Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

کچھ حقائق واقعہ معراج کے متعلق

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • #16
    Re: کچھ حقائق واقعہ معراج کے متعلق

    Originally posted by Sub-Zero View Post

    لولی ٹائم کی خوشی کا عالم تو دیکھو واہ اب مزہ آئے گا اب سب زیرو پھنسا
    :lol
    تو عرض ہے میرے بھائی بے شک واقعہ معراج میں بے شمار سوالات تشنہ ہیں مگر بحثیت مسلمان چونکہ اس واقعہ کا ذکر قرآن میں ہے تو اس کا نا ماننے کا تو کوئی جواز نہیں بے شک اس سے بھی ثقیل واقعات ہمیں ہضم
    کرنے ہیں جیسے چاند کا شق ہونا ، ٹائٹانک سے بھی بڑے جھاز کا اکیلے انسان کا بنانا ، مردوں کا زندہ ہونا ، دریا کا شق ہونا ، مچھلی کے پیٹ میں چالیس دن زندہ رہنا ، ہزار سال عمر بارہ گز قد ، اور بھی بے شمار
    واقعات ہیں جنہیں نا سائنس مانتی ہے نا مانے گئی کیونکہ ان کی عقلی توجیہ ہے نا دی جا سکتی ہے کیونکہ یہ سب بلکل الگ ہے بہت الگ

    کبھی کبھی میں سوچتا ہوں بے شک بہت ساری باتیں سمجھ سے باہر ہیں مگر ایک مسلمان ہونے کا ناطے میرے پاس بہت زیادہ سہولت ہے کیسے؟
    دیکھیں میں ایسے اللہ پہ یقین رکھ رہا ہوں جو تین مذاہب کا خدا ہے اس سے مجھے بہت فائدہ ہے نبی کریم کے ساتھ ہم حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ
    اور حضرت ابراہیم کو بھی پیغمبر مانتے ہیں نبی مانتے ہیں عزت سے نام لیتے ہیں تو فائدہ ہوا جبکہ عیسائی اور یہودی نقصان میں ہیں


    عیسائیوں اوریہودیوں کے نقصان کو چھوڑو

    یعنی کے اس تہمید سے میں یہ سمجھوں کہ آپ اس واقعے کو تسلیم کرتے ہو


    Am I Right





    Comment


    • #17
      Re: کچھ حقائق واقعہ معراج کے متعلق

      Originally posted by Sub-Zero View Post
      6اب جو میں کہنے جارہا ہوں یا بد قسمتی سے کچھ ایسے سوال تشنہ ہیں جن کے تشنہ رہنا اتنا ہی بھیانک ہے جتنا کسی ایٹم بم کا بھرے پرے شہر میں رہنا جو کسی وقت بھی پھٹ جائے
      امید ہے یہ سوالات آپ کو بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کردیں گئے اور تاریخ کے اوراق کھنگال کر ان کے جواب ضرور ڈھونڈے گئے ورنہ بات پھر وہی
      لمبی خاموشی اور گھٹن

      سُبْحَانَ ٱلَّذِى أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ إِلَىٰ ٱلْمَسْجِدِ ٱلأَقْصَا ٱلَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَآ إِنَّهُ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلبَصِيرُ

      پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، وہ (مسجد اقصیٰ) کہ برکت دی ہم نے جس کے ماحول کو تاکہ دکھائیں اُسے ہم کچھ اپنی نشانیاں، بیشک اللہ ہی ہے سب کچھ جاننے والا اور دیکھنے والا۔(سورۃ بنی اسرائیل، آیت 1

      حضرت انس بن مالک سے روایت ہے، نبیؑ کریم نے فرمایا، میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا، میرے پاس حکمت اور ایمان سے بھرپور سونے کا ایک طشت لایا گیا۔ میرے سینے کو پیٹ کےآخری حصے تک کھولا گیا، اور اُسے آبِ زمزم سے دھونے کے بعد ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس ایک سواری لائی گئی جو گدھے سے بڑی اور گھوڑے سے چھوٹی تھی۔ یعنی براق، میں اس پر سوار ہو کر چلا، جب میں آسمانی دنیا پر پہنچا تو وہاں بتدریج پہلے آسمان پر حضرت آدم، دوسرے پر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ، تیسرے پر حضرت یوسف، چوتھے پر حضرت ادریس، پانچویں پر حضرت ہارون، چھٹے پر حضرت موسیٰ ملے۔ جب نبیؑ کریم وہاں سے آگے بڑھنے لگے تو حضرت موسیٰ نے رونا شروع کر دیا، کسی نے رونے کی وجہ پوچھی، حضرت موسیٰ نے فرمایا ” یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوّت دی گئی ہے، اس کی امّت میں سےجنّت میں داخل ہونے والے میری امّت کے جنّت میں داخل ہونے والوں سے زیادہ ہوں گے۔” ساتویں آسمان پر نبیؑ کریم حضرت ابراہیم سے ملتےہیں، آپ کا آخری پڑاؤ سدرۃ المنتہیٰ ہوتا ہے، آپ کو جنّت اور دوزخ کے مختلف حصوں کی سیر کرائی جاتی ہے، یہیں پر آپ کی امّت پر پچاس نمازیں فرض کی جاتی ہیں، واپسی پر حضرت موسیٰ آپ کو سمجھا کر اللہ میاں کے پاس واپس بھیجتے ہیں کہ پچاس نمازیں بہت زیادہ ہیں،آپ کی امت اس فریضے کو نبھا نہیں پائے گی۔ نبی کریم حضرت موسیٰ کےسمجھانے پر کئی بار اوپر نیچے جا کر فرض کی گئی نمازوں کی تعداد پانچ تک لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔(صیح بخاری، والیوم نمبر حدیث نمبر 3626 کی تلخیص 5

      ” قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ” جب میں اس پر سوار ہونے کے لیئے اس کے پاس گیا تو وہ شوخی کرنے لگا، تو جبرئیل نے اپنا ہاتھ اس کی ایال پر رکھا اور کہا، اے براق تو جو کچھ کر رہا ہے اس سے تجھے شرم نہیں آتی۔ اے اللہ کی قسم، محمدؐ سے پہلے تجھ پر کوئی اللہ کا ایسا بندہ سوار نہیں ہوا جو آپؐ سے زیادہ عزت والا ہو، (نبیؑ کریم نے) فرمایا، تو (براق)ایسا شرمندہ ہوا کہ پسینہ پسینہ ہو گیا۔ اور خاموش کھڑا ہو گیا،یہاں تک کہ میں اس پر سوار ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر رسول اللہ چلے اور جبرائیل بھی آپ کےساتھ چلے، یہاں تک کہ آپ کولے کر بیت المقدس پہنچے،تو وہاں ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور دیگر انبیا ءکو پایا، تو رسول اللہ نے انکی امامت کی اور انہیں نماز پڑھائی۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تین برتن لائےگئے، ان برتن میں دودھ، ایک میں شراب اور ایک میں پانی تھا۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا : جب وہ ( برتن) میرے سامنے پیش ہوئے تو میں نے کسی کہنے والے کو کہتے ہوئے سنا۔ اگر اس نے پانی لیا (تو خود بھی ) ڈوبا اور اس کی امت بھی ڈوبی۔ اگر اس نے شراب لی ( توخود بھی ) گمراہ ہوا اور اس کی امت (بھی) گمراہ ہوئی۔ اور اگر اس نے دودھ لیا ( تو خود بھی ) راہ راست پا لی،اور اس کی امت (بھی) راہ راست پر لگ گئی۔ فرمایا کہ پھر تو میں نے دودھ کا ہی برتن لیا، اور اس میں سے پیا تو جبرائیل نے مجھ سے کہا اے محمد! آپ نے راہ راست پا لی۔ اور آپ کی امت ( بھی) راہ راست پر لگ گئی۔محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ

      حضرت عباس سے مروی ہے، کہ ہجرت سے ایک سال قبل 17 ربیع الاول کو نبیؑ کریم کو بیت المقدس لے جایا گیا۔ جب آنحضور براق کے پاس گئے تو اُس نے بھڑکنا شروع کر دیا، حضرت جبرائیل نے اپنا ہاتھ اُس پر رکھا اورکہا، اے براق تجھے شرم نہیں آتی، محمدؐ سے پہلے تجھ پر کوئی بندہ سوار نہیں ہوا جو اللہ کے نزدیک ان سے افضل ہو، براق یہ سُن کر شرم سے پانی پانی ہو گیا اور رک گیا کہ میں اس پر سوار ہوں۔ پھر اس نے کان ہلائے اور زمین سمیٹ دی۔ یہاں تک کہ ان کا کنارہ براق کے قدم پڑنے کی آخری جگہ تھی۔ اس کی پشت اور کان دراز تھے۔جبرئیل میرے ساتھ اس طرح روانہ ہوئے کہ نہ میں انہیں چھوڑتا تھا، نہ وہ مجھے چھوڑتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مجھے بیت المقدس پہنچا دیا، براق اپنے مقام پر پہنچ گیا جہاں وہ کھڑا ہوتا تھا۔ جبرائیل نے اسے وہاں باندھ دیا.اس جگہ رسول اللہ سے پہلے تمام انبیا ءکی سواریاں باندھی جاتی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا، میں نے تمام انبیاء دیکھے جنہیں میرے ارد گرد جمع کر دیا گیا تھا۔ میں نے ابراہیم، موسیٰ،عیسیٰ کو دیکھا۔ خیال ہوا ضرور ان کا کوئی امام ہو گا، جبرائیل نے مجھے آگے کر دیا، میں نے سب کے آگے نماز پڑھی، دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم سب توحید کے ساتھ بھیجے گئے ہیں

      ابوہریرہ سے روایت ہے ۔ رسول اللہ نے فرمایا، میں ھجر (کعبہ کا بغیر چھت کا حصہ) پر تھا اور قریش مجھ سے معراج کے متعلق پوچھ رہے تھے اور بیت المقدس سے متعلقہ ایسے سوال کر رہےتھے۔ جن کے متعلق مجھے کچھ یاد نہیں رہا تھا، اس دن میں اس قدر جھنجھلایا ہوا تھا کہ پہلے زندگی میں کبھی نہیں ہوا۔ تب اللہ نے اس (بیت المقدس) کو میری آنکھوں کے سامنے ظاہر کیا، میں نے اس کی طرف دیکھا اور قریش کے تمام سوالوں کے جواب دے دیئے۔ میں نے اپنے آپ کو نبیوں کے درمیان پایا، میں نے حضرت موسیٰ کو عبادت کرتے دیکھا، اُنکا جسم بہت مضبوط اور گٹھا ہوا تھا جیسے وہ شنوعہ قبیلے کے ہوں، میں نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کو عبادت کرتے دیکھا، ان کی شکل عروۃ ابن سعود الثقفی سے بہت مشابہ تھی۔ میں نے حضرت ابراہیم کو عبادت کرتے دیکھا، اُن کی شکل آپ کے ساتھی (نبیؑ کریم) سے بہت ملتی تھی۔ جب نماز کا وقت آیا تو میں نے امامت کی۔ جب نماز ختم ہوئی تو کسی نے کہا، یہ مالک ہیں، جہنم کے نگراں، انہیں سلام کرو، میں ان کی طرف مڑا لیکن انہوں نے مجھے پہلے سلام کر دیا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان: حدیث نمبر۔328

      ” یہ (معراج کا قصہ) سُن کر بہت سے جو پہلےمسلمان تھے اور عبادت گذار تھے، وہ اسلام سے تائب ہو گئے۔ بہت سوں نے اسلام سے کنارہ کشی کر لی، کچھ حضرت ابوبکر کے پاس گئے اورکہا اب تم اپنے دوست کے متعلق کیا کہتے ہو، وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ پچھلی رات یروشلم گیا تھا، وہاں عبادت کی اور واپس مکہ آ گیا “۔

      حضرت ابوبکر نے کہا تم نبیؑ کے متعلق جھوٹ بول رہے ہو، لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ حضور اس وقت کعبہ میں قریش کو یہی واقعہ بتا رہے ہیں تو آپ نے کہا۔ ” اگر وہ یہ کہتے ہیں تو یہ سچ ہے، مجھے ان پر یقین ہے۔ اس میں حیرانی والی کون سی بات ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ عرش سے بھیجا ہوا اللہ کا پیغام زمیں پر میرے پاس چند گھڑیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اور میں اس پر یقیں کرتا ہوں۔ اور معراج اتنی غیر معمولی واقعہ نہیں کہ تمہارے دماغ یوں چکرائیں، جتنا کہ یہ (وحی) ہے“(محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ

      اس کے بعد حضرت ابوبکر حضور کے پاس گئے اور معراج کی تصدیق چاہی، جب حضور نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے حضور سے یروشلم کے متعلق تفصیلات چاہیں۔ جب بھی حضور کچھ بتاتے، ابوبکر فرماتے ” بالکل سچ، آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں” حتیٰ کہ آپ نے پوری داستان بیان کر دی۔ حضرت ابوبکر کی اس گواہی سے خوش ہو کر حضور نے کہا ” انت یا ابابکرصدیق، اے ابوبکر! تم صدیق (سچا۔ راست گو) ہو۔

      اہل مکہ کے اس رویے کے باعث آپ کی بہت زیادہ دل شکنی ہوئی، مالک دو جہاں نے یہ آیت نازل فرما کر آپ کی اشک شوئی کی۔ ” حسن نے کہا کہ اس وجہ سے ان لوگوں کے متعلق جو اپنے اسلام سے مرتد ہو گئے تھے، اللہ نے نازل فرمایا۔

      وَمَاجَعَلْنَا ٱلرُّءْيَا ٱلَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَٱلشَّجَرَةَ ٱلْمَلْعُونَةَ فِي ٱلقُرْآنِ وَنُخَوِّ فُهُمْ فَمَا يَزِيدُ هُمْ إِلاَّ طُغْيَاناًكَبِيراً

      اور جو نظارا ہم نے تمہیں دکھایا ہے، اور جس درخت پر قران میں لعنت بھیجی گئی ہے، یہ تو لوگوں کیلئے ہم نے آزمائش بنائی ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو یہ ڈرانا ان میں سخت سرکشی ہی کو زیادہ کرتا ہے۔(سورۃبنی اسرائیل

      تشنہ سوالات

      زرتشتی عقیدہ


      ساسانی دور حکومت کے ایران میں ” اردا ویراف نمگ” کے نام سے ایک کتاب لکھی گئی جس کا سن تحریر تقریباً 270 سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ زرتشتی عقیدے کے مطابق ژند اوستا کے بعد یہ دوسری اہم کتاب ہے۔ اس کتاب میں اردا ویراف نام کے ایک زرتشتی پادری کا ذکر ہے، جو اپنے خدا آہور مزدا سے ملنے کیلئے آسمانوں پر جاتا ہے، لیکن چھ دن پر محیط اس کا یہ سفر جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوتا ہے۔ اردا ویراف کی راہنمائی حضرت جبرائیل کی بجائے ادار نامی فرشتہ اور متقی سروش کر رہے ہوتے ہیں۔ سفرکے آغاز میں اردا ویراف کو چینوت نامی پُل عبور کرنا ہوتا ہے، جو تلوار جتنا پتلا اور تیز ہے، اگر کوئی نیک آدمی آتا ہے تو وہ پل بڑا ہو جاتا ہے اور نیک آدمی اس پر سے گزر جاتا ہے، لیکن گناہگار لوگ اس پل سے کٹ کٹ کر نیچے اہرمن کی دوزخ میں گر جاتے ہیں (پل صراط کےساتھ کس قدر مشابہت ہے)۔ ادار فرشتے کی مدد سے پل پار کرنے کے بعد اردا ویراف” حوض کوثر” کی بجائے “روشنیوں کےشہر” پہنچتا ہے۔ اپنے اس سفر کے بعد اردا ویراف کو جنت اورجہنم کے مختلف حصوں کی سیر کرائی جاتی ہے۔ اردا ویراف وہاں مختلف لوگوں سے ملتا ہے، جنہوں نے اپنی زندگی میں مختلف قسم کے گناہ یا نیکی کے کام کئے ہوتےہیں۔

      چینوت پل پار کرنے کے بعد ” متقی سروش اور ادار فرشتے نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ چلو آؤ تاکہ ہم تمہیں جنت اور دوزخ دکھائیں۔ اور وہ شان و شوکت اور آسانیاں اور خوشیاں اورمسرت اور خوشبوئیں جو نیکو کاروں کا اجر ہیں۔ ہم تمہیں وہ تاریکی، ذلت، بدقسمتی، تکلیف، شر، درد، ڈر، بیچارگی، اذیت، بدبو اور مختلف سزائیں بھی دکھائیں گے جس سے گناہ گار، راکھشس اور جادوگر دوچار ہوں گے۔ ہم تمہیں سچ اور جھوٹ کی جگہیں دکھائیں گے۔ ہم تمہیں ان نکو کاروں کو دیا جانے والا اجر دکھائیں گے، جن نکوکاروں کا آہور مزدا، عظیم فرشتوں،جنت اور دوزخ پر ایمان تھا، ۔ اور دکھائیں گے خدا اور عظیم فرشتوں کی حقیقت اور اھرمن اور شیاطین کی غیر حقیقت، اور مرنے والوں کے دوبارہ اٹھنے کی حقیقت اور ان کو دئیےجانے والے مستقبل کے بدن۔ ہم تمہیں دکھائیں گے جنت کے اندر آہور مزدا اور عظیم فرشتوں کا نکو کاروں کو دیا گیا اجر۔ ہم تمہیں مختلف اذیتیں اورعذاب دکھائیں گے جوگناہ گاروں کو اھرمن اور دیگر راکھشسوں کی جہنم کے اندر دی جائیں گی۔

      اسکے بعد میں نے رہِ نجوم پر پاؤں رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے متقی سروش اور ادار فرشتے سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور یہ کون لوگ ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے عبادت نہیں کی، گاتھا کے منتر نہیں پڑھے، نزدیکی رشتہ داروں سے شادی نہیں کی، انہوں نے حکومت بھی نہیں کی، لیکن دوسرے اچھے اعمال کی وجہ سے یہ پارسا ٹھہرے۔

      پھر اردہ رہِ قمر کو جاتا ہے، جس میں موجود لوگوں کے چہرے چاند کی طرح چمکتے ہیں۔ اور میں نے متقی سروش اور ادار فرشتے سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور یہ کون لوگ ہیں۔انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے عبادت نہیں کی، گاتھا کے منتر نہیں پڑھے، نزدیکی رشتہ داروں سے شادی نہیں کی، انہوں نے حکومت بھی نہیں کی، لیکن دوسرے اچھے اعمال کیوجہ سے یہ یہ پارسا ٹھہرے۔ اس کےبعد اردہ رہِ آفتاب کے لوگوں سے ملتا ہے اور ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے، کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حاکم ہوئے اور انہوں نے بہت اچھی حکومت کی۔

      وہاں سے گزر کر اردہ جنت پہنچتا ہے، تو سب سے پہلے اسے وہ عورتیں ملتی ہیں جنہوں نے اچھا سوچا، اچھا بولا، اچھے کام کیئے اور اپنے خاوندوں کی فرمانبرداری کی، ان عورتوں کا لباس سونے، چاندی اور جواہرات سے جڑا ہوتا ہے۔ اسکے بعد اردہ جنت کے دیگر حصوں میں پھرتا ہے، جہاں اسے سونے کے تخت پر بیٹھی کئی روحیں نظر آتی ہیں جنہوں نے دنیا میں نیکی کے مختلف کام کیئے تھے۔ آردہ آگے بڑھتا رہتا ہے اور اسکے ہمراہی اسے بتاتے رہتے ہیں، کہ کس آدمی نے دنیا میں کون سے نیک کام کئے، جس کے بدلے اسے جنت میں یہ مقام عطا ہوا۔

      جنت کے بعد اردہ کو دوزخ کی جانب لایا جاتا ہے، پہلے اسے ایک پل کے پاس سے گزرنا ہوتا ہے،جس کے نیچے ایک بہت ہی اداس قسم کا دریا بہہ رہا ہوتا ہے، اردہ کو بتایا جاتا ہے کہ یہ دریا ان مردوں کے آنسوؤں سے بنا ہے جنہوں نے مرنے والوں کیلئے ناحق آنسو بہائے۔ اسکے بعد اردہ دوزخ کے اندر گناہ گاروں کو دی جانے والی اذیت کے مناظر دیکھتا ہے، متقی سروش اور آدر فرشتہ تفصیل بتاتے ہیں کہ کس آدمی کو کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے

      میں نے ایک آدمی کی روح کو دیکھا جس کی زبان کو کیڑے کتر رہے تھے، میں نے پوچھا اس جسم سے کون سے گناہ سرزد ہوئے۔ متقی سروش اور اراد فرشتے نے بتایا کہ یہ ایک ایسے نابکار کی روح ہے جس نے بہت زیادہ جھوٹ بولے، یوں اس نے دیگر مخلوق کو نقصان پہنچایا۔

      میں نے ایک ایسی عورت کو دیکھا جو اپنے دانتوں سے اپنی لاش کو چبا رہی تھی، میں نے پوچھاکہ یہ کس کی روح ہے، متقی سروش اور ادار فرشتے نے بتایا، کہ یہ ایسی بدکار عورت کی روح ہے جو جادو کرتی تھی “۔

      آخری دن اردا ویراف کو ساتویں آسمان پرلے جایا جاتا ہے، جہان اسے خدائے بزرگ و برتر کا دیدار نصیب ہوتا ہے، وہاں اردا ویراف کو پتہ چلتا ہے کہ آہور مزدا کی کوئی شکل نہیں ہے بلکہ وہ ایک ابدی نور ہے۔ اس کے بعداردا ویراف کی روح زمیں پر اس کے جسم میں واپس آ جاتی ہے۔ (مزید تفصیلات کیلئے دیکھیئے: اردہ ویراف نمگ

      واقعہ معراج کی جھلک

      شب معراج کو نبی کریم کو بھی ان کی خواہش پر دوذخ کا ڈھکنا اٹھا کر دوزخ کے عجائبات دکھائےجاتے ہیں، آپ نے بھی اردہ ویراف کی طرح مختلف لوگوں کو شدید عذاب میں مبتلا دیکھا:

      پھر میں نے وہ لوگ دیکھے جن کے ہونٹ اونٹوں کی طرح تھے، ان کے ہاتھ میں آگ کے گولوں کی طرح کے پتھر تھے، جنہیں وہ منہ میں ڈالتے تھے اور وہ ان کے مقعد سے باہر نکلتے تھے، مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال کھا جایا کرتے تھے۔

      پھر میں نے چند لوگ دیکھے ان جیسے پیٹ میں نے کبھی نہیں یکھے، جب وہ جہنم میں لائے جاتےہیں تو ان پر جیسے پیاسے اونٹ گزر جاتے ہیں، اور ان میں ہلنے کی سکت نہیں ہوتی۔ یہ سود خور تھے۔

      پھر میں وہ لوگ دیکھے جن کے سامنے چکنا فربہ گوشت تھا، اور اس کے ساتھ دبلا ( دبلے جانورکا) اور بدبودار گوشت بھی، اور وہ لوگ چکنے اور فربہ گوشت کی بجائے وہی دبلا اور بدبودار گوشت کھا رہے تھے، مجھے بتایا گیا،کہ یہ وہ لوگ تھے جو ان عورتوں کو جو حلال ٹھہرائی گئیں تھیں، ان کو چھوڑ کر دوسری عورتوں کے پاس جاتے تھے۔

      پھرمیں نے ایسی عورتیں دیکھیں جو اپنی چھاتیوں سے لٹکی ہوئی تھیں۔ یہ وہ تھیں جنہوں نے( اپنے) مردوں کے پاس ایسا بچہ داخل کرا دیا جو ان کا اپنی اولاد میں سے نہیں تھا“۔ (محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ

      تشنہ سوالات

      ھیکل سلیمانی کو تقریبا٘ ایک ہزار قبل مسیح حضرت سلیمان نے تعمیر کروایا تھا۔ بابلی بادشاہ بخت نصر نے 586 قبل مسیح میں یروشلم پر قبضہ کر کے ھیکل سلیمانی کو آگ لگا دی۔515 قبل مسیح میں اس معبد کو دوبارہ بنایا گیا، لیکن 70ء میں ٹائٹس اور اسکے رومی سپاہیوں نے حملے کے بعد اسے سطح زمین کے برابر کر دیا۔ جب معراج کا مبارک واقعہ پیش آیا، اُس وقت وہاں نہ مسجد اقصیٰ تھی اور نہ ہی معبد سلیمانی۔ بلکہ وہ جگہ شہر بھر کا کوڑا کرکٹ پھینکنے کیلئے استعمال ہوتی تھی۔

      کیا وجہ ہے، خدا نے جب بھی اپنے بندے سے رابطہ کیا، اس نے ان وقتوں کی میسر ” ٹیکنالوجی” سے ہی کیوں استفادہ فرمایا۔ حمورابی اور حضرت موسیٰ کو پتھر کی سلوں پر کندہ احکامات دئیے، آج کے وقتوں میں خدا یقیناَ جدید ذرائع استعمال کرتا۔ حضور کے زمانہ میں کسی کو پیغام دینے کیلئے کسی کو بھیجنا پڑتا تھا،اسی لئے حضرت جبرئیل بذات خود اللہ کا پیغام لے کر آتے تھے۔ اگر رسول اللہ آج ہوتے تو اللہ میاں حضرت جبرائیل کے ذریعے وحی بھیجنے کی بجائے رسول اللہ کو ای میل کرتے۔ حضور کے زمانے میں سواری کیلئے گھوڑا اور گدھا ہی میسر تھے، اور چونکہ آسمان کی جانب اڑنے کیلئے پروں کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا اللہ میاں نے سرور کونین کیلئے اڑنے والا گدھا بھیجا۔ آج کے وقتوں میں اللہ میاں یقیناَ سپیس شپ یا خلائی شٹل بھیجتے۔ نبی تو در کنار،جب جبرئیل حضور کو قبیلہ بنو قریظہ پر حملہ کرنے کی صلاح دینے آتےہیں، تب وہ بھی گدھےپر سوار ہوتے ہیں اور انہوں نے کشیدہ کاری سے مزین عمامہ سر پرباندھا ہوتا ہے۔(تفصیل کیلئے دیکھئے: سیرت محمد بن اسحاق

      سوال یہ ہے کہ رسول اللہ مکہ سے سیدھے ہی عرش پر کیوں نہیں گئے؟، کیا یروشلم میں عرش پر جانے کیلئے کوئی شارٹ کٹ راستہ موجود تھا؟۔ کیا وہاں پر کوئی وورم ہول تھا؟۔ اگر انبیا کی نماز کی امامت کروانی ہی مقصود تھی تو وہ مکہ میں کیوں نہیں ہو سکتی تھی؟۔ کیا سواریوں کی کمی کیوجہ سے دیگر انبیاءکرام کیلئے مکہ پہنچنا مشکل تھا؟۔ اگر اللہ میاں نے یروشلم میں وورم ہول بنایا تھا تو کیا وہ ایسا ہی وورم ہول مکہ میں نہیں بنا سکتا تھا؟۔ اور وہ سیڑھی جس پر چڑھ کر نبیؑ کریم عرش معلیٰ پہنچے،کیا ایسی سیڑھی مکہ میں نصب نہیں ہو سکتی تھی؟۔کیا اس میں کوئی تکنیکی مسائل در پیش تھے، یا اللہ میاں کو مکہ کی نسبت یروشلم زیادہ عزیز ہے؟۔

      جب نبی کریم براق پرسوار ہونے لگے تو براق کیوں بھڑکنے لگا، کیا اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ اسے کس مقصد کیلئے زمین پر بھیجا گیا ہے، کیا اسے اللہ میاں یا حضرت جبرائیل نے اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا؟۔ لہذا اس نے زمین پر آتے ہی اپنے زمینی بھائیوں(گدھوں) کی طرح دولتیاں جھاڑنی شروع کر دیں


      جہاں رسول اللہ نے انبیاءکرام کی نماز کی امامت فرمائی، کیا وہ معبد سلیمانی تھا جو انکی پیدائش سے تقریباَ 570 سال قبل تباہ ہو چکا تھا یا مسجد اقصیٰ، جسے خاندان بنوامّیہ کے عبدالمالک بن مروان نے حضور کی وفات کے 73 سال بعد بنوایا تھا۔ کیا حضور پاک کا آسمانی گدھا ایک ٹائم مشین تھا، جو حضور کو انکی پیدائش سے 570 سال پہلے تباہ شدہ معبد میں لے گیا تھا، یا انکی وفات کے 73 سال بعد بننے والی مسجد میں۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ کُوڑےکا ڈھیر مسلمانوں کا قبلہ اوّل تھا؟، اور اسی کوڑےکے ڈھیر پرحضور نے انبیا کی نماز کی امامت فرمائی تھی؟۔ اور حضور مکہ کے لوگوں کو کس مسجد کے دروازوں کی تفصیل بتا رہے تھے؟۔

      اللہ میاں نے پہلے مسلمانوں پر پچاس نمازیں فرض کی تھیں، حضور کا بار بار اوپر جا کر نمازیں کم کروانا، خدا اور اس کے رسول کے درمیاں مکالمے کی بجائے ایک ایسی دوکان کا سا سماں پیدا کرتا ہے، جہان ایک دوکاندار اور گاہک خاتوں کے درمیاں کسی چیز پر مول تول ہو رہاہے۔ اور بھلا ہو اس یہودی پیغمبر کا کہ اس کی وجہ سے ہمیں پچاس کی بجائے پانچ نمازوں کا حکم ہوا، وگرنہ دن بھر نمازیں پڑھ پڑھ کے ہماری تو مت ماری جانی تھی۔ یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ پچاس نمازوں کے پڑھے جانے کی جو مشکل حضرت موسیٰ نے نوٹ فرما لی تھی، وہ نہ ہی حضور کے ذہن میں آئی اور نہ ہی اللہ میاں کے۔ حضرت موسیٰ اللہ میاں اور ہمارے نبیؑ دونوں سے زیادہ عقلمند ثابت ہوئے


      حضور مسجد اقصیٰ میں دو رکعت نماز کی امامت کرواتےہیں اور تمام انبیا اُن کے پیچھے ہوتے ہیں،جب حضور آسمانوں پر پہنچتےہیں، تووہ نبی پہلے سے ہی وہاں موجود ہوتے ہیں، کیا اُنکے پاس حضور سے بھی زیادہ تیز رفتارسواری تھی کہ وہ نماز پڑھنے کے بعد حضور سے پہلے ہی اپنے اپنے آسمانوں پر پہنچ جاتے ہیں؟

      تمام احادیث کے مطابق نماز نبیؑ کریم کے عرش پر موجودگی کے وقت فرض ہوئی، اور جبرئیل دوسرے دن آپ اور دیگر صحابہ کرام کو نماز پڑھنا سکھاتے ہیں۔ تو پھر آپ نے عرش پر جانے سے پہلے کس قسم کی دو رکعت نماز ادا کی۔

      ہو سکتا ہےمعراج نبوی کے متعلق سب حدیثیں غلط ہوں، تمام مسلمان تاریخ دانوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہو۔ لیکن یہ معراج کا واقعہ قرآن میں کیونکر درج ہوا۔ کیا اس کا مطلب ہے، کہ وہ افواہ سچی نکلی کہ بنوامّیہ کےدور میں قراؑن میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، کیا یہ ممکن نہیں ہے، کہ عبدالملک بن مروان کے مسجد اقصیٰ بنانے کے بعداس آیت کو قرآن میں درج کیا گیا ہو؟۔ لیکن اللہ میاں نے تو وعدہ کیا تھا کہ وہ خودقرآن کی حفاظت کریں گے ( ویسے حفاظت تو انہیں اپنی پہلی الہامی کتابوں کی بھی کرنی چاہیئے تھی)۔ توکیا اللہ میاں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا؟۔ کیا اللہ میاں اپنے وعدہ سے پھر گئے؟، یا اللہ میاں سے پھر ایک بار پھر چوک ہو گئی؟











      سلام میرے بھایئو

      یہ بندہ ہمیشہ دوسروں پر الزام لگاتا تھا کہ وہ کٹ پسٹ کرتے ہیں

      لکن اس نے یہ پوری تحریر نیچے والے لنک سے کاپی کر کے یہاں پسٹ کر دی







      Last edited by .; 30 April 2013, 19:58.

      Comment


      • #18
        Re: کچھ حقائق واقعہ معراج کے متعلق

        لولی تم کاپی پیسٹر ہو اور رہو گئے میری لگائی تھریڈ کی تمھید پڑھو کہ یہ سوالات کسی ایٹم بم سے کم نہیں نمبر دو اسے میں نے کسی بھی موقعے پر اپنی پراپرٹی نہیں کہا
        تیسرا میں نے بے شمار فضول باتوں کو حزف کیا تاکہ آپ کے جزبات میری طرح مجروح نا ہوں تیسرا بانیاز کی پوسٹ پر میرا اقرار باوجود کسی نے کوئی پر دلیل جواب نہیں
        دیا جس سے تسلی تخشی ہوسکے ہاں معراج کو مجھے ماننا ہوگا ناکہ ان سولات کا کوئی جواب دے یا نا دے
        بات یہ ہے اسلالم دشمنی یہ ہوتی جب مجھے ان کے جواب آتے اور میں نہ بتاتا جبکہ یہ میرا فرض ہے اور آپ کا حق آپ ان سوالوں کو ڈھونڈ کر رکھیں تاکہ آنے والی نسلیں
        بہکے نہیں یہ دور لارے لپوں کا نہیں جدید سائنس کا ہے تو سمجھو کہ وقت نکل جائے
        ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
        سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

        Comment


        • #19
          Re: کچھ حقائق واقعہ معراج کے متعلق

          Originally posted by Sub-Zero View Post
          لولی تم کاپی پیسٹر ہو اور رہو گئے میری لگائی تھریڈ کی تمھید پڑھو کہ یہ سوالات کسی ایٹم بم سے کم نہیں نمبر دو اسے میں نے کسی بھی موقعے پر اپنی پراپرٹی نہیں کہا
          تیسرا میں نے بے شمار فضول باتوں کو حزف کیا تاکہ آپ کے جزبات میری طرح مجروح نا ہوں تیسرا بانیاز کی پوسٹ پر میرا اقرار باوجود کسی نے کوئی پر دلیل جواب نہیں
          دیا جس سے تسلی تخشی ہوسکے ہاں معراج کو مجھے ماننا ہوگا ناکہ ان سولات کا کوئی جواب دے یا نا دے
          بات یہ ہے اسلالم دشمنی یہ ہوتی جب مجھے ان کے جواب آتے اور میں نہ بتاتا جبکہ یہ میرا فرض ہے اور آپ کا حق آپ ان سوالوں کو ڈھونڈ کر رکھیں تاکہ آنے والی نسلیں
          بہکے نہیں یہ دور لارے لپوں کا نہیں جدید سائنس کا ہے تو سمجھو کہ وقت نکل جائے


          میرے بھائی

          اللہ تعالی کی ہستی ہماری عقل کی حدود سے ماوراء ہے

          اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ ہم اللہ تعالی کی ہستی اور اس کے معاملات کا ادراک نہیں کر سکتے۔ ایسی بحثیں محض ذہن کو پراگندہ کرتی ہیں اور فکر کو الجھاتی ہیں۔ اس کی بجائے ہمیں اللہ تعالی کی قدرت، اس کے کاموں اور اس کی نعمتوں پر غور و فکر کرنا چاہیے تاکہ ہمارے دل میں اس کی محبت پیدا ہو۔

          ایک مثال دیتا ہوں




          وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ آيَاتٍ مُبَيِّنَاتٍ وَمَثَلاً مِنْ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ (34) اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِوَالأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي
          اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ


          (35)


          "(اے نبی!) ہم نے آپ کی جانب روشن آیات نازل کی ہیں اور ان لوگوں کی مثالیں بھی جو آپ سے پہلے تھے، پرہیز گاروں کے لیے ایک نصیحت۔ اللہ آسمان و زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو، وہ چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو گویا کہ وہ چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے جو کہ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہے۔ یہ نہ تو مشرقی ہے اور نہ مغربی، قریب ہے کہ اس کا تیل خود ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے۔ یہ نور کے اوپر ایک اور نور ہے۔ اللہ اپنے نور سے جسے چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔"


          (سورۃ النور)



          آیت کریمہ میں یہ نہیں کہا گیا کہ اللہ تعالی معاذ اللہ نور کے مٹیریل سے بنا ہوا ہے بلکہ ایک تمثیل بیان کی گئی ہے کہ جیسے ایک چراغ ہوتا ہے جو کہ شیشے کے کیس میں بند ہو تو اس کی روشنی ہر جانب پھیلتی ہے اور اپنے ماحول کو منور کرتی ہے۔ ویسے ہی اللہ تعالی کا نور ہدایت پھیلتا ہے۔ یہاں معاذ اللہ، اللہ تعالی کی ہستی کا مٹیریل زیر بحث نہیں ہے۔
          اللہ تعالی کی ہستی ہماری عقل کی حدود سے ماوراء ہے اور ہمارے اسلاف کا یہ طریقہ رہا ہے کہ وہ اللہ تعالی کی ہستی میں غور نہیں کیا کرتے تھے کیونکہ ہم اس کی ہستی کو سمجھنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ اللہ تعالی کی ہستی ایک نور ہے۔ اسے تو سب ہی مانتے ہیں لیکن اس نور کی تفصیلات کا ہمیں علم نہیں ہے اور نہ ہی ہم روشنی پر اسے قیاس کر سکتے ہیں کیونکہ لیس کمثلہ شییء، کوئی چیز اس کی مانند نہیں ہے۔ آسمان و زمین کا نور ہونے سے مراد یہ ہو سکتی ہے کہ آسمان و زمین اسی کی قدرت سے منور ہیں اور وہی سب کو ہدایت دیتا ہے۔ اللہ تعالی نور ہے جیسا کہ اس کی شان کے لائق ہے۔ اس کے نور کو ہم دنیا کی کسی روشنی سے تشبیہ نہیں دے سکتے ہیں کیونکہ اس کے مانند کوئی چیز نہیں ہے۔



          بہت سے مفسرین کا یہ موقف ہے کہ اللہ تعالی نور ہدایت ہے۔ مجھے یہی رائے درست محسوس ہوتی ہے کیونکہ آیت کریمہ کا سیاق و سباق اسی جانب اشارہ کرتا
          ہے کہ یہاں اللہ تعالی کے نور سے مراد ہدایت کا نور ہے۔ مکمل سیاق یہ ہے




          وَلَقَدْ أَنزَلْنَا إِلَيْكُمْ آيَاتٍ مُبَيِّنَاتٍ وَمَثَلاً مِنْ الَّذِينَ خَلَوْا مِنْ قَبْلِكُمْ وَمَوْعِظَةً لِلْمُتَّقِينَ (34) اللَّهُ نُورُ السَّمَوَاتِوَالأَرْضِ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُبَارَكَةٍ زَيْتُونِةٍ لا شَرْقِيَّةٍ وَلا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ نُورٌ عَلَى نُورٍ يَهْدِي
          اللَّهُ لِنُورِهِ مَنْ يَشَاءُ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الأَمْثَالَ لِلنَّاسِ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ


          (35)


          "(اے نبی!) ہم نے آپ کی جانب روشن آیات نازل کی ہیں اور ان لوگوں کی مثالیں بھی جو آپ سے پہلے تھے، پرہیز گاروں کے لیے ایک نصیحت۔ اللہ آسمان و زمین کا نور ہے۔ اس کے نور کی مثال ایک طاق کی سی ہے جس میں ایک چراغ ہو، وہ چراغ شیشہ کی قندیل میں ہو گویا کہ وہ چمکتا ہوا روشن ستارہ ہے جو کہ ایک بابرکت درخت زیتون کے تیل سے جلایا جاتا ہے۔ یہ نہ تو مشرقی ہے اور نہ مغربی، قریب ہے کہ اس کا تیل خود ہی روشنی دینے لگے اگرچہ اسے آگ نہ چھوئے۔ یہ نور کے اوپر ایک اور نور ہے۔ اللہ اپنے نور سے جسے چاہتا ہے، ہدایت دیتا ہے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان کرتا ہے۔ اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔"


          (سورۃ النور)


          ایک حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی جانب اشارہ فرمایا ہے:




          حدثنا أبو بكر بن أبي شيبة وأبو كريب. قالا: حدثنا أبو معاوية. حدثنا الأعمش عن عمرو بن مرة، عن أبي عبيدة، عن أبي موسى، قال: قام فينا رسول الله صلى الله عليه وسلم بخمس كلمات. فقال: "إن الله عز وجل لا ينام ولا ينبغي له أن ينام. يخفض القسط ويرفعه. يرفع إليه عمل الليل قبل عمل النهار. وعمل النهار قبل عمل الليل. حجابه النور. (وفي رواية أبي بكر: النار) لو كشفه لأحرقت سبحات وجهه ما انتهى إليه بصره من خلقه".




          سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہمارے مابین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کھڑے کو پانچ باتیں ارشاد فرمائیں: "یقیناً اللہ عزوجل نہ تو سوتا ہے اور نہ ہی یہ اس کی شان کے لائق ہے کہ وہ سوئے۔ وہی میزان اعمال کو جھکاتا اور بلند کرتا ہے۔ رات کا عمل دن سے پہلے اور دن کا عمل رات سے پہلے اس کی جانب بلند کیا جاتا ہے۔ اس کا حجاب نور ہے (ابو بکر کی روایت میں آگ کا لفظ ہے)۔ اگر وہ اس کا پردہ ہٹا دے، تو اس کے وجہ مبارک کی شعاعیں اس کی مخلوق کو حد نگاہ تک جلا دیں۔"


          (مسلم، کتاب الایمان، حدیث 293)


          اللہ تعالی کے حجاب نور کی کیفیت کیا ہو گی؟ اس بحث میں نہیں پڑنا چاہیے کیونکہ ہم اللہ تعالی کی ہستی اور اس کے معاملات کا ادراک نہیں کر سکتے۔ ایسی بحثیں محض ذہن کو پراگندہ کرتی ہیں اور فکر کو الجھاتی ہیں۔ اس کی بجائے ہمیں اللہ تعالی کی قدرت، اس کے کاموں اور اس کی نعمتوں پر غور و فکر کرنا چاہیے تاکہ ہمارے دل میں اس کی محبت پیدا ہو۔ امید ہے کہ بات واضح ہو گئی ہو گی۔



          Comment


          • #20
            Re: کچھ حقائق واقعہ معراج کے متعلق

            جواد بھائی سے سو بٹہ سو فیصد متفق ہوں

            نہ جانے اس قسم کےلوگ اس طرح کی باتیں کر کے مزہ کیوں لیتے ہیں

            یہ دو کشتیوں میں پیر رکھنے والے کس طرح کہہ سکتے ہیں کہ ہم اپنے دین سے سو فیصد مخلص ہیں؟

            کبھی کبھی تو مجھے یوں لگتا ہے کہ معاشرے کے ڈر و خوف سے یہ رب کا انکار نہیں کرتے ورنہ تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


            باقی جمیل صاحب کی سب باتوں میں صرف یہ بات قابل توجہ ہےکہ

            زرتشی مزہب میں 270سال قبل مسیح لکھی جانے والی کتاب اور قرآن کے بیان میں مماثلت ہے

            باقی مسجد اقصی،براق،جسم اطہر کا سفر،مشاہدہ جنت و دوزخ کے بارے میں یہ جواب کافی ہے کہ




            جو سمجھ میں آجائے پھر وہ معجزہ کیونکر ہوا؟؟
            :star1:

            Comment


            • #21
              Re: کچھ حقائق واقعہ معراج کے متعلق

              جمیل بھائی
              مجھے انتظار ہے

              ایک بار پھر

              ہاں یا نہیں*





              Comment


              • #22
                Re: کچھ حقائق واقعہ معراج کے متعلق

                Originally posted by Sub-Zero View Post


                دیکھیں بھائی مسئلہ یہ ہے جو چیز عقل سے ماروا ہو یا دوسرے لفظوں میں عقل میں نا بیٹھتی ہو بے شک اسے جھٹلایا نہیں جا سکتا بلکہ کوشش یہ ہونی چاہئے ہم اسے علم کا حصہ بنائے کیونکہ عقل سے ماروا چیزوں کو کوئی بھی کسی کو دھوکہ دینے کے لئے استعمال کرسکتا ہے فرض کریں آپ مانتے ہیں روح اور جنات ہیں مگر ان کو جانتے نہیں یہ کیا ہیں کہاں ہیں ان کا کوئی علم ہے یا صرف یہ دھوکے باز عاملوں کا ہتھیار ہیں؟ جو عوام کو الو بنانے لئے طرح طرح کی چٹ پٹی کہانیاں سناتے ہیں - کل تک چاند سورج ستارے دیوتاؤں کا درجہ رکھتے تھے آج ہر کسی کو پتہ ہے یہ بس آگ کے گولے اور مٹی کے گولے ہیں تو میرے بھائی جس چیز کا علم نا ہو وہ بہت گمراہی پھیلاتی ہے مثال کےطور پر برمودا کو لیں کتنی کہانیاں پھلائی گئی بھوت ہیں جنات ہیں آسمانی مخلوق ہے وغیرہ وغیرہ آگہی کے بغیر علم علم نہیں جہالت گمراہی ہے دھوکہ ہے جو انسان کسی کو نہیں خود کو دیتا ہے

                جناب میں نے بھی یہی عرض کیا ہے جب معراج کا واقعہ اپ کی عقل شریف میں نہیں آ رہا ہے تو اس کا انکار کیوں کر رہے ہیں روح ارو برمودا تو قدرتی چیزیں ہیں آج تک احرام مصر کے بارے میں تعین نہیں ہو سکا وہاں کیا چیز کارفرما ہے تو میرا اس پوسٹ کا مقصد ہی اپ کو یہ سمجھانا تھا کہ ہر وہ بات جو عقل میں اور سائنس میں نہ آئے اس کا انکار نہیں کرتے ہیں سائنس ایک علم ہے جس میں ضروری نہیں ہر چیز کا احاطہ کر لیا جائے سائنس علم ہے اگر کوئی چیز ایسی ہو گی جو اس کی سمجھ نہیں آئے گی تو اس کا انکار کر دیا جائے سائنس کو علم ہی رہنے دیں معبود نہ بنائے الله عقل عطا کرے

                Comment


                • #23
                  Re: کچھ حقائق واقعہ معراج کے متعلق

                  Originally posted by Dr Faustus View Post
                  :hii:

                  آپ تو ایسے یقین سے بول رہیں جیسے اپ اس واقعہ کی عینی شاہد ہیں اور سب اپ کی مشاورت سے ہوا۔۔فزکس کی رو سے آضافیت تھیورٹیکلی تو ٹھیک ہے لیکن پریکٹیکلی ناممکن ہے کسی بھی مادی چیز کو روشنی کی رفتا سے سفر دینے کو جو انرجی چاہیے وہ لامحدود مقدار میں ہو۔اور انرجی کبھی بھی لامحدود نہیں ہو سکتی انفنٹ نہیں ہو سکتی پھر اگر فرض کیا کوئی مادی جسم روشنی کی رفتار سے سفر کرے بھی تو اس کی کمیت بڑھ کر انفنٹ ہو جائے گی اور کمیت بھی ایسی اکائی جو سائنسی قوانین کے اندر محدود ہوتی ہے۔۔پھر اگر کوئی روشنی کی رفتار سے سفر کرے بھی تو وقت طویل ہو سکتا لیکن ماضی میں نہیں گزر سکتا وقت کا تیر ہمیشہ اک ہی سمت یعنی مستقبل کی طرف چلتا ہے
                  aur ap kesy keh saktay jo bat ya theory aj ap paish kar rehy ya same rehy gi agar ap ki yadshat thik aur dimaghi tawazn drust to yad kary kuch arsa pehlay physics ka aik qanoon tha jis ka mutabiq mada na to payda keya ja sakta na fana/aur ap bhi jantay hum bhi ka science ma kisi bat ko qanoon qarar daina bohat bari bat hai liken howa keya bad ma pata chala mada tawani ma aur twani mady ma badl jati sara qanon ghalat aur is ka oper bani science ki imart dharam sa nichy agai

                  Comment


                  • #24
                    Re: کچھ حقائق واقعہ معراج کے متعلق

                    Originally posted by nigaar View Post
                    aur ap kesy keh saktay jo bat ya theory aj ap paish kar rehy ya same rehy gi agar ap ki yadshat thik aur dimaghi tawazn drust to yad kary kuch arsa pehlay physics ka aik qanoon tha jis ka mutabiq mada na to payda keya ja sakta na fana/aur ap bhi jantay hum bhi ka science ma kisi bat ko qanoon qarar daina bohat bari bat hai liken howa keya bad ma pata chala mada tawani ma aur twani mady ma badl jati sara qanon ghalat aur is ka oper bani science ki imart dharam sa nichy agai

                    یہ بات مادے کے لئے نہیں توانائی کے لئے کہی جاتی ہے توانائی فنا نہیں ہوتی بلکہ قسمیں بدلتی رہتی ہے اسی طرح مادہ حالتیں مادہ توانائی نہیں نہ توانائی مادہ مگر ایک چیز جو توانائی کو مادہ اور مادے کو توانائی بناتی ہے وہ ہے قوارزم یہ ایسی چیز ہے جو نہ مادہ ہے نہ توانائی بلکہ سمجھ لیں یہ ایک ڈائی جیسا کچھ ہے جو جھٹکے سے توانائی کو مادے کا روپ رنگ قسم دے دیتا ہے
                    یہ آئم کا کھربویں حصہ جتنا ہوتا ہے
                    ہے الف و لیلہ سی زندگی درپیش
                    سو جاگتی ہوئی ، اک شہر زاد ہے دل میں

                    Comment


                    • #25
                      Re: کچھ حقائق واقعہ معراج کے متعلق


                      تمام مسلمانوں کو السلامُ علیکم

                      واقع معراج کا انکار کرنے والے اور اس پہ اعتراض کرنے والے کوئی نئے نہیں ہے۔
                      چند لوگوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ عقل کو معیار بنا کر چلتے ہیں اور اس عقل کو پرکھنے کے لئے وہ سائنس کی تحقیقات سہارا لیتے ہیں۔
                      لیکن وہ لوگ یہ بھول جاتے ہیں کہ وہ جس عقل کو بنیاد بنا کر قران اور نبی کریم ﷺ کے فرمان کو پرکھ رہے ہیں وہ عقل ان کو اسی وحدہ لاشریک نے عطا کی ہے جس نے پوری دنیا کو بنایا ہے اور وہ جب چاہے اس سائنشی تحقیق کو تہس نہس کر کے رکھ دے۔

                      معراج پہ اعتراض کرنے والوں کو قران کی یہ آیت ہی کافی ہے۔
                      وَما أَمرُنا إِلّا وٰحِدَةٌ كَلَمحٍ بِالبَصَرِ ﴿٥٠﴾۔
                      اور ہمارا حکم تو فقط یک بارگی واقع ہو جاتا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا ہے ﴿۵۰﴾ ۔


                      جب اللہ کا حکم آنکھ کے جھپکنے میں واقع ہو جاتا ہے اور نبی کریم ﷺ اللہ کے حکم سے معراج پہ تشریف لے گئے تو پھر اس سائنسی تحقیق اور بجلی کی کیا مجال جو اللہ کے دئیے گئے حکم کو پرکھ سکے!۔

                      آئن سٹائن کے نظریے کے مطابق کسی مادی شے کے سفر کرنے کی آخری حد روشنی کی رفتار ہے جو کہ 186000(ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ) ہے۔ اور اللہ کا حکم ایک آنکھ کے جھپکنے میں واقع ہوتا ہے تو کیا کسی میں ہمت ہے جو اللہ کے حکم کو روشنی کی اس آخری حد کی رفتار سے مقابلہ کروا سکے؟؟؟

                      آئن سٹائن کے اسی نظرئے کو لے لو تو پھر بھی تھوری سے عقل رکھنے والے کو واقع معراج سمجھ میں آسکتا ہے۔
                      جبرائیل علیہ سلام نے نبی کریم ﷺ کو براق پہ سوار کیا اور براق ، برق سے نکلا ہے جس کا مطلب بجلی ہے۔ بجلی کی رفتار اگر آپ 186000 میل فی سیکنڈ بھی کر لو آئن سٹائن کے نظریہ کے مطابق تو براق کی رفتار بھی 186000 میل فی سیکنڈ ہوئی اور اگر کوئی اسی رفتار سے چلے تو پھر وقت ٹھیر جائے گا کیونکہ جس رفتار سے وقت چل رہا ہو گا آدمی بھی اسی رفار سے چل رہا ہو گا تو وہ آدمی خود کو چلتا ہوا محسوس کرے گا لیکن کائنات اس کے لئے رک جائے گی کیونکہ وہ وقت کی رفار سے ہی چل رہا ہے۔جب وہ وقت کی رفتار سے کم ہو جائے گا تو وقت کی گھڑی پھر چلنا شروع ہو جائے گی۔
                      وہ آدمی بھلے پوری کائنات کی سیر کر لے لیکن جب اس نے وقت کی رفتار کو قابو کو لیا تو اس کے لئے وقت وہی رہے گا بستر بھی گرم ہو گا اور کنڈی بھی ہل رہی ہو گی۔
                      اب اسی نظریہ کو لے لیں تو معراج پہ چاہے ہزار برس گزریں یا ایک لاکھ برس لیکن وقت کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔


                      اس کے ساتھ ساتھ اعتراض کرنے والوں کو یہ نظر نہیں آتا کہ اللہ تعالی کی قدرتیں لا انتہا ہیں وہ چاہے تو رات کو روک دے اور پھر اللہ کے سوا کوئی نہیں جو دن نکال سکے۔

                      قُل أَرَءَيتُم إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيكُمُ الَّيلَ سَرمَدًا إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ مَن إِلٰهٌ غَيرُ اللَّهِ يَأتيكُم بِضِياءٍ ۖ أَفَلا تَسمَعونَ ﴿٧١﴾ قُل أَرَءَيتُم إِن جَعَلَ اللَّهُ عَلَيكُمُ النَّهارَ سَرمَدًا إِلىٰ يَومِ القِيٰمَةِ مَن إِلٰهٌ غَيرُ اللَّهِ يَأتيكُم بِلَيلٍ تَسكُنونَ فيهِ ۖ أَفَلا تُبصِرونَ ﴿٧٢﴾ ۔
                      کہہ دو بھلا یہ تو بتاؤ اگر الله تم پر ہمیشہ کے لیے قیامت تک رات ہی رہنے دے تو الله کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہارے لیے روشنی لائے کیا تم سنتے نہیں ہو ﴿۷۱﴾ کہہ دو بھلا یہ تو بتاؤ اگر الله تم پر ہمیشہ کے لیے قیامت تک دن ہی رہنے دے تو الله کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہارے لیے رات لائے جس میں آرام پاؤ کیا تم دیکھتے نہیں ہو ﴿۷۲﴾ ۔


                      تو اللہ کو پوری قدرت ہے کہ وہ وقت کو روک لے۔ جب انسان اپنی عقل کو اور محدود وسائل کو استعمال کر کے چاند اور مریخ تک پہنچ سکتے ہیں اور ٹیلیفون جیسی ایجاد کر سکتے ہیں جس کے ذریعے ہزاروں میل دور تک انسان اپنی آواز چند سیکنڈ میں پہنچا سکتا ہے تو وہ اللہ جس کی قدرتیں لا محدود ہیں جو چاہے تو وقت روک لے وہ اپنے نبی کریم ﷺ کو سدرۃ المنتہی تک کیوں نہیں لے جا سکتا۔۔


                      Originally posted by Sub-Zero View Post

                      حضور مسجد اقصیٰ میں دو رکعت نماز کی امامت کرواتےہیں اور تمام انبیا اُن کے پیچھے ہوتے ہیں،جب حضور آسمانوں پر پہنچتےہیں، تووہ نبی پہلے سے ہی وہاں موجود ہوتے ہیں، کیا اُنکے پاس حضور سے بھی زیادہ تیز رفتارسواری تھی کہ وہ نماز پڑھنے کے بعد حضور سے پہلے ہی اپنے اپنے آسمانوں پر پہنچ جاتے ہیں؟

                      تمام احادیث کے مطابق نماز نبیؑ کریم کے عرش پر موجودگی کے وقت فرض ہوئی، اور جبرئیل دوسرے دن آپ اور دیگر صحابہ کرام کو نماز پڑھنا سکھاتے ہیں۔ تو پھر آپ نے عرش پر جانے سے پہلے کس قسم کی دو رکعت نماز ادا کی۔

                      ہو سکتا ہےمعراج نبوی کے متعلق سب حدیثیں غلط ہوں، تمام مسلمان تاریخ دانوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہو۔ لیکن یہ معراج کا واقعہ قرآن میں کیونکر درج ہوا۔ کیا اس کا مطلب ہے، کہ وہ افواہ سچی نکلی کہ بنوامّیہ کےدور میں قراؑن میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، کیا یہ ممکن نہیں ہے، کہ عبدالملک بن مروان کے مسجد اقصیٰ بنانے کے بعداس آیت کو قرآن میں درج کیا گیا ہو؟۔ لیکن اللہ میاں نے تو وعدہ کیا تھا کہ وہ خودقرآن کی حفاظت کریں گے ( ویسے حفاظت تو انہیں اپنی پہلی الہامی کتابوں کی بھی کرنی چاہیئے تھی)۔ توکیا اللہ میاں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا؟۔ کیا اللہ میاں اپنے وعدہ سے پھر گئے؟، یا اللہ میاں سے پھر ایک بار پھر چوک ہو گئی؟



                      آخر میں جمیل صاحب نے جو یہ باتیں لکھی ہیں تو تشنہ سوالات کا موضوع دے کر تو لازمی یہ اعتراضات کوئی مسلم نہیں کر سکتا۔ اور میں کہہ سکتا ہوں کہ یہ لکھنے والا شیعہ ہو سکتا ہے کیونکہ آخر میں بنو امیہ سے اپنا بغض اور حسد نکالا گیا یہ کہہ کر کہ بنو امیہ کے دور میں قران میں تبدیلی ہوئی ۔ کیونکہ شیعہ کا تو عقیدہ ہے کہ یہ قران مکمل نہیں ہے تو اگر واقع معراج کو بھی غلط کہہ کر اس کا الزام بھی بنو امیہ پہ تھوپ دینا کسی شیعہ کی ہی کارستانی ہو سکتی ہے کسی مسلم کی نہیں۔

                      ہوسکتا یہ واقعہ بعد میں ترمیم کرکے ڈال دیا گیا یا حضور پاک نے خواب میں یہ سیر کی ہو یا یہ بھی ہوسکتا کہ یہ واقعہ دھاک بٹھانے اور جنت دوزخ کا نقشہ کھینچ کر سمجھانے کے لئے بنایا گیا ہو بہرحال قیامت سے پہلے جنت دوزخ میں افراد کے ساتھ خوش اخلاقی اور عقوبت سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے یہ بھی ٹائم مشین کی کارگزاری ہی ہے

                      واہ کیا سوچ ہے جناب کی اور سائنس کی تحقیق پہ اندھا یقین بھی ہے۔
                      جناب عقلی گھوڑے تو دوڑا رہے ہیں لیکن کیا کوئی اس بات کی دلیل بھی ہے کہ معاذ اللہ دھاک بٹھانے کے لئے قران میں معراج کا واقع ڈال دیا گیا؟؟؟
                      اور پھر پوری امت مسلمہ نے اس کو قران میں رہنے دیا۔۔۔
                      پھر تو جناب کا اعتراض ڈائیرکٹ خدا پہ ہوا جو کہ قران کی حفاظت ہی نہیں کر سکا اور لوگوں نے دھاک بٹھانے کے لئے اس میں اپنی مرضی کے واقعے داخل کر دئیے۔۔
                      مکہ کے مشرکین پوری قوت لگا کر قران جیسی ایک آیت نہیں بنا سکے اور جمیل صاحب کہتے ہیں کہ دھاک بٹھانے کے لئے لوگوں نے معاذ اللہ اس میں معراج کا واقعہ داخل کر دیا۔۔
                      ایسی عقل سے تو کم عقل ہونا ہی بہتر ہے۔

                      Comment

                      Working...
                      X