Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #61
    Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

    Shazia sahiba app agayen >> wahhh.. app aurat hona..??

    Comment


    • #62
      Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

      Originally posted by lovelyalltime View Post



      میرے بھائی آپ نے ابھی تک میری پوسٹ کا پورا جواب نہیں دیا

      دوسرے حصہ کا جواب کہاں ہے







      صحیح بخاری کی اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کے ترک کا کوئی ذکر نہیں

      صحیح بخاری والی روایت دوسری سند سے سنن ابی داود اور سنن ترمزی وغیرہ میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کے اثبات سے موجود ہے

      میرے بھائی نے

      حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ


      کی حدیث تو بیان کی لکن
      اس حدیث سے انہوں نے
      رفع یدین کے ترک
      ہونے کا کیسے اندازہ لگا لیا

      حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ

      سے تو اور احادیث بھی روایت ھیں
      لکن اس میں تو
      رفع یدین کا ذکر موجود ہے
      کتاب سنن ابوداؤد جلد 1 حدیث نمبر 726


      احمد بن حنبل، ابوعاصم، ضحاک بن مخلد، مسدد، یحی، احمد، عبدالحمید، ابن جعفر، محمد بن عمر بن عطاء، حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دس صحابہ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابوقتادہ بھی تھے ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق میں تم میں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں صحابہ نے کہا وہ کیسے؟ بخدا تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تم ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے ابوحمید نے کہا ہاں یہ درست ہے صحابہ نے کہا اچھا تو پھر بیان کرو ابوحمید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر آجاتی اس کے بعد قرات شروع فرماتے پھر (رکوع) کی تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے اور رکوع میں دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور پشت سیدھی رکھتے سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ اونچا رکھتے۔ پھر سر اٹھاتے اور ۔سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ کہتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکتے (سجدہ کرتے) اور (سجدہ میں) دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے پھر (سجدہ سے) سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے اور سجدہ کے وقت پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے اور اللہ اکبر کہہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آجاتی (پھر کھڑے ہوتے) اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے پھر جب دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور مونڈھوں تک دونوں ہاتھ اٹھاتے جس طرح کہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھائے تھے اور تکبیر کہی تھی پھر باقی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ جب آخری سجدہ سے فارغ ہوتے یعنی جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بایاں پاؤں نکالتے اور بائیں کولھے پر بیٹھتے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔


      کتاب جامع ترمذی جلد 1 حدیث نمبر 286


      محمد بن بشار، محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، عبدالحمید بن جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء، ابوحمید ساعدی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ابوحمید کو کہتے ہوئے سنا اس وقت وہ وہ دس صحابہ میں بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابوقتادہ ربعی بھی شامل ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے بارے میں تم سب سے زیادہ جانتا ہوں صحابہ نے فرمایا تم نہ حضور کی صحبت میں ہم سے پہلے آئے اور نہ ہی تمہاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں زیادہ آمد ورفت تھی ابوحمید نے کہا یہ تو صحیح ہے صحابہ نے فرمایا بیان کرو ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جاتے جب رکوع کرنے لگتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جاتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہہ کر رکوع کرتے اور اعتدال کے ساتھ رکوع کرتے نہ سر کو جھکاتے اور نہ اونچا کرتے اور دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور ہاتھوں کا اٹھاتے اور معتدل کھڑے ہوتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پہنچ جاتی پھر سجدہ کے لئے زمین کی طرف جھکتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہتے اور بازؤں کو بغلوں سے علیحدہ رکھتے اور پاؤں موڑ کو اس پر اعتدال کے ساتھ بیٹھ جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر پہنچ جاتے پھر سجدے کے لئے سر جھکاتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہتے پھر کھڑے ہو جاتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب دونوں سجدوں سے اٹھتے تو تکبیر کہتے اور دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے جیسے کہ نماز کے شروع میں کیا تھا پھر اسی طرح کرتے یہاں تک کہ ان کی نماز کی آخری رکعت آجاتی چنانچہ بائیں پاؤں کو ہٹاتے اور سیرین پر بیٹھ جاتے اور پھر سلام پھیر دیتے امام ابوعیسی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور إِذَا السَّجْدَتَيْنِ سے مراد یہ ہے کہ جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو رفع یدین کرتے



      کیا میرا بھائی یہ بتا سکتا ہے کہ

      حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ

      سے روایت کردہ دوسری احادیث ٹھیک ہیں
      یا نہیں

      اب میرا بھائی یہ بھی بتایے

      کہ صحیح بخاری والی احادیث جو اس نے پیش کی

      حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ

      والی

      اس میں

      رفع یدین

      کے ترک ہونے کا اس کو کیسے پتا چلا


      یہ بات تو آپ کے علماء بھی مان رھے ہیں کہ

      محمد قاسم نانوتوی

      بانی مدرسہ دیوبند نے لکھا

      مذکور نہ ہونا معدوم ہونے کی دلیل نہیں ہے

      http://kr-hcy.com/forum/books/radd-e...Nanotvi%5D.pdf

      (ہدیتہ الشیعہ ص ١٩٩،٢٠٠)



      اس کی مثال آپ کو ایسے دوں گا کہ



      اب یہ والی حدیث بھی صحیح بخاری کی ہے


      اس میں تو پہلی والی تکبیر میں ہاتھ اٹھا نے کا ذکر نہیں ہے


      صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 719

      محمد بن بشار، یحیی ، عبید اللہ ، سعید بن ابی سعید، ابی سعید (مقبری) ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) مسجد میں تشریف لے گئے اسی وقت ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا، آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ جا نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ لوٹ گیا اور اس نے نماز پڑھی جیسے اس نے پہلے پڑھی، پھر آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا، آپ نے فرمایا کہ نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ (اسی طرح) تین مرتبہ (ہوا) تب وہ بولا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے بہتر ادا نہیں کرسکتا۔ لہٰذا آپ مجھے تعلیم کر دیجئے، آپ نے فرمایا جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، اس کے بعد جتنا قرآن تم کو یاد ہو اس کو پڑھو، پھر رکوع کرو، یہاں تک کہ رکوع میں اطمینان سے ہو جاؤ، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ میں اطمینان سے ہوجاؤ، پھر سر اٹھاؤ، یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرو۔


      کیا اس حدیث کی بنیاد پر ہم

      پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھا نے کو منسوخ

      سمجھ لیں



      لولی کبھی کسی کی پوسٹ پڑھ لیا کرو تاکہ تمہیں پتہ چلے کہ دوسرا بندہ کیا کہہ رہا ہے۔۔۔
      میں نے پوسٹ کے شروع میں ہی کہا تھا کہ میں صرف ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت کا جواب دے رہا ہوں۔
      پہلے اس روایت پہ بات کر لو پھر اگلی روایت پہ جواب دیتا یوں۔۔۔

      ایک ایک کر کے بات کرتے ہیں۔

      اگر صرف پوسٹ ہی بڑھانی ہیں تو تم اہنی پوسٹ کئے جاو میں اپنی پوسٹ کئے جاتا ہوں اور نہ کوئی سمجھے گا اور نہ کوئی پڑھےگا۔۔

      Comment


      • #63
        Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

        Originally posted by shizz View Post
        بھائی آپ نے ایک فورم پر کہا
        :
        جو رفع یدین کرتا ہے اس کی نماز بھی صحیح ہے اور جو رفع یدین نہیں کرتا اس کی نماز بھی صحیح ہے۔
        اب آپکی کس بات کو تسلیم کیا جاۓ؟



        آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی تو ابن عمر رضی اللہ سے صرف پہلی تکبیر کا رفع یدین صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔
        حوالہ یہ ہے۔


        حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد قَالَ : ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنْ الصَّلَاةِ
        (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)؛
        ترجمہ : حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔

        تو یہ ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے نبیؐ کو (نماز میں) ہاتھ اٹھاتے ہوۓ دیکھا لیکن نبیؐ کے بعد ہاتھ اٹھانا چھوڑدیا تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب آپؓ کے نزدیک نبیؐ کا عمل منسوخ ہو چکا ہو جو آپؓ نے دیکھا تھا اور اس کے خلاف دلیل قائم ہوگئی.


        (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ "
        حضرت علقمہ رحمہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضر ت عبد الله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں حضور صلی الله علیہ وسلم جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ چنانچہ آپ نے نماز پڑھی اور پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ کے وقت) رفع یدین کر نے کے علاوہ کسی اور جگہ رفع یدین نہیں کیا


        آپ نے حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی روایت پیش کی تو ان کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔

        ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی حدیث بخاری شریف میں بھی ہے جس میں صرف پہلی دفع کا رفع یدین ہے۔

        (امام بخاری رح فرماتے ہیں کہ) ہم سے یحییٰ بن بکیر نے حدیث بیان کی کہا کہ ہم سے لیث نے خالد کے واسطہ سے (حدیث بیان کی) ان سے سعید نے ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
        اور (دوسری سند سے امام بخاری رح فرماتے ہیں) کہا کہ مجھ سے لیث نے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمد کے واسطہ سے بیان کی. ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
        کہ وہ چند صحابہ (رضی الله عنھم) کے ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے. نماز_نبوی کا ذکر ہوا تو (صحابی_رسول) حضرت ابو حمید ساعدی (رض) نے کہا کہ مجھے نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی نماز (کی تفصیلات) تم سب سے زیادہ یاد ہے....میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک اٹھائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو اس حد تک سیدھے ہوگئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ رخ کرلی تھیں، پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑا کر لیا، جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کرلیا، اور اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے

        [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ, رقم الحديث: 789(828

        اس صحیح سند والی حدیث میں نبی کی نماز میں نماز کے شروع میں رفع یدین کے علاوہ کا ذکر نہیں۔
        اور بخاری شریف کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف پہلی دفع کا رفع یدین کیا۔
        کیا آپ اس حدیث کو مانتے ہیں؟؟؟
        ایک طرف آپ رفع یدین کی منسوخی کی احادیث پیش کرتے ہیں دوسری طرف کہتے ہیں کہ جو کرے وہ بھی صحیح جو نہ کرے وہ بھی صحیح۔
        .


        محترمہ شیز۔۔۔
        سب سے پہلے تو آپ یہ فیصلہ کر لیں کہ آپ کے نزدیک رفع یدین کی حیثیت کیا ہے؟؟؟
        میں لولی سے کئی بار پوچھ چکا ہوں لیکن اس نے جواب نہیں دیا۔۔۔


        اور یہ بات صحیح ہے کہ رفع یدین کرنے والے اور نہ کرنے والے دونوں کی نماز صحیح ہے اور میں نے کبھی کسی کو رفع یدین کرنے پہ نہ طعنہ دیا اور نہ ابن کی نمازوں کو قرآن اور حدیث کے مخالف کہا۔۔۔
        یہ اختلافی مسئلہ ہے جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں بھی اختلاف رہا ہے۔۔
        مسئلہ تو آپ لوگوں کی وجہ سے پیچیدہ ہوتا ہے جب آپ لوگ رفع یدین نہ کرنے والےکی نمازوں کو حدیث کے خلاف کہہ کر باطل کر دیتے ہیں۔۔۔


        ابن عمر رضی اللہ عنہ سے رفع یدین ثابت ہے لیکن ایک ہی صحابی کے مختلف عمل بھی ہیں۔۔۔
        ابن عمر رضی اللہ عنہ سے صرف پہلی دفع کا رفع یدین بھی ثابت ہے جو میں نے پیش کیا ہے۔۔۔
        اس کے علاوہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سجدوں کا رفع یدین بھی ثابت ہے۔۔۔۔
        لیکن آپ لوگ سجدوں کا رفع یدین نہیں کرتے۔۔۔۔۔


        سجدوں میں رفع یدین نہ کرنے کی وجہ پوچھ سکتا ہوں کیا؟؟؟؟؟
        ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ترک رفع کا حوالہ اوپر میں نے علامہ ابن حجر رح کی کتاب سے دیا ہے کہ انہوں نے بعد میں ترک کر دیا تھا۔۔۔


        خود وہ اکابر علماء جو رفع یدین کرتے ہیں وہ بھی تارک رفع یدین کی نمازوں کو حدیث کے مخالف اور ناقص نہیں کہتے لیکن آجکل کے اپ کے نا،م نہاد اہلحدیث ہیں جو ان فروعی مسائل میں تشدد اختیار کر رہے ہیں۔۔
        خود آپ کے علماء میں رفع یدین کے بارے میں اتنا اختلاف ہے کہ ان کو سمجھ نہیں آئی کہ رفع یدین کی حیثیت کیا ہے۔
        یہاں تک کہ سجدوں میں رفع یدین کو صحیح کہنے کے باوجود آج کے اہلحدیث سجدوں میں رفع یدین نہیں کرتے ۔


        کیا آپ واضح کریں گی کہ تارکین رفع یدین کی نماز کی آپ کے نزدیک حیثیت کیا ہے؟؟؟؟

        Comment


        • #64
          Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

          آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی تو ابن عمر رضی اللہ سے صرف پہلی تکبیر کا رفع یدین صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔
          حوالہ یہ ہے۔



          حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد قَالَ : ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنْ الصَّلَاةِ
          (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، موطا امام محمد صفحہ 90، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)؛
          ترجمہ : حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔

          تو یہ ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے نبیؐ کو (نماز میں) ہاتھ اٹھاتے ہوۓ دیکھا لیکن نبیؐ کے بعد ہاتھ اٹھانا چھوڑدیا تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب آپؓ کے نزدیک نبیؐ کا عمل منسوخ ہو چکا ہو جو آپؓ نے دیکھا تھا اور اس کے خلاف دلیل قائم ہوگئی
          Click image for larger version

Name:	10.jpg
Views:	1
Size:	18.4 KB
ID:	2426601
          آپکے علماء نے اس راوی پر جرح کی ہے کیا فرمانا ہے آپکا ان کے بارے میں؟
          Attached Files
          http://www.islamghar.blogspot.com/

          Comment


          • #65
            Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

            (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ "
            حضرت علقمہ رحمہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضر ت عبد الله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں حضور صلی الله علیہ وسلم جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ چنانچہ آپ نے نماز پڑھی اور پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ کے وقت) رفع یدین کر نے کے علاوہ کسی اور جگہ رفع یدین نہیں کیا
            Click image for larger version

Name:	11.jpg
Views:	1
Size:	89.1 KB
ID:	2426600
            http://www.islamghar.blogspot.com/

            Comment


            • #66
              Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

              Originally posted by shizz View Post
              [ATTACH]105720[/ATTACH]
              آپکے علماء نے اس راوی پر جرح کی ہے کیا فرمانا ہے آپکا ان کے بارے میں؟

              تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

              محترمہ آپ تو سمجھدار تھی آپ کو کیا ہو گیا؟؟؟
              ایسے حوالے تو لولی پیش کرتا ہے لیکن آپ کو لولی کی ہوا کیسے لگ گئی؟؟؟ آپ کی پوسٹ تو اچھی خاصی ہوتی تھی؟؟؟
              یہ بھی وقت آنا تھا کہ زبیر زئی کو بچانے کے لئے ایک حنفی عبدالحی لکھنوی رح کا سہارا لینا پڑا آپ کو۔۔۔۔


              محترمہ سب سے پہلے تو آپ کا اصول تو صرف قرآن اور حدیث ہے۔ آپ کو تو صحیح حدیث چایہے بھلے اسکے خلاف لکھنوی رح ہوں یا زبیر زئی آپ کو تو حدیث کو قبول کرنا چائیے پھر یہ لکھنوی رح کا حوالہ کیوں؟؟

              دوسرا عبدالحی لکھنوی رح نے اس حدیث کو متکلم فیہ کہا ہے ابن عیاش کی وجہ سے اور اس کی دلیل میں انہوں نے حوالہ دیا ہے بخاری رح کا کہ آخری عمر میں ان کا حافظہ اختلاط کا شکار ہو گیا تھا۔۔۔
              یہ اعتراض اس لئے غلط ہے کہ اگر ابن عیاش کے وھم اور اختلاط کیو جہ سے اس سند کو قبول نہ کیا جائے تو لازمی آتا ہے کہ بخاری کی بھی اس روایت کو قبول نہ کیا جائے جو اسی سند سے آئی ہے جو کہ میں نے اوپر پیش کی۔

              لکھنوی رح سے رفع یدین ہونا راجح ہے لیکن وہ ترک رفع کے بھی قائل ہیں جس کا آپ انکار کرتے ہیں۔
              اس کے علاوہ عبد الحی لکھنوی رھ خود رفع یدین اور ترک رفع دونوں کو سنت تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''نبی کریم ﷺ سے اور آپ کے صحابہ کرام سے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین صحیح احادیث سے ثابت ہے اور نیز ان حضرات سے ترک رفع یدین میں کوئی شک نہیں اور معاملہ آسان ہے''۔(السعایہ، جلد2 صفحہ 213)۔
              جس کتاب کا حوالہ آپ نے دیا اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ '' نبی کریم ﷺ سے رفع یدین اور ترک رفع دونوں ثابت ہیں اور اسی طرح ابن مسعود رضی اللہ اور ان کے اصحاب سے ترک رفع ثابت ہے، لہذا ہم رفع یدین کو سنت موکدہ ہونے کا مختار نہیں مانتے'' ۔(التعلیق الممجد، صفحہ 91)۔


              اور میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہمیں رفع یدین کے اثبات میں اختلاف نہیں،آپ کے ذمہ یہ ثابت کرنا ہے کہ مذکورہ رفع یدین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوام تھا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا آخری عمل تھا۔


              ابن عمر رضی اللہ کی حدیث صحیح سند سے ترک رفع پہ واضح ہے تو آپ احادیث کو چھوڑ کر علماء کے حوالوں کی طرف جا کر اپنے ہی اصول قرآن اور حدیث کو چھوڑ رہے ہین۔

              بلفرض اگر اس سند سے ابو بکر بن عیاش کا وھم اور اختلاط ثابت ہو بھی جائے تو کیا پھر آپ تسلیم کریں گے کہ بخاری کی روایت بھی اختلاط اور وھم کی وجہ سے مردود ہے؟؟؟؟؟؟

              Comment


              • #67
                Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                Originally posted by shizz View Post
                [ATTACH]105719[/ATTACH]

                محترمہ ویسے تو میرا خیال تھا کہ ایک ہی روایت پہ بات کر لیتے لیکن آپ کے حدیث ابن مسعود رضی اللہ پہ کچھ اعتراضات کا جواب دے دیتا ہوں تاکہ لولی صاحب کو کچھ غلط فہمی نہ ہو۔،۔۔
                محترمہ آپ کی ساری جرح کو علامہ ناصر الدین البانی رح غلط قرار دے دیا یہ کہہ کر کہ یہ روایت بلکہ صحیح ہے اور اس کے تمام رجام صحیح مسلم کے رجال ہیں۔۔
                جس عاصم بن کلیب پہ آپ نے جرح نقل کی ہے وہ بھی صحیح مسلم کے راوی ہیں۔۔
                کیا کہنے کہ پہلے اپنے مسلک کے خلاف آپ نے بخاری اور مسلم کے راویوں کو بھی مردود اور ضعیف کہنا شروع کر دیا ہے۔۔۔واہ۔
                تفصیل درج ذیل ہے۔۔



                حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ.
                قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. {ترمذی، كِتَاب: الصَّلَاةِ – بَاب: مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ }


                اس حدیث کے کل 7 راوی ہیں اور سب صحیح مسلم کے رجال ہیں۔


                1. Hannad bin As-Saree (هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ)
                2. Wakee’ bin Al-Jarrah (وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ)
                3. Sufyan As-Sauri (سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ)
                4. Aasim bin Kulaib (عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ)
                5. Abdur Rahman bin Al-Aswad (عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ)
                6. Alqamah (عَلْقَمَةَ)
                7. Abdullah bin Mas’ood (Raziallahu Ta’la Anhu) [عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ]



                حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالَ فَكَبَّرْنَا ثُمَّ قَالَ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالَ فَكَبَّرْنَا ثُمَّ قَالَ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَسَأُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ مَا الْمُسْلِمُونَ فِي الْكُفَّارِ إِلَّا كَشَعْرَةٍ بَيْضَاءَ فِي ثَوْرٍ أَسْوَدَ أَوْ كَشَعْرَةٍ سَوْدَاءَ فِي ثَوْرٍ أَبْيَضَ.
                { مسلم، كِتَاب: الْإِيمَانِ – بَاب: كَوْنِ هَذِهِ الْأُمَّةِ نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ }



                حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ مِنْ اللَّيْلِ فَقَضَى حَاجَتَهُ ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ ثُمَّ نَامَ.

                {مسلم، كِتَاب: الْحَيْضِ – بَاب: غَسْلِ الْوَجْهِ وَالْيَدَيْنِ إِذَا اسْتَيْقَظَ مِنْ النَّوْمِ}



                حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ مِنْ زَمْزَمَ مِنْ دَلْوٍ مِنْهَا وَهُوَ قَائِمٌ.

                { كِتَاب: الْأَشْرِبَةِ – بَاب: فِي الشُّرْبِ مِنْ زَمْزَمَ قَائِمًا }


                یہ وہی عاصم ہیں جن پہ اوپر آپ نے جرح نقل کی ہے۔


                Click image for larger version

Name:	asim.jpg
Views:	1
Size:	387.2 KB
ID:	2426603


                حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ وَعَلْقَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ح و حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ وَلَكِنَّهُ أَمْلَكُكُمْ لِإِرْبِهِ.

                { كِتَاب: الصِّيَامِ – بَاب: بَيَانِ أَنَّ الْقُبْلَةَ فِي الصَّوْمِ لَيْسَتْ مُحَرَّمَةً عَلَى مَنْ لَمْ تُحَرِّكْ شَهْوَتَهُ }


                حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ وَصَالِحُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ وَرْدَانَ قَالَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنِي خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَلِنِي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثَلَاثًا وَإِيَّاكُمْ وَهَيْشَاتِ الْأَسْوَاقِ.

                { كِتَاب: الصَّلَاةِ – بَاب: تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ وَإِقَامَتِهَا وَفَضْلِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ مِنْهَا وَالِازْدِحَامِ}



                علامہ ناصر الدین البانی بھی اس روایت کو مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''حقیقیت یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور مسلم کی شرط پہ ہے اور جن لوگوں نے اس کو معلول قرار دیا ہے ہمین ان کی کوئی دلیل نہیں ملی جس سے استدلال کیا جا سکے اور اس کی وجہ سے حدیث کو رد کیا جائے۔۔ ( مشکوۃ المصابیح ، بتحقیق البانی، جلد 1 صفحہ 254)۔


                Click image for larger version

Name:	albani mishkaat rafa.jpg
Views:	2
Size:	133.4 KB
ID:	2426602

                اس کے علاوہ اور بھی مھدثین ہیں جنہون نے اس روایت کو مسلم کی شرط پہ صحیح کہا ہے وہ حوالے پھر کبھی دوں گا۔
                فی الحال صرف البانی رح کا حوالہ جو اس حدیث کو صھیح کہہ رہے ہیں اور عاصم بن کلیب کا مسلم کا حوالہ جس پہ آپ نے جرح نقل کی ہے۔

                Comment


                • #68
                  Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                  Originally posted by i love sahabah View Post

                  محترمہ ویسے تو میرا خیال تھا کہ ایک ہی روایت پہ بات کر لیتے لیکن آپ کے حدیث ابن مسعود رضی اللہ پہ کچھ اعتراضات کا جواب دے دیتا ہوں تاکہ لولی صاحب کو کچھ غلط فہمی نہ ہو۔،۔۔
                  محترمہ آپ کی ساری جرح کو علامہ ناصر الدین البانی رح غلط قرار دے دیا یہ کہہ کر کہ یہ روایت بلکہ صحیح ہے اور اس کے تمام رجام صحیح مسلم کے رجال ہیں۔۔
                  جس عاصم بن کلیب پہ آپ نے جرح نقل کی ہے وہ بھی صحیح مسلم کے راوی ہیں۔۔
                  کیا کہنے کہ پہلے اپنے مسلک کے خلاف آپ نے بخاری اور مسلم کے راویوں کو بھی مردود اور ضعیف کہنا شروع کر دیا ہے۔۔۔واہ۔
                  تفصیل درج ذیل ہے۔۔



                  حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ.
                  قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. {ترمذی، كِتَاب: الصَّلَاةِ – بَاب: مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ }


                  اس حدیث کے کل 7 راوی ہیں اور سب صحیح مسلم کے رجال ہیں۔


                  1. Hannad bin As-Saree (هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ)
                  2. Wakee’ bin Al-Jarrah (وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ)
                  3. Sufyan As-Sauri (سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ)
                  4. Aasim bin Kulaib (عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ)
                  5. Abdur Rahman bin Al-Aswad (عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ)
                  6. Alqamah (عَلْقَمَةَ)
                  7. Abdullah bin Mas’ood (Raziallahu Ta’la Anhu) [عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ]



                  حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالَ فَكَبَّرْنَا ثُمَّ قَالَ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالَ فَكَبَّرْنَا ثُمَّ قَالَ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَسَأُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ مَا الْمُسْلِمُونَ فِي الْكُفَّارِ إِلَّا كَشَعْرَةٍ بَيْضَاءَ فِي ثَوْرٍ أَسْوَدَ أَوْ كَشَعْرَةٍ سَوْدَاءَ فِي ثَوْرٍ أَبْيَضَ.
                  { مسلم، كِتَاب: الْإِيمَانِ – بَاب: كَوْنِ هَذِهِ الْأُمَّةِ نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ }



                  حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ مِنْ اللَّيْلِ فَقَضَى حَاجَتَهُ ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ ثُمَّ نَامَ.

                  {مسلم، كِتَاب: الْحَيْضِ – بَاب: غَسْلِ الْوَجْهِ وَالْيَدَيْنِ إِذَا اسْتَيْقَظَ مِنْ النَّوْمِ}



                  حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ مِنْ زَمْزَمَ مِنْ دَلْوٍ مِنْهَا وَهُوَ قَائِمٌ.

                  { كِتَاب: الْأَشْرِبَةِ – بَاب: فِي الشُّرْبِ مِنْ زَمْزَمَ قَائِمًا }


                  یہ وہی عاصم ہیں جن پہ اوپر آپ نے جرح نقل کی ہے۔


                  [ATTACH]105724[/ATTACH]


                  حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ وَعَلْقَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ح و حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ وَلَكِنَّهُ أَمْلَكُكُمْ لِإِرْبِهِ.

                  { كِتَاب: الصِّيَامِ – بَاب: بَيَانِ أَنَّ الْقُبْلَةَ فِي الصَّوْمِ لَيْسَتْ مُحَرَّمَةً عَلَى مَنْ لَمْ تُحَرِّكْ شَهْوَتَهُ }


                  حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ وَصَالِحُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ وَرْدَانَ قَالَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنِي خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَلِنِي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثَلَاثًا وَإِيَّاكُمْ وَهَيْشَاتِ الْأَسْوَاقِ.

                  { كِتَاب: الصَّلَاةِ – بَاب: تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ وَإِقَامَتِهَا وَفَضْلِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ مِنْهَا وَالِازْدِحَامِ}



                  علامہ ناصر الدین البانی بھی اس روایت کو مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''حقیقیت یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور مسلم کی شرط پہ ہے اور جن لوگوں نے اس کو معلول قرار دیا ہے ہمین ان کی کوئی دلیل نہیں ملی جس سے استدلال کیا جا سکے اور اس کی وجہ سے حدیث کو رد کیا جائے۔۔ ( مشکوۃ المصابیح ، بتحقیق البانی، جلد 1 صفحہ 254)۔


                  [ATTACH]105723[/ATTACH]

                  اس کے علاوہ اور بھی مھدثین ہیں جنہون نے اس روایت کو مسلم کی شرط پہ صحیح کہا ہے وہ حوالے پھر کبھی دوں گا۔
                  فی الحال صرف البانی رح کا حوالہ جو اس حدیث کو صھیح کہہ رہے ہیں اور عاصم بن کلیب کا مسلم کا حوالہ جس پہ آپ نے جرح نقل کی ہے۔





                  میرے بھائی میں اس حدیث اور دوسری احادیث کے بارے میں کافی کچھ لکھ چکا ہوں


                  اب وہاں سے دوبارہ یہاں کاپی کر رہا ہوں . پلیز پورا پڑھ کر کچھ کہنا









                  رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑا ہوتے وقت ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا سنت ہے۔ اسے رفع الیدین کہتے ہیں۔ اس کا ثبوت بکثرت اور تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی احادیث سے ملتا ہے جنہیں صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہے۔ ہم پہلے اس بارے میں صحیح احادیث بیان کرتے ہیں، اس کے بعد فقہاء کے اختلاف کا سبب اور دوسرے ضروری امور کیوضاحت شامل کی
                  جائے گی ان شاء اللہ۔


                  پہلی حدیث:

                  عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَمَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا
                  صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح سواء،


                  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک بلند کیا کرتے تھے، اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی انہیں اسی طرح اٹھاتے تھے"

                  دوسری حدیث:

                  عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ هَكَذَا

                  صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع و اذا رفع، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام

                  ابو قلابہ کہتے ہیں کہ میں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے نماز پڑھتے وقت تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی ہاتھ اٹھائے اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بھی (نماز میں) ایسا ہی کیا تھا"۔

                  تیسری حدیث:

                  وَائِلِ بْنِ حُجْرٍأَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنْ الثَّوْبِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ
                  فَلَمَّا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَيَدَيْهِ

                  صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی بعد تکبیرۃ الاحرام

                  “وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کہی، ۔ ۔ ۔ ۔پھر رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ چادر سے نکالے اور انہیں بلند کیا اور تکبیر کہی اور رکوع کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے وقت بھی دونوں ہاتھ اٹھائے"۔

                  چوتھی حدیث:

                  ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کے سامنے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم رکوع میں جاتے اور کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور ان سب نے اس بات کی تصدیق کی۔


                  سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب افتتاح الصلاۃ، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 730

                  پانچویں حدیث:

                  عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنْ الرُّكُوعِ

                  سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ذکر انہ یرفع یدیہ اذا قام من الثنتین، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 744

                  “علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک بلند کرتے، اور جب قراءت سے فارغ ہو کر رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تب اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے تھے"

                  چھٹی حدیث:

                  عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَإِذَا رَكَعَ

                  سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 866

                  انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نمازشروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتے تھے"۔

                  ساتویں حدیث:

                  عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَيَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ

                  سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 868

                  “جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے"۔






                  آٹھویں حدیث:

                  عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ قَالَ هَلْ أُرِيكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَكَبَّرَوَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ لِلرُّكُوعِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا فَاصْنَعُوا وَلاَ يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.

                  سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ذکر التکبیر و رفع الیدین عند الافتتاح و الرکوع، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 609

                  “ابو موسٰی الاشعری رضی اللہ عنہ نے (ایک دن) کہا "کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نماز (جیسی نماز پڑھ کر) نہ دکھاؤں؟ پھر انہوں نے تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھائے، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا اور ہاتھ اٹھائے۔ پھر کہنے لگے "تم بھی اسی طرح کیا کرو"۔ اور دو سجدوں کےد رمیان انہوں نے ہاتھ نہیں اٹھائے تھے"۔



                  نویں حدیث:

                  عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُوَيَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ

                  مسند احمد مسند المکثرین من الصحابہ مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 193

                  ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع اور سجدے میں بھی ایسا کرتے"

                  دسویں حدیث:

                  عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال :صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلوة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع

                  السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 2 ص 73۔ اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 610

                  ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتےتھے"


                  یہ دس احادیث دس مختلف صحابہ نے روایت کی ہیں۔ ان میں دس ان صحابہ کو شامل کر لیا جائے جن کا ذکر ابو حمید رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے تو ان کی تعداد بیس ہو جاتی ہے۔پورے ذخیرہ احادیث میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کےسوا کوئی ایسی چیز صحیح سند کے ساتھ موجود نہیں ہے جو ان احادیث کے مخالف ہو۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک دن اپنے ساتھیوں سے فرمایا:

                  "
                  کیا میں تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نماز (جیسی نماز) نہ پڑھوں؟"
                  پھر انہوں نے نماز پڑھی اور پہلی دفعہ (تکبیر تحریمہ کہنے) کے بعدپھر (باقی نماز میں) ہاتھ نہیں اٹھائے
                  "

                  اس حدیث کو امام احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، طحاوی، بیہقی اور ابن حزم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی اسے حسن اور امام ابن حزم صحیح کہتے ہیں جبکہ کچھ دوسرے محدثین عبداللہ بن مبارک، دار قطنی اور امام ابن حبان و غیرھم نے اسے ضعیف کہا ہے لیکن درست بات یہی ہے کہ سند کے اعتبار سے اس میں کوئی طعن نہیں ہے۔ اس کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں اور یہ روایت صحیح اور ثابت ہے۔

                  فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اصل اختلاف یہ واقع ہوا ہے کہ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین میں افضل اور سنت کے قریب تر کون سا عمل ہے۔
                  امام شافعیاور امام احمد بن حنبل رحمہا اللہ رفع الیدین کرنے کے قائل ہیں کیونکہ صحابہ کرام کی کثیر تعداد نے مختلف مواقع اور مختلف اوقات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے رفع الیدین کرنا بیان کیا ہےجس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عمومًا اپنی نمازیں رفع الیدین کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ابن عساکر کے بیان کے مطابق امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آخر میں رفع الیدین کرنے کو اختیار کر لیا تھا۔ جبکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث کو دلیل بناتے ہوئے رفع الیدین نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔


                  یہ وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے ان ائمہ کے متبعین اور مقلدین کے درمیان طویل نزاع برپا ہوا ہے۔ دونوں طرف سےاپنے امام اور مسلک کے حق میں دلائل پیش کیے جاتے رہے ہیں۔بنظر انصاف دیکھا جائے تو ائمہ ثلاثہ کا موقف قوی تر معلوم ہوتا ہے کیونکہ رفع الیدین تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی احادیث سے ثابت ہے جس کا انکار جاہل یا متعصب آدمی ہی کر سکتا ہے چنانچہ احناف میں بھی ایسے علماء موجود رہے ہیں جو رکوع میں جاتے اور کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ ان میں سب سےمشہور نام عصام بن یوسف رحمہ اللہ کا ہے جو امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے۔ البتہ متاخرین احناف کی جانب سے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ رفع الیدین کا حکم منسوخ ہو چکا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا آخری عمل ترک رفع الیدین کا تھا لہٰذا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث باقی تمام صحابہ کی روایات کو منسوخ کر دیتی ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ تمام مسالک کے علماء کے ہاں طے شدہ اصول ہے کہ دو متعارض احادیث میں تطبیق ممکن ہو تو ان میں سے کوئی بھی ناسخ یا منسوخ نہیں ہوتی۔ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین والی احادیث میں تطبیق یوں دی جا سکتی ہے کہ ممکن ہے دونوں باتیں ٹھیک ہوں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا عام معمول رفع الیدین کرنے کا معلومہوتا ہے کیونکہ اسے بیان کرنے والے بیسیوں صحابہ ہیں جبکہ نہ کرنے کی روایت صرف عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

                  دوم:

                  علماء
                  و فقہاء کا اصول ہے کہ اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے۔ یعنی اگر دو راویوں میں سے ایک کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ کام کیا اور دوسرا کہے کہ نہیں کیا تو اس راوی کی بات پر عمل کیا جائے گا جس نے کام کرنے کا ذکر کیا ، کیونکہ عین ممکن ہے کہ جب وہ کام سر انجام دیا گیا تو دوسرا شخص وہاں موجود نہ ہو اور عدم اطلاع کی بنا پر نہ کرنے کو ٹھیک سمجھ بیٹھا ہو ۔

                  امام بخاری نے جزء
                  رفع الیدین میں تفصیل کے ساتھ اس اصول کی وضاحت کی ہے۔ صحابہ کے اقوال کا معاملہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے یعنی صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے رفع الیدین کرنا بیان کیا ہے تو ان کا قول نہ کرنے والی روایت پر مقدم ہو گا۔

                  نسخ کا دعویٰ اس لیے بھی درست نہیں ہے کہ بعض خلفائے راشدین سمیت صحابہ کی کثیر تعداد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو عبادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دن میں پانچ مرتبہ سب کے سامنے ادا فرماتے تھے اس میں کوئی عمل منسوخ ہو جائے اور ایک صحابی کے سوا کسی دوسرے کو اس
                  بات کا علم بھی نہ ہو سکے؟

                  عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب دیکھتے کہ کوئی شخص رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہوئے رفع الیدین نہیں کرتا تو کنکریاں مار کر اسے متوجہ کرتے تھے۔

                  ابو الحسن سندھی حنفی رحمہ اللہ سنن ابن ماجہ کی شرح میں لکھتے ہیں:

                  جن لوگوں نے رفع الیدین کا منسوخ ہونا بیان کیا ہے ان کا قول بلا دلیل ہے۔ اگر نسخ کا واقع ہونا تسلیم بھی کر لیا جائے تو وہ اس کے برعکس ہے جو وہ کہتے ہیں۔ کیونکہ مالک بن حویرث اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ عمر مبارک کے آخری دنوں میں نماز پڑھی تھی اور یہ دونوں صحابی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے نماز میں رفع الیدین کیا تھا۔ پس ان کی روایتوں سے آخر تک رفع الیدین کرنے اور نسخ کے قول کے غلط ہونے کی دلیل ملتی ہے۔۔۔ ۔ ۔۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ رفع الیدین کرنا اور نہ کرنا دونوں صحیح روایات سے ثابت ہے لیکن کرنے کی روایات زیادہ اور قوی تر ہیں"

                  علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ (دار العلوم دیوبند) نے بھی "فیض الباری" میں رفع الیدین منسوخ ہونے کے قول کو غلط قرار دیا ہے۔

                  لہٰذا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کی وجہ سے باقی تمام صحیحاحادیث کو منسوخ کہہ دینا دلائل سے ثابت نہیں ہوتا۔ البتہ اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ رفع الیدین کرنا فرض نہیں سنت ہے۔ امام ابن حزم کہتے ہیں:

                  “اگر یہ حدیث موجود نہ ہوتی تو جھکتے (یعنی رکوع میں جاتے) وقت اور اٹھتے (یعنی رکوع سے کھڑے ہوتے) وقت رفع الیدین کرنا ہر نمازی پر فرض قرار پاتا، لیکن ابن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث کیونکہ صحیح ہے اس لیے معلوم ہوا کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ باقی مواقع پر رفع الیدین کرنا فرض نہیں بلکہ سنت اور مستحب ہے"

                  Comment


                  • #69
                    Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                    لولی صاحب ایک بات پوچھنی تھی اور رہنمائی کرو تو۔۔
                    بات یہ ہے کہ ۔۔
                    ایک نا محرم عورت کا نامحرم مرد کے ساتھ کسی بھی طرح کے بات چیت کرنا
                    اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے اور ساتھ ساتھ اپ اپنی رائے بھی دے دیں۔۔۔
                    نوازش۔۔
                    مجھے پتہ ہے موضوع کچھ اور ہے اس تھریڈ کا لیکن میں ذاتی طور پر پوچھ رہا ہوں۔ امید ہے مائینڈ نہیں کرینگے۔۔
                    حیاک اللہ

                    Comment


                    • #70
                      Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                      Originally posted by -=The Driver=- View Post
                      لولی صاحب ایک بات پوچھنی تھی اور رہنمائی کرو تو۔۔
                      بات یہ ہے کہ ۔۔
                      ایک نا محرم عورت کا نامحرم مرد کے ساتھ کسی بھی طرح کے بات چیت کرنا
                      اسلام اس بارے میں کیا کہتا ہے اور ساتھ ساتھ اپ اپنی رائے بھی دے دیں۔۔۔
                      نوازش۔۔
                      مجھے پتہ ہے موضوع کچھ اور ہے اس تھریڈ کا لیکن میں ذاتی طور پر پوچھ رہا ہوں۔ امید ہے مائینڈ نہیں کرینگے۔۔
                      حیاک اللہ




                      پہلے یہ بتایں کہ آپ کی کیا راۓ ہے

                      باقی آپ کے پوچھنے کا مطلب کیا ہے

                      ایک تھریڈ بنا دیں اس پر آپ

                      بات کر لیتے ہیں اس پر


                      Comment


                      • #71
                        Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                        Originally posted by lovelyalltime View Post


                        پہلے یہ بتایں کہ آپ کی کیا راۓ ہے

                        باقی آپ کے پوچھنے کا مطلب کیا ہے

                        ایک تھریڈ بنا دیں اس پر آپ

                        بات کر لیتے ہیں اس پر



                        jawab na dene ka shukriya... Allah hafiz
                        i think mera sawal etna mushkil nahi tha.. khair leave it... thanks

                        Comment


                        • #72
                          Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                          Originally posted by lovelyalltime View Post




                          میرے بھائی میں اس حدیث اور دوسری احادیث کے بارے میں کافی کچھ لکھ چکا ہوں


                          اب وہاں سے دوبارہ یہاں کاپی کر رہا ہوں . پلیز پورا پڑھ کر کچھ کہنا









                          رکوع میں جاتے ہوئے اور رکوع سے کھڑا ہوتے وقت ہاتھوں کو کندھوں یا کانوں تک اٹھانا سنت ہے۔ اسے رفع الیدین کہتے ہیں۔ اس کا ثبوت بکثرت اور تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی احادیث سے ملتا ہے جنہیں صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے روایت کیا ہے۔ ہم پہلے اس بارے میں صحیح احادیث بیان کرتے ہیں، اس کے بعد فقہاء کے اختلاف کا سبب اور دوسرے ضروری امور کیوضاحت شامل کی
                          جائے گی ان شاء اللہ۔


                          پہلی حدیث:

                          عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ عَنْ أَبِيهِ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَمَنْكِبَيْهِ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ وَإِذَا كَبَّرَ لِلرُّكُوعِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَهُمَا كَذَلِكَ أَيْضًا
                          صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین فی التکبیرۃ الاولی مع الافتتاح سواء،


                          عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھ کندھوں تک بلند کیا کرتے تھے، اور جب رکوع کے لیے تکبیر کہتے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تب بھی انہیں اسی طرح اٹھاتے تھے"

                          دوسری حدیث:

                          عَنْ أَبِي قِلَابَةَ أَنَّهُ رَأَى مَالِكَ بْنَ الْحُوَيْرِثِ إِذَا صَلَّى كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ رَفَعَ يَدَيْهِ وَحَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَنَعَ هَكَذَا

                          صحیح البخاری کتاب الاذان باب رفع الیدین اذا کبر و اذا رکع و اذا رفع، صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب استحباب رفع الیدین حذو المنکبین مع تکبیرۃ الاحرام

                          ابو قلابہ کہتے ہیں کہ میں نے مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے نماز پڑھتے وقت تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع کرتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی ہاتھ اٹھائے اور بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے بھی (نماز میں) ایسا ہی کیا تھا"۔

                          تیسری حدیث:

                          وَائِلِ بْنِ حُجْرٍأَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَفَعَ يَدَيْهِ حِينَ دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ كَبَّرَ وَصَفَ هَمَّامٌ حِيَالَ أُذُنَيْهِ ثُمَّ الْتَحَفَ بِثَوْبِهِ ثُمَّ وَضَعَ يَدَهُ الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَلَمَّا أَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ أَخْرَجَ يَدَيْهِ مِنْ الثَّوْبِ ثُمَّ رَفَعَهُمَا ثُمَّ كَبَّرَ فَرَكَعَ
                          فَلَمَّا قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَفَعَيَدَيْهِ

                          صحیح مسلم کتاب الصلاۃ باب وضع یدہ الیمنٰی علی الیسرٰی بعد تکبیرۃ الاحرام

                          “وائل بن حجر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو دیکھا کہ انہوں نے نماز شروع کرتے وقت ہاتھ اٹھائے اور تکبیر کہی، ۔ ۔ ۔ ۔پھر رکوع کرنے کا ارادہ کیا تو اپنے ہاتھ چادر سے نکالے اور انہیں بلند کیا اور تکبیر کہی اور رکوع کیا، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے وقت بھی دونوں ہاتھ اٹھائے"۔

                          چوتھی حدیث:

                          ابو حمید الساعدی رضی اللہ عنہ نے دس صحابہ کے سامنے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وعلی آلہ وسلم رکوع میں جاتے اور کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کرتے تھے اور ان سب نے اس بات کی تصدیق کی۔


                          سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب افتتاح الصلاۃ، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 730

                          پانچویں حدیث:

                          عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَكْتُوبَةِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ وَيَصْنَعُ مِثْلَ ذَلِكَ إِذَا قَضَى قِرَاءَتَهُ وَأَرَادَ أَنْ يَرْكَعَ وَيَصْنَعُهُ إِذَا رَفَعَ مِنْ الرُّكُوعِ

                          سنن ابی داؤد کتاب الصلاۃ باب من ذکر انہ یرفع یدیہ اذا قام من الثنتین، صحیح و ضعیف سنن ابی داؤد حدیث نمبر 744

                          “علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم جب فرض نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو تکبیر کہتے اور اپنے ہاتھوں کو کندھوں تک بلند کرتے، اور جب قراءت سے فارغ ہو کر رکوع کرنے کا ارادہ کرتے تب اور رکوع سے اٹھتے وقت بھی اسی طرح ہاتھ اٹھاتے تھے"

                          چھٹی حدیث:

                          عَنْ أَنَسٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ وَإِذَا رَكَعَ

                          سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 866

                          انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نمازشروع کرتے وقت اور رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتے تھے"۔

                          ساتویں حدیث:

                          عَنْ أَبِي الزُّبَيْرِ أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ كَانَ إِذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ رَفَعَ يَدَيْهِ وَإِذَا رَكَعَ وَإِذَا رَفَعَ رَأْسَهُ مِنْ الرُّكُوعِ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ وَيَقُولُ رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَعَلَ مِثْلَ ذَلِكَ

                          سنن ابن ماجہ اقامۃ الصلاۃ و السنۃ فیھا باب رفع الیدین اذا رکع و اذا رفع راسہ من الرکوع، صحیح و ضعیف سنن ابن ماجہ حدیث نمبر 868

                          “جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع میں جاتے اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھاتے تھے اور کہتے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کو ایسا ہی کرتے دیکھا ہے"۔






                          آٹھویں حدیث:

                          عَنْ أَبِى مُوسَى الأَشْعَرِىِّ قَالَ هَلْ أُرِيكُمْ صَلاَةَ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- فَكَبَّرَوَرَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ لِلرُّكُوعِ ثُمَّ قَالَ سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ثُمَّ رَفَعَ يَدَيْهِ ثُمَّ قَالَ هَكَذَا فَاصْنَعُوا وَلاَ يَرْفَعُ بَيْنَ السَّجْدَتَيْنِ.

                          سنن الدار قطنی کتاب الصلاۃ باب ذکر التکبیر و رفع الیدین عند الافتتاح و الرکوع، اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 609

                          “ابو موسٰی الاشعری رضی اللہ عنہ نے (ایک دن) کہا "کیا میں تمہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نماز (جیسی نماز پڑھ کر) نہ دکھاؤں؟ پھر انہوں نے تکبیر کہی اور ہاتھ اٹھائے، پھر رکوع میں جاتے وقت ہاتھ اٹھائے، پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہا اور ہاتھ اٹھائے۔ پھر کہنے لگے "تم بھی اسی طرح کیا کرو"۔ اور دو سجدوں کےد رمیان انہوں نے ہاتھ نہیں اٹھائے تھے"۔



                          نویں حدیث:

                          عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُوَيَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ

                          مسند احمد مسند المکثرین من الصحابہ مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 193

                          ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع اور سجدے میں بھی ایسا کرتے"

                          دسویں حدیث:

                          عن أبي بكر الصديق رضي الله عنه قال :صليت خلف رسول الله صلى الله عليه وسلم فكان يرفع يديه إذا افتتح الصلوة وإذا ركع وإذا رفع رأسه من الركوع

                          السنن الکبریٰ للبیہقی جلد 2 ص 73۔ اصل صفۃ صلاۃ جلد 2 ص 610

                          ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی، وہ نماز شروع کرتے وقت، رکوع کرتے وقت، اور رکوع سے سر اٹھاتے وقت ہاتھ اٹھایا کرتےتھے"


                          یہ دس احادیث دس مختلف صحابہ نے روایت کی ہیں۔ ان میں دس ان صحابہ کو شامل کر لیا جائے جن کا ذکر ابو حمید رضی اللہ عنہ والی حدیث میں ہے تو ان کی تعداد بیس ہو جاتی ہے۔پورے ذخیرہ احادیث میں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ایک روایت کےسوا کوئی ایسی چیز صحیح سند کے ساتھ موجود نہیں ہے جو ان احادیث کے مخالف ہو۔اس کی تفصیل یہ ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے ایک دن اپنے ساتھیوں سے فرمایا:

                          "
                          کیا میں تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی نماز (جیسی نماز) نہ پڑھوں؟"
                          پھر انہوں نے نماز پڑھی اور پہلی دفعہ (تکبیر تحریمہ کہنے) کے بعدپھر (باقی نماز میں) ہاتھ نہیں اٹھائے
                          "

                          اس حدیث کو امام احمد، ابو داؤد، ترمذی، نسائی، طحاوی، بیہقی اور ابن حزم نے روایت کیا ہے۔ امام ترمذی اسے حسن اور امام ابن حزم صحیح کہتے ہیں جبکہ کچھ دوسرے محدثین عبداللہ بن مبارک، دار قطنی اور امام ابن حبان و غیرھم نے اسے ضعیف کہا ہے لیکن درست بات یہی ہے کہ سند کے اعتبار سے اس میں کوئی طعن نہیں ہے۔ اس کے تمام راوی صحیح مسلم کے راوی ہیں اور یہ روایت صحیح اور ثابت ہے۔

                          فقہاء کے درمیان اس مسئلے میں اصل اختلاف یہ واقع ہوا ہے کہ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین میں افضل اور سنت کے قریب تر کون سا عمل ہے۔
                          امام شافعیاور امام احمد بن حنبل رحمہا اللہ رفع الیدین کرنے کے قائل ہیں کیونکہ صحابہ کرام کی کثیر تعداد نے مختلف مواقع اور مختلف اوقات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے رفع الیدین کرنا بیان کیا ہےجس سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم عمومًا اپنی نمازیں رفع الیدین کے ساتھ پڑھا کرتے تھے۔ ابن عساکر کے بیان کے مطابق امام مالک بن انس رحمۃ اللہ علیہ نے بھی آخر میں رفع الیدین کرنے کو اختیار کر لیا تھا۔ جبکہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے اصحاب عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث کو دلیل بناتے ہوئے رفع الیدین نہ کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔


                          یہ وہ بنیادی سبب ہے جس کی وجہ سے ان ائمہ کے متبعین اور مقلدین کے درمیان طویل نزاع برپا ہوا ہے۔ دونوں طرف سےاپنے امام اور مسلک کے حق میں دلائل پیش کیے جاتے رہے ہیں۔بنظر انصاف دیکھا جائے تو ائمہ ثلاثہ کا موقف قوی تر معلوم ہوتا ہے کیونکہ رفع الیدین تواتر کی حد کو پہنچی ہوئی احادیث سے ثابت ہے جس کا انکار جاہل یا متعصب آدمی ہی کر سکتا ہے چنانچہ احناف میں بھی ایسے علماء موجود رہے ہیں جو رکوع میں جاتے اور کھڑے ہوتے وقت رفع الیدین کیا کرتے تھے۔ ان میں سب سےمشہور نام عصام بن یوسف رحمہ اللہ کا ہے جو امام ابویوسف رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد تھے۔ البتہ متاخرین احناف کی جانب سے ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ رفع الیدین کا حکم منسوخ ہو چکا ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا آخری عمل ترک رفع الیدین کا تھا لہٰذا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث باقی تمام صحابہ کی روایات کو منسوخ کر دیتی ہے۔ اہل علم جانتے ہیں کہ یہ بات بالکل غلط ہے۔ تمام مسالک کے علماء کے ہاں طے شدہ اصول ہے کہ دو متعارض احادیث میں تطبیق ممکن ہو تو ان میں سے کوئی بھی ناسخ یا منسوخ نہیں ہوتی۔ رفع الیدین اور ترک رفع الیدین والی احادیث میں تطبیق یوں دی جا سکتی ہے کہ ممکن ہے دونوں باتیں ٹھیک ہوں، لیکن نبی صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کا عام معمول رفع الیدین کرنے کا معلومہوتا ہے کیونکہ اسے بیان کرنے والے بیسیوں صحابہ ہیں جبکہ نہ کرنے کی روایت صرف عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے۔

                          دوم:

                          علماء
                          و فقہاء کا اصول ہے کہ اثبات نفی پر مقدم ہوتا ہے۔ یعنی اگر دو راویوں میں سے ایک کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے یہ کام کیا اور دوسرا کہے کہ نہیں کیا تو اس راوی کی بات پر عمل کیا جائے گا جس نے کام کرنے کا ذکر کیا ، کیونکہ عین ممکن ہے کہ جب وہ کام سر انجام دیا گیا تو دوسرا شخص وہاں موجود نہ ہو اور عدم اطلاع کی بنا پر نہ کرنے کو ٹھیک سمجھ بیٹھا ہو ۔

                          امام بخاری نے جزء
                          رفع الیدین میں تفصیل کے ساتھ اس اصول کی وضاحت کی ہے۔ صحابہ کے اقوال کا معاملہ بھی اس سے ملتا جلتا ہے یعنی صحابہ کی ایک بڑی جماعت نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم سے رفع الیدین کرنا بیان کیا ہے تو ان کا قول نہ کرنے والی روایت پر مقدم ہو گا۔

                          نسخ کا دعویٰ اس لیے بھی درست نہیں ہے کہ بعض خلفائے راشدین سمیت صحابہ کی کثیر تعداد سے نبی کریم صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کی وفات کے بعد بھی رفع الیدین کرنا ثابت ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جو عبادت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم دن میں پانچ مرتبہ سب کے سامنے ادا فرماتے تھے اس میں کوئی عمل منسوخ ہو جائے اور ایک صحابی کے سوا کسی دوسرے کو اس
                          بات کا علم بھی نہ ہو سکے؟

                          عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ جب دیکھتے کہ کوئی شخص رکوع میں جاتے اور اٹھتے ہوئے رفع الیدین نہیں کرتا تو کنکریاں مار کر اسے متوجہ کرتے تھے۔

                          ابو الحسن سندھی حنفی رحمہ اللہ سنن ابن ماجہ کی شرح میں لکھتے ہیں:

                          جن لوگوں نے رفع الیدین کا منسوخ ہونا بیان کیا ہے ان کا قول بلا دلیل ہے۔ اگر نسخ کا واقع ہونا تسلیم بھی کر لیا جائے تو وہ اس کے برعکس ہے جو وہ کہتے ہیں۔ کیونکہ مالک بن حویرث اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم کے ساتھ عمر مبارک کے آخری دنوں میں نماز پڑھی تھی اور یہ دونوں صحابی بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نے نماز میں رفع الیدین کیا تھا۔ پس ان کی روایتوں سے آخر تک رفع الیدین کرنے اور نسخ کے قول کے غلط ہونے کی دلیل ملتی ہے۔۔۔ ۔ ۔۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ رفع الیدین کرنا اور نہ کرنا دونوں صحیح روایات سے ثابت ہے لیکن کرنے کی روایات زیادہ اور قوی تر ہیں"

                          علامہ انور شاہ کشمیری رحمۃ اللہ علیہ (دار العلوم دیوبند) نے بھی "فیض الباری" میں رفع الیدین منسوخ ہونے کے قول کو غلط قرار دیا ہے۔

                          لہٰذا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت کی وجہ سے باقی تمام صحیحاحادیث کو منسوخ کہہ دینا دلائل سے ثابت نہیں ہوتا۔ البتہ اس سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ رفع الیدین کرنا فرض نہیں سنت ہے۔ امام ابن حزم کہتے ہیں:

                          “اگر یہ حدیث موجود نہ ہوتی تو جھکتے (یعنی رکوع میں جاتے) وقت اور اٹھتے (یعنی رکوع سے کھڑے ہوتے) وقت رفع الیدین کرنا ہر نمازی پر فرض قرار پاتا، لیکن ابن مسعود رضی اللہ عنہ والی حدیث کیونکہ صحیح ہے اس لیے معلوم ہوا کہ تکبیر تحریمہ کے علاوہ باقی مواقع پر رفع الیدین کرنا فرض نہیں بلکہ سنت اور مستحب ہے"

                          شاباش۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب جواب نہ ہو تو پھر وہی کاپی پیسٹ کر دو جس کا جواب میں دے چکا ہوں۔۔۔۔
                          جناب جواب دینے کو چاہوں تو بہت تفصیل سے دے سکتا ہوں لیکن بات کو مختصر کرتا ہوں ۔۔۔


                          تم نے اوپر 10 احادیث پیش کی رفع یدین کی۔۔۔۔
                          تمہارا ان 10 میں سے کسی بھی حدیث پہ عمل نہیں ہے۔۔
                          لولی سچ بتاؤ کیا تمہاری اپنی نماز ان 10احادیث کے مطابق ہے؟؟؟؟؟؟
                          تم ان 10 احادیث سے نماز میں 4 جگہ کا رفع یدین دکھا سکتے ہو؟؟؟؟؟؟؟


                          اور کاپی پیسٹ بھی عقل سے کیا جاتا ہے بیوقوفوں کی طرح نہیں۔۔
                          تم نے حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت پیش کی ہے۔۔۔


                          عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَذْوَ مَنْكِبَيْهِ حِينَ يُكَبِّرُوَيَفْتَتِحُ الصَّلَاةَ وَحِينَ يَرْكَعُ وَحِينَ يَسْجُدُ

                          مسند احمد مسند المکثرین من الصحابہ مسند عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ، اصل صفۃ صلاۃ جلد 1 ص 193

                          “ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و علی آلہ وسلم نماز شروع کرتے وقت جب تکبیر کہتے تو اپنے دونوں ہاتھوں کو کندھوں تک اٹھاتے اور رکوع اور سجدے میں بھی ایسا کرتے


                          یہاں سجدوں کے رفع یدین کا بھی ذکر ہے جس کے تم منکر ہو۔۔۔
                          کیا تم اس حدیث پہ عمل کرتے ہو اور سجدوں میں رفع یدین کرتے ہو؟؟؟؟؟؟؟

                          یہ تمام احادیث تم نے خود اپنے موقف میں پیش کی ہیں تو لولی تم کو ان 10 احادیث سے اپنا موقف نماز میں 4 جگہ کا رفع یدین ثابت کرنا ہے۔

                          Comment


                          • #73
                            Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                            Originally posted by i love sahabah View Post

                            محترمہ ویسے تو میرا خیال تھا کہ ایک ہی روایت پہ بات کر لیتے لیکن آپ کے حدیث ابن مسعود رضی اللہ پہ کچھ اعتراضات کا جواب دے دیتا ہوں تاکہ لولی صاحب کو کچھ غلط فہمی نہ ہو۔،۔۔
                            محترمہ آپ کی ساری جرح کو علامہ ناصر الدین البانی رح غلط قرار دے دیا یہ کہہ کر کہ یہ روایت بلکہ صحیح ہے اور اس کے تمام رجام صحیح مسلم کے رجال ہیں۔۔
                            جس عاصم بن کلیب پہ آپ نے جرح نقل کی ہے وہ بھی صحیح مسلم کے راوی ہیں۔۔
                            کیا کہنے کہ پہلے اپنے مسلک کے خلاف آپ نے بخاری اور مسلم کے راویوں کو بھی مردود اور ضعیف کہنا شروع کر دیا ہے۔۔۔واہ۔
                            تفصیل درج ذیل ہے۔۔




                            حَدَّثَنَا هَنَّادٌ حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ عَنْ عَلْقَمَةَ قَالَ قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ.
                            قَالَ وَفِي الْبَاب عَنْ الْبَرَاءِ بْنِ عَازِبٍ قَالَ أَبُو عِيسَى حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ وَبِهِ يَقُولُ غَيْرُ وَاحِدٍ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالتَّابِعِينَ وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ. {ترمذی، كِتَاب: الصَّلَاةِ – بَاب: مَا جَاءَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمْ يَرْفَعْ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ }


                            اس حدیث کے کل 7 راوی ہیں اور سب صحیح مسلم کے رجال ہیں۔


                            1. Hannad bin As-Saree (هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ)
                            2. Wakee’ bin Al-Jarrah (وَكِيعُ بْنُ الْجَرَّاحِ)
                            3. Sufyan As-Sauri (سُفْيَانُ الثَّوْرِيُّ)
                            4. Aasim bin Kulaib (عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ)
                            5. Abdur Rahman bin Al-Aswad (عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ)
                            6. Alqamah (عَلْقَمَةَ)
                            7. Abdullah bin Mas’ood (Raziallahu Ta’la Anhu) [عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ]



                            حَدَّثَنَا هَنَّادُ بْنُ السَّرِيِّ حَدَّثَنَا أَبُو الْأَحْوَصِ عَنْ أَبِي إِسْحَقَ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ قَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا رُبُعَ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالَ فَكَبَّرْنَا ثُمَّ قَالَ أَمَا تَرْضَوْنَ أَنْ تَكُونُوا ثُلُثَ أَهْلِ الْجَنَّةِ قَالَ فَكَبَّرْنَا ثُمَّ قَالَ إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ تَكُونُوا شَطْرَ أَهْلِ الْجَنَّةِ وَسَأُخْبِرُكُمْ عَنْ ذَلِكَ مَا الْمُسْلِمُونَ فِي الْكُفَّارِ إِلَّا كَشَعْرَةٍ بَيْضَاءَ فِي ثَوْرٍ أَسْوَدَ أَوْ كَشَعْرَةٍ سَوْدَاءَ فِي ثَوْرٍ أَبْيَضَ.
                            { مسلم، كِتَاب: الْإِيمَانِ – بَاب: كَوْنِ هَذِهِ الْأُمَّةِ نِصْفَ أَهْلِ الْجَنَّةِ }



                            حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالَا حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ سُفْيَانَ عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ عَنْ كُرَيْبٍ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ مِنْ اللَّيْلِ فَقَضَى حَاجَتَهُ ثُمَّ غَسَلَ وَجْهَهُ وَيَدَيْهِ ثُمَّ نَامَ.

                            {مسلم، كِتَاب: الْحَيْضِ – بَاب: غَسْلِ الْوَجْهِ وَالْيَدَيْنِ إِذَا اسْتَيْقَظَ مِنْ النَّوْمِ}



                            حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ عَاصِمٍ عَنْ الشَّعْبِيِّ عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَرِبَ مِنْ زَمْزَمَ مِنْ دَلْوٍ مِنْهَا وَهُوَ قَائِمٌ.

                            { كِتَاب: الْأَشْرِبَةِ – بَاب: فِي الشُّرْبِ مِنْ زَمْزَمَ قَائِمًا }


                            یہ وہی عاصم ہیں جن پہ اوپر آپ نے جرح نقل کی ہے۔


                            [ATTACH]105724[/ATTACH]


                            حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ يَحْيَى وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ وَأَبُو كُرَيْبٍ قَالَ يَحْيَى أَخْبَرَنَا و قَالَ الْآخَرَانِ حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ عَنْ الْأَعْمَشِ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ الْأَسْوَدِ وَعَلْقَمَةَ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا ح و حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي زَائِدَةَ حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ عَنْ مُسْلِمٍ عَنْ مَسْرُوقٍ عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ وَيُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ وَلَكِنَّهُ أَمْلَكُكُمْ لِإِرْبِهِ.

                            { كِتَاب: الصِّيَامِ – بَاب: بَيَانِ أَنَّ الْقُبْلَةَ فِي الصَّوْمِ لَيْسَتْ مُحَرَّمَةً عَلَى مَنْ لَمْ تُحَرِّكْ شَهْوَتَهُ }


                            حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ حَبِيبٍ الْحَارِثِيُّ وَصَالِحُ بْنُ حَاتِمِ بْنِ وَرْدَانَ قَالَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ حَدَّثَنِي خَالِدٌ الْحَذَّاءُ عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ عَنْ إِبْرَاهِيمَ عَنْ عَلْقَمَةَ عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيَلِنِي مِنْكُمْ أُولُو الْأَحْلَامِ وَالنُّهَى ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ ثَلَاثًا وَإِيَّاكُمْ وَهَيْشَاتِ الْأَسْوَاقِ.

                            { كِتَاب: الصَّلَاةِ – بَاب: تَسْوِيَةِ الصُّفُوفِ وَإِقَامَتِهَا وَفَضْلِ الْأَوَّلِ فَالْأَوَّلِ مِنْهَا وَالِازْدِحَامِ}



                            علامہ ناصر الدین البانی بھی اس روایت کو مسلم کی شرط پہ صحیح قرار دیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''حقیقیت یہ ہے کہ یہ حدیث صحیح ہے اور مسلم کی شرط پہ ہے اور جن لوگوں نے اس کو معلول قرار دیا ہے ہمین ان کی کوئی دلیل نہیں ملی جس سے استدلال کیا جا سکے اور اس کی وجہ سے حدیث کو رد کیا جائے۔۔ ( مشکوۃ المصابیح ، بتحقیق البانی، جلد 1 صفحہ 254)۔


                            [ATTACH]105723[/ATTACH]

                            اس کے علاوہ اور بھی مھدثین ہیں جنہون نے اس روایت کو مسلم کی شرط پہ صحیح کہا ہے وہ حوالے پھر کبھی دوں گا۔
                            فی الحال صرف البانی رح کا حوالہ جو اس حدیث کو صھیح کہہ رہے ہیں اور عاصم بن کلیب کا مسلم کا حوالہ جس پہ آپ نے جرح نقل کی ہے۔
                            Click image for larger version

Name:	viewer.png
Views:	1
Size:	28.6 KB
ID:	2426608

                            امام بخاری نے بھی اس راوی پر جرح کی ہے اور ابن المديني نے وجہ بھی بیان کر دی ہے کہ
                            کسی روایت میں منفرد ہو تو اس کی روایت قابل قبول نہ ہوگی
                            دوسرے راوی سفيان
                            رتبته عند ابن حجر : ثقة حافظ فقيه عابد إمام حجة ، و كان ربما دلس
                            سفيان بن سعيد بن مسروق الثورى بلاشبہ ثقہ ہیں لیکن ان پر تدلیس کرنا ثابت ہے اور اصول ھدیث کے قاعدے کے مطابق اگر مدلس راوی صیغہ عن سے روایت کرے تو اس کی بیان کردہ روایت ضعیف ہوتی ہے اور اس حدیث میں وہ صیغہ عن سے روایت کر رہے ہیں اسی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔
                            http://www.islamghar.blogspot.com/

                            Comment


                            • #74
                              Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                              Originally posted by i love sahabah View Post

                              تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

                              محترمہ آپ تو سمجھدار تھی آپ کو کیا ہو گیا؟؟؟
                              ایسے حوالے تو لولی پیش کرتا ہے لیکن آپ کو لولی کی ہوا کیسے لگ گئی؟؟؟ آپ کی پوسٹ تو اچھی خاصی ہوتی تھی؟؟؟
                              یہ بھی وقت آنا تھا کہ زبیر زئی کو بچانے کے لئے ایک حنفی عبدالحی لکھنوی رح کا سہارا لینا پڑا آپ کو۔۔۔۔


                              محترمہ سب سے پہلے تو آپ کا اصول تو صرف قرآن اور حدیث ہے۔ آپ کو تو صحیح حدیث چایہے بھلے اسکے خلاف لکھنوی رح ہوں یا زبیر زئی آپ کو تو حدیث کو قبول کرنا چائیے پھر یہ لکھنوی رح کا حوالہ کیوں؟؟

                              دوسرا عبدالحی لکھنوی رح نے اس حدیث کو متکلم فیہ کہا ہے ابن عیاش کی وجہ سے اور اس کی دلیل میں انہوں نے حوالہ دیا ہے بخاری رح کا کہ آخری عمر میں ان کا حافظہ اختلاط کا شکار ہو گیا تھا۔۔۔
                              یہ اعتراض اس لئے غلط ہے کہ اگر ابن عیاش کے وھم اور اختلاط کیو جہ سے اس سند کو قبول نہ کیا جائے تو لازمی آتا ہے کہ بخاری کی بھی اس روایت کو قبول نہ کیا جائے جو اسی سند سے آئی ہے جو کہ میں نے اوپر پیش کی۔

                              لکھنوی رح سے رفع یدین ہونا راجح ہے لیکن وہ ترک رفع کے بھی قائل ہیں جس کا آپ انکار کرتے ہیں۔
                              اس کے علاوہ عبد الحی لکھنوی رھ خود رفع یدین اور ترک رفع دونوں کو سنت تسلیم کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ''نبی کریم ﷺ سے اور آپ کے صحابہ کرام سے رکوع میں جاتے وقت اور رکوع سے اٹھتے وقت رفع یدین صحیح احادیث سے ثابت ہے اور نیز ان حضرات سے ترک رفع یدین میں کوئی شک نہیں اور معاملہ آسان ہے''۔(السعایہ، جلد2 صفحہ 213)۔
                              جس کتاب کا حوالہ آپ نے دیا اس کتاب میں لکھتے ہیں کہ '' نبی کریم ﷺ سے رفع یدین اور ترک رفع دونوں ثابت ہیں اور اسی طرح ابن مسعود رضی اللہ اور ان کے اصحاب سے ترک رفع ثابت ہے، لہذا ہم رفع یدین کو سنت موکدہ ہونے کا مختار نہیں مانتے'' ۔(التعلیق الممجد، صفحہ 91)۔


                              اور میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ہمیں رفع یدین کے اثبات میں اختلاف نہیں،آپ کے ذمہ یہ ثابت کرنا ہے کہ مذکورہ رفع یدین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوام تھا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا آخری عمل تھا۔


                              ابن عمر رضی اللہ کی حدیث صحیح سند سے ترک رفع پہ واضح ہے تو آپ احادیث کو چھوڑ کر علماء کے حوالوں کی طرف جا کر اپنے ہی اصول قرآن اور حدیث کو چھوڑ رہے ہین۔

                              بلفرض اگر اس سند سے ابو بکر بن عیاش کا وھم اور اختلاط ثابت ہو بھی جائے تو کیا پھر آپ تسلیم کریں گے کہ بخاری کی روایت بھی اختلاط اور وھم کی وجہ سے مردود ہے؟؟؟؟؟؟

                              حدثنا أبو بكر بن عياش ، عن حصين ، عن مجاهد قال : « ما رأيت ابن عمر يرفع يديه إلا في أول ما يفتتح الصلاة

                              مصنف ابن ابی شیبہ

                              اس حدیث کو ضعیف میں نہیں بلکہ کبار محدثین نے کہا ہے اب آپ کے لئے حوالہ جات کتب محدثین سے پیش ہیں اس حدیث پر بحث کرتے ہوے امام اللبيهقي اپنی کتاب معرفة السنن والآثار میں فرماتے ہیں

                              وقد تكلم في حديث أبي بكر بن عياش محمد بن إسماعيل البخاري ، وغيره من الحفاظ

                              کہتے ہیں کی اس حدیث ابوبکر بن عیاش پر امام بخاری اور دوسرے حفاظ نے کلام کیا ہے

                              مما لو علمه المحتج به لم يحتج به على الثابت عن غيره أخبرنا أبو عبد الله الحافظ قال : أخبرنا محمد بن أحمد بن موسى البخاري قال : حدثنا محمود بن إسحاق قال : حدثنا محمد بن إسماعيل البخاري قال : والذي قال أبو بكر بن عياش ، عن حصين ، عن مجاهد ، عن ابن عمر في ذلك قد خولف فيه عن مجاهد .قال وكيع ، عن الربيع بن صبيح : « رأيت مجاهدا يرفع يديه » . وقال عبد الرحمن بن مهدي ، عن الربيع : « رأيت مجاهدا يرفع يديه إذا ركع ، وإذا رفع رأسه من الركوع » وقال جرير ، عن ليث ، عن مجاهد ، أنه : « كان يرفع يديه » هذا أحفظ عند أهل العلم .

                              قال : وقال صدقة : إن الذي روى حديث مجاهد أنه لم يرفع يديه إلا في أول التكبيرة ، كان صاحبه قد تغير بأخرة يريد أبا بكر بن عياش قال البخاري : والذي رواه الربيع ، وليث أولى مع رواية طاوس ، وسالم ، ونافع ، وأبي الزبير ، ومحارب بن دثار ، وغيرهم ، قالوا : « رأينا ابن عمر يرفع يديه إذا كبر ، وإذا ركع ، وإذا رفع »

                              کہتے ہیں اس سے دلیل نہیں لی جاے گی آگے امام بخاری اس کی وجہ بتاتے ہوے کہتے ہیں کہ اس لئے کہ ابو بکر بن عیاش یہ روایت مجاھد کے خلاف بیان کرتے ہیں کیوں کی مجاھد کا خود کا عمل رفع الیدین تھا نہ کی ترک رفع الیدین اور ان کے اس عمل کی تین اسناد سے تائید بھی کرتے ہیں اور کہتے ہیں کی اہل علم میں یہی بات معروف ہے اصل میں آخری عمر میں ابو بکر بن عیاش کا حافظہ خراب ہو گیا تھا اس وجہ سے اس نے روایت غلط بیان کی اور حضرت ابن عمر کا عمل تو رفع الیدین ہی تھا نہ کے ترک رفع الیدین جسے ان سے طاوس،سالم،نافع،ابن زبیر،محارب بن دثار اور دوسرے بیان کرتے ہیں کی عبداللہ بن عمر رفع الیدین کیا کرتے تھے تکبیر میں رکوع میں جاتے اور رکوع سے اٹھتے وقت۔

                              قال الشيخ أحمد ،وهذا الحديث في القديم كان يرويه أبو بكر بن عياش ، عن حصين ، عن إبراهيم ، عن ابن مسعود مرسلا . موقوفا ، ثم اختلط عليه حين ساء حفظه ، فروى ما قد خولف فيه ، فكيف يجوز دعوى النسخ في حديث ابن عمر بمثل هذا الحديث الضعيف

                              اس پوری عبارت سے ہمیں پتہ چلتا ہے کی اس حدیث کے بارے میں امام احمد بن حنبل کہتے ہیں کی پہلے ابو بکر بن عیاش اس روایت کو عبداللہ بن مسعود سے مرسل اور موقوف روایت کرتا تھا پر جب یہ اختلاط کا شکار ہوا اور اس کا حافظہ خراب ہوا تو اس کو اس طرح بیان کرنے لگا۔اور ابن عمر کے قریبی لوگوں نے اس کے خلاف بیان کیا ہے۔اور یہ حدیث ضعیف ہے اس قسم کی ضعیف روایت سے ابن عمر کی رفع الیدین کی روایت کو کیسے منسوخ کہا جا سکتا ہے

                              الكتاب : معرفة السنن والآثار للبيهقي

                              اس پوری بات سے یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کے اس روایت سے ترک رفع الیدین پر دلیل قائم کرنا انتہائی درجے کی لا علمی کا ثبوت ہے۔جیسے کے احناف کا اصول ہےکہ راوی اپنی بیان کی ہوئی روایت کو سب سے بہتر جانتا ہے اور اس روایت کے پہلے راوی جناب مجاھد کا خود کا عمل با سند صحیح رفع الیدین ہے نہ کہ ترک رفع الیدین تو احناف کے اپنے اصول پر بھی یہ روایت ضعیف ٹھہرتی ہے۔اب ہم کچھ حوالہ جات نصب الرایہ سے پیش کرتے ہیں

                              وَإِذَا رَفَعَ ، وَكَانَ يَرْوِيهِ أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ قَدِيمًا عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ إبْرَاهِيمَ عَنْ ابْنِ مَسْعُودٍ مُرْسَلًا مَوْقُوفًا : أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إذَا افْتَتَحَ الصَّلَاةَ ، ثُمَّ لَا يَرْفَعُهُمَا بَعْدُ ، وَهَذَا هُوَ الْمَحْفُوظُ عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ ، وَالْأَوَّلُ خَطَأٌ فَاحِشٌ لِمُخَالَفَتِهِ الثِّقَاتِ مِنْ أَصْحَابِ ابْنِ عُمَر

                              پہلے ابو بکر بن عیاش اس روایت کو عبداللہ بن مسعود سے مرسل اور موقوف روایت کرتا تھا اور یہ بات محفوظ ہےاور یہ بات خطا فاحش ہے کیوں کی اس نے ابن عمر کے اصحاب کی مخالفت کی ہے۔


                              نصب الرایہ
                              http://www.islamghar.blogspot.com/

                              Comment


                              • #75
                                Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                                اور (دوسری سند سے امام بخاری رح فرماتے ہیں) کہا کہ مجھ سے لیث نے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمد کے واسطہ سے بیان کی. ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
                                کہ وہ چند صحابہ (رضی الله عنھم) کے ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے. نماز_نبوی کا ذکر ہوا تو (صحابی_رسول) حضرت ابو حمید ساعدی (رض) نے کہا کہ مجھے نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی نماز (کی تفصیلات) تم سب سے زیادہ یاد ہے....میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک اٹھائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو اس حد تک سیدھے ہوگئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ رخ کرلی تھیں، پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑا کر لیا، جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کرلیا، اور اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے

                                [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ, رقم الحديث: 789(828

                                اس صحیح سند والی حدیث میں نبی کی نماز میں نماز کے شروع میں رفع یدین کے علاوہ کا ذکر نہیں۔
                                اور بخاری شریف کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف پہلی دفع کا رفع یدین کیا۔
                                کیا آپ اس حدیث کو مانتے ہیں؟؟؟
                                جی ہان بلکل ہم اس حدیث کو مانتے ہیں.
                                مگر اس میں تو سلام پھیرنے کا بھی ذکر نہیں ہے؟؟؟ کیا سلام پھیرنے کا حکم بھی منسوخ ہے؟؟؟
                                http://www.islamghar.blogspot.com/

                                Comment

                                Working...
                                X