دوستی اور دشمنی کی باطل بنیادیں
1
:کسی جماعت کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی کرنا
مثال کے طور پر کسی جماعت سے تعلق کی بنا پر دوستی اور دشمنی کھڑی کرنا۔اگر تو اس کا تعلق ان کی جماعت سے ہے تو یہ اس محبت کریں گے،اسے اپنے قریب کریں گے اور اس سے تعلق بھی قائم کریں گے۔جو ان کی جماعت سے تعلق نہیں رکھتا اس سے دشمنی اورعدوات رکھیں گے۔قطع نظر اس بات سے کہ وہ دینی اعتبار اور اخلاق و عادات کے لحاظ سے کیسا ہے۔اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی جماعت کے صحیح و غلط فیصلے اور نیک و بد کام میں صرف اس وجہ سے اس کے حامی وناصر بن کے رہتے ہیں کہ یہ موقف اور منشور خاص ہماری جماعت کی طرف سے جاری کیا گیا ہے۔
اگر اس جماعت پر کوئی تنقید کی جائے خواہ وہ درست تنقید ہی کیوں نہ ہو فوراً ان کا رنگ بدل جاتا ہے اور شدت غضب کی وجہ سے یہ تنقید کا رخ فوراً تنقید کرنے والے کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ان لوگوں کے ہاں ہر چیز ہر تنقیدکی جا سکتی ہے،ہر چیز قابل گرفت اور قابل درستگی ہو سکتی ہے البتہ ان کی جماعت،جماعت کے اکابرین،جماعت کے افکار و نظریات اور مبادیات پر تنقید نہیں کی جاسکتی
ان لوگوں کے ہاں ایک برائی یہ بھی ہے کہ حق کو صرف اسی صورت میں قبول کرتے ہیں جب حق ان کی جماعت کی طرف سے بیان کیا جا رہا ہو اور اگر کسی دوسرے ذریعے سے حق ان کو پہنچے تو یا تواسے بالکل قبول نہیں کرتے یا پھر اسے قبولیت کا وہ درجہ نہیں دیتے جو اس صورت میں دیتے ہیں کہ جب حق ان کی جماعت کے ذریعے سے انہیں حاصل ہو۔اس کی نشانی یہ ہے کہ اگر آپ ان میں سے کسی سے کسی مسئلہ پر بات چیت کرکے دیکھ لیں،باوجودیکہ آپ حق پر ہوں گے لیکن وہ پھر بھی آپ سے اس بارے میں جھگڑا کرے گا اور آپ جس حق پر ہیں وہ اس کی قدر و قیمت کم کرنے کی کوشش کرے گا،لیکن اگر آپ اس کو یہ کہہ دیں کہ بھئ جس طریقے کو میں بیان کررہا ہوں بعنیہ تمہاری جماعت کا بھی یہی نظریہ ہے اور تمہاری جماعت کے اکابرین بھی اس بات کے قائل ہیں،آپ اسے دیکھیں گے کہ وہ فوراً اپنے جھگڑے سے رجوع کرکے آپ کے سامنے اقرار کرے گا کہ واقعی یہ بات صریح حق ہے۔
اگر اس جماعت کے اکابرین اور قائدین سے کوئی بہت بڑی صریح غلطی ہو جائے تو کارکنان اس کی مختلف قسم کی تاویلیں پیش کرتے ہیں اور ان کی غلطی کو کم کرنے کی کوشش کرتے ہیں گویا کہ کچھ ہوا ہی نہیں۔جبکہ اس قسم کی یا اس سے بھی چھوٹی غلطی اگر کسی دوسری جماعت یا شخص سے ہو جائے تو یہ اسے بالکل معاف نہیں کرتے بلکہ طعن و تشنیع کے تیر برساتے،اسے برے القابات سے نوازتے اور مجرم قرار دیتے ہیں۔
یہ سب کی سب جماعت کی بنیاد ہر محبت کرنے کی مختلف صورتیں ہیں جو کہ نہایت ہی قابل مذمت ہیں۔ایسی محبت کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں۔
2
:کسی بزرگ یا عالم سے تعلق کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی
مسلمانوں کے علاقوں میں جھوٹی محبتوں کی جو مختلف صورتیں رائج ہیں،ان میں ایک صورت کسی بزرگ کی ذات کی بنیاد پر محبت کرنا بھی ہے۔اس کی متعدد صورتیں ہیں۔
۱:لوگ کسی بزرگ سے محبت کرتے ہیں اس کی بنیاد پر دوستی اور دشمنی رکھتے ہیں۔جو اس بزرگ سے محبت کرنے والا ہے اس سے محبت رکھتے ہیں اور جو اس بزرگ کا دشمن ہو اس سے دشمنی رکھتے ہیں،اس بات سے قطع نظر کہ وہ دینی اور اخلاقی لحاظ سے کیسا ہے اور ان میں عملی اعتبار سے کون بہتر ہے۔
۲:ایک صورت یہ ہے کہ تعصب کی بنیاد پراس بزرگ کے صحیح اور غلط اقوال کو سینے سے لگائے رکھتے ہیں اور صرف اس لئے ان کا دفاع کرتے ہیں کہ یہ ہمارے بزرگ کے اقوال و افعال ہیں اور انہیں کتاب و سنت کی طرف نہیں لوٹاتے
۳:ایک صورت یہ ہے کہ اس بزرگ کے پیروکار اپنے بزرگ کے بارے میں کسی تنقید یا تعاقب کو بالکل پسند نہیں کرتے۔اگر کوئی اس بزرگ پر تنقید کرتا ہے اگرچہ وہ ایسا کرنے میں حق بجانب ہی کیوں نہ ہو،بزرگوں کے پیروکاروں کے تاثرات فوراً تبدیل ہو جاتے ہیں اور وہ فوراً تنقید کرنے والے زجرو تو بیخ کرنا شروع کر دیتے ہیں۔گویا کہ ان کی نگاہ میں بزرگ ایک ایسی مافوق الفطرت ہستی ہے جس پر تنقید یا اس کا تعاقب نہیں کیا جا سکتا۔
۴:ایک صورت یہ ہے کہ وہ اپنے بزرگ کے اقوال و فتاوی کو انتہا درجہ مقدس تصور کرتے ہیں گویا کہ یہ آسمان سے نازل ہونے والے حروف ہیں جن کا مناقشہ یا تردید نہیں کی جا سکتی۔ان لوگوں کے ہاں ہر شخص کی بات تسلیم بھی کی جاسکتی ہے اور رد بھی کی جاسکتی ہے،سوائے ان کے بزرگ کے اس کی بات صرف تسلیم ہی کی جائے گی اسے رد نہیں کیا جا سکتا۔اگرچہ وہ زبان سے ایسا نہ بھی کہیں لیکن ان کے اعمال ضرور اس بات کی گواہی دیتے ہیں،اکثر اوقات زبان حال زبان قال سے بھی زیادہ قابل اعتبار ہوتی ہے یعنی قول کا اتن اعتبار نہیں ہوتا جس قدر عمل کا اعتبار ہوتا ہے۔
۵:ایک صورت یہ ہے کہ شیخ کے قول کو کتاب و سنت پر صرف اس لئے مقدم کر دیتے ہیں کہ عام لوگ کتاب و سنت کو نہیں سمجھ سکتے اور سبھی لوگ فہم و فراست اور علم میں فلاں بزرگ سے کمتر ہیں، اور وہ بزرگ ان تمام لوگوں سے کتاب و سنت کا علم رکھنے والے اور اور اسے سمجھنے والے ہیں۔یہ لوگ اسی وجہ سے کتاب و سنت کی مخالفت کرتے ہیں کہ ہمارا شیخ کتاب و سنت کو زیادہ
جاننے والا ہے اور عام لوگوں کے پاس ان کا اسقدر علم نہیں ہے۔
۶:ایک صورت یہ ہے کہ جب حق امام یا بزرگ کےقول کے مخالف ہو تو حق کو رد کردیا جائے اور امام یا بزرگ کے قول کو ہی قبول کیا جائے اگرچہ وہ قول باطل اور کتاب و سنت کی صریح نصوص کے خلاف ہو کیوں نہ ہو۔
۷:ایک صور ت یہ ہے کہ حق کو صرف اسی صورت میں قبول کیا جائے اگر وہ ان کے امام یا شیخ کی طرف سے پہنچے یا اس کے طریقے کے مطابق ہو،اگر کسی دوسرے ذریعے سے ان تک پہنچے تو اسے وہ قبولیت حاصل نہیں ہوتی جو قبولیت اسے اس صورت میں ملنے والی تھی جب وہ ان کے شیخ کے ذریعے سے ان تک پہنچتا۔
۸:ایک صوت یہ ہے کہ تاویل کے ذریعے اپنے شیخ کی غلطیوں پر ہمیشہ پردہ ڈالنے کی کوشش کی جائے۔جبکہ اگریہی غلطی کسی دوسرے سے سر زد ہو جائے تو اسے گناہ گار اور مجرم قرار دیا جائے سبھی اس کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں اور اسے کبھی معاف نہ کیا جائے
اگر لوگ اپنے بزرگوں اور علماء کے بارے میں اس درجہ تک پہنچ جائیں تو ان پر اللہ تعالیٰ کا وہ فرمان صادق آتا ہے جو اللہ نے اہل کتاب کے بارے میں ارشاد فرمایا
اِتَّخَذُوْۤا اَحْبَارَهُمْ وَ رُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ - انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا ربّ بنا لیا ہے
‘‘
(سورۃ التوبہ،آیت نمبر:31)
یہود و نصاری کے علماء نے اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کیا اور حلال کردہ چیزوں کو حرام کیا تو اہل کتاب نے ان کی تابعداری کی اور تورات میں موجود اللہ تعالیٰ کے احکام و فرامین پر اپنے علماء کے احکام و فرامین کو مقدم کیا تو اللہ نے وعید کے طور پر فرمایا کہ ان لوگوں نے اللہ تعالی کو چھوڑ کر اپنے علماء کو رب تسلیم کر لیا۔
حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عدی اس بت کو اپنے سے دور کر دو پھر میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سورت براة کی یہ آیات پڑھتے ہوئے سنا (اِتَّخَذُوْ ا اَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰهِ) 9۔ التوبہ : 31) (انہوں نے اپنے عالموں اور درویشوں کو اللہ کے سوا خدا بنالیا)عدیؓ کہتے ہیں: میں نے عرض کیا: ہم ان کی عبادت تو نہیں کرتے تو رسول اللہﷺ نے فرمایا:کیا ایسا نہیں ہے کہ وہ اللہ کی حلال کردہ چیزوں کو حرام کردیتے ہیں اور تم بھی انہیں حرام سمجھ لیتے ہو، اور وہ اللہ کی حرام کردہ چیزوں کو حلال کردیتے ہیں تو تم بھی انہیں حلال سمجھ لیتے ہو؟ میں نے عرض کیا: بالکل ایسا ہی ہے۔آپﷺ نے ارشاد فرمایا: یہی تو ان کی عبادت ہے۔
(سنن ترمذی:3095،شیخ البانی نے حسن کہا ہے)
ابو البحتریؒ کا قول ہے: اگرچہ بنی اسرائیل نے اپنے علماء کی طرف منہ کرکے نماز نہیں پڑھی،اگر وہ انہیں ایسا حکم دیتے تو بنی اسرائیل کبھی ان کے لئے رکوع و سجود یا قربانی نہ کرتے۔ لیکن انہوں نے اللہ کے حلال کردہ کو حرام کر دیا اور اللہ تعالیٰ کے حرام کردہ کو حلال کر دیا تو انہوں نے ان کی بات مان لی یہی ان کی ربوبیت کو تسلیم کرنا ہے۔
ربیع بن انس ؒ کا قول ہے: میں نے ابو العالیہؒ سے پوچھا کہ بنی اسرائیل نے اپنے علماء کو اپنا رب بنا لیا، اس کا مفہوم کیا ہے؟ انہوں نے جواب دیا: اس کا مفہوم یہ ہے کہ بنی اسرائیل نے کتاب اللہ میں موجود تمام اوامر و نواہی کو دیکھ لیا لیکن اس کے باوجود انہوں نے کہا کہ ہم اس بارے میں اپنے علماء سے ذرہ برابر بھی آگے نہیں بڑھیں گے۔ہم وہی بات مانیں گے جس کا وہ ہمیں حکم دیں گے اور اسی بات سے رکیں گے جس بات سے وہ ہمیں روکیں گے۔انہوں نے انسانوں سے نصیحت چاہی اور کتاب اللہ کو پش پشت ڈال دیا۔
(فتاوی ابن تیمیہ:۶۷/۷)
شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: جسے معلوم ہو جائے کہ فلاں شخص رسول اللہﷺ کے فرامین کو سمجھنے میں غلطی کر رہا ہے، وہ اس کی غلطی کے باوجود اس کی پیروی کر تا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین سے روگردانی کرتا ہے اس کا بھی اس شرک میں حصہ ہے جس کی اللہ تعالی نے مذمت کی ہے
( فتاوی ابن تیمیہ:۷۱-۷۲/۷)
Comment