا سماعہ عن ابیہ لصغرہ‘‘ حافظ ابن حجر فرماتے ہیں ’’صحیح میں ان کی تین حدیث ہیں ، دو تو متابعت کی وجہ سے درجہ صحت کو پہنچ جاتی ہیں، تیسری یہ حدیث اس کی روایت میں محمد بن طلحہ منفرد ہیں، مگر یہ فضائل اعمال سے متعلق ہے۔ یعنی فضائل اعمال کی حدیث ہونے کی وجہ سے چشم پوشی کی گئی۔

    اعتراضات کا جواب

    اس سے قبل کے ہم ان رواة پر بحث کریں کہ یہ روایات بالکل صحیح ہیں ان میں کوئی انفرادیت نہیں ہے نہ یہ روایت ایسی ضعیف ہے کہ اس کو فضائل کی بنا پر قبول کیا گیا ہے ۔ ہم اصول کو سمجھ لیں جس پر اجماع ہیں۔ بخاری اور مسلم کے متون بالکل صحیح ہیں اور اسی بات پر اجماع ہے اس میں فضائل اعمال کی کوئی قید نہیں لگائی گئی ہے اور یہ بات مسلمہ ہے کہ امام بخاری نے اپنی کتاب کے لیے بے حد کڑی شرائط رکھی تھی ۔ جو دیگر محدثین سے بھی سخت تھیں تو پھر یہ کس طرح ممکن ہے کہ وہ فضائل میں تساہل سے کام لیں گے اگر بالفرض اس بات کو مان بھی لیا جائے تو امام بخاری کا تساہل اس حد تک تو ہو سکتا ہے جو دیگر محدثین نے احکام سے متعلق روایات میں شرائط رکھی ہیں ، مگر ایسی کوئی بات نہیں ہے ۔ بخاری اور مسلم کی روایات کو بلا تقسیم فضائل اور احکام مطلق طور پر اجماع حاصل ہے۔ جس پر مندرجہ ذیل اصولین کے اقوال گواہ ہیں

    ابن صلاح : امام ابن صلاح فرماتے ہیں کہ ’’صحیح حدیث کے ساتھ امھات درجے ہیں

    جس حدیث کو امام بخاری اور مسلم دونوں اپنی صحیحین میں روایت کریں۔

    جس کو امام بخاری اپنی صحیح میں روایت کریں۔

    جس کو امام مسلم اپنی صحیح میں روایت کریں۔

    (علوم الحدیث ابن صلاح ، ص ۲۸)

    اسی طرح سات درجے ابن صلاح نے نقل کیے ہیں۔ امام بخاری جس حدیث کو اپنی صحیح میں نقل کر دیں وہ حدیث جرح و تعدیل کی تمام کسوٹی پر پوری اتر کر صحیح میں شامل ہوتی ہے اور اس کا متن بلا شک و شبہ کلام رسول ﷺ ہے۔

    امام ابن تیمیہ

    ﴿ان قولنا: رواہ البخاری ومسلم علامة لنا علی ثبوت صحتہ: لا انہ کان صحیحا بمجرد روایة البخاری،ومسلم بل الحدیث البخاری و مسلم رواھما غیرھما من العلماء والمحدثین من لا یحصی عددة الا ھم ، ولم ینفرد واحد منھما یحدیث بل ما من حدیث الا وقد رواہ قبل زمانہ وفی بعد زمانہ طوائف، ولو لم یخلق البخاری ومسلم ینقص من الدین شیئ وکذالک النصیح لم یقلد ائمہ الحدیث عنہ البخاری ومسلما بہ جمہور ما صححاہ کا قبلھما منہ ائمہ الحدیث صحیحا منلقی بالقبول ﴾

    (منھاج السنة ۱۵۴/۷)

    ہمارا کہنا ہے کہ رواہ بخاری و مسلم ہمارے لیے کسی حدیث کی صحت اور ثبوت کی علامت ہے نہ کہ وہ حدیث صرف امام بخاری و مسلم کی روایت کرنے کی وجہ سے صحیح ہوگئی بلکہ صحیح بخاری اور مسلم کی حدیث کو ان دونوں کے علاوہ کوئی نہیں جان سکتا اور ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی کسی حدیث کے ساتھ منفرد نہیں ہے، بلکہ ہر ایک حدیث کو ان کے زمانے سے قبل اور ان کے بعد آنے والوں میں سے کئی گروہوں نے روایت کیا ہے اور اگر بخاری اور مسلم پیدانہ ہوتے تو دین میں کوئی کمی واقعی نہ ہوتی اور اسی طرح احادیث کی تصحیح میں ائمہ حدیث نے بخاری اور مسلم کی تقلید نہیں کی ۔ بلکہ اکثر وہ احادیث جن کو ان دونوں نے صحیح قرار دیا ہے ان کی زمانے سے قبل ان کے زمانے میں اور ان کے بعد آنے والوں نے بھی ان کتب کو جانچا اور بعض کے سوا اکثر حدیث کو صحیح قرار دینے پر ان کی موافقت کی، حاصل یہ کہ بخاری مسلم کی احادیث کو بے شمار لوگوں نے روایت کیا ہے۔ لہٰذا نہ تو وہ دونوں کسی حدیث کو روایت کرنے میں منفرد ہیں اور نہ کسی حدیث کو صحیح قرار دینے میں تنہا ہیں۔

    امام جرجانی

    صحیح البخاری لو انصفوہ لما حظ الا بماء الذھب اسانید مثل نجوم اسماء امامنون کمثل الشھب بہ قام میزان دین النبی ﷺ ودان لہ لا عجم والعرب فیا عالما اجمع العلمون علی فضلا رتبتہ فی الرتب

    (البدایہ والنھایہ لابن کثیرہ )

    صحیح بخاری سنداً اور متنًا اس قدر اعلیٰ مرتبہ کی کتاب ہے کہ اس کی افضلیت پر پوری دنیائے مسلم کا اتفاق اور اجماع ہے اور اس کی اسانید آسمان کے ستاروں کی مانند ہے اور نبی اکرم ﷺ کے دین کے لیے یہ کتاب وہ میزان اور عدل ہے جس کے لیے عرب و عجم سب سے سر تسلیم خم ہیں بلاشبہ صحیح بخاری آب ذر سے لکھنے جانے کی مستحق ہے

    یہ چند اصولیں کے اقوال تھے جو بخاری اور مسلم کے بارے میں ہیں، جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ بخاری و مسلم کی روایات کی صحت پر امت کا اجماع ہے اور یہ بات انہوں نے بھی نقل کی ہے ’’چنانچہ ہم نے بخاری سے جو مثالیں پیش کی ہیں وہ اپنی علتوں کے باوجود فضائل و آداب کے باب کے اعتبار سے یقیناً صحیح ہیں اگرچہ احکام میں جس درجہ کی صحت اٹھ سکتی ہیں اور دوسری جانب کہا جا رہا ہے کہ فضائل اور آداب میں یہ بالکل صحیح ہیں اگر روایات محدثیں کے نزدیک حسن سے اوپر نہیں اٹھ سکتی تو یہ فضائل میں کیسے صحیح ہوگئی بقول ان کے محدثین فضائل میں تساہل سے کام لیتے تھے تو محدثین نے بخاری کی ان روایات کے لیے بھی یہی اصول لاگو کیا ہے تو پھر انہیں اصولوں پر یہ روایات ایک جانب تو حسن ہیں اور دوسری جانب صحیح ہیں۔ یہ وہ تضاد ہے جو صاف عیاں ہوتا ہے جبکہ ہم اصولیں کے اقوال سے ثابت کر چکے کہ بخاری و مسلم کی روایات بلا تقسیم صحیح ہیں اب ہم ان رواة رپ بحث کرتے ہیں جن پر اعتراضات کیے گئے ہیں کہ ان کی روایات منفرد ضعیف ہیں۔

    محمد بن عبدالرحمن الطفاوی اس کے بارے میں یہ نقل کیا گیا ہے کہ ابو زرعہ نے اس کو منکر الحدیث کہا ہے مگر یہ بات دینی خیانت پر مبنی ہوتی ہے کہ ایک راوی کی فقط جرح نقل کر دی جائے۔ محمد بن عبدالرحمن کے بارے میں فتح الباری میں حاظ ابن حجر نے جو تعدیل کے اقوال نقل کیے ہیں اس کو بیان نہیں کیا گیا ہے تاکہ اپنا مؤقف ثابت کیا جا سکے۔

    حافظ ابن حجر فرماتے ہیں

    محمد بن عبدالرحمن الطفاوی من شیوخ احمد بن حنبل وثقہ بن الدینی وقال ابو حاتم صدوق وقال ابن معین لا باس بہ وقال ابن عدی لا باس بہ قلت لہ فی البخاری ثلاثہ احادیث لیس فیھا شئ مما اسننکرہ ابن عدی

    محمد بن الفطاوی احمد بن حنبل کے شیوخ میں سے ہیں، ابن المدینی نے اسے ثقہ کہا ہے اور ابو حاتم نے صدوق کہا ہے۔ ابن معین اور ابن عدی نے فرمایا ہے کہ اس سے روایت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے اور میں (حافظ ابن حجر) کہتا ہوں امام بخاری نے اس سے تین روایات نقل کی ہیں اور ان میں ایسا کچھ بھی نہیں ہے جس کا ابن عدی نے انکار کیا ہو۔

    اس کے بعد جس حدیث پر اعتراض کیا گیا ہے
    اس کے بارے میں حافظ فرماتے ہیں

    فی الرقاق عن علی عنہ عن الاعمش عن مجاہد عن ابن عمر حدیث کن فی الدنیا کانج غریب الحدیث فھذا الحدیث قد تفرد بہ الفطاوی وھو من غرائب الصحیح وکان البخاری لم یشدد فی لکونہ من احادیث الترغیب والترھیب واللہ اعلم ثم وجد تلہ فیہ متابعا فی نوادر الاصول الحکیم الترمذی من طریق مالک بن سعید عن الاعمش واللہ اعلم وعلق لہ غیر ھذہ ورو یلہ اصحاب السنن الثلاثة

    رقاق کے باب میں ابن عمر کی روایت میں الطفاوی منفرد ہے اور یہ (روایت) بخاری کی غرائب میں سے ہے، اور شاید امام بخاری نے اس سے تشدد کا معاملہ اس لیے نہ کیا ہوگا کہ یہ روایت ترغیب و ترھیب سے متعلق ہے، پھر میں نے اس کی متابعت نوادرالاصول میں پائی ہے اور اس سے اصحاب سنن میں سے تین نے روایت کیا ہے۔

    یہ وہ تمام بحث ہے جو حافظ ابن حجر نے اس راوی کے ضمن میں کی ہے اس سے یہی بات سامنے آتی ہے کہ محدثین کی اکثریت نے اس سے روایت اخذ کرنے میں کوئی اعتراض نہیں کیا ہے اور اس روایت کے غریب ہونے کا تعلق ہے۔ جیسا حافظ صاحب نے یہ امکان بیان کیا ہے تو غریب روایت اگر اس کی سند تمام غبار سے پاک ہو تو وہ صحیح ہوتی ہے ۔ روایت کے غریب ہونے سے یہ لازم نہیں ہے کہ وہ ضعیف ہی ہے اور اس کی مثال خود بخاری میں موجود ہے۔
    ’’انما الاعمال بالنیات‘‘اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے،سند کے اعتبار سے غریب روایت ہے مگر یہ روایت سنداً صحیح ہے۔ اس لیے مقبول کے ضمن میں ہے۔ اور اسی طرح یہ روایت بھی سند کے اعتبار سے صحیح ہے اگرچہ حافظ صاحب اس کے بارے میں غریب ہونے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ مگر یہ روایت صحیح ہے اور اس کی متابعت بھی موجود ہے۔ تو اس کا جواب یہی ہے کہ امام بخاری نے اس قدر کڑی شرائط رکھی ہیں تو وہ اگر تساہل بھی کریں گے تو وہ دیگر محدثین کے احکام سے متعلق تشدد کے برابر ہی ہوگی اور دوسری بات یہ کہ حافظ صاحب نے دیگر توجیہات کی طرح ایک توجیہ پیش کی ہے۔ مگر ہم حافظ ابن حجر کی تمام بحث کو سامنے رکھیں تو یہی بات صحیح معلوم ہوتی ہے کہ یہ روایت بالکل صحیح ہے اور یہ بات سراسر غلط ہے کہ یہ روایت ضعیف ہے۔ اور فضائل کی بنا پر محدثین نے اس سے چشم پوشی کی ہے کیونکہ حافظ صاحب نے اس کے تمام رجال کو صحیح کہا ہے اس حدیث کے تمام طرق کو نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں

    ﴿وھذا مما یقوی الحدیث المذکور لان رواتہ من رجال الصحیح﴾

    (فتح الباری الرقاق تحت رقم ۶۴۱۶، ص۱۹۷ جلد ۱۲)

    اور یہ تمام (طرق) اس روایت کو قوی کرتے ہیں اور اس روایت کے تمام رجال صحیح ہیں۔

    حافظ صاحب کے بیان سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ روایت صحیح ہے۔

    محمد بن طلحہ

    اس کے بارے میں کہا گیا ہے محمد بن طلحہ بن مصرف الکوفی کا سماع اپنے ولاد سے کمسنی میں ہوا تھا۔ امام نسائی، ابن معین وغیرہ نے ان کو ضعیف کہا ہے اور تقریب میں ہے ’’صدوق لہ اوھام انکروا سماعہ من ابیہ لصغرة‘‘ اور ابن حجر فرماتے ہیں یہ حدیث اس کی روایت میں محمد بن طلحہ منفرد ہیں مگر یہ فضائل اعمال سے متعلق ہے۔ یعنی فضائل اعمال کی حدیث ہونے کی وجہ سے چشم پوشی کی گئی ۔

    اس راوی کے حوالے سے تین باتیں بیان کیں گئی ہیں ۔ اس کو ضعیف کہا گیا ہے ۔ دوسرا اس کا سماع اپنے والد سے کمسنی میں ہوا تھا اور یہ اس روایت میں منفرد ہے۔ اصولین کے حوالے سے ہم یہ نقل کر چکے ہیں کہ بخاری میں روایت موجود ہے، اس روایت کو اس سے قبل اور بعد والوں نے بھی روایت کیا ہے اور حافظ ابن حجر نے اس روایت کے تحت اسی بات کو بیان کیا ہے ۔ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں ’’اس روایت میں محمد بن طلحہ سے اس کے والد کو سماع پر محمول کیا جائے گا اور اس کے بعد انہوں نے ابو نعیم کے حوالے سے اسی طرح کے الفاظ سے روایت نقل کی ہے اور فرماتے ہیں کہ غریب حدیث ہے۔ عبدالسلام سے روایت کرنے میں عمر و منفرد ہے اور اس کے بعد وہ بخاری کی روایت کے ان الفاظ پر بحث کرتے ہوئے فرماتے ہیں

    ھل تنصرون وترزقون الا بضعفائکم فی روایة النسائی انما نصراللہ ھذہ الامة بضعفئھم بدعواتھم وصلاتھم واخلاصھم ولہ شاھد من حدیث ابی الدرداء عند احمد بلفط ’’انما تنصرون وترزقون بضعفائکم

    تم مدد کیے جاتے ہو اور رز ق دیے جاتے ہو ضعفاء کے سبب سے اور نسائی میں روایت ہے کہ اللہ مدد کرتا ہے اس امت کی ان کے ضعفاء کی دعاؤں ، نمازوں اور اخلاص کے سبب سے اور ابو درداء کی یہ روایت جس کو نسائی اور احمد نے روایت کیا ہے یہ روایت ان الفاظ پر گواہ ہے انما تنصرون وترزقون بضعفائکم

    (کتاب الجہاد السیر ، رقم ۲۸۹۶)

    یہی وہ الفاظ ہیں جو امام بخاری نے اس روایت میں نقل کیے ہیں تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ یہ روایت صحیح ہے اور یہ ہم اصول میں بیان کر چکے ہیں کہ بخاری میں درج حدیث کا متن بالکل صحیح ہوتا ہے اور بخاری اور مسلم کسی روایت کو بیان کرنے میں منفرد نہیں ہے۔ ان سے قبل بھی اس روایت کو محدثین نقل کر چکے ہیں اور ان کے بعد آنے والے بھی اس حدیث کو روایت کیا ہے۔

    اس کے علاوہ بھی ایک آدھ اسی قسم کا اعتراض کیا گیا تھا مگر اس سیر حاصل بحث سے اور اصولین کے اقوال نقل کرنے کے بعد ان اعتراضات کے جواب دینا بلاوجہ اس باب کو طول دینا ہوگا۔ اس بنا پر ہم نے اس بحث کو طوالت کی وجہ سے ان دلائل کو کافی و شافی سمجھتے ہوئے اسی پر اکتفا کیا ہے۔

    یحییٰ بن معین

    ان کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ مطلقاً موجود ہے کہ وہ ضعیف سے استدلال نہیں کرتے تھے ۔ مگر محمد بن اسحاق اور ان کے شاگردوں کے بارے میں ان کی رائے یہ تھی کہ وہ مغازی میں ان کو قابل قبول مانتے تھے۔ چناچنہ وہ ابن اسحاق کے بارے میں فرماتے ’’ثقہ، ولیس بحجة‘‘ اور ان کے شاگرد زیاد بن عبداللہ البکائی کے بارے میں فرماتے ہیں’’
    لیس بشئ‘‘ ’لا باس بہ فی مغازی، واما فی غیرھا فلا‘ اور اسی طرح ادریس بن سنان کے متعلق فرماتے ہیں کہ ’’یکتب من حدیثہ الرقاق‘‘ رقاق کے بارے میں اس کی حدیث لکھی جاتی ہے۔

    یحییٰ بن معین نے ابن اسحاق کو ثقہ کہا ہے اور اسے حسن الحدیث کہا ہے ۔ اس کے علاوہ دیگر محدثین میں سے احمد بن حنبل ، سفیان عیینہ، علی ابن المدینی، ابن سعد، المجلی اور حافظ ابن حجر نے اس ثقہ اور صدوق کہا ہے۔

    (تھذیب التھذیب ترجمة ۵۹۲۹)

    تو ابن اسحاق فقط مغازی ہی میں نہیں بلکہ احکام میں بھی قابل قبول ہے، اس کے علاوہ عبداللہ البکائی بھی مغازی میں اس وجہ سے قبول ہے کہ اس کے پاس ابن اسحاق سے لکھی ہوئی کتاب تھی

    ﴿وقال صالح بن محمد لیس کتاب المغازی عند احداصّح منہ عند زیا دو زیاد فی نفسیہ ضعیف﴾

    (تھذیب التھذیب ترجمة ۲۱۵۴)

    (صالح بن محمد فرماتے ہیں (ابن اسحاق کے شاگردوں) میں سے صحیح ترین کتاب مغازی کے حوالے سے زیاد کے پاس ہے مگر زیاد از خود ضعیف ہے۔)

    اور حافظ ابن حجر نے بھی تقریب میں یہی فرمایا ہے کہ ’’
    صدوق ثبت فی المغازی‘‘

    (تقریب التھذیب جلد ۱، ترجمہ ۲۱۵۴)

    ادریس بن سنان اُن رواة میں سے ہے کہ جس کی روایت لکھی جاتی ہے ، ابن عدی اس کے بارے میں فرماتے ہیں

    ﴿وارجوانہ من الضعفاء الّذین یکتب حدیثھم ﴾

    (تھذیب التھذیب جلد ۱، ترجمة ۳۲۱)

    یہ ان ضعفاء میں سے ہے جس کی حدیث لکھی جاتی ہے۔ (مگر حجت اخذ نہیں کی جاتی) ابن معین نے اسی بنا پر فرمایا کہ رقاق میں اس کی حدیث لکھی جاتی ہے اور اس طرح کی مثالوں سے کتب الرجال بھری پڑی ہیں جیسا کہ ابن جدعان اور ابن لہعیہ وغیرہ یحییٰ بن معین کا مؤقف بالکل واضح ہے کہ انہوں نے ضعیف سے استدلال کا مطلقاً رد کیا ہے اور ان بے بنیاد قیاسات سے ان کے اصول کو نہیں بدلا جا سکتا ہے۔

    ابو بکرا بی العربی

    ان کے بارے میں بیان کیا گیا ہے کہ یہ مالکی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں، ان کے بارے میں کوئی صراحت نہیں ملتی کہ یہ ضعیف سے استدلال لیتے تھے مگر یہ مرسل روایت سے حجت لیتے تھے جو جمہور کے نزدیک ضعیف ہے۔

    ابو بکر العربی کے بارے میں ہم امام مالک کے حوالے سے بیان کر چکے کہ انہوں نے اہل مدینہ کی مراسیل سے حجت لی ہے اور اس کے علاوہ کو رد کر دیا ہے، اور یہ بات ابو بکر ابن العربی ہی نے نقل کی ہے

    ’’وقال ابن العربی تحقیق مذھب مالک انہ لا تقبل الا مراسیل اھل المدینة‘‘

    (عارضہ الاحوذی شرح سنن ترمذی ۲۴۶/۱)

    امام مالک اہل مدینہ کی مراسیل سے حجت لیا کرتے تھے تو یہ بات کہنا کہ ابن العربی تمام مراسیل سے حجت لیا کرتے تھے علمی خیانت پر مبنی ہے۔
    امام ابن تیمیہ : ان کے بارے میں بھی یہ لکھا گیا ہے کہ ’’یہ فضائل وغیرہ میں ضعیف پر عمل کے مسئلہ پر جمہور سے الگ نہ ہوسکے ان کی الکم الطیب کی ضعیف اور صحیح احادیث کو علامہ ناصر الدین البانی نے الگ کیا ہے۔

    امام ابن تیمیہ کے بارے میں واضح ہے کہ وہ ضعیف احادیث سے استدلال نہیں کیا کرتے تھے۔ مگر الکلم الطیب کے حوالے سے جو نقل کیا گیا ہے اس کے بارے میں فقط اس قدر کلام کافی ہے کہ کسی کتب میں روایات کا درج ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ائمہ اور محدثین نے اس حدیث سے استدلال لیا ہے۔ فقہ اور کتب احادیث ایسی روایات سے بھری ہوئی ہیں جن کو ائمہ اور محدثین نے نقل ضرور کیا ہے مگر ان سے حجت نہیں لی ہے۔ چنانچہ ہم اس سے قبل بھی بیان کر چکے کہ روایات کا نقل ہونا اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ محدثین نےاس سے استدلال لیا ہے۔ مثلاً الکلم الطیب میں بعض ایسی روایات کا درج ہونا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ آئمہ اور محدثین نے اس حدیث سے استدلال لیا ہے فقہ اور کتب احادیث ایسی روایات سے بھری ہوئی ہیں جن کو آئمہ اور محدثین نے نقل ضرور کیا ہے مگر ان سے حجت نہیں لی ہے چنانچہ ہم اس سے قبل بھی بیان کر چکے کہ روایات کا نقل ہونا اس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ محدثین نے اس سے استدلال لیا ہے

    مثلاًٍ
    الکلم الطیب میں بعض ایسی روایت موجود ہے جو من گھڑٹ ہیں

    یا شدید ضعیف ہیں اور یہ ممکن ہی نہیں ہے کہ امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ان روایات سے استدلال کریں گے روایت میں ہے کہ ’’اگر کسی سفر میں کوئی چیز گم ہو جائے تو وہ ندا کرے کہ اے اللہ کے بندو میری مدد کرو کیونکہ اللہ کے نیک بندے زمین پر لوگوں کی مدد کے لیے مامور ہیں۔ ‘‘ ایک اور جگہ روایت بیان کی ہے کہ محمد ﷺکو پکارنے کی وجہ سے ایک شخص کا پاؤں صحیح ہوگیا یہ روایت موضوع (من گھڑت) ہے۔ ان روایات کے بارے میں یہ کہنا کہ امام ابن تیمیہ نے اس سے استدلال کیا ہے بالکل باطل خیال ہے۔ امام ابن تیمیہ نے وسیلہ کے باب میں پوری کتاب نقل کی ہے اور اس میں اللہ کے علاوہ کسی سے مدد مانگنے اور پکارنے کو ناجائز قرار دیا ہے تو وہ کس طرح ان روایات سے استدلال کر سکتے ہیں اور فضائل کے باب میں تو بقول ان لوگوں کے جو اس کے جواز کے قائل ہے اس حوالے سے نقل کیا ہے کہ اس میں ضعف شدید نہ ہو۔ یعنی راوی متھم بالکذب نہ ہو۔ جس کو ہم نے ان کے حوالے سے اس سے قبل بھی بیان کیا ہے تو اس روایت میں راوی متھم بالکذب ہی ہے تو یہ روایت اس اصول پر پوری نہیں اترتی تو امام ابن تیمیہ نے اس کو کیونکر نقل کیا ہے اور یہ روایات اور اس قسم کی دیگر روایات کے بارے میں کہنا کہ امام ابن تیمیہ جیسی عظیم علمی شخصیت جو شیخ الاسلام کے نام سے جانے جاتے ہیں وہ اس قسم کی روایات سے استدلال کریں گے یہ بات وہی کر سکتا ہے جو ان کی علمی کارناموں سے واقف نہ ہو۔

    امام شوکانی : امام شوکانی کے حوالے سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ ضعیف حدیث پر عمل مطلقاً قابل حجت مانتے تھے مگر ان کی ایک عبارت نیل الاوطار کے حوالے سے نقل کی گئی ہے

    ﴿ والایات والاحادیث المذکورة فی الباب تدل علی مشروعیة الاسنکتار من الصلوة بین المغرب والعشاء والاحادیث وان کان اکثرھا ضعیفا فی منتھضة لمجموعھا لا سیما فی فضائل الاعمال﴾

    مغرب اور عشاء کے درمیان نوافل کی کثرت سے متعلق حدیثیں اگرچہ ضعیف ہیں لیکن مجموعی طور پر مضبوط ہیں، خاص کر فضائل اعمال میں۔

    اس عبارت سے یہ استدلال کرنے کی کوشش کی گئی ہے امام شوکانی فضائل میں ضعیف روایات کو ماننے کے قائل تھے۔ ہم وہی بات کہیں گے کہ مغرب اور عشاء کے درمیان صلاة اوابین کے بارے میں جتنی روایات ہیں ان میں کثیر تعداد متھم اور کذاب رواة سے نقل ہوئی ہے تو یہ ان کے اصول کے مطابق نہیں ہے۔ اس لیے امام شوکانی کا حوالہ دینا ان کو زیب نہیں دیتا۔ اگر ضعف شدید نہ ہو تو روایت فضائل میں قبول ہوگی اور دوسری بات امام شوکانی نے جو فرمایا کہ فضائل میں یہ روایات مضبوط ہیں تو امام شوکانی کا یہ قول محدثین کے اصول کے خلاف ہے اگر ہم محدثین کے اصول کو دیکھیں تو کسی ضعیف روایت کو حسن لغیرہ تک پہچانے کے اصول کو محدثین نے مرتب کیے ہیں جو ہم اوپر بیان کر چکے، یہ روایات کسی طرح آپس میں مل کر حسن لغیرہ تک پہنچ سکتی ۔ اس لیے روایات کسی طرح ایک دوسرے کو قوی نہیں کر سکتی ہیں۔

    (واللہ اعلم)

    یہ وہ ائمہ ہیں جن کے بارے میں غلط رائے پیش کرنے کی سعی کی گئی تھی جس کا ہم نے رد کیا ہے ۔ ان کے علاوہ اور دیگر اکابر محدثین بھی ہیں جو ضعیف کو مطلقاً رد کرتے ہیں، ان میں ’’امام ابن حزم ، امام ابو سامہ مقدسی، امام شاطبی ، اور خطیب بغداری وغیرہ نے بھی ضعیف روایت سے استدلال کو مطلقاً رد کیا ہے۔

    فضائل میں ضعیف احادیث
    (اصول کے روشنی میں ردو قبول)

    فضائل میں بعض محدثین نے ضعیف روایات کو قبول کیا ہے۔ ان میں حافظ ابن حجر، امام نووی وغیرہ قابل ذکر ہیں اور جن محدثین نے فضائل میں ضعیف احادیث کو قبول کیا ہے انہوں نے بھی اس کی چند شرائط مرتب کی ہیں۔ اگر ضعیف حدیث ان شرائط پر پوری اترے گی تو وہ ضعیف حدیث فضائل میں قابل قبول ہوگی وگرنہ اسے رد کر دیا جائے گا۔ وہ شرائط ملاحظہ ہوں

    ﴿ان یکون الضعف غیر شدید فیخرج من الفرد من الکذابین، ولمھمین بالکذب،، ومن فحش غلطہ (وقد نقل السخاوی الاتفاق علی ھذا الشرط) ﴾

    (اس کا ضعف شدید نہ ہو، یعنی اس میں منفرد کاذبین، متھم بالکذب اور فحش غلطیاں کرنے والے نہ ہوں ( امام سخاوی نے اس شرط پر محدثیں کا اتفاق لکھا ہے۔)

    ﴿ان یکون الضعیف مردجا تحت اصل عام فیخرج ما یخترع بحیث لا یکون لہ اصل معمول بہ اصلاً﴾

    (وہ حدیث کسی معمول بہ اور ثابت شدہ اصل کے ضمن میں آتی ہو اس سے اختراع خارج ہو جائی گی جن کی کوئی اصل نہیں۔)

    ﴿ ان لا یعتقد عند العمل بہ ثبوتہ لئلا ینسب الی النبی ﷺ بل یعتقد الاحتیاط﴾

    (عمل کرتے ہوئے اس پر نبی ﷺ کی سنت ہونے کا اعتقاد نہ رکھا جائے بلکہ احتیاط کی نیت سے عمل کیا جائے۔)

    (تیسر مصطلح الحدیث ص۸۱)

    ﴿ان لا یعارض حدیثا صحیحا﴾

    (کسی صحیح حدیث کی متعرض نہ ہو۔)

    اس کے علاوہ حافظ ابن حجر نے ایک اور شرط بیان کی ہے

    ﴿ان لا یشنھر ذلک لئلا یعمل المرء بحدیث ضعیف فیرع ما لیس یشرع، او یراہ بعض الجھال فظن انہ سنة صحیحة﴾

    (الحدیث الضعیف، وحکم الاحتجاج ص۲۷۳،۲۷۴)

    اس کو مشہور نہ کیا جائے یہاں تک کہ لوگ اس کو شریعت سمجھ کر اس پر عمل کریں ، حالانکہ وہ شریعت نہیں ہے اور بعض جاہل یہ گمان کرنے لگتے ہیں کہ یہ سنت صحیح ہے۔

    ان شرائط میں سے پہلی شرط پر محدثین کا اتفاق ہے کہ اس میں ضعف شدید نہ ہو، اور دوسری شرط یہ ہے کہ وہ ضعیف حدیث کسی ایسی صحیح حدیث کے تحت آتی ہو یعنی کوئی ایسا عمل جو صحیح حدیث سے ثابت ہو اور اس عمل کی ترغیب دینے کے لیے اس بارے میں ضعیف حدیث کو بیان کیا جائے مگر بعض لوگوں نے اس ضعیف حدیث میں اس عمل کے بارے میں جو تفصیلی حکم موجود ہے اس کو بھی بیان کرنا شروع کر دیا اور اس کی مثال
    امام شاطبی نے اعتصام میں بیان کیا ہے کہ

    اذا جاء ترغیب فی صلاة لیلة النصف من شعبان فقد عضدہ اصل الترغیب فی صلاة النافلة وما اثبہ تلک ولیس کما توھموا لان الاصل اذا ثبت لا یلزم اثباتہ فی التفصیل حتی یثبت التفصیل بلیل صحیح ثم ینظر بعد ذلک فی احادیث الترغیب الترھیب بالنسبة الی ذلک العمل الخاص بالدلیل الصحیح

    (اعتصام ، جلد۱، ص ۱۸۱)

    پندرھویں شعبان کی رات میں نماز کی ترغیب کے بارے میں جو موجود ہے اس میں شک نہیں کہ اس کی اصل بنیاد نوافل کی ترغیب کے بارے میں ہے اور اس کی اصل بنیاد (نوافل کی ترغیب) تو ثابت ہے۔ مگر یہ لازم نہیں ہے کہ اس میں جو تفصیل (شعبا کی رات میں شب بیداری ) بیان ہوئی ہے وہ بھی ثابت ہو جیسا کہ بعض کو اس سے وہم ہوا ہے۔ کیونکہ تفصیل دلیل صحیح سے ثابت ہوتی ہے ، پھر یہی دیکھا جاتا ہے کہ احادیث ترغیب و ترھیب میں جو خاص عملبیان کیا گیا ہے اس پر کوئی دلیل صحیح موجود ہے۔

    امام شاطبی کے قول سے یہی بات واضھ ہے کہ فضائل میں فقط ان احادیث کا بیان کرنا صحیح ہے جس میں کسی ایسے عمل کی ترغیب ہو جو صحیح حدیث سے ثابت ہو مگر اس ضعیف حدیث میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے اس کو بیان نہ کیا جائے۔ کیونکہ ضعیف حدیث میں جو تفصیل بیان ہوئی ہے وہ اگر دلیل صحیح سے ثابت ہوگی تو اس کو قبول کیا جائے گا۔
    اس کے بعد اگر ہم تیسری شرط پر غور کریں تو اس میں یہ موجود ہے کہ اس پر عمل سنت سمجھ کے نہ کیا جائے۔ جیسا کہ ہم نے حافظ ابن حجر کے حوالے سے نقل کیا ہے کہ وہ شریعت نہیں ہے اور اس کو سنت سمجھ لیا جاتا ہے، مگر یہ سنت نہیں ہے، اس بارے میں
    شیخ علوی مالکی فرماتے ہیں

    ﴿لانہ لا معنی للعمل بالحدیث الضعیف فی مثل ما نحن فی ہالا کونہ مطلوباً طلباً غیر جازم، فھو سنة واذا کان سنة تعین اعتقاد سنیة﴾

    (المنھل اللطیف لعلوی مالکی ص ۹)

    شیخ علوی مالکی کی مراد یہی ہے کہ ضعیف حدیث پر عمل کرنے والے کو وہ حاصل نہیں ہوتا جو وہ چاہتا ہے اور وہ سنت ہے اور جب اس بات کا تعین ہوگیا کہ یہ سنت ہے تو اس پر سنت ہی کا اعتقاد ہوتا۔

    علوی مالکی کے قول سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ ضعیف حدیث پر یہ اعتماد نہیں ہو سکتا کہ اس میں جو عمل ہے وہ سنت ہے کیونکہ تیسری شرط یہی ہے کہ اس پر سنت سمجھ کر عمل نہ کیا جائے اور مسلمان کو اصل مطلوب ہی سنت ہوتی ہے ، جس کا حصول ضعیف حدیث سے ممکن نہیں ہے۔

    یہ وہ شرائط ہیں اور ان کی تفصیل جن کو محدثین نے نقل کیا ہے اور جس سے یہی بات نکھر کر سامنے آتی ہے کہ ضعیف حدیث سے کوئی بھی دینی عمل ثابت نہیں ہوتا ہے اور احتیاط یہی ہے کہ اس پر عمل نہ کیا جیسا کہ جلال الدین الدوانی نے بیان کیا ہے ، جس کو
    امام قاسمی نے قواعد التحدیث میں بیان کیا ہے

    ان الجواز معلوم من خارج، والاستحباب ایضا معلوم من القواعد الشرعیة الدالة علی استحباب الاحتیاط فی امرالدین فلم یثبت شئی من الاحکام بالحدیث الضعیف بل اوقع الحدیث شبھة الاستحباب فصار الاحتیاط ان یعمل بہ، فاستحباب الاحتیاط معلوم من قواعد الشرع

    ( قواعد التحدیث ، ص۱۲۰)

    عمل کا جواز خارج سے معلوم ہے اور مستحب بھی قواعد شرعہ سے معلوم ہیں اور جو دین کے حکم میں احتیاط کو مستحب قرار دینے پر دال ہیں چنانچہ ضعیف حدیث سے احکام میں کچھ ثابت نہیں ہے بلکہ حدیث نے (احتیاط )پر عمل کیا جائے اور احتیاط کا مستحب ہونا قواعد شرعیہ سے معلوم ہے۔

    جلال الدین الدوانی کے قول سے یہی بات ثابت ہوتی ہے کہ شریعت میں جس بات میں شک ہو اس میں احتیاط مستحب ہے اور ضعیف حدیث سے تو کچھ ثابت نہیں ہوتا۔ جیسا الدوانی نے نقل کیا ہے تو پھر اس میں تو زیادہ احتیاط کرنی چاہیے کہ اس پر عمل نہ کیا جائے،مگر یہاں تو اس کے برعکس ضعیف حدیث پر عمل کیا جا رہا ہے۔ بلکہ ان تمام شرائط کی کھلی خلاف ورزی کی جاتی ہے اور ہر ضعیف حدیث بیان کر دی جاتی ہے یہ جانے بغیر کے اس کا ضعف کس حد تک ہے ۔ چنانچہ ایسے لوگوں کی کثیر تعداد ہے جو ان شرائط سے مکمل طور پر عاری ہوتے ہیں اور فقط ان کے ذہن میں یہی بات راسخ کر دی جاتی ہے کہ ضعیف حدیث فضائل میں قبول ہے ۔ مگر جن محدثین کے حوالے سے یہ بات نقل کی جاتی ہے ان کی شرائط اور اقوال ہم نے آپ کے سامنے رکھے ہیں جن سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ یہ محدثین کرام بھی ضعیف حدیث سے اجتناب ہی کو اولی سمجھتے ہیں اور انہوں نے اس قدر کڑی شرائط رکھنے کے باوجود بھی ضعیف حدیث سے ثابت عمل پر سنت ہونے کا اعتقاد نہیں کیا ہے اور ہر مسلمان فقط یہی چاہتا کہ جو وہ عمل کر رہا ہے وہ سنت کے مطابق ہے۔

    ضعیف احادیث بیان کرنے کے اثرات

    محدثین کے اقوال اور شرائط کے مطابق انہوں نے تو ضعیف حدیث سے اجتناب ہی کیا ہے اور ضعیف حدیث سے ثابت عمل کو سنت قرار نہیں دیا ہے۔ مگر ان کی جانب یہ بات منسوب کرنے والے کہ انہوں نے فضائل میں ضعیف کو قابل قبول مانا ہے ان کے اقوال کو نظر انداز کر چکے ہیں اور ایسی احادیث بیان کرنے لگے ہیں، جو بہت زیادہ ضعیف اور من گھڑت ہیں۔ حالانکہ محدثین ضعیف سے کلی طور پر اجتناب کے قائل ہیں، مگر فضائل میں ضعیف کو قبول کے ان اقوال عمل کرتے تو ضعیف روایات ہر گز بیان نہ کی جاتیں جن کی بدولت بے جا رسومات کو سنت سمجھ کر اس پر عمل کیا جاتا ہے اور اب ہم ان روایات میں سے چند مثال کے طور پر آپ کے سامنے بیان کیے دیتے ہیں کہ فضائل میں ضعیف حدیث قبول کے نام پر کس قسم کی روایات کو لاعلمی میں بیان کر دیا جاتا ہے۔

    آدم کے وسیلہ سے دعا مانگنا مخلوق اللہ کا کنبہ ہے میری امت کے علماء بنی اسرائیل کے انبیاء کے برابر اعرابی کا واقعہ جس کو ابن کثیر نے بلا سند روایت کیا ہے اختلاف امت رحمت ہے شعبان کی رات میں عبادت کرنا یکم رجب کے روزے کی فضیلت نبی ﷺ کا نور کا سب سے پہلے پیدا ہونا مومن کے جوٹھے میں شفا ہے اے نبی ﷺ) اگر آپ نہ ہوتے تو میں دنیا کو پیدا نہ کرتا ۔اور ایسی بے شمار من گھڑت روایات کو بیان کرنے کے یہ اثرات مرتب ہوئے کہ آج ہمارے معاشرے میں شعبان کی پندرھویں شب کی فضیلت اور یکم رجب کا روزہ صلاة الرغائب شعبان کے حلوے اور دیگر اسی قسم کی غلط دینی رسومات کو سنت سمجھ کر اس پر عمل کیا جاتا ہے اور ان پر سنت ہونے کا اعتقاد رکھا جاتا ہے۔ حالانکہ ان تمام باتوں کا سنت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے۔ مگر یہ دینی رسومات ہمارے درمیان رائج ہیں اور ان سے چند غلط قسم کے تصورات بھی مسلمانوں میں رائج ہوگئے ہیں۔ اور یہ سب ان من گھڑت اور ضعیف روایات کے ثمرات ہیں جن کو بعض لوگوں نے بیان کیا ہے۔ اللہ ہمیں ان بے جا رسومات سے بچائے اور سنتِ صحیحہ پر عمل کرنے کی توفیق دے۔

    (آمین)

    ہے عمل پر حریص گر مسلماں
    تو کافی ہے حدیثِ حسن و صحیح
    کر اجتناب ضعاف سے مسلماں
    چاہتا ہے گر عمل میں سنتِ صحیح



Working...
X