Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

Collapse
This topic is closed.
X
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #31
    Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

    jahan jahan app log Raffa e Yaden karete ho.. kisi hadith se sabit karen...

    Comment


    • #32
      Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

      Originally posted by Muhammad Ali Jawad View Post
      اسلام و علیکم -

      جمیل بھائی رفع یدین سے متعلق صحیح احادیث میں ایک بھی رافضی راوی موجود نہیں -تو پھراس میں ترمیم شیعان علی کا کارنامہ کیسے ؟؟؟

      دوسری بات کہ احناف کے اندر بھی رفع یدین کے معاملے میں اختلاف پایا جاتا ہے -حضرت شاہ ولی اللرحمللہ اور ملا علی قاری جیسے حنفی مسلک رکھنے والے بھی کہتے تھے کہ ہمیں رفع یدین کرنے والے رفع یدین نہ کرنے والوں سے زیادہ محبوب ہیں - لہذا کبھی کبھار رفع یدین کر لینا چاہیے - کیوں کہ رفع یدین سے متعلق صحیح روایات بہت
      بڑی تعداد میں ہیں-

      جب کہ دوسری طرف احناف کی اکثریت رفع یدین کی قائل نہیں اور اس کو اختلافی مسلہ سمجھ کر رد کرنا ضروری سمجھتی ہے - احناف نے صرف اپنے امام کو بچانے کے لئے حضرت عبدللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی ضعیف روایت کو اپنے گلے سے لگے ہوا ہے - جس میں ہے کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم نے صرف نماز کی ابتداہ میں رفع یدین کیا اور بعد میں نماز کے اختتام تک رفع یدین نہیں کیا -

      جب کہ اگر احناف کی اس بات کو مان بھی لیا جائےتو یہ لوگ جو وتر کی نماز میں تیسری رکعت میں د عا قنوت سے پہلے (دوران نماز) رفع یدین کرتے ہیں اس کا جواز یہ کہاں سے پیش کریں گے ؟؟؟ کیوں کہ حضرت عبدللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی روایت میں یہ کہیں نہیں کہ وتر کے علاوہ کسی اور نماز میں دوران نماز نبی کریم صل الله علیہ وسلم رفع یدین نے نہیں کیا - بلکہ اس میں تو تمام نمازیں شامل ہیں چاہے وہ وتر ہوں یا فرض ہوں یا سنّت ہوں ؟؟

      اکثر احناف کے نزدیک رفع یدین واجب نہیں اور سنّت غیر موکدہ ہے جس پر یہ اس کو غیر ضروری که کر رد کرتے ہیں اپنے امام کی اقتدہ میں - تو ان سے پوچھا جائے کہ جو آپ نماز کی ابتدا میں رفع یدین کرتے ہیں -کیا وہ واجب ہے سنّت ہے یا غیر موکدہ سنّت - اگر وہ واجب ہے تو ثابت کیا جائے اور اگر دوران نمازرفع یدین کی طرح غیر موکدہ سنّت ہے تو کیا آپ نے کبھی بغیراس کے اپنی نماز کی ابتدا کی ؟؟؟
      جواد بھائی آپ ایک بات یاد رکھ لیجئے رافضی لفظ ایسے ہی ہے جیسے وہابی نجدی یا بریلوی وغیرہ ان کے اصل معنیٰ پہ جانے کے بجائے اصل پہ جانا چاہئے
      رافضی اصل میں وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت علی کی محبت میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے بغض کرنا شروع کیا یعنی ایک صحابی
      کو دوسرے پر فضیلت دینے لگے چونکہ حضرت علی اور ان کے گھر والوں کا تعلق اہل بیت سے ہے تو لوگ زیادہ تر ان کا ساتھ دیتے رہے بعد میں
      رافضی شیعان میں شامل ہوگئے مگر ان کو رافضی ہی کہا جاتا رہا ۔جو بعد میں شیعہ لوگوں کے لئے رافضی لفظ استعمال ہونے لگ گیا یعنی یہ کوئی لفظ یا
      مسلک نہیں تھا بلکہ کافی واقعات میں شیعان علی نے دوسروں کے لئے رافضی لفظ استعمال کیا ۔۔رافضی کے لفظی معنیٰ چھوڑ دینے والا ہے
      الاعشری کے قول کے مطابق سب سے پہلے وہ لوگ جو رافضی کہلائے جنہوں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا تھا
      بعد ازاں مخالفین شیعوں کو رافضی کے ناخوشگوار لقب سے پکارنے لگے
      طبری نے لکھا ہے کہ یہ لقب کوفہ کے زیدیوں کو ملا کیونکہ انہوں نے زید بن علی کو چھوڑ دیا تھا اس لیے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر و عمر کی مذمت نہیں کی تھی
      دیکا آپ نے شیعان علی اور اموی یا ابوحنیفہ عمر ابوبکر کے ساتھ سب گاہے بگاہے ایک دوسرے کو رافضی کہنے لگے

      ہمارا مقصد صرف یہ ثابت کرنا اس زمانے لوگ صحابی اور امام سب ہی ایک دوسرے سے کھچ چکے تھے جس کی وجہ سے شیعان نے اپنا مسلک حتیٰ کے اپنی نماز زکوۃ شادی
      سب کا طریقہ الگ کرلیا جسے ثابت کرنے کے لئے احادیث گھڑی گئی جب بڑی بڑی ہستیاں ان کاموں میں شامل ہوجائیں تو پھر کیا وجہ دو سو سال بعد کیسی احادیث پہنچیں جبکہ
      رسول اللہ کی رحلت کے فوراً بعد یہ سب کھینچا تانی احادیث گھڑنا سب شامل ہوگیا تھا
      ان واقعات میں ابن عباس ایک صحابی بھی شامل تھے جن کا رجہان شیعان علی کی جانب تھا جن سے ہزاروں احادیث روایت ہیں اور کتنی ہمدردی وہ شیعان علی سے رکھتے تھے اور کیوں جو ان مقالات سے ثابت ہے
      غدیر کی گواہی عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کا بیان ہے کہ میں ،امام حسن ؑو امام حسینؑ کے ساتھ معاویہ کے پاس موجود تھا اور وہاں عبداللہ بن عباس و فضل بھی تھے، معاویہ میری طرف متوجہ ہوکر بولا: تم حسن و حسینؑ کی بڑی تعظیم کرتے ہو،حالانکہ نہ وہ تم سے بہتر ہيں اور نہ ان کے باپ تیرے باپ سے بہتر ،اوراگر دختر رسولؐ فاطمہ زہراءؑ نہ ہوتيں تو میں کہتا کہ تمہاری ماں اسماء بنت عمیس ان کی ماں سے کمتر ہے؟ میں نے کہا: خدا کی قسم! تمہاری معلومات ان کے اور ان کے والدین کے بارے میں بہت کم ہيں،خدا کی قسم یہ دونوں مجھ سے بہتر ہيں،ان کے والدین میرے والدین سے بہتر ہيں
      اس شیعان علی سے ہمدردی کی ایک وجہ اور بھی تھی کے حضرت عمر نے ابن عباس کو گورنری سے محروم رکھا جبکہ حضرت علی نے گونری سونپی مزید باتیں بھی واضح کرتا کیسے مال و اسباب
      میں گھپلے ہوئے وغیرہ

      ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
      سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

      Comment


      • #33
        Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

        Originally posted by Sub-Zero View Post


        جواد بھائی آپ ایک بات یاد رکھ لیجئے رافضی لفظ ایسے ہی ہے جیسے وہابی نجدی یا بریلوی وغیرہ ان کے اصل معنیٰ پہ جانے کے بجائے اصل پہ جانا چاہئے
        رافضی اصل میں وہ لوگ تھے جنہوں نے حضرت علی کی محبت میں حضرت ابوبکر اور حضرت عمر سے بغض کرنا شروع کیا یعنی ایک صحابی
        کو دوسرے پر فضیلت دینے لگے چونکہ حضرت علی اور ان کے گھر والوں کا تعلق اہل بیت سے ہے تو لوگ زیادہ تر ان کا ساتھ دیتے رہے بعد میں
        رافضی شیعان میں شامل ہوگئے مگر ان کو رافضی ہی کہا جاتا رہا ۔جو بعد میں شیعہ لوگوں کے لئے رافضی لفظ استعمال ہونے لگ گیا یعنی یہ کوئی لفظ یا
        مسلک نہیں تھا بلکہ کافی واقعات میں شیعان علی نے دوسروں کے لئے رافضی لفظ استعمال کیا ۔۔رافضی کے لفظی معنیٰ چھوڑ دینے والا ہے
        الاعشری کے قول کے مطابق سب سے پہلے وہ لوگ جو رافضی کہلائے جنہوں نے حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی خلافت کو تسلیم نہیں کیا تھا
        بعد ازاں مخالفین شیعوں کو رافضی کے ناخوشگوار لقب سے پکارنے لگے
        طبری نے لکھا ہے کہ یہ لقب کوفہ کے زیدیوں کو ملا کیونکہ انہوں نے زید بن علی کو چھوڑ دیا تھا اس لیے کہ انہوں نے حضرت ابوبکر و عمر کی مذمت نہیں کی تھی
        دیکا آپ نے شیعان علی اور اموی یا ابوحنیفہ عمر ابوبکر کے ساتھ سب گاہے بگاہے ایک دوسرے کو رافضی کہنے لگے

        ہمارا مقصد صرف یہ ثابت کرنا اس زمانے لوگ صحابی اور امام سب ہی ایک دوسرے سے کھچ چکے تھے جس کی وجہ سے شیعان نے اپنا مسلک حتیٰ کے اپنی نماز زکوۃ شادی
        سب کا طریقہ الگ کرلیا جسے ثابت کرنے کے لئے احادیث گھڑی گئی جب بڑی بڑی ہستیاں ان کاموں میں شامل ہوجائیں تو پھر کیا وجہ دو سو سال بعد کیسی احادیث پہنچیں جبکہ
        رسول اللہ کی رحلت کے فوراً بعد یہ سب کھینچا تانی احادیث گھڑنا سب شامل ہوگیا تھا
        ان واقعات میں ابن عباس ایک صحابی بھی شامل تھے جن کا رجہان شیعان علی کی جانب تھا جن سے ہزاروں احادیث روایت ہیں اور کتنی ہمدردی وہ شیعان علی سے رکھتے تھے اور کیوں جو ان مقالات سے ثابت ہے
        غدیر کی گواہی عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب کا بیان ہے کہ میں ،امام حسن ؑو امام حسینؑ کے ساتھ معاویہ کے پاس موجود تھا اور وہاں عبداللہ بن عباس و فضل بھی تھے، معاویہ میری طرف متوجہ ہوکر بولا: تم حسن و حسینؑ کی بڑی تعظیم کرتے ہو،حالانکہ نہ وہ تم سے بہتر ہيں اور نہ ان کے باپ تیرے باپ سے بہتر ،اوراگر دختر رسولؐ فاطمہ زہراءؑ نہ ہوتيں تو میں کہتا کہ تمہاری ماں اسماء بنت عمیس ان کی ماں سے کمتر ہے؟ میں نے کہا: خدا کی قسم! تمہاری معلومات ان کے اور ان کے والدین کے بارے میں بہت کم ہيں،خدا کی قسم یہ دونوں مجھ سے بہتر ہيں،ان کے والدین میرے والدین سے بہتر ہيں
        اس شیعان علی سے ہمدردی کی ایک وجہ اور بھی تھی کے حضرت عمر نے ابن عباس کو گورنری سے محروم رکھا جبکہ حضرت علی نے گونری سونپی مزید باتیں بھی واضح کرتا کیسے مال و اسباب
        میں گھپلے ہوئے وغیرہ

        اسلام و علیکم -

        آپ کی تاریخی معلومات تعریف کے قابل ہیں -لیکن آپ کا یہ کہنا کہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد صحابہ کرام رضوان الله اجمعین میں کھنچا تانی شرو ع ہو گئی تھی - صحیح نہیں ہے- وجہ یہ کہ تمام صحابہ کرام رضوان الله اجمعین نبی کریم صل الله وسلم کے تربیت یافتہ تھے - اگر ہم ان کے کردار کو مسخ کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہے کہ ہم بلا واسطہ نبی کریم صل الله علیہ وسلم کی پاک شخصیت کو داغ دلر کرنے کی کوشش کر رہے ہیں -کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کی تربیت صحیح انداز میں نہیں کی اور آپ صل اللہ علیہ وسلم کی وفات کے فورا بعد صحابہ کرام رضوان الله اجمعین بعد مرتد ہوگئے -(نعوز و باللہ ) - اس میں کچھ شک نہیں کہ ان کے درمیان دینی اور سیاسی معملات میں اختلافات ضرور ہوے - لیکن وہ اس نوعیت کے نہیں تھے -کہ جس کی بنا پر ہم یہ کہیں کہ انھوں نے ان اختلافات کی وجہ سے اپنے اپنے مسلک قائم کر لئے تھے -

        ہاں یہ ضرور ہے کہ بعد کے مورخین اورسبائی گروہ (جو بعد میں شیعا ن علی ) کے نام سے مشہور ہوے - ان لوگوں نے صحابہ کرام رضوان الله اجمعین کے ان معمولی نوعیت کے اختلافات کو ہوا دے کر غلط سلط روایات کو صحابہ سے منسوب کر کے ان کے پاک کرداروں کی دھجیاں بکھیر دیں- جس کے اثرات بعد کے ادوار بلکہ اب تک موجود ہیں -ان کا اصل مقصد یہی تھا کہ کہ کسی طر ح دین اسلام کو مشکوک بنایا جا سکے- اور اہل عرب سے اہل عجم پر فتح کا بدلہ لیا جا سکے - اور یہ اسی وقت ممکن تھا جب صحابہ کرام رضوان الله اجمعین جن کی وساست سے دین دنیا میں تیزی سے پھیل رہا تھا ان کی پاک ہستیوں کو کسی طر ح مسخ کیا جا سکے
        - اور نتیجہ یہ ہو گا کہ
        اس طر ح دین اسلام بھی خود بخود کمزور ہوتا چلا جائے گا -
        میں کافی حد تک کامیاب
        رہے
        mission -اور وہ-اس


        Allah-o-Akbar Kabeera, Wal Hamdulillaah-e-Kaseera, Subhan Allah-e-Bukratan-wa-Aseela

        Comment


        • #34
          Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

          Originally posted by Sub-Zero View Post
          تھوڑا دور جائیں تو واضح ہوجائے گا ان تراجم میں ھیر پھیر کب ہوا کس نے کیا اور کیوں کیا نیز کس کے تراجم درست ہیں یا دونوں کے غلط کس کو لگا یہ حدیث گھڑی گئی تھیں
          یہ ضروری نہیں جب بات دو کی ہوتو ایک درست ہو بلکہ غالباً امکان یہ ہے دونوں غلط ہوں سب سے پہلے تو یہ فیصلہ کیا جائے وصال رسول اللہ کے قریباً دو سو سال صرف یاداشت کے سہارے منتقل ہونے والی احادیث کس حد تک معتبر ہیں جن کے سہارے ایک کو جھوٹا یا منافق کہا جائے؟
          کچھ عرض سے پہلے ایک مناظرہ پیش کرتا ہوں تاکہ اھل حدیث جو اصل میں اہل سنت سے جدا ہوکر الگ مسلک بن گئے ک جو کچھ غلط فہمی دور ہوجائے

          امام جعفر صادق علیہ السلام اور ابو حنیفہ کا زمانہ تھا ایک دن مسجد کو فہ میں ابو حنیفہ درس دے رہاتھااس وقت امام جعفر صادق علیہ السلام کے ایک شاگرد ”فضال بن حسن “اپنے ایک د وست کے ساتھ ٹہلتے ہوئے وہاں پہنچ گئے۔انھوں نے دیکھا کہ کچھ لوگ ابو حنیفہ کے ارد گرد بیٹھے ہوئے ہیں اور وہ انھیں درس دے رہے ہیں، فضال نے اپنے دوست سے کہا: ”میں اس وقت تک یہاں سے نہیں جاوٴں گا جب تک ابو حنیفہ کو مذہب تشیع کی طرف راغب نہ کر لوں۔“

          فضال اپنے اس دوست کے ساتھ اس جگہ پہنچے جہاں ابو حنیفہ بیٹھے درس دے رہے تھے، یہ بھی ان کے شاگرد وں کے پاس بیٹھ گئے۔تھوڑی دیرکے بعد فضال نے مناظرہ کے طور پر اس سے چند سوالات کئے۔

          فضال: ”اے رہبر !میرا ایک بھائی ہے جو مجھ سے بڑا ہے مگر وہ شیعہ ہے۔حضرت ابوبکر کی فضیلت ثابت کرنے کے لئے میں جو بھی دلیل لے آتا ہوں وہ رد کردیتا ہے لہٰذا میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے چند ایسے دلائل بتادیں جن کے ذریعہ میں اس پر

          حضرت ابوبکر ،عمراور عثمان کی فضیلت ثابت کر کے اسے اس بات کا قائل کر دوں کہ یہ تینوں حضرت علی سے افضل وبر تر تھے ۔“

          ابو حنیفہ: ”تم اپنے بھائی سے کہنا کہ وہ آخر کیوں حضرت علی کو حضرت ابو بکر ،عمر اور عثمان پر فضیلت دیتا ہے جب کہ یہ تینوں حضرات ہر جگہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی خدمت میں رہتے تھے اور آنحضرت ،حضرت علی علیہ السلام کو جنگ میں بھیج دیتے تھے یہ خود اس بات کی دلیل ہے کہ آپ ان تینوں کو زیادہ چاہتے تھے اسی لئے ان کی جانوں کی حفاظت کے لئے انھیں جنگ میں نہ بھیج کر حضرت علی علیہ السلام کو بھیج دیا کرتے تھے ۔“

          فضال: ”اتفاق سے یہی بات میں نے اپنے بھائی سے کہی تھی تو اس نے جواب دیا کہ قرآن کے لحاظ سے حضرت علی علیہ السلام چونکہ جہاد میں شرکت کرتے تھے اس لئے وہ ان تینوں سے افضل ہوئے کیونکہ قرآن مجید میں خدا کاخود فرمان ہے

          وَفَضَّلَ اللهُ الْمُجَاہِدِینَ عَلَی الْقَاعِدِینَ اٴَجْرًا عَظِیمًا “

          ”خدا وند عالم نے مجاہدوں کو بیٹھنے والوں پر اجر عظیم کے ذریعہ فضیلت بخشی ہے“۔

          ابو حنیفہ: ”اچھا ٹھیک ہے تم اپنے بھائی سے یہ کہو کہ وہ کیسے حضرت علی کو حضرت ابو بکر و عمر سے افضل وبرتر سمجھتا ہے جب کہ یہ دونوں آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم کے پہلو میںدفن ہیں اورحضرت علی علیہ السلام کا مرقد رسول سے بہت دور ہے ۔رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے پہلو میں دفن ہونا ایک بہت بڑا افتخار ہے یہی بات ان کے افضل اور بر تر ہونے کے لئے کافی ہے

          فضال: ”اتفاق سے میں نے بھی اپنے بھائی سے یہی دلیل بیان کی تھی مگر اس نے اس کے جواب میں کہا کہ خدا وند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:


          لاَتَدْخُلُوا بُیُوتَ النَّبِیِّ إِلاَّ اٴَنْ یُؤْذَنَ لَکُمْ“

          ”رسول کے گھر میں بغیر ان کی اجازت کے داخل نہ ہو“۔

          یہ بات واضح ہے کہ رسو ل خدا کا گھر خود ان کی ملکیت تھا اس طرح وہ قبر بھی خود رسول خدا کی ملکیت تھی اور رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے انھیںا س طرح کی کوئی اجازت نہیں دی تھی اور نہ ان کے ورثاء نے اس طرح کی کوئی اجازت دی۔“

          ابو حنیفہ: ”اپنی بھائی سے کہو کہ عائشہ اور حفصہ دونوں کا مہر رسول پر باقی تھا، ان دونوں نے اس کی جگہ رسو ل خدا کے گھر کا وہ حصہ اپنے باپ کو بخش دیا۔

          فضال: ”اتفاق سے یہ دلیل بھی میں نے اپنے بھائی سے بیان کی تھی تو اس نے جواب میں کہا کہ خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرما تا ہے۔

          ” یَااٴَیُّہَا النَّبِیُّ إِنَّا اٴَحْلَلْنَا لَکَ اٴَزْوَاجَکَ اللاَّتِی آتَیْتَ اٴُجُورَہُنّ

          اے نبی!ہم نے تمہارے لئے تمہاری ان ازواج کو حلال کیا ہے جن کی اجرتیں (مہر)تم نے ادا کر دی“۔

          اس سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم نے اپنی زندگی میں ہی ان کا مہر ادا کر دیا تھا“۔

          ابو حنیفہ: ”اپنے بھائی سے کہو کہ عائشہ حفصہ رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے بیویاں تھیں انھوں نے ارث کے طور پر ملنے والی جگہ اپنے باپ کو بخش دی لہٰذا وہ وہاں دفن ہوئے“۔

          فضال: ”اتفاق سے میں نے بھی یہ دلیل بیان کی تھی مگر میرے بھائی نے کہا کہ تم اہل سنت تو اس بات کا عقیدہ رکھتے ہو کہ پیغمبر وفات کے بعد کوئی چیز بطور وراثت نہیں چھوڑتا اور اسی بنا پر رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی بیٹی جناب فاطمہ الزہرا سلام اللہ علیہا کو تم لوگوں نے فدک سے بھی محروم کردیا اور اس کے علاوہ اگر ہم یہ تسلیم بھی کر لیں کہ خداکے نبی وفات کے وقت ارث چھوڑتے ہیں تب یہ تو سبھی کو معلوم ہے کہ جب رسول صلی الله علیه و آله وسلم کا انتقال ہوا تو اس وقت آپ کی نو بیویاں تھیں۔ اور وہ بھی ارث کی حقدار تھیں اب وراثت کے قانون کے لحاظ سے گھرکا آٹھواں کاحصہ ان تمام بیویوں کا حق بنتا تھا اب اگر اس حصہ کو نو بیویو ں کے درمیان تقسیم کیا جائے تو ہر بیوی کے حصے میں ایک بالشت زمین سے زیادہ نہیں کچھ نہیں آئے گا ایک آدمی کی قد وقامت کی بات ہی نہیں“۔

          ابو حنیفہ یہ بات سن کر حیران ہو گئے اور غصہ میں آکر اپنے شاگردوں سے کہنے لگے:

          ”اسے باہر نکالو یہ خود رافضی ہے اس کا کوئی بھائی نہیں ہے“۔


          دیکھا آپ نے امام ابو حنیفہ اور شیعان علی کیسے اس زمانے میں ایک دوسرے سے نفرت کرنے لگے یہی نہیں بلکہ یہ رفع یدین جسے اھل حدیث فخر سے اپنی میراث اور صیح احادیث کے عین مطابق سمجھے ہیں اصل میں شیعان کی ایجاد کردہ ہے جسے ثابت کرنے کے لئے احادیث گھڑ لی گئی اور یاد کرادی گئی یہ بات یاد رہے احادیث رسول اللہ کی رحلت کے دو سو سال بعد قلمبند ہوئی جبکہ یہ تناؤ فوری شروع ہوچکا تھا واقعہ کربلا انہیں نفرت انگیزی کا شاخشانہ ہے
          غزالی کہتے ہیں کہ ابو حنیفہ نے لوگوں کو یہ اجازت دیدی تھی انکے مسلک کے مطابق احادیث گھڑی جائے.

          قال الغزالي: أجاز أبو حنيفة وضع الحديث على وفق مذهبه

          اب آپ سمجھ گئے رفع بدین کے متعلق تمام احادیث شعیان علی کی ترمیم شدہ ہیں اس کے علاوہ لاتعداد احادیث علاوہ ہیں





          جب کہ اگر احناف کی اس بات کو مان بھی لیا جائےتو یہ لوگ جو وتر کی نماز میں تیسری رکعت میں د عا قنوت سے پہلے (دوران نماز) رفع یدین کرتے ہیں اس کا جواز یہ کہاں سے پیش کریں گے ؟؟؟ کیوں کہ حضرت عبدللہ بن مسعود رضی الله عنہ کی روایت میں یہ کہیں نہیں کہ وتر کے علاوہ کسی اور نماز میں دوران نماز نبی کریم صل الله علیہ وسلم رفع یدین نے نہیں کیا - بلکہ اس میں تو تمام نمازیں شامل ہیں چاہے وہ وتر ہوں یا فرض ہوں یا سنّت ہوں ؟؟

          Comment


          • #35
            Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

            mere aik chote sawal ko to bilkul nazar andaz kia giya... ok koi baat nahi...

            Comment


            • #36
              Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

              Originally posted by -=The Driver=- View Post
              mere aik chote sawal ko to bilkul nazar andaz kia giya... ok koi baat nahi...


              کون سا سوال میرے بھائی


              Comment


              • #37
                Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                Originally posted by lovelyalltime View Post


                کون سا سوال میرے بھائی


                bhai r hum ..??
                na na ghalti hogayee app se muhtaram... hum to tehre kafir r app log muslim...
                to bhai bhai.. ?????
                sawal yahi tha keh jahan jahan app log raffa e yadein karte hain,,can u prove that for any Hadith e mubaraka..???
                mukhtasar sa jawab dijiye... yes r not...
                hamesha khush raho.. Allah Tallah apke ilm mein mazeed izafa farmain..

                Comment


                • #38
                  Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                  Originally posted by -=The Driver=- View Post
                  bhai r hum ..??
                  na na ghalti hogayee app se muhtaram... hum to tehre kafir r app log muslim...
                  to bhai bhai.. ?????
                  sawal yahi tha keh jahan jahan app log raffa e yadein karte hain,,can u prove that for any Hadith e mubaraka..???
                  mukhtasar sa jawab dijiye... yes r not...
                  hamesha khush raho.. Allah Tallah apke ilm mein mazeed izafa farmain..
                  meray bhai please naraz na hwa karooooooooooo

                  Comment


                  • #39
                    Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                    Originally posted by lovelyalltime View Post
                    meray bhai please naraz na hwa karooooooooooo
                    meray bhai main to pesh ker doon ga. ilkah pehlay bhi pesh ki haian.

                    aap say pooch tha keh aap jo watr ki nimaz maian rafh yadian kertay hoo aus ki daleel kia haio

                    Comment


                    • #40
                      Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                      Originally posted by -=The Driver=- View Post
                      bhai r hum ..??
                      na na ghalti hogayee app se muhtaram... hum to tehre kafir r app log muslim...
                      to bhai bhai.. ?????
                      sawal yahi tha keh jahan jahan app log raffa e yadein karte hain,,can u prove that for any Hadith e mubaraka..???
                      mukhtasar sa jawab dijiye... yes r not...
                      hamesha khush raho.. Allah Tallah apke ilm mein mazeed izafa farmain..



                      صحیح بخاری


                      حدثنا عياش، قال حدثنا عبد الأعلى، قال حدثنا عبيد الله، عن نافع، أن ابن عمر، كان إذا دخل في الصلاة كبر
                      ورفع يديه، وإذا ركع رفع يديه، وإذا قال سمع الله لمن حمده‏.‏ رفع يديه، وإذا قام من الركعتين رفع يديه‏.‏ ورفع ذلك ابن عمر إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم‏.‏

                      ہم سے عیاش بن ولید نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبدالاعلیٰ بن عبدالاعلی نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے عبید اللہ عمری نے نافع سے بیان کیا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما جب نماز میں داخل ہوتے تو
                      پہلے تکبیر تحریمہ کہتے اور ساتھ ہی رفع یدین کرتے۔ اسی طرح جب وہ رکوع کرتے تب اور جب سمع اللہ لمن حمدہ کہتے تب بھی دونوں ہاتھوں کو اٹھاتے اور جب قعدہ اولیٰ سے اٹھتے تب بھی رفع یدین کرتے۔ آپ نے اس فعل کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچایا۔


                      سنن أبى داود


                      حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ الضَّحَّاكُ بْنُ مَخْلَدٍ ح وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ حَدَّثَنَا يَحْيَى - وَهَذَا حَدِيثُ أَحْمَدَ قَالَ - أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ - يَعْنِى ابْنَ جَعْفَرٍ - أَخْبَرَنِى مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ عَطَاءٍ قَالَ سَمِعْتُ أَبَا حُمَيْدٍ السَّاعِدِىَّ فِى عَشْرَةٍ مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- مِنْهُمْ أَبُو قَتَادَةَ قَالَ أَبُو حُمَيْدٍ أَنَا أَعْلَمُكُمْ بِصَلاَةِ رَسُولِ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم-. قَالُوا فَلِمَ فَوَاللَّهِ مَا كُنْتَ بِأَكْثَرِنَا لَهُ تَبَعًا وَلاَ أَقْدَمَنَا لَهُ صُحْبَةً. قَالَ بَلَى. قَالُوا فَاعْرِضْ. قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ -صلى الله عليه وسلم- إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلاَةِ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ يُكَبِّرُ حَتَّى يَقِرَّ كُلُّ عَظْمٍ فِى مَوْضِعِهِ مُعْتَدِلاً ثُمَّ يَقْرَأُ ثُمَّ يُكَبِّرُ فَيَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ يَرْكَعُ وَيَضَعُ رَاحَتَيْهِ عَلَى رُكْبَتَيْهِ ثُمَّ يَعْتَدِلُ فَلاَ يَصُبُّ رَأْسَهُ وَلاَ يُقْنِعُ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ فَيَقُولُ « سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ ». ثُمَّ يَرْفَعُ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ مُعْتَدِلاً ثُمَّ يَقُولُ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». ثُمَّ يَهْوِى إِلَى الأَرْضِ فَيُجَافِى يَدَيْهِ عَنْ جَنْبَيْهِ ثُمَّ يَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِى رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا وَيَفْتَحُ أَصَابِعَ رِجْلَيْهِ إِذَا سَجَدَ وَيَسْجُدُ ثُمَّ يَقُولُ « اللَّهُ أَكْبَرُ ». وَيَرْفَعُ رَأْسَهُ وَيَثْنِى رِجْلَهُ الْيُسْرَى فَيَقْعُدُ عَلَيْهَا حَتَّى يَرْجِعَ كُلُّ عَظْمٍ إِلَى مَوْضِعِهِ ثُمَّ يَصْنَعُ فِى الأُخْرَى مِثْلَ ذَلِكَ ثُمَّ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ كَبَّرَ وَرَفَعَ يَدَيْهِ حَتَّى يُحَاذِىَ بِهِمَا مَنْكِبَيْهِ كَمَا كَبَّرَ عِنْدَ افْتِتَاحِ الصَّلاَةِ ثُمَّ يَصْنَعُ ذَلِكَ فِى بَقِيَّةِ صَلاَتِهِ حَتَّى إِذَا كَانَتِ السَّجْدَةُ الَّتِى فِيهَا التَّسْلِيمُ أَخَّرَ رِجْلَهُ الْيُسْرَى وَقَعَدَ مُتَوَرِّكًا عَلَى شِقِّهِ الأَيْسَرِ. قَالُوا صَدَقْتَ هَكَذَا كَانَ يُصَلِّى -صلى الله عليه وسلم-.


                      احمد بن حنبل، ابوعاصم، ضحاک بن مخلد، مسدد، یحی، احمد، عبدالحمید، ابن جعفر، محمد بن عمر بن عطاء، حضرت ابوحمید ساعدی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے دس صحابہ کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے جن میں ابوقتادہ بھی تھے ابوحمید نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی نماز کے متعلق میں تم میں سے سب سے زیادہ واقفیت رکھتا ہوں صحابہ نے کہا وہ کیسے؟ بخدا تم ہم سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی پیروی نہیں کرتے تھے اور نہ ہی تم ہم سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت میں آئے تھے ابوحمید نے کہا ہاں یہ درست ہے صحابہ نے کہا اچھا تو پھر بیان کرو ابوحمید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تھے تو اپنے دونوں مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے یہاں تک کہ ہر ہڈی اعتدال کے ساتھ اپنے مقام پر آجاتی اس کے بعد قرات شروع فرماتے پھر (رکوع) کی تکبیر کہتے ہوئے دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور رکوع کرتے اور رکوع میں دونوں ہتھیلیاں گھٹنوں پر رکھتے اور پشت سیدھی رکھتے سر کو نہ زیادہ جھکاتے اور نہ اونچا رکھتے۔ پھر سر اٹھاتے اور ۔سَمِعَ اللہ لِمَن حَمِدَہ کہتے۔ پھر سیدھے کھڑے ہو کر دونوں ہاتھ مونڈھوں تک اٹھاتے اور تکبیر کہتے ہوئے زمین کی طرف جھکتے (سجدہ کرتے) اور (سجدہ میں) دونوں ہاتھوں کو پہلوؤں سے جدا رکھتے پھر (سجدہ سے) سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر بیٹھتے اور سجدہ کے وقت پاؤں کی انگلیوں کو کھلا رکھتے پھر (دوسرا) سجدہ کرتے اور اللہ اکبر کہہ کر پھر سجدہ سے سر اٹھاتے اور بائیں پاؤں کو بچھا کر اس پر اتنی دیر تک بیٹھتے کہ ہر ہڈی اپنے مقام پر آجاتی (پھر کھڑے ہوتے) اور دوسری رکعت میں بھی ایسا ہی کرتے پھر جب دو رکعتوں سے فارغ ہو کر کھڑے ہوتے تو اللہ اکبر کہتے اور مونڈھوں تک دونوں ہاتھ اٹھاتے جس طرح کہ نماز کے شروع میں ہاتھ اٹھائے تھے اور تکبیر کہی تھی پھر باقی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے یہاں تک کہ جب آخری سجدہ سے فارغ ہوتے یعنی جس کے بعد سلام ہوتا ہے تو بایاں پاؤں نکالتے اور بائیں کولھے پر بیٹھتے (یہ سن کر) آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابہ نے کہا تم نے سچ کہا ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسی طرح نماز پڑھتے تھے۔

                      Comment


                      • #41
                        Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                        Originally posted by -=The Driver=- View Post
                        bhai r hum ..??
                        na na ghalti hogayee app se muhtaram... hum to tehre kafir r app log muslim...
                        to bhai bhai.. ?????
                        sawal yahi tha keh jahan jahan app log raffa e yadein karte hain,,can u prove that for any Hadith e mubaraka..???
                        mukhtasar sa jawab dijiye... yes r not...
                        hamesha khush raho.. Allah Tallah apke ilm mein mazeed izafa farmain..

                        تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

                        بھائی لولی سے کیا سوال کرتے ہو؟؟ اس کو تو صرف کاپی پیسٹ آتا ہے۔۔
                        یہ کسی اور کی پوسٹ پڑھتا ہی نہیں ہے۔۔

                        ثبوت ابھی دیکنا میری پوسٹ کے بعد کی اس کا کاپی پیست کیسے شروع ہوتا ہے اور پھر اس کے دعوے دیکھنا ک صرف قرآن اور حدیث کو مانتا ہے۔۔
                        میں اس سے بات بھی صرف قران اور حدیث سے پوچھوں گا لیکن اس کا جواب نہیں آئے گا بلکہ کاپی پیسٹ آئے گا۔۔۔



                        لولی تم نے احادیث پیش کی رفع یدین پہ بلکل صحیح ۔۔
                        نبی کریم ﷺ سے رفع یدین مختلف جگہ پہ مروی ہے اور احادیث سے ثابت ہے۔
                        تو میں بھی رفع یدین پہ کچھ احادیث پیش کر رہا ہوں۔۔
                        اب آپ بتاؤ کہ ان احادیث کے بارے میں کیا کہتے ہو؟؟؟


                        لولی آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی تو ابن عمر رضی اللہ سے صرف پہلی تکبیر کا رفع یدین صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔
                        حوالہ یہ ہے۔



                        حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد قَالَ : ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنْ الصَّلَاةِ
                        (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، موطا امام محمد صفحہ 90، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)؛
                        ترجمہ : حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔

                        تو یہ ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے نبیؐ کو (نماز میں) ہاتھ اٹھاتے ہوۓ دیکھا لیکن نبیؐ کے بعد ہاتھ اٹھانا چھوڑدیا تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب آپؓ کے نزدیک نبیؐ کا عمل منسوخ ہو چکا ہو جو آپؓ نے دیکھا تھا اور اس کے خلاف دلیل قائم ہوگئی
                        .



                        (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ "
                        حضرت علقمہ رحمہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضر ت عبد الله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں حضور صلی الله علیہ وسلم جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ چنانچہ آپ نے نماز پڑھی اور پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ کے وقت) رفع یدین کر نے کے علاوہ کسی اور جگہ رفع یدین نہیں کیا


                        آپ نے حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی روایت پیش کی تو ان کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔


                        ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی حدیث بخاری شریف میں بھی ہے جس میں صرف پہلی دفع کا رفع یدین ہے۔

                        (امام بخاری رح فرماتے ہیں کہ) ہم سے یحییٰ بن بکیر نے حدیث بیان کی کہا کہ ہم سے لیث نے خالد کے واسطہ سے (حدیث بیان کی) ان سے سعید نے ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
                        اور (دوسری سند سے امام بخاری رح فرماتے ہیں) کہا کہ مجھ سے لیث نے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمد کے واسطہ سے بیان کی. ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
                        کہ وہ چند صحابہ (رضی الله عنھم) کے ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے. نماز_نبوی کا ذکر ہوا تو (صحابی_رسول) حضرت ابو حمید ساعدی (رض) نے کہا کہ مجھے نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی نماز (کی تفصیلات) تم سب سے زیادہ یاد ہے....میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک اٹھائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو اس حد تک سیدھے ہوگئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ رخ کرلی تھیں، پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑا کر لیا، جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کرلیا، اور اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے

                        [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ, رقم الحديث: 789(828

                        اس صحیح سند والی حدیث میں نبی کی نماز میں نماز کے شروع میں رفع یدین کے علاوہ کا ذکر نہیں۔
                        اور بخاری شریف کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف پہلی دفع کا رفع یدین کیا۔
                        کیا آپ اس حدیث کو مانتے ہیں؟؟؟



                        اور برائے مہربانی اگر کچھ اعتراض کرنا ہے تو اپنے اصول صرف قران اور حدیث کو یاد رکھنا۔۔

                        Comment


                        • #42
                          Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                          jo cheez inn k muwafiq ho to wohi paish karengay.. i know this...

                          Comment


                          • #43
                            Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                            Originally posted by i love sahabah View Post



                            تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم


                            حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد قَالَ : ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنْ الصَّلَاةِ
                            (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، موطا امام محمد صفحہ 90، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)؛
                            ترجمہ : حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔


                            تو یہ ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے نبیؐ کو (نماز میں) ہاتھ اٹھاتے ہوۓ دیکھا لیکن نبیؐ کے بعد ہاتھ اٹھانا
                            چھوڑدیا تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب آپؓ کے نزدیک نبیؐ کا عمل منسوخ ہو چکا ہو جو آپؓ نے دیکھا تھا اور اس کے خلاف دلیل قائم ہوگئی


                            سلام میرے بھائی میں نے ایک سوال پہلے ہی پوچھا ہوا ہے

                            جب اس کا جواب نہیں آیا تو میں جواب کیسے دوں

                            امید ہے کہ آپ ضرور جواب دیں گے


                            جو لوگ جو وتر کی نماز میں تیسری رکعت میں د عا قنوت سے پہلے (دوران نماز) رفع یدین کرتے ہیں اس کا جواز کیا ہے ؟؟؟

                            رفع یدین فقہ حنفی میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہے ۔ باقی ہر جگہ منسوخ ہے

                            پلیز جواب دے کر ہمارے علم میں اضافہ کریں


                            آپ کے امام محمّد رحم اللہ ہی فرما رھے ہیں
                            جن کا آپ اوپر حوالہ دے چکے ہیں



                            حضرت امام محمد رحمہ اللہ علیہ نے فرمایا “سنت یہ ہے کہ جب کوئی اپنی نماز میں جھکے اور جب بلند ہو تکبیر کہے اور جب سجدہ کے لئے جھکے تکبیر کہے اور جب دوسرے سجدے کے لئے جھکے تکبیر کہے لیکن رفع الیدین نماز میں ایک بار ہے وہ یوں کہ صرف نماز شروع کرتے وقت اپنے دونوں ہاتھوں کو کانوں کے برابر اٹھائے ۔ یہی امام اعظم ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے۔ اس مسئلہ میں بہت سے آثار موجود ہیں۔“

                            (موطاء امام محمدصفحہ نمبرنوے)











                            Comment


                            • #44
                              Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                              Originally posted by i love sahabah View Post



                              تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم


                              حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد قَالَ : ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنْ الصَّلَاةِ
                              (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، موطا امام محمد صفحہ 90، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)؛
                              ترجمہ : حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔


                              تو یہ ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے نبیؐ کو (نماز میں) ہاتھ اٹھاتے ہوۓ دیکھا لیکن نبیؐ کے بعد ہاتھ اٹھانا
                              چھوڑدیا تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب آپؓ کے نزدیک نبیؐ کا عمل منسوخ ہو چکا ہو جو آپؓ نے دیکھا تھا اور اس کے خلاف دلیل قائم ہوگئی

                              یہ حدیث جو آپ نے پیش کی یہ موطا امام محمد صفحہ ٩٠ پر کہاں ہے

                              موطا امام محمد صفحہ 90




                              اور یہ بتا کر ہمارے علم میں اضافہ کریں

                              اللہ آپ کو جزائے خیر دے

                              آمین

                              جو لوگ جو وتر کی نماز میں تیسری رکعت میں د عا قنوت سے پہلے (دوران نماز) رفع یدین کرتے ہیں اس کا جواز کیا ہے ؟؟؟

                              رفع یدین فقہ حنفی میں صرف تکبیر تحریمہ کے وقت ہے ۔ باقی ہر جگہ منسوخ ہے


                              Comment


                              • #45
                                Re: کیا یہ سب کرنا ٹھیک ہے

                                بھائی دیکھا آپ نے لولی نے میری پوسٹ کا جواب نہیں دیا بلکہ ایک نیا سوال کاپی پیسٹ کر دیا اور آئندہ بھی یہ یہی کرے گا کیونکہ اس کو کاپی پیسٹ کرنے کو مل جائے تو کر دیتا ہے ورنہ اس کے پاس کوئی جواب نہیں ہوتا کیونکہ اس کی اپنی کوئی سوچ ہی نہیں ہے۔




                                لولی صاحب کئی بار آپ سے کہا ہے کہ کم از کم آپ رفع یدین کی نماز میں حیثیت کا تعین کر دیں لیکن ابھی تک آپ نے تعین نہیں کیا۔۔۔
                                اس بار بھی آپ نے جواب دینے کی بجائے الٹا سوال کیا ہے۔۔ جبکہ آپ کو چاہئے تھا کہ پہلے جواب دیتے پھر کوئی سوال کرتے۔۔۔


                                حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد قَالَ : ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنْ الصَّلَاةِ
                                (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، موطا امام محمد صفحہ 90، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)؛
                                ترجمہ : حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔


                                مجھ سے موطا محمد کا حوالہ دینے میں غلطی ہوئی ہے کیونکہ ابن عمر رضی اللہ کی روایت موطا میں ہے لیکن اس کی سند مختلف ہے تو اس کے لئے معذرت چاہتا ہوں۔


                                Click image for larger version

Name:	Rafa=Mota Muhammad 2.jpg
Views:	1
Size:	417.1 KB
ID:	2426572

                                اس کے بعد یہ کہ آپ نے میری پوسٹ کا جواب نہیں دیا بلکہ وتر کے بارے میں پوچھا ۔
                                عجیب بات ہے کہ آپ ان رفع یدین کی احادیث کو وتر کی نماز پہ قیاس کر رہے ہیں۔
                                ہمارا جس رفع یدین پہ اختلاف ہے وہ فرض نماز کے لئے ہے جبکہ آپ اس کو وتر پہ قیاس کر رہے ہیں۔
                                کیوں کے جب کوئی شخص نماز کا لفظ بولتا ہے تو اس سے عام نماز یعنی پانچ وقتوں میں پڑھی جانے والی نماز مراد ہوتی ہے نہ کہ وتر یا عیدین کی۔


                                اور رہی بات وتر کے رفع یدین کی تو جناب وتر کا رفع یدین احادیث میں آیا ہے۔

                                اسود سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ ابن مسعود رضی اللہ وتر کی آخری رکعت میں (قل ھو اللہ ھواحد) پڑھتے اور پھر رفع یدین کرتے اور پھر قنوت پڑھتے۔( مجمع الزوائد، رقم 3471، جلد 2 صفحہ ،244)، ( معجم الکبیر للطبرانی، جلد9 صفحہ 283)، ( جز رفع یدین للبخاری، صفحہ 145، رقم 163) ۔
                                اسود سے روایت ہے کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ نماز وتر میں قنوت سے پہلے رفع یدین کرتے تھے۔ ( مصنف ابن ابی شیبہ، جلد 2 صفحہ 307)۔

                                مغنی ابن قدامہ میں بھی ہے کہ ابن مسعود رضی اللہ قنوت سے پہلے رفع یدین کرتے تھے۔( مغنی ابن قدامہ، جلد 2، صفحہ 584)۔


                                اگر آپ کو وتر کے رفع یدین سے اختلاف ہے تو وتروں کے رفع یدین کی منع دکھا دیں۔


                                Originally posted by i love sahabah View Post

                                تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

                                بھائی لولی سے کیا سوال کرتے ہو؟؟ اس کو تو صرف کاپی پیسٹ آتا ہے۔۔
                                یہ کسی اور کی پوسٹ پڑھتا ہی نہیں ہے۔۔

                                ثبوت ابھی دیکنا میری پوسٹ کے بعد کی اس کا کاپی پیست کیسے شروع ہوتا ہے اور پھر اس کے دعوے دیکھنا ک صرف قرآن اور حدیث کو مانتا ہے۔۔
                                میں اس سے بات بھی صرف قران اور حدیث سے پوچھوں گا لیکن اس کا جواب نہیں آئے گا بلکہ کاپی پیسٹ آئے گا۔۔۔



                                لولی تم نے احادیث پیش کی رفع یدین پہ بلکل صحیح ۔۔
                                نبی کریم ﷺ سے رفع یدین مختلف جگہ پہ مروی ہے اور احادیث سے ثابت ہے۔
                                تو میں بھی رفع یدین پہ کچھ احادیث پیش کر رہا ہوں۔۔
                                اب آپ بتاؤ کہ ان احادیث کے بارے میں کیا کہتے ہو؟؟؟


                                لولی آپ نے ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روایت بیان کی تو ابن عمر رضی اللہ سے صرف پہلی تکبیر کا رفع یدین صحیح سند کے ساتھ ثابت ہے۔
                                حوالہ یہ ہے۔



                                حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي دَاوُد قَالَ : ثنا أَحْمَدُ بْنُ يُونُسَ قَالَ : ثنا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ ، عَنْ حُصَيْنٍ ، عَنْ مُجَاهِدٍ قَالَ : صَلَّيْت خَلْفَ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا فَلَمْ يَكُنْ يَرْفَعُ يَدَيْهِ إلَّا فِي التَّكْبِيرَةِ الْأُولَى مِنْ الصَّلَاةِ
                                (شرح معانی الآثار للطحاوی جلد اول صفحہ 155 ،مصنف ابن ابی شیبة جلداول صفحہ237، موطا امام محمد صفحہ 90، معرفة السنن و الآثار جلد دوم صفحہ 428)؛
                                ترجمہ : حضرت مجاہد رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں : میں نے حضرت عبداﷲ بن عمر کے پیچھے نماز پڑھی تو انہوں نے نہیں کیا رفع یدین مگر نماز کی پہلی تکبیر میں۔

                                تو یہ ابن عمرؓ ہیں جنہوں نے نبیؐ کو (نماز میں) ہاتھ اٹھاتے ہوۓ دیکھا لیکن نبیؐ کے بعد ہاتھ اٹھانا چھوڑدیا تو یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہے جب آپؓ کے نزدیک نبیؐ کا عمل منسوخ ہو چکا ہو جو آپؓ نے دیکھا تھا اور اس کے خلاف دلیل قائم ہوگئی
                                .



                                (حديث مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ كُلَيْبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ : قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ : " أَلَا أُصَلِّي بِكُمْ صَلَاةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، فَصَلَّى فَلَمْ يَرْفَعْ يَدَيْهِ إِلَّا فِي أَوَّلِ مَرَّةٍ "
                                حضرت علقمہ رحمہ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ حضر ت عبد الله بن مسعود رضی الله تعالیٰ عنہ نے فرمایا کیا میں تمہیں حضور صلی الله علیہ وسلم جیسی نماز پڑھ کر نہ دکھاؤں؟ چنانچہ آپ نے نماز پڑھی اور پہلی مرتبہ (تکبیر تحریمہ کے وقت) رفع یدین کر نے کے علاوہ کسی اور جگہ رفع یدین نہیں کیا


                                آپ نے حضرت ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی روایت پیش کی تو ان کی روایت صحیح بخاری میں بھی ہے۔


                                ابو حمید ساعدی رضی اللہ کی حدیث بخاری شریف میں بھی ہے جس میں صرف پہلی دفع کا رفع یدین ہے۔

                                (امام بخاری رح فرماتے ہیں کہ) ہم سے یحییٰ بن بکیر نے حدیث بیان کی کہا کہ ہم سے لیث نے خالد کے واسطہ سے (حدیث بیان کی) ان سے سعید نے ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
                                اور (دوسری سند سے امام بخاری رح فرماتے ہیں) کہا کہ مجھ سے لیث نے یزید بن ابی حبیب اور یزید بن محمد کے واسطہ سے بیان کی. ان سے محمد بن عمر بن {حلحلة} نے ان سے محمد بن عمر بن {عطاء} نے (حدیث بیان کی)....
                                کہ وہ چند صحابہ (رضی الله عنھم) کے ساتھ بیٹھے ہوۓ تھے. نماز_نبوی کا ذکر ہوا تو (صحابی_رسول) حضرت ابو حمید ساعدی (رض) نے کہا کہ مجھے نبی (صلی الله علیہ وسلم) کی نماز (کی تفصیلات) تم سب سے زیادہ یاد ہے....میں نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے تکبیر (تحریمہ) پڑھی، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے دونوں شانوں کی مقابل تک اٹھائے، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رکوع کیا، تو اپنے دونوں ہاتھ اپنے گھٹنوں پر جما لئے، اپنی پیٹھ کو جھکا دیا، جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنا سر (رکوع سے) اٹھایا تو اس حد تک سیدھے ہوگئے کہ ہر ایک عضو (کا جوڑا) اپنے اپنے مقام پر پہنچ گیا، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سجدہ کیا تو دونوں ہاتھ اپنے زمین پر رکھ دیئے، نہ ان کو بچھائے ہوئے تھے، اور نہ سمیٹے ہوئے تھے، اور پیر کی انگلیاں آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے قبلہ رخ کرلی تھیں، پھر جس وقت آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دو رکعتوں میں بیٹھے تو اپنے بائیں پیر پر بیٹھے، اور داہنے پیر کو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کھڑا کر لیا، جب آخری رکعت میں بیٹھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنے بائیں پیر کو آگے کر دیا، اور دوسرے پیر کو کھڑا کرلیا، اور اپنی نشست گاہ کے بل بیٹھ گئے

                                [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَذَانِ » أَبْوَابُ صِفَةِ الصَّلَاةِ » بَاب سُنَّةِ الْجُلُوسِ فِي التَّشَهُّدِ, رقم الحديث: 789(828

                                اس صحیح سند والی حدیث میں نبی کی نماز میں نماز کے شروع میں رفع یدین کے علاوہ کا ذکر نہیں۔
                                اور بخاری شریف کی اس روایت سے معلوم ہوتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے صرف پہلی دفع کا رفع یدین کیا۔
                                کیا آپ اس حدیث کو مانتے ہیں؟؟؟


                                اور برائے مہربانی اگر کچھ اعتراض کرنا ہے تو اپنے اصول صرف قران اور حدیث کو یاد رکھنا۔۔


                                اور برائے مہربانی میں نے اوپر جو احادیث پیش کی ہیں ان کا جواب دیں کہ آپ ان کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟؟؟

                                Comment

                                Working...
                                X