Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #46
    Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

    Originally posted by i love sahabah View Post

    ہمارا جس رفع یدین پہ اختلاف ہے وہ فرض نماز کے لئے ہے
    کیوں کے جب کوئی شخص نماز کا لفظ بولتا ہے تو اس سے عام نماز یعنی پانچ وقتوں میں پڑھی جانے والی نماز مراد ہوتی ہے




    میرے بھائی. کیا کوئی فرض نماز کی حدیث دیکھا سکتے ہیں جس میں ذکر ھو کہ حضور صلی اللہ وسلم نے فرض نماز پڑھی ھو اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی رفح یدین نا کیا ھو




    Comment


    • #47
      Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

      Originally posted by lovelyalltime View Post

      میرے بھائی. کیا کوئی فرض نماز کی حدیث دیکھا سکتے ہیں جس میں ذکر ھو کہ حضور صلی اللہ وسلم نے فرض نماز پڑھی ھو اور تکبیر تحریمہ کے علاوہ کوئی رفح یدین نا کیا ھو

      واہ لولی واہ۔۔۔۔۔۔۔
      آپ سے ایسے ہی سوال کی توقع کی جا سکتی ہے
      ،،،
      میں نے کہا تھا کہ آپ کبھی بھی میری پوسٹ کا جواب نہیں دو گے اور آپ نے نہیں دیا۔۔۔

      معذرت کے ساتھ کہنا چاہتا ہوں کہ آپ کا یہ سوال پڑھ کو مجھے قادیانیوں کی یاد آ گئی۔۔۔


      مرزا قادیانی کہتا ہے کہ عیسیٰ علیہ سلام وفات پا گئے ہیں۔۔
      پھر سوال مسلمانوں سے کیا جاتا ہے کہ اگر عیسی علیہ سلام زندہ ہیں تو ثبوت دو۔۔
      جب آیت پیش کر دیں تو کہتے ہیں کہ آسمان کا لفظ دکھاؤ۔۔۔
      جب حدیث میں آسمان کا لفظ بھی دکھا دیا جائے تو کہتے ہین کہ وہ وہاں کیا کھاتے ہوں گے۔۔۔
      قادیانیوں کو 100 دلایل دو قرآن اور حدیث سے ان کے جاہلانہ سوالات ختم نہیں ہوں گے۔۔۔
      اور خود قادیانی کبھی بھی کسی سوال کا جواب نہیں دیں گے۔۔۔


      ْلولی صاحب آپ بھی ایسا ہی کر رہے ہو۔۔

      آپ نے نہ میری پہلی پوسٹ کا جواب دیا اور نہ ہئ دوسری پوسٹ کا۔۔۔
      آپ نے وتروں کی حدیث کی رفع یدین کی دلیل مانگی تھی جو میں نے پیش کی تو اب آپ نے الٹا سوال کر دیا اور میری پوسٹ کا جواب نہیں دیا۔۔۔۔۔۔


      آپ کے اس سوال کے جواب میں یہی پوچھوں گا کہ برائے مہربانی قرآن اور حدیث سے صرف فرض نماز کی تعریف کر دیں تاکہ پتہ چلے کہ فرض نماز کسے کہتے ہیں ؟؟؟؟؟؟
      پھر اس فرض نماز کے رفع یدین پہ بات کرتے ہیں پہلے فرض نماز کی تعریف کر دیں۔


      Comment


      • #48
        Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

        Originally posted by i love sahabah View Post


        ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی حدیث بخاری شریف میں بھی ہے جس میں صرف پہلی دفع کا رفع یدین ہے۔

        (امام بخاری رح فرماتے ہیں کہ) ہم سے یحییٰ بن بکیر نے حدیث بیان کی کہا کہ ہم سے لیث نے خالد کے واسطہ سے (حدیث بیان کی) ان سے سعید نے ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
        اور (دوسری سند سے امام بخاری رح فرماتے ہیں) کہا کہ مجھ سے لیث نے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمد کے واسطہ سے بیان کی. ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
        کہ وہ چند صحابہ (رضی الله عنھم) کے ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے.
        نماز_نبوی کا ذکر ہوا تو (صحابی_رسول) حضرت ابو حمید ساعدی (رض) نے کہا کہ مجھے نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی نماز (کی تفصیلات) تم سب سے زیادہ یاد ہے....میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک اٹھائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو اس حد تک سیدھے ہوگئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ رخ کرلی تھیں، پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑا کر لیا، جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کرلیا، اور اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے

        [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ, رقم الحديث: 789(828

        اس صحیح سند والی حدیث میں نبی کی نماز میں نماز کے شروع میں رفع یدین کے علاوہ کا ذکر نہیں۔
        اور بخاری شریف کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف پہلی دفع کا رفع یدین کیا۔
        کیا آپ اس حدیث کو مانتے ہیں؟؟؟





        میرے بھائی

        میں یہی تو پوچھ رہا ہوں کہ جو حدیث آپ پیش کر رھے ھو اور مجھ سے پوچھ رھے ھو کہ میں مانتا ہوں کہ نہیں

        یہ تو بتا دیں کہ یہ حدیث کس نماز کے بارے میں ہے

        فرض

        سنّت

        وتر

        نفل

        کس نماز کے بارے میں ہے یہ حدیث

        کیوں کہ آپ پیچھے کہہ چکے ہیں

        Originally posted by i love sahabah View Post



        ہمارا جس رفع یدین پہ اختلاف ہے وہ فرض نماز کے لئے ہے


        کیوں کے جب کوئی شخص نماز کا لفظ بولتا ہے تو اس سے عام نماز یعنی پانچ وقتوں میں پڑھی جانے والی نماز مراد ہوتی ہے نہ کہ وتر یا عیدین کی۔





        اور یہ بھی بتا دیں کہ اختلاف کیا ہے

        رفح یدین منسوخ ہے

        یا کرنا اور نا کرنا دونوں صحیح ہیں

        فقہ حنفی میں تکبیر تحریمہ کے علاوہ رفح یدین منسوخ ہے

        پلیز یہ بتا دیں کہ فقہ حنفی میں
        رفح یدین کس نماز میں منسوخ ہے

        فرض
        سنّت
        وتر
        وغیرہ


        کیوں کہ


        آپ کے امام محمّد رحم اللہ ہی فرما رھے ہیں

        حضرت امام محمد رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا “سنت یہ ہے کہ جب کوئی اپنی نماز میں جھکے اور جب بلند ہو تکبیر کہے اور جب سجدہ کے لئے جھکے تکبیر کہے اور جب دوسرے سجدے کے لئے جھکے تکبیر کہے لیکن رفع الیدین نماز میں ایک بار ہے وہ یوں کہ صرف نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے برابر اٹھائے ۔ یہی امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ اس مسئلہ میں بہت سے آثار موجود ہیں۔“


        (موطاء امام محمدصفحہ نمبرنوے)

        Comment


        • #49
          Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

          تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

          لولی پہلے کی طرح تم نے میری پوسٹ کا جواب نہیں دیا کیونکہ تمہارے پاس جواب نہیں ہے۔۔۔
          تم نے وتر کے رفع یدین کے بارے میں کہا تو میں نے اس کی حدیث پیش کی لیکن تم نے جواب نہیں دیا۔۔۔
          امام محمد کا حوالہ واضح ہے جو احناف کا موقف ہے کہ صرف پہلی دفع رفع یدین کرنا چاہیے۔۔۔۔۔
          تم نے امام بخاری رح کی روایت کا بھی جواب نہیں دیا۔۔۔
          تم نے ابھی تک رفع یدین کی حیثیت بھی نہیں بتائی کہ کیا ہے؟؟؟؟؟


          ہمارے نزدیک تو تم رفع یدین کرو پھر بھی نماز میں کوئی فرق نہیں پڑتا لیکن یہ تم لوگ ہو جو رفع یدین نہ کرنے پہ ہم پہ حدیث کی مخالفت کا الزام لگاتے ہو۔۔۔

          لولی پہلے واضح بتاؤ کہ رفع یدین کی نماز میں کیا حیثیت ہے ؟؟؟ سنت، واجب، مستحب یا فرض۔۔
          اس کے بعد آگے بات کرو۔۔
          اور اگر بات فرض نماز کی ہے تو پہلے فرض نماز کی تعریف کرو۔۔۔
          میں تمہاری ہر پوسٹ کا جواب دے رہا ہوں اس کا مطلب یہ نہیں کہ تم میری پوسٹ کا جواب نہ دو۔۔۔

          اب جب تک تم میری پوسٹ کا جواب نہیں دو گے میں تمہاےر سوالوں کا جواب نہیں دوں گا۔۔۔



          لولی تم نے احادیث پیش کی رفع یدین پہ بلکل صحیح ۔۔
          نبی کریم ﷺ سے رفع یدین مختلف جگہ پہ مروی ہے اور احادیث سے ثابت ہے۔
          تو میں بھی رفع یدین پہ کچھ احادیث پیش کر رہا ہوں۔۔
          اب آپ بتاؤ کہ ان احادیث کے بارے میں کیا کہتے ہو؟؟؟


          لولی آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی تو ابن عمر رضی اللہ سے صرف پہلی تکبیر کا رفع یدین صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔
          حوالہ یہ ہے۔


          حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد قَالَ : ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنْ الصَّلَاةِ
          (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)؛
          ترجمہ : حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔

          تو یہ ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے نبیؐ کو (نماز میں) ہاتھ اٹھاتے ہوۓ دیکھا لیکن نبیؐ کے بعد ہاتھ اٹھانا چھوڑدیا تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب آپؓ کے نزدیک نبیؐ کا عمل منسوخ ہو چکا ہو جو آپؓ نے دیکھا تھا اور اس کے خلاف دلیل قائم ہوگئی.



          (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ "
          حضرت علقمہ رحمہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضر ت عبد الله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں حضور صلی الله علیہ وسلم جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ چنانچہ آپ نے نماز پڑھی اور پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ کے وقت) رفع یدین کر نے کے علاوہ کسی اور جگہ رفع یدین نہیں کیا



          آپ نے حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی روایت پیش کی تو ان کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔

          ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی حدیث بخاری شریف میں بھی ہے جس میں صرف پہلی دفع کا رفع یدین ہے۔

          (امام بخاری رح فرماتے ہیں کہ) ہم سے یحییٰ بن بکیر نے حدیث بیان کی کہا کہ ہم سے لیث نے خالد کے واسطہ سے (حدیث بیان کی) ان سے سعید نے ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
          اور (دوسری سند سے امام بخاری رح فرماتے ہیں) کہا کہ مجھ سے لیث نے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمد کے واسطہ سے بیان کی. ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
          کہ وہ چند صحابہ (رضی الله عنھم) کے ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے. نماز_نبوی کا ذکر ہوا تو (صحابی_رسول) حضرت ابو حمید ساعدی (رض) نے کہا کہ مجھے نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی نماز (کی تفصیلات) تم سب سے زیادہ یاد ہے....میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک اٹھائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو اس حد تک سیدھے ہوگئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ رخ کرلی تھیں، پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑا کر لیا، جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کرلیا، اور اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے

          [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ, رقم الحديث: 789(828

          اس صحیح سند والی حدیث میں نبی کی نماز میں نماز کے شروع میں رفع یدین کے علاوہ کا ذکر نہیں۔
          اور بخاری شریف کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف پہلی دفع کا رفع یدین کیا۔
          کیا آپ اس حدیث کو مانتے ہیں؟؟؟


          اور برائے مہربانی اگر کچھ اعتراض کرنا ہے تو اپنے اصول صرف قران اور حدیث کو یاد رکھنا۔۔



          اور رہی بات وتر کے رفع یدین کی تو جناب وتر کا رفع یدین احادیث میں آیا ہے۔

          اسود سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ وتر کی آخری رکعت میں (قل ھو اللہ ھواحد) پڑھتے اور پھر رفع یدین کرتے اور پھر قنوت پڑھتے۔( مجمع الزوائد، رقم 3471، جلد 2 صفحہ ،244)، ( معجم الکبیر للطبرانی، جلد9 صفحہ 283)، ( جز رفع یدین للبخاری، صفحہ 145، رقم 163) ۔
          اسود سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ نماز وتر میں قنوت سے پہلے رفع یدین کرتے تھے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 2 صفحہ 307)۔

          مغنی ابن قدامہ میں بھی ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ قنوت سے پہلے رفع یدین کرتے تھے۔( مغنی ابن قدامہ، جلد 2، صفحہ 584)۔


          اگر آپ کو وتر کے رفع یدین سے اختلاف ہے تو وتروں کے رفع یدین کی منع دکھا دیں۔

          Comment


          • #50
            Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

            Originally posted by i love sahabah View Post
            میں بھی رفع یدین پہ کچھ احادیث پیش کر رہا ہوں۔۔
            اب آپ بتاؤ کہ ان احادیث کے بارے میں کیا کہتے ہو؟؟؟


            لولی آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی تو ابن عمر رضی اللہ سے صرف پہلی تکبیر کا رفع یدین صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔
            حوالہ یہ ہے۔


            حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد قَالَ : ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنْ الصَّلَاةِ
            (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)؛
            ترجمہ : حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔

            تو یہ ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے نبیؐ کو (نماز میں)
            ہاتھ اٹھاتے ہوۓ دیکھا لیکن نبیؐ کے بعد ہاتھ اٹھانا چھوڑدیا تو یہ
            اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب آپؓ کے نزدیک نبیؐ کا عمل منسوخ ہو چکا ہو جو آپؓ نے دیکھا تھا اور اس کے خلاف دلیل قائم ہوگئی.





            میرے بھائی مجھے تو کاپی اور پسٹ کا کہتے ھو اور خود

            یہاں سے کاپی اور پسٹ کرتے ھو

            http://www.ownislam.com/articles/urd...n-q-nahi-karte

            Comment


            • #51
              Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

              Originally posted by i love sahabah View Post

              میں بھی رفع یدین پہ کچھ احادیث پیش کر رہا ہوں۔۔
              اب آپ بتاؤ کہ ان احادیث کے بارے میں کیا کہتے ہو؟؟؟


              حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد قَالَ : ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنْ الصَّلَاةِ

              (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)؛

              ترجمہ : حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔
              Originally posted by i love sahabah View Post





              جواب: یہ روایت قاری ابو بکر بن عیاش رحمہ الله کے وہم و خطا کی وجہ سے ضعیف ہے اور دو وجہ سے مردود ہے

              ١: امام احمد حنبل، امام یحییٰ بن معین اور امام دار قطنی نے اس روایت کو وہم اور باطل وغیرہ قرار دیا اور کسی ایک قابل اعتماد محدث نے اس کی تصحیح نہیں کی اور اگر کسی چھوٹے سے محدث سے ثابت بھی ہو جائے تو جمہور کے مقابلے میں مردود ہے.

              ٢: بہت سے ثقہ راویوں اور صحیح و حسن لذاتہ سندوں سے ثابت ہے کہ سیدنا عمر رضی الله عنہ نماز میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے، جن میں سے ان کے چند شاگردوں کے حوالے درج ذیل ہیں

              امام نافع المدنی رحمہ الله، امام محارب بن دثار الکوفی رحمہ الله، امام طاؤس بن کیسان الیما نی رحم الله، امام سالم بن عبد الله بن عمر المدنی رحمہ الله اور امام ابو الزبیر المکی رحمہ الله.

              (دیکھئے نور العینین ص ١٥٩)

              ثقہ راویوں کے خلاف وہم و خطا والی روایت منکر و مردود ہوتی ہے.


              رفع یدین پر خیر القرون میں مسلسل عمل

              سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نماز میں کھڑے ہوتے تو کندھوں تک رفع یدین کرتے، رکوع کرتے وقت بھی آپ اسی طرح کرتے تھے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح کرتے تھے.


              (صحیح بخاری ج١ ص ١٠٢ ح ٧٣٦، صحیح مسلم ٣٩٠)

              اس حدیث کے راوی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ بھی شروع نماز، رکوع سے پہلے ، رکوع کے بعد اور دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو رفع یدین کرتے تھے اور فرماتے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے.


              (صحیح بخاری ٧٣٩، شرح السنتہ للبغوی ٣/٢١ ح ٥٦٠ وقال: هذا حدیث صحیح)

              Comment


              • #52
                Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                Originally posted by i love sahabah View Post


                حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ "

                حضرت علقمہ رحمہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضر ت عبد الله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں حضور صلی الله علیہ وسلم جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ چنانچہ آپ نے نماز پڑھی اور پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ کے وقت) رفع یدین کر نے کے علاوہ کسی اور جگہ رفع یدین نہیں کیا




                اس روایت کی سند دو وجہ سے ضعیف ہے

                اول: امام سفیان بن سعید بن مسروق الثو ری رحمہ الله ثقہ عابد ہونے کے ساتھ مدلس بھی تھے، جیسا کہ احمد مدنی دیوبندی نے کہا

                "اور سفیان تدلیس کرتا ہے." الخ

                (تقریر ترمزی اردو ص ٣٩١، ترتیب محمد عبد القادر قاسمی دیوبندی)

                ابن الترکمانی حنفی نے ایک روایت کے بارے میں لکھا ہے

                "الثوری مدلس وقد عنعن "

                ثوری مدلس ہیں اور انہوں نے یہ روایت عن سے بیا ن کی ہے.

                (الجواہر النقی ج٨ ث ٣٦٢)

                امام سفیان ثوری کو مسٹر امین اکاڑوی نے بھی مدلس قرار دیا ہے.

                (دیکھئے تجلیات صفدر ج ٥ ث ٤٧٠)

                یہ روایت عن سے ہے اور اصول حدیث کا مشہور مسلہ ہے کہ مدلس کی عن والی روایت ضعیف ہوتی ہے.

                (مثلاً دیکھئے نزہتہ النظر شرح نخبتہ الفکر ث ٦٦ مع شرح الملا علی القاری ٤١٩)

                دوم: اس روایت کو جمہور محدثین نے ضعیف ، خطا اور وہم وغیرہ قرار دیا ہے، جن میں سے بعض کے نام درج ذیل ہیں
                عبداللہ بن المبارک، شافعی، احمد بن حنبل، ابو حاتم الرازی، دار قطنی، ابن حبان، ابو داود السجتانی، بخاری، عبد الحق اشبیلی، حاکم منیشا پوری اور بزار وغیر ہم.

                (دیکھئے نور العینین ث ١٣٠-١٣٤)

                Comment


                • #53
                  Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                  Originally posted by i love sahabah View Post


                  آپ نے حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی روایت پیش کی تو ان کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔

                  ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی حدیث بخاری شریف میں بھی ہے جس میں صرف پہلی دفع کا رفع یدین ہے۔

                  (امام بخاری رح فرماتے ہیں کہ) ہم سے یحییٰ بن بکیر نے حدیث بیان کی کہا کہ ہم سے لیث نے خالد کے واسطہ سے (حدیث بیان کی) ان سے سعید نے ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
                  اور (دوسری سند سے امام بخاری رح فرماتے ہیں) کہا کہ مجھ سے لیث نے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمد کے واسطہ سے بیان کی. ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
                  کہ وہ چند صحابہ (رضی الله عنھم) کے ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے.
                  نماز_نبوی کا ذکر ہوا تو (صحابی_رسول) حضرت ابو حمید ساعدی (رض) نے کہا کہ مجھے نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی نماز (کی تفصیلات) تم سب سے زیادہ یاد ہے....میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک اٹھائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو اس حد تک سیدھے ہوگئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ رخ کرلی تھیں، پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑا کر لیا، جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کرلیا، اور اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے

                  [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ, رقم الحديث: 789(828

                  اس صحیح سند والی حدیث میں نبی کی نماز میں نماز کے شروع میں رفع یدین کے علاوہ کا ذکر نہیں۔
                  اور بخاری شریف کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف پہلی دفع کا رفع یدین کیا۔
                  کیا آپ اس حدیث کو مانتے ہیں؟؟؟



                  صحیح بخاری کی اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کے ترک کا کوئی ذکر نہیں

                  صحیح بخاری والی روایت دوسری سند سے سنن ابی داود اور سنن ترمزی وغیرہ میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کے اثبات سے موجود ہے

                  میرے بھائی نے

                  حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ


                  کی حدیث تو بیان کی لکن
                  اس حدیث سے انہوں نے
                  رفع یدین کے ترک
                  ہونے کا کیسے اندازہ لگا لیا

                  حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ

                  سے تو اور احادیث بھی روایت ھیں
                  لکن اس میں تو
                  رفع یدین کا ذکر موجود ہے
                  کتاب سنن ابوداؤد جلد 1 حدیث نمبر 726


                  احمد بن حنبل، ابوعاصم، ضحاک بن مخلد، مسدد، یحی، احمد، عبدالحمید، ابن جعفر، محمد بن عمر بن عطاء، حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دس صحابہ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابوقتادہ بھی تھے ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق میں تم میں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں صحابہ نے کہا وہ کیسے؟ بخدا تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تم ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے ابوحمید نے کہا ہاں یہ درست ہے صحابہ نے کہا اچھا تو پھر بیان کرو ابوحمید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر آجاتی اس کے بعد قرات شروع فرماتے پھر (رکوع) کی تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے اور رکوع میں دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور پشت سیدھی رکھتے سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ اونچا رکھتے۔ پھر سر اٹھاتے اور ۔سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ کہتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکتے (سجدہ کرتے) اور (سجدہ میں) دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے پھر (سجدہ سے) سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے اور سجدہ کے وقت پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے اور اللہ اکبر کہہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آجاتی (پھر کھڑے ہوتے) اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے پھر جب دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور مونڈھوں تک دونوں ہاتھ اٹھاتے جس طرح کہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھائے تھے اور تکبیر کہی تھی پھر باقی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ جب آخری سجدہ سے فارغ ہوتے یعنی جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بایاں پاؤں نکالتے اور بائیں کولھے پر بیٹھتے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔


                  کتاب جامع ترمذی جلد 1 حدیث نمبر 286


                  محمد بن بشار، محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، عبدالحمید بن جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء، ابوحمید ساعدی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ابوحمید کو کہتے ہوئے سنا اس وقت وہ وہ دس صحابہ میں بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابوقتادہ ربعی بھی شامل ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے بارے میں تم سب سے زیادہ جانتا ہوں صحابہ نے فرمایا تم نہ حضور کی صحبت میں ہم سے پہلے آئے اور نہ ہی تمہاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں زیادہ آمد ورفت تھی ابوحمید نے کہا یہ تو صحیح ہے صحابہ نے فرمایا بیان کرو ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جاتے جب رکوع کرنے لگتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جاتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہہ کر رکوع کرتے اور اعتدال کے ساتھ رکوع کرتے نہ سر کو جھکاتے اور نہ اونچا کرتے اور دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور ہاتھوں کا اٹھاتے اور معتدل کھڑے ہوتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پہنچ جاتی پھر سجدہ کے لئے زمین کی طرف جھکتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہتے اور بازؤں کو بغلوں سے علیحدہ رکھتے اور پاؤں موڑ کو اس پر اعتدال کے ساتھ بیٹھ جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر پہنچ جاتے پھر سجدے کے لئے سر جھکاتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہتے پھر کھڑے ہو جاتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب دونوں سجدوں سے اٹھتے تو تکبیر کہتے اور دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے جیسے کہ نماز کے شروع میں کیا تھا پھر اسی طرح کرتے یہاں تک کہ ان کی نماز کی آخری رکعت آجاتی چنانچہ بائیں پاؤں کو ہٹاتے اور سیرین پر بیٹھ جاتے اور پھر سلام پھیر دیتے امام ابوعیسی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور إِذَا السَّجْدَتَيْنِ سے مراد یہ ہے کہ جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو رفع یدین کرتے



                  کیا میرا بھائی یہ بتا سکتا ہے کہ

                  حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ

                  سے روایت کردہ دوسری احادیث ٹھیک ہیں
                  یا نہیں

                  اب میرا بھائی یہ بھی بتایے

                  کہ صحیح بخاری والی احادیث جو اس نے پیش کی

                  حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ

                  والی

                  اس میں

                  رفع یدین

                  کے ترک ہونے کا اس کو کیسے پتا چلا


                  یہ بات تو آپ کے علماء بھی مان رھے ہیں کہ

                  محمد قاسم نانوتوی

                  بانی مدرسہ دیوبند نے لکھا

                  مذکور نہ ہونا معدوم ہونے کی دلیل نہیں ہے

                  http://kr-hcy.com/forum/books/radd-e...Nanotvi%5D.pdf

                  (ہدیتہ الشیعہ ص ١٩٩،٢٠٠)



                  اس کی مثال آپ کو ایسے دوں گا کہ



                  اب یہ والی حدیث بھی صحیح بخاری کی ہے


                  اس میں تو پہلی والی تکبیر میں ہاتھ اٹھا نے کا ذکر نہیں ہے


                  صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 719

                  محمد بن بشار، یحیی ، عبید اللہ ، سعید بن ابی سعید، ابی سعید (مقبری) ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) مسجد میں تشریف لے گئے اسی وقت ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا، آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ جا نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ لوٹ گیا اور اس نے نماز پڑھی جیسے اس نے پہلے پڑھی، پھر آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا، آپ نے فرمایا کہ نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ (اسی طرح) تین مرتبہ (ہوا) تب وہ بولا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے بہتر ادا نہیں کرسکتا۔ لہٰذا آپ مجھے تعلیم کر دیجئے، آپ نے فرمایا جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، اس کے بعد جتنا قرآن تم کو یاد ہو اس کو پڑھو، پھر رکوع کرو، یہاں تک کہ رکوع میں اطمینان سے ہو جاؤ، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ میں اطمینان سے ہوجاؤ، پھر سر اٹھاؤ، یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرو۔


                  کیا اس حدیث کی بنیاد پر ہم

                  پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھا نے کو منسوخ

                  سمجھ لیں

                  Comment


                  • #54
                    Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                    Originally posted by lovelyalltime View Post

                    میرے بھائی مجھے تو کاپی اور پسٹ کا کہتے ھو اور خود

                    یہاں سے کاپی اور پسٹ کرتے ھو

                    ہم سنی مسلمان رفع یدین کیوں نہیں کرتے؟

                    لولی عرف مسٹر کاپی پیسٹ:اگر تم آنکھیں کھول کے اسی لنک کو دیکھ لیتے تو تمہیں پتہ چلتا کہ میں نے کاپی پیسٹ نہیں کیا۔۔۔
                    تم نے ابن عمر رضی اللہ عنہ والی روایت کے بارے میں کہا ہے کہ وہ کاپی پیسٹ کی ہے تو جناب ذرا آنکھیں کھولو اور تعصب کی پٹی ہٹاو۔
                    میری ابن عمر رضی اللہ کی روایت اور اس لنک میں ابن عمر رضی اللہ کی روایت دیکھو تو تمہیں فرق پتا چل جائے گا۔


                    میں نے یہ روایت اس طرح پیش کی تھی۔

                    '''
                    حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد قَالَ : ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنْ الصَّلَاةِ
                    (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)؛
                    ترجمہ : حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔

                    تو یہ ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے نبیؐ کو (نماز میں)
                    ہاتھ اٹھاتے ہوۓ دیکھا لیکن نبیؐ کے بعد ہاتھ اٹھانا چھوڑدیا تو یہ
                    اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب آپؓ کے نزدیک نبیؐ کا عمل منسوخ ہو چکا ہو جو آپؓ نے دیکھا تھا اور اس کے خلاف دلیل قائم ہوگئی'''۔


                    اس لنک میں اس روایت کی نہ تو سند ہے اور نہ ہی تبصرہ۔۔۔
                    جھوٹے الزامات مت لگایا کرو۔۔

                    Comment


                    • #55
                      Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                      لولی صاحب ایک ایک کر کے روایت پہ بات کرتے ہیں تا کہ سب کو سمجھ آ سکے اس لئے پہلے ابن عمر رضی اللہ کی روایت پہ ہی بات کرتے ہیں اس کے بعد اگلی روایت ابن مسعود رضی اللہ پہ جرح کا جواب میں پیش کروں گا۔
                      سب سے پہلے تو میری روایت دیکھیں جس پہ تم نے جرح نقل کی۔


                      حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد قَالَ : ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنْ الصَّلَاةِ
                      (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)؛
                      ترجمہ : حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔


                      Originally posted by lovelyalltime View Post
                      جواب: یہ روایت قاری ابو بکر بن عیاش رحمہ الله کے وہم و خطا کی وجہ سے ضعیف ہے اور دو وجہ سے مردود ہے

                      لولی صاحب آپ کا اصول تو صرف قران اور حدیث ہے لیکن آپ قرآن اور حدیث چھوڑ کر علماء اور محدثین کے حوالے دے رہے ہیں۔
                      اپ کا اصول قران اور حدیث کہاں گیا؟؟؟


                      دوسرا آپ نے یہ تمام جرح زبیر علی زئی کی کتاب نور العینین سے نقل کر دی ہے اور آپ نے بھی زبیر زئی کی جرح بنا تحقیق نقل کر دی ہے۔
                      آپ کو مبارک ہو کہ آپ نے اور آپ کے زبیر زئی نے بخاری شریف کے راوی کی روایت کو جھٹلا دیا۔۔
                      آپ زبیر زئی کی کتابیں ہی پڑھتے رہے، کاش آپ زبیر زئی کی کتابوں کی بجائے احادیث کی کتابوں کو پڑھ لیتے تو آپ کو پتہ چلتا کہ یہ راوی بخاری کے راوی ہیں جس پہ آپ کے زبیر زئی جرح کر رہے ہیں۔


                      امام ابوبکر بن عیاش صحیح بخاری ،صحیح مسلم (مقدمہ) اور سنن اربعہ کے راوی ہیں، عند الجمہور "ثقہ" ہیں۔ امام عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل ، امام عثمان دارمی، امام ابوحاتم الرازی، امام ابن حبان، امام ابن عدی، امام عجلی، امام ابن سعد، امام سفیان ثوری، امام یعقوب بن شیبہ، امام ساجی رحمہم اللہ وغیرہ نے ان کی تعدیل و توثیق اور مدح وثناء کی ہے۔
                      تہذیب التہذیب ج 7ص 320 تا366 )

                      لولی اگر اس روایت پہ اعتراض ہے تو ابو بکر بن عیاش کی بخاری شریف کی روایات کا انکار کر دو۔
                      تمام ممبران دیکھ سکتے ہیں کہ یہ جناب بخاری بخاری کی رٹ لگانے والے خود بخاری شریف کے راویوں پہ جرح کر رہے ہیں۔

                      لولی کیا بخاری کی روایات کو ضعیف تسلیم کرتے ہو امام ابو بکر بن عیاش کے وھم اور خطاء کی وجہ سے؟؟؟؟؟


                      Click image for larger version

Name:	RAfa=Tahaavi 2.jpg
Views:	1
Size:	381.9 KB
ID:	2426589


                      جو سند میں نے پیش کی ہے مجاھد رح کے علاوہ بلکل وہی سند بخاری شریف میں بھی موجود ہے۔
                      لولی ذرا بخاری کا حوالہ دیکھ لو۔


                      حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْأَنْصَارِ الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُهَاجِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيَعْفُوَ عَنْ مُسِيئِهِمْ.
                      { كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ – بَاب وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ}



                      Click image for larger version

Name:	00000000000000000.jpg
Views:	3
Size:	219.8 KB
ID:	2426590

                      Originally posted by lovelyalltime View Post
                      امام احمد حنبل، امام یحییٰ بن معین اور امام دار قطنی نے اس روایت کو وہم اور باطل وغیرہ قرار دیا اور کسی ایک قابل اعتماد محدث نے اس کی تصحیح نہیں کی اور اگر کسی چھوٹے سے محدث سے ثابت بھی ہو جائے تو جمہور کے مقابلے میں مردود ہے.

                      جناب لولی صاحب ! جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ اس روایت کے راوی بلکل صحیح ہیں تو اگر امام احمد حنبل، امام یحییٰ بن معین اور امام دار قطنی کی جرح ابوبکر بن عیاش کے وھم کی وجہ سے اگر یہ روایت باطل ہے تو یہی ابوبکر بن عیاش کی انہی راویں سے روایت بخاری شریف میں بھی ہے جس کا حوالہ میں نے پیش کیا ہے تو اس روایت کو بھی باطل قرار دے دیں۔


                      اور امام احمد حنبل، امام یحییٰ بن معین اور امام دار قطنی کا اس روایت کو ابوبکر بن عیاش کی وجہ سے وہم وغیرہ کهنا، تو عرض ہے کہ امام نووی نے مختلط روات کے متعلق قاعدہ بیان کرتے ہوے فرمایا ہے کہ صحیحین میں مختلط روات کی جو روایات لی گئی ہیں وہ قبل الاختلاط اخذ پر محمول ہیں۔
                      (تہذیب الاسماء للنووی ج 6ص 040)
                      اور ہماری پیش کردہ روایت عن ابن ابی شیبہ ابی بکر بن عیاش کے طریق سے مروی ہے اور یہی طریق صحیح بخاری (ج 6ص 074) میں موجود ہے۔ معلوم ہو کہ یہ روایت قبل الاختلاط مروی ہے۔ پس وہم والا اعتراض بھی باطل ہے۔


                      کیونکہ اگر آپ وھم کی وجہ سے اس روایت کو باطل کہتے ہین تو پھر بخاری کی اس روایت کو بھی باطل کہہ دیں جو اسی سند سے آئی ہے؛۔


                      اپ نے محدثین کے حوالے دئے تو میں بھی جواب کے طور پہ محدثین کے حوالے دیتا ہوں۔
                      علامہ ابن حجر رح رفع یدین کرنے اور نہ کرنے کی احادیث بیان کر کے لکھتے ہیں کہ دونوں روایات کا مفہوم یہ ہے کہ'' ابن عمر رضی اللہ کے نزدیک رفع یدین کرنا ضروری نہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایک بار رفع یدین کیا اور آخر میں چھوڑ دیا''۔(فتح الباری جلد 2 صفحہ 173)۔

                      تو بن حجر کے ھوالے دے واضح ہو گیا کہ ابن عمر رضی اللہ نے رفع یدین ترک کر دیا تھا۔

                      اورلول جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بلفرض اگر آپ ابوبکر بن عیاش کے وھم کو تسلیم کیا جائے تو پھر بخاری کی روایت کو بھی اسی وھم اور انہی راویوں کی وجہ سے باطل قرار دے دیں۔


                      Originally posted by lovelyalltime View Post
                      ٢: بہت سے ثقہ راویوں اور صحیح و حسن لذاتہ سندوں سے ثابت ہے کہ سیدنا عمر رضی الله عنہ نماز میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد رفع یدین کرتے تھے، جن میں سے ان کے چند شاگردوں کے حوالے درج ذیل ہیں

                      امام نافع المدنی رحمہ الله، امام محارب بن دثار الکوفی رحمہ الله، امام طاؤس بن کیسان الیما نی رحم الله، امام سالم بن عبد الله بن عمر المدنی رحمہ الله اور امام ابو الزبیر المکی رحمہ الله.

                      (دیکھئے نور العینین ص ١٥٩)
                      ثقہ راویوں کے خلاف وہم و خطا والی روایت منکر و مردود ہوتی ہے.
                      جناب لولی صاحب عقل کدھر ہے آپ کی؟؟
                      ہم نے کب اختلاف کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے رفع یدین کرنا ثابت نہیں ہے؟؟؟

                      ہمیں رفع یدین کے اثبات میں اختلاف نہیں،آپ کے ذمہ یہ ثابت کرنا ہے کہ مذکورہ رفع یدین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوام تھا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا آخری عمل تھا۔
                      نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً سجدوں کی رفع یدین بھی ثابت ہے۔
                      (مصنف ابن ابی شیبہ ج 6ص 011 ،مشکل الآثار للطحاوی ج 0ص 02 ،جزء رفع یدین للبخاری ص 40 ،المعجم الاوسط للطبرانی ج 6ص 03 ،سنن ابن ماجہ ج 6 ص 16 وغیرہ)

                      سجدوں کے رفع یدین کی تصحیح میں تمہارے ہی مستند اکابر علماء سے پیش کر سکتا ہوں۔
                      لہٰذا اگر صرف ثبوت ہی کی بات کرتے ہیں تو پھر تمام غیرمقلدین اب سجدوں میں بھی رفع یدین کرنا شروع کردیں۔
                      کیا آپ سجدوں میں رفع یدین نہ کرنے کی وجہ بتائیں گے جبکہ وہ بھی انہی ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے؟؟؟


                      Originally posted by lovelyalltime View Post
                      رفع یدین پر خیر القرون میں مسلسل عمل

                      سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دیکھا، جب آپ نماز میں کھڑے ہوتے تو کندھوں تک رفع یدین کرتے، رکوع کرتے وقت بھی آپ اسی طرح کرتے تھے اور جب رکوع سے سر اٹھاتے تو اسی طرح کرتے تھے.
                      (صحیح بخاری ج١ ص ١٠٢ ح ٧٣٦، صحیح مسلم ٣٩٠)

                      اس حدیث کے راوی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی الله عنہ بھی شروع نماز، رکوع سے پہلے ، رکوع کے بعد اور دو رکعتیں پڑھ کر کھڑے ہوتے تو رفع یدین کرتے تھے اور فرماتے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم ایسا ہی کرتے تھے.
                      (صحیح بخاری ٧٣٩، شرح السنتہ للبغوی ٣/٢١ ح ٥٦٠ وقال: هذا حدیث صحیح)

                      لولی جیسا کہ پہلے کہا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے رفع یدین کیا اس بات کو ہم تسلیم کرتے پہیں اور ان روایات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے رفع یدین کیا لیکن ان روایات میں مسلسل کا لفظ کہاں ہے جیسا کہ آپ نے اوپر ہائنڈنگ دی ہے؟؟؟


                      آپ نے ہاینڈنگ دی کہ (((رفع یدین پر خیر القرون میں مسلسل عمل)))۔ تو جناب ان روایات سے مسلسل عمل کہاں ثابت ہوتا ہے؟؟؟

                      برائے مہربانی ابن عمر رضی اللہ کی انہی روایات سے مسلسل اور ہمیشہ کا رفع یدین ثابت کر دیں۔۔



                      اور آخر میں ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ بات صرف حوالے دینے کی نہیں ہے بلکہ لوگوں کو سمجھانے کی ہے تو کاپی پیسٹ سے گریز کرتے ہوئے سب سے پہلے صرف انہی ابن عمر رضی اللہ کی روایات کا جواب دینا تا کہ سب کو سمجھ آ سکے۔
                      اور اگر آگلی ورایات پہ بات کرنی ہے تو تسلیم کر لو کہ ابن عمر رضی اللہ والی روایت سے تم اپنا موقف ثابت نہیں کر سکے پھر اگلی روایت پہ بات کر لیں گے۔۔


                      شکریہ

                      Comment


                      • #56
                        Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                        Originally posted by i love sahabah View Post
                        لولی صاحب ایک ایک کر کے روایت پہ بات کرتے ہیں تا کہ سب کو سمجھ آ سکے اس لئے پہلے ابن عمر رضی اللہ کی روایت پہ ہی بات کرتے ہیں اس کے بعد اگلی روایت ابن مسعود رضی اللہ پہ جرح کا جواب میں پیش کروں گا۔
                        سب سے پہلے تو میری روایت دیکھیں جس پہ تم نے جرح نقل کی۔


                        حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد قَالَ : ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنْ الصَّلَاةِ
                        (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)؛
                        ترجمہ : حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔




                        لولی صاحب آپ کا اصول تو صرف قران اور حدیث ہے لیکن آپ قرآن اور حدیث چھوڑ کر علماء اور محدثین کے حوالے دے رہے ہیں۔
                        اپ کا اصول قران اور حدیث کہاں گیا؟؟؟


                        دوسرا آپ نے یہ تمام جرح زبیر علی زئی کی کتاب نور العینین سے نقل کر دی ہے اور آپ نے بھی زبیر زئی کی جرح بنا تحقیق نقل کر دی ہے۔
                        آپ کو مبارک ہو کہ آپ نے اور آپ کے زبیر زئی نے بخاری شریف کے راوی کی روایت کو جھٹلا دیا۔۔
                        آپ زبیر زئی کی کتابیں ہی پڑھتے رہے، کاش آپ زبیر زئی کی کتابوں کی بجائے احادیث کی کتابوں کو پڑھ لیتے تو آپ کو پتہ چلتا کہ یہ راوی بخاری کے راوی ہیں جس پہ آپ کے زبیر زئی جرح کر رہے ہیں۔


                        امام ابوبکر بن عیاش صحیح بخاری ،صحیح مسلم (مقدمہ) اور سنن اربعہ کے راوی ہیں، عند الجمہور "ثقہ" ہیں۔ امام عبداللہ بن مبارک، امام احمد بن حنبل ، امام عثمان دارمی، امام ابوحاتم الرازی، امام ابن حبان، امام ابن عدی، امام عجلی، امام ابن سعد، امام سفیان ثوری، امام یعقوب بن شیبہ، امام ساجی رحمہم اللہ وغیرہ نے ان کی تعدیل و توثیق اور مدح وثناء کی ہے۔
                        تہذیب التہذیب ج 7ص 320 تا366 )

                        لولی اگر اس روایت پہ اعتراض ہے تو ابو بکر بن عیاش کی بخاری شریف کی روایات کا انکار کر دو۔
                        تمام ممبران دیکھ سکتے ہیں کہ یہ جناب بخاری بخاری کی رٹ لگانے والے خود بخاری شریف کے راویوں پہ جرح کر رہے ہیں۔

                        لولی کیا بخاری کی روایات کو ضعیف تسلیم کرتے ہو امام ابو بکر بن عیاش کے وھم اور خطاء کی وجہ سے؟؟؟؟؟


                        [ATTACH]105692[/ATTACH]


                        جو سند میں نے پیش کی ہے مجاھد رح کے علاوہ بلکل وہی سند بخاری شریف میں بھی موجود ہے۔
                        لولی ذرا بخاری کا حوالہ دیکھ لو۔


                        حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ عَنْ حُصَيْنٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ مَيْمُونٍ قَالَ قَالَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْمُهَاجِرِينَ الْأَوَّلِينَ أَنْ يَعْرِفَ لَهُمْ حَقَّهُمْ وَأُوصِي الْخَلِيفَةَ بِالْأَنْصَارِ الَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ مِنْ قَبْلِ أَنْ يُهَاجِرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقْبَلَ مِنْ مُحْسِنِهِمْ وَيَعْفُوَ عَنْ مُسِيئِهِمْ.
                        { كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ – بَاب وَالَّذِينَ تَبَوَّءُوا الدَّارَ وَالْإِيمَانَ}



                        [ATTACH]105693[/ATTACH]



                        جناب لولی صاحب ! جیسا کہ آپ نے دیکھا کہ اس روایت کے راوی بلکل صحیح ہیں تو اگر امام احمد حنبل، امام یحییٰ بن معین اور امام دار قطنی کی جرح ابوبکر بن عیاش کے وھم کی وجہ سے اگر یہ روایت باطل ہے تو یہی ابوبکر بن عیاش کی انہی راویں سے روایت بخاری شریف میں بھی ہے جس کا حوالہ میں نے پیش کیا ہے تو اس روایت کو بھی باطل قرار دے دیں۔


                        اور امام احمد حنبل، امام یحییٰ بن معین اور امام دار قطنی کا اس روایت کو ابوبکر بن عیاش کی وجہ سے وہم وغیرہ کهنا، تو عرض ہے کہ امام نووی نے مختلط روات کے متعلق قاعدہ بیان کرتے ہوے فرمایا ہے کہ صحیحین میں مختلط روات کی جو روایات لی گئی ہیں وہ قبل الاختلاط اخذ پر محمول ہیں۔
                        (تہذیب الاسماء للنووی ج 6ص 040)
                        اور ہماری پیش کردہ روایت عن ابن ابی شیبہ ابی بکر بن عیاش کے طریق سے مروی ہے اور یہی طریق صحیح بخاری (ج 6ص 074) میں موجود ہے۔ معلوم ہو کہ یہ روایت قبل الاختلاط مروی ہے۔ پس وہم والا اعتراض بھی باطل ہے۔


                        کیونکہ اگر آپ وھم کی وجہ سے اس روایت کو باطل کہتے ہین تو پھر بخاری کی اس روایت کو بھی باطل کہہ دیں جو اسی سند سے آئی ہے؛۔


                        اپ نے محدثین کے حوالے دئے تو میں بھی جواب کے طور پہ محدثین کے حوالے دیتا ہوں۔
                        علامہ ابن حجر رح رفع یدین کرنے اور نہ کرنے کی احادیث بیان کر کے لکھتے ہیں کہ دونوں روایات کا مفہوم یہ ہے کہ'' ابن عمر رضی اللہ کے نزدیک رفع یدین کرنا ضروری نہیں یہی وجہ ہے کہ آپ نے ایک بار رفع یدین کیا اور آخر میں چھوڑ دیا''۔(فتح الباری جلد 2 صفحہ 173)۔

                        تو بن حجر کے ھوالے دے واضح ہو گیا کہ ابن عمر رضی اللہ نے رفع یدین ترک کر دیا تھا۔

                        اورلول جیسا کہ میں نے پہلے کہا کہ بلفرض اگر آپ ابوبکر بن عیاش کے وھم کو تسلیم کیا جائے تو پھر بخاری کی روایت کو بھی اسی وھم اور انہی راویوں کی وجہ سے باطل قرار دے دیں۔




                        جناب لولی صاحب عقل کدھر ہے آپ کی؟؟
                        ہم نے کب اختلاف کیا ہے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہ سے رفع یدین کرنا ثابت نہیں ہے؟؟؟

                        ہمیں رفع یدین کے اثبات میں اختلاف نہیں،آپ کے ذمہ یہ ثابت کرنا ہے کہ مذکورہ رفع یدین پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا دوام تھا اور یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا آخری عمل تھا۔
                        نیز حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مرفوعاً سجدوں کی رفع یدین بھی ثابت ہے۔
                        (مصنف ابن ابی شیبہ ج 6ص 011 ،مشکل الآثار للطحاوی ج 0ص 02 ،جزء رفع یدین للبخاری ص 40 ،المعجم الاوسط للطبرانی ج 6ص 03 ،سنن ابن ماجہ ج 6 ص 16 وغیرہ)

                        سجدوں کے رفع یدین کی تصحیح میں تمہارے ہی مستند اکابر علماء سے پیش کر سکتا ہوں۔
                        لہٰذا اگر صرف ثبوت ہی کی بات کرتے ہیں تو پھر تمام غیرمقلدین اب سجدوں میں بھی رفع یدین کرنا شروع کردیں۔
                        کیا آپ سجدوں میں رفع یدین نہ کرنے کی وجہ بتائیں گے جبکہ وہ بھی انہی ابن عمر رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے؟؟؟





                        لولی جیسا کہ پہلے کہا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے رفع یدین کیا اس بات کو ہم تسلیم کرتے پہیں اور ان روایات سے بھی یہی ثابت ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے رفع یدین کیا لیکن ان روایات میں مسلسل کا لفظ کہاں ہے جیسا کہ آپ نے اوپر ہائنڈنگ دی ہے؟؟؟


                        آپ نے ہاینڈنگ دی کہ (((رفع یدین پر خیر القرون میں مسلسل عمل)))۔ تو جناب ان روایات سے مسلسل عمل کہاں ثابت ہوتا ہے؟؟؟

                        برائے مہربانی ابن عمر رضی اللہ کی انہی روایات سے مسلسل اور ہمیشہ کا رفع یدین ثابت کر دیں۔۔



                        اور آخر میں ایک بار پھر کہہ رہا ہوں کہ بات صرف حوالے دینے کی نہیں ہے بلکہ لوگوں کو سمجھانے کی ہے تو کاپی پیسٹ سے گریز کرتے ہوئے سب سے پہلے صرف انہی ابن عمر رضی اللہ کی روایات کا جواب دینا تا کہ سب کو سمجھ آ سکے۔
                        اور اگر آگلی ورایات پہ بات کرنی ہے تو تسلیم کر لو کہ ابن عمر رضی اللہ والی روایت سے تم اپنا موقف ثابت نہیں کر سکے پھر اگلی روایت پہ بات کر لیں گے۔۔


                        شکریہ







                        میرے بھائی بات ضرور ھو گی لکن آپ صرف مجھے کٹ کاپی کا الزام دیتے ہیں . لکن خود بھی آپ یہی کام کرتے ہیں


                        یہاں سے آپ نے اپنے حوالے لیے ہیں



                        ہدایت : : پہلی تکبیر (تحریمہ) کے سوا نماز میں (اندر) رفع یدین نہ کرنے کے دلائل


                        Comment


                        • #57
                          Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                          Originally posted by lovelyalltime View Post



                          میرے بھائی بات ضرور ھو گی لکن آپ صرف مجھے کٹ کاپی کا الزام دیتے ہیں . لکن خود بھی آپ یہی کام کرتے ہیں


                          یہاں سے آپ نے اپنے حوالے لیے ہیں



                          ہدایت : : پہلی تکبیر (تحریمہ) کے سوا نماز میں (اندر) رفع یدین نہ کرنے کے دلائل



                          لولی کیا خوب جواب دیا ہے میری پوسٹ کا۔۔
                          بہت اچھے۔۔۔

                          جناب میں آپ کی طرح کاپی پیسٹ نہیں مارتا بلکہ اپنی الفاظ میں بات کرتا ہوں۔۔ یہ بات صحیح ہے کہ حوالا وہاں سے لیا لیکن میری پوسٹ اور اس لنک کی پوسٹ میں بہت فرق ہے۔۔۔

                          تمہاری طرح نہیں کرتا کہ دوسرے کی پوسٹ پڑھے بغیر اردو مجلس یا محدث فورم سے جا کے پورے کا پورا ٹاپک کاپی پیسٹ کر دوں۔۔۔۔


                          میری پوسٹ کا جواب دو۔۔

                          Comment


                          • #58
                            Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                            Originally posted by i love sahabah View Post

                            لولی کیا خوب جواب دیا ہے میری پوسٹ کا۔۔
                            بہت اچھے۔۔۔

                            جناب میں آپ کی طرح کاپی پیسٹ نہیں مارتا بلکہ اپنی الفاظ میں بات کرتا ہوں۔۔ یہ بات صحیح ہے کہ حوالا وہاں سے لیا لیکن میری پوسٹ اور اس لنک کی پوسٹ میں بہت فرق ہے۔۔۔

                            تمہاری طرح نہیں کرتا کہ دوسرے کی پوسٹ پڑھے بغیر اردو مجلس یا محدث فورم سے جا کے پورے کا پورا ٹاپک کاپی پیسٹ کر دوں۔۔۔۔


                            میری پوسٹ کا جواب دو۔۔





                            میرے بھائی آپ نے ابھی تک میری پوسٹ کا پورا جواب نہیں دیا

                            دوسرے حصہ کا جواب کہاں ہے




                            Originally posted by i love sahabah View Post


                            آپ نے حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی روایت پیش کی تو ان کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔

                            ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی حدیث بخاری شریف میں بھی ہے جس میں صرف پہلی دفع کا رفع یدین ہے۔

                            (امام بخاری رح فرماتے ہیں کہ) ہم سے یحییٰ بن بکیر نے حدیث بیان کی کہا کہ ہم سے لیث نے خالد کے واسطہ سے (حدیث بیان کی) ان سے سعید نے ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
                            اور (دوسری سند سے امام بخاری رح فرماتے ہیں) کہا کہ مجھ سے لیث نے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمد کے واسطہ سے بیان کی. ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
                            کہ وہ چند صحابہ (رضی الله عنھم) کے ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے.
                            نماز_نبوی کا ذکر ہوا تو (صحابی_رسول) حضرت ابو حمید ساعدی (رض) نے کہا کہ مجھے نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی نماز (کی تفصیلات) تم سب سے زیادہ یاد ہے....میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک اٹھائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو اس حد تک سیدھے ہوگئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ رخ کرلی تھیں، پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑا کر لیا، جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کرلیا، اور اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے

                            [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ, رقم الحديث: 789(828

                            اس صحیح سند والی حدیث میں نبی کی نماز میں نماز کے شروع میں رفع یدین کے علاوہ کا ذکر نہیں۔
                            اور بخاری شریف کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف پہلی دفع کا رفع یدین کیا۔
                            کیا آپ اس حدیث کو مانتے ہیں؟؟؟



                            صحیح بخاری کی اس حدیث میں رکوع سے پہلے اور بعد والے رفع یدین کے ترک کا کوئی ذکر نہیں

                            صحیح بخاری والی روایت دوسری سند سے سنن ابی داود اور سنن ترمزی وغیرہ میں رکوع سے پہلے اور رکوع کے بعد والے رفع یدین کے اثبات سے موجود ہے

                            میرے بھائی نے

                            حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ


                            کی حدیث تو بیان کی لکن
                            اس حدیث سے انہوں نے
                            رفع یدین کے ترک
                            ہونے کا کیسے اندازہ لگا لیا

                            حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ

                            سے تو اور احادیث بھی روایت ھیں
                            لکن اس میں تو
                            رفع یدین کا ذکر موجود ہے
                            کتاب سنن ابوداؤد جلد 1 حدیث نمبر 726


                            احمد بن حنبل، ابوعاصم، ضحاک بن مخلد، مسدد، یحی، احمد، عبدالحمید، ابن جعفر، محمد بن عمر بن عطاء، حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دس صحابہ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابوقتادہ بھی تھے ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق میں تم میں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں صحابہ نے کہا وہ کیسے؟ بخدا تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تم ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے ابوحمید نے کہا ہاں یہ درست ہے صحابہ نے کہا اچھا تو پھر بیان کرو ابوحمید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر آجاتی اس کے بعد قرات شروع فرماتے پھر (رکوع) کی تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے اور رکوع میں دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور پشت سیدھی رکھتے سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ اونچا رکھتے۔ پھر سر اٹھاتے اور ۔سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ کہتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکتے (سجدہ کرتے) اور (سجدہ میں) دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے پھر (سجدہ سے) سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے اور سجدہ کے وقت پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے اور اللہ اکبر کہہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آجاتی (پھر کھڑے ہوتے) اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے پھر جب دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور مونڈھوں تک دونوں ہاتھ اٹھاتے جس طرح کہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھائے تھے اور تکبیر کہی تھی پھر باقی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ جب آخری سجدہ سے فارغ ہوتے یعنی جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بایاں پاؤں نکالتے اور بائیں کولھے پر بیٹھتے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔


                            کتاب جامع ترمذی جلد 1 حدیث نمبر 286


                            محمد بن بشار، محمد بن مثنی، یحیی بن سعید، عبدالحمید بن جعفر، محمد بن عمرو بن عطاء، ابوحمید ساعدی سے نقل کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ میں نے ابوحمید کو کہتے ہوئے سنا اس وقت وہ وہ دس صحابہ میں بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابوقتادہ ربعی بھی شامل ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے بارے میں تم سب سے زیادہ جانتا ہوں صحابہ نے فرمایا تم نہ حضور کی صحبت میں ہم سے پہلے آئے اور نہ ہی تمہاری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں زیادہ آمد ورفت تھی ابوحمید نے کہا یہ تو صحیح ہے صحابہ نے فرمایا بیان کرو ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لئے کھڑے ہوتے تو سیدھے کھڑے ہوتے اور دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جاتے جب رکوع کرنے لگتے تو دونوں ہاتھ کندھوں تک لے جاتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہہ کر رکوع کرتے اور اعتدال کے ساتھ رکوع کرتے نہ سر کو جھکاتے اور نہ اونچا کرتے اور دونوں ہاتھ گھٹنوں پر رکھتے پھر سمع اللہ لمن حمدہ کہتے اور ہاتھوں کا اٹھاتے اور معتدل کھڑے ہوتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پہنچ جاتی پھر سجدہ کے لئے زمین کی طرف جھکتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہتے اور بازؤں کو بغلوں سے علیحدہ رکھتے اور پاؤں موڑ کو اس پر اعتدال کے ساتھ بیٹھ جاتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اپنی جگہ پر پہنچ جاتے پھر سجدے کے لئے سر جھکاتے اور اللَّهُ أَکْبَرُ کہتے پھر کھڑے ہو جاتے اور ہر رکعت میں اسی طرح کرتے یہاں تک کہ جب دونوں سجدوں سے اٹھتے تو تکبیر کہتے اور دونوں ہاتھ کندھوں کے برابر اٹھاتے جیسے کہ نماز کے شروع میں کیا تھا پھر اسی طرح کرتے یہاں تک کہ ان کی نماز کی آخری رکعت آجاتی چنانچہ بائیں پاؤں کو ہٹاتے اور سیرین پر بیٹھ جاتے اور پھر سلام پھیر دیتے امام ابوعیسی فرماتے ہیں یہ حدیث حسن صحیح ہے اور إِذَا السَّجْدَتَيْنِ سے مراد یہ ہے کہ جب دو رکعتوں کے بعد کھڑے ہوتے تو رفع یدین کرتے



                            کیا میرا بھائی یہ بتا سکتا ہے کہ

                            حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ

                            سے روایت کردہ دوسری احادیث ٹھیک ہیں
                            یا نہیں

                            اب میرا بھائی یہ بھی بتایے

                            کہ صحیح بخاری والی احادیث جو اس نے پیش کی

                            حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ

                            والی

                            اس میں

                            رفع یدین

                            کے ترک ہونے کا اس کو کیسے پتا چلا


                            یہ بات تو آپ کے علماء بھی مان رھے ہیں کہ

                            محمد قاسم نانوتوی

                            بانی مدرسہ دیوبند نے لکھا

                            مذکور نہ ہونا معدوم ہونے کی دلیل نہیں ہے

                            http://kr-hcy.com/forum/books/radd-e...Nanotvi%5D.pdf

                            (ہدیتہ الشیعہ ص ١٩٩،٢٠٠)



                            اس کی مثال آپ کو ایسے دوں گا کہ



                            اب یہ والی حدیث بھی صحیح بخاری کی ہے


                            اس میں تو پہلی والی تکبیر میں ہاتھ اٹھا نے کا ذکر نہیں ہے


                            صحیح بخاری:جلد اول:حدیث نمبر 719

                            محمد بن بشار، یحیی ، عبید اللہ ، سعید بن ابی سعید، ابی سعید (مقبری) ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (ایک مرتبہ) مسجد میں تشریف لے گئے اسی وقت ایک شخص آیا اور اس نے نماز پڑھی، اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا، آپ نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا کہ جا نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ لوٹ گیا اور اس نے نماز پڑھی جیسے اس نے پہلے پڑھی، پھر آیا اور نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو سلام کیا، آپ نے فرمایا کہ نماز پڑھ، کیونکہ تو نے نماز نہیں پڑھی۔ (اسی طرح) تین مرتبہ (ہوا) تب وہ بولا کہ اس ذات کی قسم! جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا ہے میں اس سے بہتر ادا نہیں کرسکتا۔ لہٰذا آپ مجھے تعلیم کر دیجئے، آپ نے فرمایا جب تم نماز کے لئے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، اس کے بعد جتنا قرآن تم کو یاد ہو اس کو پڑھو، پھر رکوع کرو، یہاں تک کہ رکوع میں اطمینان سے ہو جاؤ، پھر سر اٹھاؤ یہاں تک کہ سیدھے کھڑے ہو جاؤ پھر سجدہ کرو یہاں تک کہ سجدہ میں اطمینان سے ہوجاؤ، پھر سر اٹھاؤ، یہاں تک کہ اطمینان سے بیٹھ جاؤ اور اپنی پوری نماز میں اسی طرح کرو۔


                            کیا اس حدیث کی بنیاد پر ہم

                            پہلی تکبیر میں ہاتھ اٹھا نے کو منسوخ

                            سمجھ لیں




                            Comment


                            • #59
                              Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                              بھائی آپ نے ایک فورم پر کہا
                              :
                              جو رفع یدین کرتا ہے اس کی نماز بھی صحیح ہے اور جو رفع یدین نہیں کرتا اس کی نماز بھی صحیح ہے۔
                              اب آپکی کس بات کو تسلیم کیا جاۓ؟



                              آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی تو ابن عمر رضی اللہ سے صرف پہلی تکبیر کا رفع یدین صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔
                              حوالہ یہ ہے۔


                              حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد قَالَ : ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنْ الصَّلَاةِ
                              (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)؛
                              ترجمہ : حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔

                              تو یہ ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے نبیؐ کو (نماز میں) ہاتھ اٹھاتے ہوۓ دیکھا لیکن نبیؐ کے بعد ہاتھ اٹھانا چھوڑدیا تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب آپؓ کے نزدیک نبیؐ کا عمل منسوخ ہو چکا ہو جو آپؓ نے دیکھا تھا اور اس کے خلاف دلیل قائم ہوگئی.


                              (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ "
                              حضرت علقمہ رحمہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضر ت عبد الله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں حضور صلی الله علیہ وسلم جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ چنانچہ آپ نے نماز پڑھی اور پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ کے وقت) رفع یدین کر نے کے علاوہ کسی اور جگہ رفع یدین نہیں کیا


                              آپ نے حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی روایت پیش کی تو ان کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔

                              ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی حدیث بخاری شریف میں بھی ہے جس میں صرف پہلی دفع کا رفع یدین ہے۔

                              (امام بخاری رح فرماتے ہیں کہ) ہم سے یحییٰ بن بکیر نے حدیث بیان کی کہا کہ ہم سے لیث نے خالد کے واسطہ سے (حدیث بیان کی) ان سے سعید نے ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
                              اور (دوسری سند سے امام بخاری رح فرماتے ہیں) کہا کہ مجھ سے لیث نے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمد کے واسطہ سے بیان کی. ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
                              کہ وہ چند صحابہ (رضی الله عنھم) کے ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے. نماز_نبوی کا ذکر ہوا تو (صحابی_رسول) حضرت ابو حمید ساعدی (رض) نے کہا کہ مجھے نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی نماز (کی تفصیلات) تم سب سے زیادہ یاد ہے....میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک اٹھائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو اس حد تک سیدھے ہوگئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ رخ کرلی تھیں، پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑا کر لیا، جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کرلیا، اور اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے

                              [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ, رقم الحديث: 789(828

                              اس صحیح سند والی حدیث میں نبی کی نماز میں نماز کے شروع میں رفع یدین کے علاوہ کا ذکر نہیں۔
                              اور بخاری شریف کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف پہلی دفع کا رفع یدین کیا۔
                              کیا آپ اس حدیث کو مانتے ہیں؟؟؟
                              ایک طرف آپ رفع یدین کی منسوخی کی احادیث پیش کرتے ہیں دوسری طرف کہتے ہیں کہ جو کرے وہ بھی صحیح جو نہ کرے وہ بھی صحیح۔
                              .

                              http://www.islamghar.blogspot.com/

                              Comment


                              • #60
                                Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                                @i love sahaba bhai
                                http://www.islamghar.blogspot.com/

                                Comment

                                Working...
                                X