6اب جو میں کہنے جارہا ہوں یا بد قسمتی سے کچھ ایسے سوال تشنہ ہیں جن کے تشنہ رہنا اتنا ہی بھیانک ہے جتنا کسی ایٹم بم کا بھرے پرے شہر میں رہنا جو کسی وقت بھی پھٹ جائے
امید ہے یہ سوالات آپ کو بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کردیں گئے اور تاریخ کے اوراق کھنگال کر ان کے جواب ضرور ڈھونڈے گئے ورنہ بات پھر وہی
لمبی خاموشی اور گھٹن
سُبْحَانَ ٱلَّذِى أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ إِلَىٰ ٱلْمَسْجِدِ ٱلأَقْصَا ٱلَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَآ إِنَّهُ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلبَصِيرُ
پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، وہ (مسجد اقصیٰ) کہ برکت دی ہم نے جس کے ماحول کو تاکہ دکھائیں اُسے ہم کچھ اپنی نشانیاں، بیشک اللہ ہی ہے سب کچھ جاننے والا اور دیکھنے والا۔(سورۃ بنی اسرائیل، آیت 1
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے، نبیؑ کریم نے فرمایا، میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا، میرے پاس حکمت اور ایمان سے بھرپور سونے کا ایک طشت لایا گیا۔ میرے سینے کو پیٹ کےآخری حصے تک کھولا گیا، اور اُسے آبِ زمزم سے دھونے کے بعد ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس ایک سواری لائی گئی جو گدھے سے بڑی اور گھوڑے سے چھوٹی تھی۔ یعنی براق، میں اس پر سوار ہو کر چلا، جب میں آسمانی دنیا پر پہنچا تو وہاں بتدریج پہلے آسمان پر حضرت آدم، دوسرے پر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ، تیسرے پر حضرت یوسف، چوتھے پر حضرت ادریس، پانچویں پر حضرت ہارون، چھٹے پر حضرت موسیٰ ملے۔ جب نبیؑ کریم وہاں سے آگے بڑھنے لگے تو حضرت موسیٰ نے رونا شروع کر دیا، کسی نے رونے کی وجہ پوچھی، حضرت موسیٰ نے فرمایا ” یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوّت دی گئی ہے، اس کی امّت میں سےجنّت میں داخل ہونے والے میری امّت کے جنّت میں داخل ہونے والوں سے زیادہ ہوں گے۔” ساتویں آسمان پر نبیؑ کریم حضرت ابراہیم سے ملتےہیں، آپ کا آخری پڑاؤ سدرۃ المنتہیٰ ہوتا ہے، آپ کو جنّت اور دوزخ کے مختلف حصوں کی سیر کرائی جاتی ہے، یہیں پر آپ کی امّت پر پچاس نمازیں فرض کی جاتی ہیں، واپسی پر حضرت موسیٰ آپ کو سمجھا کر اللہ میاں کے پاس واپس بھیجتے ہیں کہ پچاس نمازیں بہت زیادہ ہیں،آپ کی امت اس فریضے کو نبھا نہیں پائے گی۔ نبی کریم حضرت موسیٰ کےسمجھانے پر کئی بار اوپر نیچے جا کر فرض کی گئی نمازوں کی تعداد پانچ تک لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔(صیح بخاری، والیوم نمبر حدیث نمبر 3626 کی تلخیص 5
” قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ” جب میں اس پر سوار ہونے کے لیئے اس کے پاس گیا تو وہ شوخی کرنے لگا، تو جبرئیل نے اپنا ہاتھ اس کی ایال پر رکھا اور کہا، اے براق تو جو کچھ کر رہا ہے اس سے تجھے شرم نہیں آتی۔ اے اللہ کی قسم، محمدؐ سے پہلے تجھ پر کوئی اللہ کا ایسا بندہ سوار نہیں ہوا جو آپؐ سے زیادہ عزت والا ہو، (نبیؑ کریم نے) فرمایا، تو (براق)ایسا شرمندہ ہوا کہ پسینہ پسینہ ہو گیا۔ اور خاموش کھڑا ہو گیا،یہاں تک کہ میں اس پر سوار ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر رسول اللہ چلے اور جبرائیل بھی آپ کےساتھ چلے، یہاں تک کہ آپ کولے کر بیت المقدس پہنچے،تو وہاں ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور دیگر انبیا ءکو پایا، تو رسول اللہ نے انکی امامت کی اور انہیں نماز پڑھائی۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تین برتن لائےگئے، ان برتن میں دودھ، ایک میں شراب اور ایک میں پانی تھا۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا : جب وہ ( برتن) میرے سامنے پیش ہوئے تو میں نے کسی کہنے والے کو کہتے ہوئے سنا۔ اگر اس نے پانی لیا (تو خود بھی ) ڈوبا اور اس کی امت بھی ڈوبی۔ اگر اس نے شراب لی ( توخود بھی ) گمراہ ہوا اور اس کی امت (بھی) گمراہ ہوئی۔ اور اگر اس نے دودھ لیا ( تو خود بھی ) راہ راست پا لی،اور اس کی امت (بھی) راہ راست پر لگ گئی۔ فرمایا کہ پھر تو میں نے دودھ کا ہی برتن لیا، اور اس میں سے پیا تو جبرائیل نے مجھ سے کہا اے محمد! آپ نے راہ راست پا لی۔ اور آپ کی امت ( بھی) راہ راست پر لگ گئی۔محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ
حضرت عباس سے مروی ہے، کہ ہجرت سے ایک سال قبل 17 ربیع الاول کو نبیؑ کریم کو بیت المقدس لے جایا گیا۔ جب آنحضور براق کے پاس گئے تو اُس نے بھڑکنا شروع کر دیا، حضرت جبرائیل نے اپنا ہاتھ اُس پر رکھا اورکہا، اے براق تجھے شرم نہیں آتی، محمدؐ سے پہلے تجھ پر کوئی بندہ سوار نہیں ہوا جو اللہ کے نزدیک ان سے افضل ہو، براق یہ سُن کر شرم سے پانی پانی ہو گیا اور رک گیا کہ میں اس پر سوار ہوں۔ پھر اس نے کان ہلائے اور زمین سمیٹ دی۔ یہاں تک کہ ان کا کنارہ براق کے قدم پڑنے کی آخری جگہ تھی۔ اس کی پشت اور کان دراز تھے۔جبرئیل میرے ساتھ اس طرح روانہ ہوئے کہ نہ میں انہیں چھوڑتا تھا، نہ وہ مجھے چھوڑتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مجھے بیت المقدس پہنچا دیا، براق اپنے مقام پر پہنچ گیا جہاں وہ کھڑا ہوتا تھا۔ جبرائیل نے اسے وہاں باندھ دیا.اس جگہ رسول اللہ سے پہلے تمام انبیا ءکی سواریاں باندھی جاتی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا، میں نے تمام انبیاء دیکھے جنہیں میرے ارد گرد جمع کر دیا گیا تھا۔ میں نے ابراہیم، موسیٰ،عیسیٰ کو دیکھا۔ خیال ہوا ضرور ان کا کوئی امام ہو گا، جبرائیل نے مجھے آگے کر دیا، میں نے سب کے آگے نماز پڑھی، دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم سب توحید کے ساتھ بھیجے گئے ہیں
ابوہریرہ سے روایت ہے ۔ رسول اللہ نے فرمایا، میں ھجر (کعبہ کا بغیر چھت کا حصہ) پر تھا اور قریش مجھ سے معراج کے متعلق پوچھ رہے تھے اور بیت المقدس سے متعلقہ ایسے سوال کر رہےتھے۔ جن کے متعلق مجھے کچھ یاد نہیں رہا تھا، اس دن میں اس قدر جھنجھلایا ہوا تھا کہ پہلے زندگی میں کبھی نہیں ہوا۔ تب اللہ نے اس (بیت المقدس) کو میری آنکھوں کے سامنے ظاہر کیا، میں نے اس کی طرف دیکھا اور قریش کے تمام سوالوں کے جواب دے دیئے۔ میں نے اپنے آپ کو نبیوں کے درمیان پایا، میں نے حضرت موسیٰ کو عبادت کرتے دیکھا، اُنکا جسم بہت مضبوط اور گٹھا ہوا تھا جیسے وہ شنوعہ قبیلے کے ہوں، میں نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کو عبادت کرتے دیکھا، ان کی شکل عروۃ ابن سعود الثقفی سے بہت مشابہ تھی۔ میں نے حضرت ابراہیم کو عبادت کرتے دیکھا، اُن کی شکل آپ کے ساتھی (نبیؑ کریم) سے بہت ملتی تھی۔ جب نماز کا وقت آیا تو میں نے امامت کی۔ جب نماز ختم ہوئی تو کسی نے کہا، یہ مالک ہیں، جہنم کے نگراں، انہیں سلام کرو، میں ان کی طرف مڑا لیکن انہوں نے مجھے پہلے سلام کر دیا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان: حدیث نمبر۔328
” یہ (معراج کا قصہ) سُن کر بہت سے جو پہلےمسلمان تھے اور عبادت گذار تھے، وہ اسلام سے تائب ہو گئے۔ بہت سوں نے اسلام سے کنارہ کشی کر لی، کچھ حضرت ابوبکر کے پاس گئے اورکہا اب تم اپنے دوست کے متعلق کیا کہتے ہو، وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ پچھلی رات یروشلم گیا تھا، وہاں عبادت کی اور واپس مکہ آ گیا “۔
حضرت ابوبکر نے کہا تم نبیؑ کے متعلق جھوٹ بول رہے ہو، لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ حضور اس وقت کعبہ میں قریش کو یہی واقعہ بتا رہے ہیں تو آپ نے کہا۔ ” اگر وہ یہ کہتے ہیں تو یہ سچ ہے، مجھے ان پر یقین ہے۔ اس میں حیرانی والی کون سی بات ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ عرش سے بھیجا ہوا اللہ کا پیغام زمیں پر میرے پاس چند گھڑیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اور میں اس پر یقیں کرتا ہوں۔ اور معراج اتنی غیر معمولی واقعہ نہیں کہ تمہارے دماغ یوں چکرائیں، جتنا کہ یہ (وحی) ہے“(محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ
اس کے بعد حضرت ابوبکر حضور کے پاس گئے اور معراج کی تصدیق چاہی، جب حضور نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے حضور سے یروشلم کے متعلق تفصیلات چاہیں۔ جب بھی حضور کچھ بتاتے، ابوبکر فرماتے ” بالکل سچ، آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں” حتیٰ کہ آپ نے پوری داستان بیان کر دی۔ حضرت ابوبکر کی اس گواہی سے خوش ہو کر حضور نے کہا ” انت یا ابابکرصدیق، اے ابوبکر! تم صدیق (سچا۔ راست گو) ہو۔
اہل مکہ کے اس رویے کے باعث آپ کی بہت زیادہ دل شکنی ہوئی، مالک دو جہاں نے یہ آیت نازل فرما کر آپ کی اشک شوئی کی۔ ” حسن نے کہا کہ اس وجہ سے ان لوگوں کے متعلق جو اپنے اسلام سے مرتد ہو گئے تھے، اللہ نے نازل فرمایا۔
وَمَاجَعَلْنَا ٱلرُّءْيَا ٱلَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَٱلشَّجَرَةَ ٱلْمَلْعُونَةَ فِي ٱلقُرْآنِ وَنُخَوِّ فُهُمْ فَمَا يَزِيدُ هُمْ إِلاَّ طُغْيَاناًكَبِيراً
اور جو نظارا ہم نے تمہیں دکھایا ہے، اور جس درخت پر قران میں لعنت بھیجی گئی ہے، یہ تو لوگوں کیلئے ہم نے آزمائش بنائی ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو یہ ڈرانا ان میں سخت سرکشی ہی کو زیادہ کرتا ہے۔(سورۃبنی اسرائیل
تشنہ سوالات
زرتشتی عقیدہ
ساسانی دور حکومت کے ایران میں ” اردا ویراف نمگ” کے نام سے ایک کتاب لکھی گئی جس کا سن تحریر تقریباً 270 سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ زرتشتی عقیدے کے مطابق ژند اوستا کے بعد یہ دوسری اہم کتاب ہے۔ اس کتاب میں اردا ویراف نام کے ایک زرتشتی پادری کا ذکر ہے، جو اپنے خدا آہور مزدا سے ملنے کیلئے آسمانوں پر جاتا ہے، لیکن چھ دن پر محیط اس کا یہ سفر جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوتا ہے۔ اردا ویراف کی راہنمائی حضرت جبرائیل کی بجائے ادار نامی فرشتہ اور متقی سروش کر رہے ہوتے ہیں۔ سفرکے آغاز میں اردا ویراف کو چینوت نامی پُل عبور کرنا ہوتا ہے، جو تلوار جتنا پتلا اور تیز ہے، اگر کوئی نیک آدمی آتا ہے تو وہ پل بڑا ہو جاتا ہے اور نیک آدمی اس پر سے گزر جاتا ہے، لیکن گناہگار لوگ اس پل سے کٹ کٹ کر نیچے اہرمن کی دوزخ میں گر جاتے ہیں (پل صراط کےساتھ کس قدر مشابہت ہے)۔ ادار فرشتے کی مدد سے پل پار کرنے کے بعد اردا ویراف” حوض کوثر” کی بجائے “روشنیوں کےشہر” پہنچتا ہے۔ اپنے اس سفر کے بعد اردا ویراف کو جنت اورجہنم کے مختلف حصوں کی سیر کرائی جاتی ہے۔ اردا ویراف وہاں مختلف لوگوں سے ملتا ہے، جنہوں نے اپنی زندگی میں مختلف قسم کے گناہ یا نیکی کے کام کئے ہوتےہیں۔
چینوت پل پار کرنے کے بعد ” متقی سروش اور ادار فرشتے نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ چلو آؤ تاکہ ہم تمہیں جنت اور دوزخ دکھائیں۔ اور وہ شان و شوکت اور آسانیاں اور خوشیاں اورمسرت اور خوشبوئیں جو نیکو کاروں کا اجر ہیں۔ ہم تمہیں وہ تاریکی، ذلت، بدقسمتی، تکلیف، شر، درد، ڈر، بیچارگی، اذیت، بدبو اور مختلف سزائیں بھی دکھائیں گے جس سے گناہ گار، راکھشس اور جادوگر دوچار ہوں گے۔ ہم تمہیں سچ اور جھوٹ کی جگہیں دکھائیں گے۔ ہم تمہیں ان نکو کاروں کو دیا جانے والا اجر دکھائیں گے، جن نکوکاروں کا آہور مزدا، عظیم فرشتوں،جنت اور دوزخ پر ایمان تھا، ۔ اور دکھائیں گے خدا اور عظیم فرشتوں کی حقیقت اور اھرمن اور شیاطین کی غیر حقیقت، اور مرنے والوں کے دوبارہ اٹھنے کی حقیقت اور ان کو دئیےجانے والے مستقبل کے بدن۔ ہم تمہیں دکھائیں گے جنت کے اندر آہور مزدا اور عظیم فرشتوں کا نکو کاروں کو دیا گیا اجر۔ ہم تمہیں مختلف اذیتیں اورعذاب دکھائیں گے جوگناہ گاروں کو اھرمن اور دیگر راکھشسوں کی جہنم کے اندر دی جائیں گی۔
اسکے بعد میں نے رہِ نجوم پر پاؤں رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے متقی سروش اور ادار فرشتے سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور یہ کون لوگ ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے عبادت نہیں کی، گاتھا کے منتر نہیں پڑھے، نزدیکی رشتہ داروں سے شادی نہیں کی، انہوں نے حکومت بھی نہیں کی، لیکن دوسرے اچھے اعمال کی وجہ سے یہ پارسا ٹھہرے۔
پھر اردہ رہِ قمر کو جاتا ہے، جس میں موجود لوگوں کے چہرے چاند کی طرح چمکتے ہیں۔ اور میں نے متقی سروش اور ادار فرشتے سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور یہ کون لوگ ہیں۔انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے عبادت نہیں کی، گاتھا کے منتر نہیں پڑھے، نزدیکی رشتہ داروں سے شادی نہیں کی، انہوں نے حکومت بھی نہیں کی، لیکن دوسرے اچھے اعمال کیوجہ سے یہ یہ پارسا ٹھہرے۔ اس کےبعد اردہ رہِ آفتاب کے لوگوں سے ملتا ہے اور ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے، کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حاکم ہوئے اور انہوں نے بہت اچھی حکومت کی۔
وہاں سے گزر کر اردہ جنت پہنچتا ہے، تو سب سے پہلے اسے وہ عورتیں ملتی ہیں جنہوں نے اچھا سوچا، اچھا بولا، اچھے کام کیئے اور اپنے خاوندوں کی فرمانبرداری کی، ان عورتوں کا لباس سونے، چاندی اور جواہرات سے جڑا ہوتا ہے۔ اسکے بعد اردہ جنت کے دیگر حصوں میں پھرتا ہے، جہاں اسے سونے کے تخت پر بیٹھی کئی روحیں نظر آتی ہیں جنہوں نے دنیا میں نیکی کے مختلف کام کیئے تھے۔ آردہ آگے بڑھتا رہتا ہے اور اسکے ہمراہی اسے بتاتے رہتے ہیں، کہ کس آدمی نے دنیا میں کون سے نیک کام کئے، جس کے بدلے اسے جنت میں یہ مقام عطا ہوا۔
جنت کے بعد اردہ کو دوزخ کی جانب لایا جاتا ہے، پہلے اسے ایک پل کے پاس سے گزرنا ہوتا ہے،جس کے نیچے ایک بہت ہی اداس قسم کا دریا بہہ رہا ہوتا ہے، اردہ کو بتایا جاتا ہے کہ یہ دریا ان مردوں کے آنسوؤں سے بنا ہے جنہوں نے مرنے والوں کیلئے ناحق آنسو بہائے۔ اسکے بعد اردہ دوزخ کے اندر گناہ گاروں کو دی جانے والی اذیت کے مناظر دیکھتا ہے، متقی سروش اور آدر فرشتہ تفصیل بتاتے ہیں کہ کس آدمی کو کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے
میں نے ایک آدمی کی روح کو دیکھا جس کی زبان کو کیڑے کتر رہے تھے، میں نے پوچھا اس جسم سے کون سے گناہ سرزد ہوئے۔ متقی سروش اور اراد فرشتے نے بتایا کہ یہ ایک ایسے نابکار کی روح ہے جس نے بہت زیادہ جھوٹ بولے، یوں اس نے دیگر مخلوق کو نقصان پہنچایا۔
میں نے ایک ایسی عورت کو دیکھا جو اپنے دانتوں سے اپنی لاش کو چبا رہی تھی، میں نے پوچھاکہ یہ کس کی روح ہے، متقی سروش اور ادار فرشتے نے بتایا، کہ یہ ایسی بدکار عورت کی روح ہے جو جادو کرتی تھی “۔
آخری دن اردا ویراف کو ساتویں آسمان پرلے جایا جاتا ہے، جہان اسے خدائے بزرگ و برتر کا دیدار نصیب ہوتا ہے، وہاں اردا ویراف کو پتہ چلتا ہے کہ آہور مزدا کی کوئی شکل نہیں ہے بلکہ وہ ایک ابدی نور ہے۔ اس کے بعداردا ویراف کی روح زمیں پر اس کے جسم میں واپس آ جاتی ہے۔ (مزید تفصیلات کیلئے دیکھیئے: اردہ ویراف نمگ
واقعہ معراج کی جھلک
شب معراج کو نبی کریم کو بھی ان کی خواہش پر دوذخ کا ڈھکنا اٹھا کر دوزخ کے عجائبات دکھائےجاتے ہیں، آپ نے بھی اردہ ویراف کی طرح مختلف لوگوں کو شدید عذاب میں مبتلا دیکھا:
پھر میں نے وہ لوگ دیکھے جن کے ہونٹ اونٹوں کی طرح تھے، ان کے ہاتھ میں آگ کے گولوں کی طرح کے پتھر تھے، جنہیں وہ منہ میں ڈالتے تھے اور وہ ان کے مقعد سے باہر نکلتے تھے، مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال کھا جایا کرتے تھے۔
پھر میں نے چند لوگ دیکھے ان جیسے پیٹ میں نے کبھی نہیں یکھے، جب وہ جہنم میں لائے جاتےہیں تو ان پر جیسے پیاسے اونٹ گزر جاتے ہیں، اور ان میں ہلنے کی سکت نہیں ہوتی۔ یہ سود خور تھے۔
پھر میں وہ لوگ دیکھے جن کے سامنے چکنا فربہ گوشت تھا، اور اس کے ساتھ دبلا ( دبلے جانورکا) اور بدبودار گوشت بھی، اور وہ لوگ چکنے اور فربہ گوشت کی بجائے وہی دبلا اور بدبودار گوشت کھا رہے تھے، مجھے بتایا گیا،کہ یہ وہ لوگ تھے جو ان عورتوں کو جو حلال ٹھہرائی گئیں تھیں، ان کو چھوڑ کر دوسری عورتوں کے پاس جاتے تھے۔
پھرمیں نے ایسی عورتیں دیکھیں جو اپنی چھاتیوں سے لٹکی ہوئی تھیں۔ یہ وہ تھیں جنہوں نے( اپنے) مردوں کے پاس ایسا بچہ داخل کرا دیا جو ان کا اپنی اولاد میں سے نہیں تھا“۔ (محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ
تشنہ سوالات
ھیکل سلیمانی کو تقریبا٘ ایک ہزار قبل مسیح حضرت سلیمان نے تعمیر کروایا تھا۔ بابلی بادشاہ بخت نصر نے 586 قبل مسیح میں یروشلم پر قبضہ کر کے ھیکل سلیمانی کو آگ لگا دی۔515 قبل مسیح میں اس معبد کو دوبارہ بنایا گیا، لیکن 70ء میں ٹائٹس اور اسکے رومی سپاہیوں نے حملے کے بعد اسے سطح زمین کے برابر کر دیا۔ جب معراج کا مبارک واقعہ پیش آیا، اُس وقت وہاں نہ مسجد اقصیٰ تھی اور نہ ہی معبد سلیمانی۔ بلکہ وہ جگہ شہر بھر کا کوڑا کرکٹ پھینکنے کیلئے استعمال ہوتی تھی۔
کیا وجہ ہے، خدا نے جب بھی اپنے بندے سے رابطہ کیا، اس نے ان وقتوں کی میسر ” ٹیکنالوجی” سے ہی کیوں استفادہ فرمایا۔ حمورابی اور حضرت موسیٰ کو پتھر کی سلوں پر کندہ احکامات دئیے، آج کے وقتوں میں خدا یقیناَ جدید ذرائع استعمال کرتا۔ حضور کے زمانہ میں کسی کو پیغام دینے کیلئے کسی کو بھیجنا پڑتا تھا،اسی لئے حضرت جبرئیل بذات خود اللہ کا پیغام لے کر آتے تھے۔ اگر رسول اللہ آج ہوتے تو اللہ میاں حضرت جبرائیل کے ذریعے وحی بھیجنے کی بجائے رسول اللہ کو ای میل کرتے۔ حضور کے زمانے میں سواری کیلئے گھوڑا اور گدھا ہی میسر تھے، اور چونکہ آسمان کی جانب اڑنے کیلئے پروں کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا اللہ میاں نے سرور کونین کیلئے اڑنے والا گدھا بھیجا۔ آج کے وقتوں میں اللہ میاں یقیناَ سپیس شپ یا خلائی شٹل بھیجتے۔ نبی تو در کنار،جب جبرئیل حضور کو قبیلہ بنو قریظہ پر حملہ کرنے کی صلاح دینے آتےہیں، تب وہ بھی گدھےپر سوار ہوتے ہیں اور انہوں نے کشیدہ کاری سے مزین عمامہ سر پرباندھا ہوتا ہے۔(تفصیل کیلئے دیکھئے: سیرت محمد بن اسحاق
سوال یہ ہے کہ رسول اللہ مکہ سے سیدھے ہی عرش پر کیوں نہیں گئے؟، کیا یروشلم میں عرش پر جانے کیلئے کوئی شارٹ کٹ راستہ موجود تھا؟۔ کیا وہاں پر کوئی وورم ہول تھا؟۔ اگر انبیا کی نماز کی امامت کروانی ہی مقصود تھی تو وہ مکہ میں کیوں نہیں ہو سکتی تھی؟۔ کیا سواریوں کی کمی کیوجہ سے دیگر انبیاءکرام کیلئے مکہ پہنچنا مشکل تھا؟۔ اگر اللہ میاں نے یروشلم میں وورم ہول بنایا تھا تو کیا وہ ایسا ہی وورم ہول مکہ میں نہیں بنا سکتا تھا؟۔ اور وہ سیڑھی جس پر چڑھ کر نبیؑ کریم عرش معلیٰ پہنچے،کیا ایسی سیڑھی مکہ میں نصب نہیں ہو سکتی تھی؟۔کیا اس میں کوئی تکنیکی مسائل در پیش تھے، یا اللہ میاں کو مکہ کی نسبت یروشلم زیادہ عزیز ہے؟۔
جب نبی کریم براق پرسوار ہونے لگے تو براق کیوں بھڑکنے لگا، کیا اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ اسے کس مقصد کیلئے زمین پر بھیجا گیا ہے، کیا اسے اللہ میاں یا حضرت جبرائیل نے اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا؟۔ لہذا اس نے زمین پر آتے ہی اپنے زمینی بھائیوں(گدھوں) کی طرح دولتیاں جھاڑنی شروع کر دیں
جہاں رسول اللہ نے انبیاءکرام کی نماز کی امامت فرمائی، کیا وہ معبد سلیمانی تھا جو انکی پیدائش سے تقریباَ 570 سال قبل تباہ ہو چکا تھا یا مسجد اقصیٰ، جسے خاندان بنوامّیہ کے عبدالمالک بن مروان نے حضور کی وفات کے 73 سال بعد بنوایا تھا۔ کیا حضور پاک کا آسمانی گدھا ایک ٹائم مشین تھا، جو حضور کو انکی پیدائش سے 570 سال پہلے تباہ شدہ معبد میں لے گیا تھا، یا انکی وفات کے 73 سال بعد بننے والی مسجد میں۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ کُوڑےکا ڈھیر مسلمانوں کا قبلہ اوّل تھا؟، اور اسی کوڑےکے ڈھیر پرحضور نے انبیا کی نماز کی امامت فرمائی تھی؟۔ اور حضور مکہ کے لوگوں کو کس مسجد کے دروازوں کی تفصیل بتا رہے تھے؟۔
اللہ میاں نے پہلے مسلمانوں پر پچاس نمازیں فرض کی تھیں، حضور کا بار بار اوپر جا کر نمازیں کم کروانا، خدا اور اس کے رسول کے درمیاں مکالمے کی بجائے ایک ایسی دوکان کا سا سماں پیدا کرتا ہے، جہان ایک دوکاندار اور گاہک خاتوں کے درمیاں کسی چیز پر مول تول ہو رہاہے۔ اور بھلا ہو اس یہودی پیغمبر کا کہ اس کی وجہ سے ہمیں پچاس کی بجائے پانچ نمازوں کا حکم ہوا، وگرنہ دن بھر نمازیں پڑھ پڑھ کے ہماری تو مت ماری جانی تھی۔ یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ پچاس نمازوں کے پڑھے جانے کی جو مشکل حضرت موسیٰ نے نوٹ فرما لی تھی، وہ نہ ہی حضور کے ذہن میں آئی اور نہ ہی اللہ میاں کے۔ حضرت موسیٰ اللہ میاں اور ہمارے نبیؑ دونوں سے زیادہ عقلمند ثابت ہوئے
حضور مسجد اقصیٰ میں دو رکعت نماز کی امامت کرواتےہیں اور تمام انبیا اُن کے پیچھے ہوتے ہیں،جب حضور آسمانوں پر پہنچتےہیں، تووہ نبی پہلے سے ہی وہاں موجود ہوتے ہیں، کیا اُنکے پاس حضور سے بھی زیادہ تیز رفتارسواری تھی کہ وہ نماز پڑھنے کے بعد حضور سے پہلے ہی اپنے اپنے آسمانوں پر پہنچ جاتے ہیں؟
تمام احادیث کے مطابق نماز نبیؑ کریم کے عرش پر موجودگی کے وقت فرض ہوئی، اور جبرئیل دوسرے دن آپ اور دیگر صحابہ کرام کو نماز پڑھنا سکھاتے ہیں۔ تو پھر آپ نے عرش پر جانے سے پہلے کس قسم کی دو رکعت نماز ادا کی۔
ہو سکتا ہےمعراج نبوی کے متعلق سب حدیثیں غلط ہوں، تمام مسلمان تاریخ دانوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہو۔ لیکن یہ معراج کا واقعہ قرآن میں کیونکر درج ہوا۔ کیا اس کا مطلب ہے، کہ وہ افواہ سچی نکلی کہ بنوامّیہ کےدور میں قراؑن میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، کیا یہ ممکن نہیں ہے، کہ عبدالملک بن مروان کے مسجد اقصیٰ بنانے کے بعداس آیت کو قرآن میں درج کیا گیا ہو؟۔ لیکن اللہ میاں نے تو وعدہ کیا تھا کہ وہ خودقرآن کی حفاظت کریں گے ( ویسے حفاظت تو انہیں اپنی پہلی الہامی کتابوں کی بھی کرنی چاہیئے تھی)۔ توکیا اللہ میاں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا؟۔ کیا اللہ میاں اپنے وعدہ سے پھر گئے؟، یا اللہ میاں سے پھر ایک بار پھر چوک ہو گئی؟
امید ہے یہ سوالات آپ کو بہت کچھ سوچنے پہ مجبور کردیں گئے اور تاریخ کے اوراق کھنگال کر ان کے جواب ضرور ڈھونڈے گئے ورنہ بات پھر وہی
لمبی خاموشی اور گھٹن
سُبْحَانَ ٱلَّذِى أَسْرَىٰ بِعَبْدِهِ لَيْلاً مِّنَ ٱلْمَسْجِدِ ٱلْحَرَامِ إِلَىٰ ٱلْمَسْجِدِ ٱلأَقْصَا ٱلَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَآ إِنَّهُ هُوَ ٱلسَّمِيعُ ٱلبَصِيرُ
پاک ہے وہ ذات جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ تک، وہ (مسجد اقصیٰ) کہ برکت دی ہم نے جس کے ماحول کو تاکہ دکھائیں اُسے ہم کچھ اپنی نشانیاں، بیشک اللہ ہی ہے سب کچھ جاننے والا اور دیکھنے والا۔(سورۃ بنی اسرائیل، آیت 1
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے، نبیؑ کریم نے فرمایا، میں ایک دفعہ بیت اللہ کے قریب نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا، میرے پاس حکمت اور ایمان سے بھرپور سونے کا ایک طشت لایا گیا۔ میرے سینے کو پیٹ کےآخری حصے تک کھولا گیا، اور اُسے آبِ زمزم سے دھونے کے بعد ایمان اور حکمت سے بھر دیا گیا، پھر میرے پاس ایک سواری لائی گئی جو گدھے سے بڑی اور گھوڑے سے چھوٹی تھی۔ یعنی براق، میں اس پر سوار ہو کر چلا، جب میں آسمانی دنیا پر پہنچا تو وہاں بتدریج پہلے آسمان پر حضرت آدم، دوسرے پر حضرت عیسیٰ اور حضرت یحییٰ، تیسرے پر حضرت یوسف، چوتھے پر حضرت ادریس، پانچویں پر حضرت ہارون، چھٹے پر حضرت موسیٰ ملے۔ جب نبیؑ کریم وہاں سے آگے بڑھنے لگے تو حضرت موسیٰ نے رونا شروع کر دیا، کسی نے رونے کی وجہ پوچھی، حضرت موسیٰ نے فرمایا ” یہ نوجوان جسے میرے بعد نبوّت دی گئی ہے، اس کی امّت میں سےجنّت میں داخل ہونے والے میری امّت کے جنّت میں داخل ہونے والوں سے زیادہ ہوں گے۔” ساتویں آسمان پر نبیؑ کریم حضرت ابراہیم سے ملتےہیں، آپ کا آخری پڑاؤ سدرۃ المنتہیٰ ہوتا ہے، آپ کو جنّت اور دوزخ کے مختلف حصوں کی سیر کرائی جاتی ہے، یہیں پر آپ کی امّت پر پچاس نمازیں فرض کی جاتی ہیں، واپسی پر حضرت موسیٰ آپ کو سمجھا کر اللہ میاں کے پاس واپس بھیجتے ہیں کہ پچاس نمازیں بہت زیادہ ہیں،آپ کی امت اس فریضے کو نبھا نہیں پائے گی۔ نبی کریم حضرت موسیٰ کےسمجھانے پر کئی بار اوپر نیچے جا کر فرض کی گئی نمازوں کی تعداد پانچ تک لانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔(صیح بخاری، والیوم نمبر حدیث نمبر 3626 کی تلخیص 5
” قتادہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ نے فرمایا ” جب میں اس پر سوار ہونے کے لیئے اس کے پاس گیا تو وہ شوخی کرنے لگا، تو جبرئیل نے اپنا ہاتھ اس کی ایال پر رکھا اور کہا، اے براق تو جو کچھ کر رہا ہے اس سے تجھے شرم نہیں آتی۔ اے اللہ کی قسم، محمدؐ سے پہلے تجھ پر کوئی اللہ کا ایسا بندہ سوار نہیں ہوا جو آپؐ سے زیادہ عزت والا ہو، (نبیؑ کریم نے) فرمایا، تو (براق)ایسا شرمندہ ہوا کہ پسینہ پسینہ ہو گیا۔ اور خاموش کھڑا ہو گیا،یہاں تک کہ میں اس پر سوار ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر رسول اللہ چلے اور جبرائیل بھی آپ کےساتھ چلے، یہاں تک کہ آپ کولے کر بیت المقدس پہنچے،تو وہاں ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ اور دیگر انبیا ءکو پایا، تو رسول اللہ نے انکی امامت کی اور انہیں نماز پڑھائی۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر تین برتن لائےگئے، ان برتن میں دودھ، ایک میں شراب اور ایک میں پانی تھا۔ راوی نے کہا کہ رسول اللہ نے فرمایا : جب وہ ( برتن) میرے سامنے پیش ہوئے تو میں نے کسی کہنے والے کو کہتے ہوئے سنا۔ اگر اس نے پانی لیا (تو خود بھی ) ڈوبا اور اس کی امت بھی ڈوبی۔ اگر اس نے شراب لی ( توخود بھی ) گمراہ ہوا اور اس کی امت (بھی) گمراہ ہوئی۔ اور اگر اس نے دودھ لیا ( تو خود بھی ) راہ راست پا لی،اور اس کی امت (بھی) راہ راست پر لگ گئی۔ فرمایا کہ پھر تو میں نے دودھ کا ہی برتن لیا، اور اس میں سے پیا تو جبرائیل نے مجھ سے کہا اے محمد! آپ نے راہ راست پا لی۔ اور آپ کی امت ( بھی) راہ راست پر لگ گئی۔محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ
حضرت عباس سے مروی ہے، کہ ہجرت سے ایک سال قبل 17 ربیع الاول کو نبیؑ کریم کو بیت المقدس لے جایا گیا۔ جب آنحضور براق کے پاس گئے تو اُس نے بھڑکنا شروع کر دیا، حضرت جبرائیل نے اپنا ہاتھ اُس پر رکھا اورکہا، اے براق تجھے شرم نہیں آتی، محمدؐ سے پہلے تجھ پر کوئی بندہ سوار نہیں ہوا جو اللہ کے نزدیک ان سے افضل ہو، براق یہ سُن کر شرم سے پانی پانی ہو گیا اور رک گیا کہ میں اس پر سوار ہوں۔ پھر اس نے کان ہلائے اور زمین سمیٹ دی۔ یہاں تک کہ ان کا کنارہ براق کے قدم پڑنے کی آخری جگہ تھی۔ اس کی پشت اور کان دراز تھے۔جبرئیل میرے ساتھ اس طرح روانہ ہوئے کہ نہ میں انہیں چھوڑتا تھا، نہ وہ مجھے چھوڑتے تھے۔ یہاں تک کہ انہوں نے مجھے بیت المقدس پہنچا دیا، براق اپنے مقام پر پہنچ گیا جہاں وہ کھڑا ہوتا تھا۔ جبرائیل نے اسے وہاں باندھ دیا.اس جگہ رسول اللہ سے پہلے تمام انبیا ءکی سواریاں باندھی جاتی تھیں۔ آپؐ نے فرمایا، میں نے تمام انبیاء دیکھے جنہیں میرے ارد گرد جمع کر دیا گیا تھا۔ میں نے ابراہیم، موسیٰ،عیسیٰ کو دیکھا۔ خیال ہوا ضرور ان کا کوئی امام ہو گا، جبرائیل نے مجھے آگے کر دیا، میں نے سب کے آگے نماز پڑھی، دریافت کیا تو انہوں نے کہا کہ ہم سب توحید کے ساتھ بھیجے گئے ہیں
ابوہریرہ سے روایت ہے ۔ رسول اللہ نے فرمایا، میں ھجر (کعبہ کا بغیر چھت کا حصہ) پر تھا اور قریش مجھ سے معراج کے متعلق پوچھ رہے تھے اور بیت المقدس سے متعلقہ ایسے سوال کر رہےتھے۔ جن کے متعلق مجھے کچھ یاد نہیں رہا تھا، اس دن میں اس قدر جھنجھلایا ہوا تھا کہ پہلے زندگی میں کبھی نہیں ہوا۔ تب اللہ نے اس (بیت المقدس) کو میری آنکھوں کے سامنے ظاہر کیا، میں نے اس کی طرف دیکھا اور قریش کے تمام سوالوں کے جواب دے دیئے۔ میں نے اپنے آپ کو نبیوں کے درمیان پایا، میں نے حضرت موسیٰ کو عبادت کرتے دیکھا، اُنکا جسم بہت مضبوط اور گٹھا ہوا تھا جیسے وہ شنوعہ قبیلے کے ہوں، میں نے حضرت عیسیٰ ابن مریم کو عبادت کرتے دیکھا، ان کی شکل عروۃ ابن سعود الثقفی سے بہت مشابہ تھی۔ میں نے حضرت ابراہیم کو عبادت کرتے دیکھا، اُن کی شکل آپ کے ساتھی (نبیؑ کریم) سے بہت ملتی تھی۔ جب نماز کا وقت آیا تو میں نے امامت کی۔ جب نماز ختم ہوئی تو کسی نے کہا، یہ مالک ہیں، جہنم کے نگراں، انہیں سلام کرو، میں ان کی طرف مڑا لیکن انہوں نے مجھے پہلے سلام کر دیا۔(صحیح مسلم، کتاب الایمان: حدیث نمبر۔328
” یہ (معراج کا قصہ) سُن کر بہت سے جو پہلےمسلمان تھے اور عبادت گذار تھے، وہ اسلام سے تائب ہو گئے۔ بہت سوں نے اسلام سے کنارہ کشی کر لی، کچھ حضرت ابوبکر کے پاس گئے اورکہا اب تم اپنے دوست کے متعلق کیا کہتے ہو، وہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ پچھلی رات یروشلم گیا تھا، وہاں عبادت کی اور واپس مکہ آ گیا “۔
حضرت ابوبکر نے کہا تم نبیؑ کے متعلق جھوٹ بول رہے ہو، لیکن جب انہیں پتہ چلا کہ حضور اس وقت کعبہ میں قریش کو یہی واقعہ بتا رہے ہیں تو آپ نے کہا۔ ” اگر وہ یہ کہتے ہیں تو یہ سچ ہے، مجھے ان پر یقین ہے۔ اس میں حیرانی والی کون سی بات ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا ہے کہ عرش سے بھیجا ہوا اللہ کا پیغام زمیں پر میرے پاس چند گھڑیوں میں پہنچ جاتا ہے۔ اور میں اس پر یقیں کرتا ہوں۔ اور معراج اتنی غیر معمولی واقعہ نہیں کہ تمہارے دماغ یوں چکرائیں، جتنا کہ یہ (وحی) ہے“(محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ
اس کے بعد حضرت ابوبکر حضور کے پاس گئے اور معراج کی تصدیق چاہی، جب حضور نے اثبات میں جواب دیا تو آپ نے حضور سے یروشلم کے متعلق تفصیلات چاہیں۔ جب بھی حضور کچھ بتاتے، ابوبکر فرماتے ” بالکل سچ، آپ واقعی اللہ کے رسول ہیں” حتیٰ کہ آپ نے پوری داستان بیان کر دی۔ حضرت ابوبکر کی اس گواہی سے خوش ہو کر حضور نے کہا ” انت یا ابابکرصدیق، اے ابوبکر! تم صدیق (سچا۔ راست گو) ہو۔
اہل مکہ کے اس رویے کے باعث آپ کی بہت زیادہ دل شکنی ہوئی، مالک دو جہاں نے یہ آیت نازل فرما کر آپ کی اشک شوئی کی۔ ” حسن نے کہا کہ اس وجہ سے ان لوگوں کے متعلق جو اپنے اسلام سے مرتد ہو گئے تھے، اللہ نے نازل فرمایا۔
وَمَاجَعَلْنَا ٱلرُّءْيَا ٱلَّتِي أَرَيْنَاكَ إِلاَّ فِتْنَةً لِّلنَّاسِ وَٱلشَّجَرَةَ ٱلْمَلْعُونَةَ فِي ٱلقُرْآنِ وَنُخَوِّ فُهُمْ فَمَا يَزِيدُ هُمْ إِلاَّ طُغْيَاناًكَبِيراً
اور جو نظارا ہم نے تمہیں دکھایا ہے، اور جس درخت پر قران میں لعنت بھیجی گئی ہے، یہ تو لوگوں کیلئے ہم نے آزمائش بنائی ہے اور ہم انہیں ڈراتے ہیں تو یہ ڈرانا ان میں سخت سرکشی ہی کو زیادہ کرتا ہے۔(سورۃبنی اسرائیل
تشنہ سوالات
زرتشتی عقیدہ
ساسانی دور حکومت کے ایران میں ” اردا ویراف نمگ” کے نام سے ایک کتاب لکھی گئی جس کا سن تحریر تقریباً 270 سال قبل مسیح بتایا جاتا ہے۔ زرتشتی عقیدے کے مطابق ژند اوستا کے بعد یہ دوسری اہم کتاب ہے۔ اس کتاب میں اردا ویراف نام کے ایک زرتشتی پادری کا ذکر ہے، جو اپنے خدا آہور مزدا سے ملنے کیلئے آسمانوں پر جاتا ہے، لیکن چھ دن پر محیط اس کا یہ سفر جسمانی نہیں بلکہ روحانی ہوتا ہے۔ اردا ویراف کی راہنمائی حضرت جبرائیل کی بجائے ادار نامی فرشتہ اور متقی سروش کر رہے ہوتے ہیں۔ سفرکے آغاز میں اردا ویراف کو چینوت نامی پُل عبور کرنا ہوتا ہے، جو تلوار جتنا پتلا اور تیز ہے، اگر کوئی نیک آدمی آتا ہے تو وہ پل بڑا ہو جاتا ہے اور نیک آدمی اس پر سے گزر جاتا ہے، لیکن گناہگار لوگ اس پل سے کٹ کٹ کر نیچے اہرمن کی دوزخ میں گر جاتے ہیں (پل صراط کےساتھ کس قدر مشابہت ہے)۔ ادار فرشتے کی مدد سے پل پار کرنے کے بعد اردا ویراف” حوض کوثر” کی بجائے “روشنیوں کےشہر” پہنچتا ہے۔ اپنے اس سفر کے بعد اردا ویراف کو جنت اورجہنم کے مختلف حصوں کی سیر کرائی جاتی ہے۔ اردا ویراف وہاں مختلف لوگوں سے ملتا ہے، جنہوں نے اپنی زندگی میں مختلف قسم کے گناہ یا نیکی کے کام کئے ہوتےہیں۔
چینوت پل پار کرنے کے بعد ” متقی سروش اور ادار فرشتے نے میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ چلو آؤ تاکہ ہم تمہیں جنت اور دوزخ دکھائیں۔ اور وہ شان و شوکت اور آسانیاں اور خوشیاں اورمسرت اور خوشبوئیں جو نیکو کاروں کا اجر ہیں۔ ہم تمہیں وہ تاریکی، ذلت، بدقسمتی، تکلیف، شر، درد، ڈر، بیچارگی، اذیت، بدبو اور مختلف سزائیں بھی دکھائیں گے جس سے گناہ گار، راکھشس اور جادوگر دوچار ہوں گے۔ ہم تمہیں سچ اور جھوٹ کی جگہیں دکھائیں گے۔ ہم تمہیں ان نکو کاروں کو دیا جانے والا اجر دکھائیں گے، جن نکوکاروں کا آہور مزدا، عظیم فرشتوں،جنت اور دوزخ پر ایمان تھا، ۔ اور دکھائیں گے خدا اور عظیم فرشتوں کی حقیقت اور اھرمن اور شیاطین کی غیر حقیقت، اور مرنے والوں کے دوبارہ اٹھنے کی حقیقت اور ان کو دئیےجانے والے مستقبل کے بدن۔ ہم تمہیں دکھائیں گے جنت کے اندر آہور مزدا اور عظیم فرشتوں کا نکو کاروں کو دیا گیا اجر۔ ہم تمہیں مختلف اذیتیں اورعذاب دکھائیں گے جوگناہ گاروں کو اھرمن اور دیگر راکھشسوں کی جہنم کے اندر دی جائیں گی۔
اسکے بعد میں نے رہِ نجوم پر پاؤں رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے متقی سروش اور ادار فرشتے سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور یہ کون لوگ ہیں۔ انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے عبادت نہیں کی، گاتھا کے منتر نہیں پڑھے، نزدیکی رشتہ داروں سے شادی نہیں کی، انہوں نے حکومت بھی نہیں کی، لیکن دوسرے اچھے اعمال کی وجہ سے یہ پارسا ٹھہرے۔
پھر اردہ رہِ قمر کو جاتا ہے، جس میں موجود لوگوں کے چہرے چاند کی طرح چمکتے ہیں۔ اور میں نے متقی سروش اور ادار فرشتے سے پوچھا کہ یہ کون سی جگہ ہے اور یہ کون لوگ ہیں۔انہوں نے جواب دیا کہ یہ وہ لوگ ہیں، جنہوں نے عبادت نہیں کی، گاتھا کے منتر نہیں پڑھے، نزدیکی رشتہ داروں سے شادی نہیں کی، انہوں نے حکومت بھی نہیں کی، لیکن دوسرے اچھے اعمال کیوجہ سے یہ یہ پارسا ٹھہرے۔ اس کےبعد اردہ رہِ آفتاب کے لوگوں سے ملتا ہے اور ان کے بارے میں بتایا جاتا ہے، کہ یہ وہ لوگ ہیں جو حاکم ہوئے اور انہوں نے بہت اچھی حکومت کی۔
وہاں سے گزر کر اردہ جنت پہنچتا ہے، تو سب سے پہلے اسے وہ عورتیں ملتی ہیں جنہوں نے اچھا سوچا، اچھا بولا، اچھے کام کیئے اور اپنے خاوندوں کی فرمانبرداری کی، ان عورتوں کا لباس سونے، چاندی اور جواہرات سے جڑا ہوتا ہے۔ اسکے بعد اردہ جنت کے دیگر حصوں میں پھرتا ہے، جہاں اسے سونے کے تخت پر بیٹھی کئی روحیں نظر آتی ہیں جنہوں نے دنیا میں نیکی کے مختلف کام کیئے تھے۔ آردہ آگے بڑھتا رہتا ہے اور اسکے ہمراہی اسے بتاتے رہتے ہیں، کہ کس آدمی نے دنیا میں کون سے نیک کام کئے، جس کے بدلے اسے جنت میں یہ مقام عطا ہوا۔
جنت کے بعد اردہ کو دوزخ کی جانب لایا جاتا ہے، پہلے اسے ایک پل کے پاس سے گزرنا ہوتا ہے،جس کے نیچے ایک بہت ہی اداس قسم کا دریا بہہ رہا ہوتا ہے، اردہ کو بتایا جاتا ہے کہ یہ دریا ان مردوں کے آنسوؤں سے بنا ہے جنہوں نے مرنے والوں کیلئے ناحق آنسو بہائے۔ اسکے بعد اردہ دوزخ کے اندر گناہ گاروں کو دی جانے والی اذیت کے مناظر دیکھتا ہے، متقی سروش اور آدر فرشتہ تفصیل بتاتے ہیں کہ کس آدمی کو کس گناہ کی سزا دی جا رہی ہے
میں نے ایک آدمی کی روح کو دیکھا جس کی زبان کو کیڑے کتر رہے تھے، میں نے پوچھا اس جسم سے کون سے گناہ سرزد ہوئے۔ متقی سروش اور اراد فرشتے نے بتایا کہ یہ ایک ایسے نابکار کی روح ہے جس نے بہت زیادہ جھوٹ بولے، یوں اس نے دیگر مخلوق کو نقصان پہنچایا۔
میں نے ایک ایسی عورت کو دیکھا جو اپنے دانتوں سے اپنی لاش کو چبا رہی تھی، میں نے پوچھاکہ یہ کس کی روح ہے، متقی سروش اور ادار فرشتے نے بتایا، کہ یہ ایسی بدکار عورت کی روح ہے جو جادو کرتی تھی “۔
آخری دن اردا ویراف کو ساتویں آسمان پرلے جایا جاتا ہے، جہان اسے خدائے بزرگ و برتر کا دیدار نصیب ہوتا ہے، وہاں اردا ویراف کو پتہ چلتا ہے کہ آہور مزدا کی کوئی شکل نہیں ہے بلکہ وہ ایک ابدی نور ہے۔ اس کے بعداردا ویراف کی روح زمیں پر اس کے جسم میں واپس آ جاتی ہے۔ (مزید تفصیلات کیلئے دیکھیئے: اردہ ویراف نمگ
واقعہ معراج کی جھلک
شب معراج کو نبی کریم کو بھی ان کی خواہش پر دوذخ کا ڈھکنا اٹھا کر دوزخ کے عجائبات دکھائےجاتے ہیں، آپ نے بھی اردہ ویراف کی طرح مختلف لوگوں کو شدید عذاب میں مبتلا دیکھا:
پھر میں نے وہ لوگ دیکھے جن کے ہونٹ اونٹوں کی طرح تھے، ان کے ہاتھ میں آگ کے گولوں کی طرح کے پتھر تھے، جنہیں وہ منہ میں ڈالتے تھے اور وہ ان کے مقعد سے باہر نکلتے تھے، مجھے بتایا گیا کہ یہ وہ لوگ ہیں جو یتیموں کا مال کھا جایا کرتے تھے۔
پھر میں نے چند لوگ دیکھے ان جیسے پیٹ میں نے کبھی نہیں یکھے، جب وہ جہنم میں لائے جاتےہیں تو ان پر جیسے پیاسے اونٹ گزر جاتے ہیں، اور ان میں ہلنے کی سکت نہیں ہوتی۔ یہ سود خور تھے۔
پھر میں وہ لوگ دیکھے جن کے سامنے چکنا فربہ گوشت تھا، اور اس کے ساتھ دبلا ( دبلے جانورکا) اور بدبودار گوشت بھی، اور وہ لوگ چکنے اور فربہ گوشت کی بجائے وہی دبلا اور بدبودار گوشت کھا رہے تھے، مجھے بتایا گیا،کہ یہ وہ لوگ تھے جو ان عورتوں کو جو حلال ٹھہرائی گئیں تھیں، ان کو چھوڑ کر دوسری عورتوں کے پاس جاتے تھے۔
پھرمیں نے ایسی عورتیں دیکھیں جو اپنی چھاتیوں سے لٹکی ہوئی تھیں۔ یہ وہ تھیں جنہوں نے( اپنے) مردوں کے پاس ایسا بچہ داخل کرا دیا جو ان کا اپنی اولاد میں سے نہیں تھا“۔ (محمد بن اسحاق: سیرۃ رسول اللہ
تشنہ سوالات
ھیکل سلیمانی کو تقریبا٘ ایک ہزار قبل مسیح حضرت سلیمان نے تعمیر کروایا تھا۔ بابلی بادشاہ بخت نصر نے 586 قبل مسیح میں یروشلم پر قبضہ کر کے ھیکل سلیمانی کو آگ لگا دی۔515 قبل مسیح میں اس معبد کو دوبارہ بنایا گیا، لیکن 70ء میں ٹائٹس اور اسکے رومی سپاہیوں نے حملے کے بعد اسے سطح زمین کے برابر کر دیا۔ جب معراج کا مبارک واقعہ پیش آیا، اُس وقت وہاں نہ مسجد اقصیٰ تھی اور نہ ہی معبد سلیمانی۔ بلکہ وہ جگہ شہر بھر کا کوڑا کرکٹ پھینکنے کیلئے استعمال ہوتی تھی۔
کیا وجہ ہے، خدا نے جب بھی اپنے بندے سے رابطہ کیا، اس نے ان وقتوں کی میسر ” ٹیکنالوجی” سے ہی کیوں استفادہ فرمایا۔ حمورابی اور حضرت موسیٰ کو پتھر کی سلوں پر کندہ احکامات دئیے، آج کے وقتوں میں خدا یقیناَ جدید ذرائع استعمال کرتا۔ حضور کے زمانہ میں کسی کو پیغام دینے کیلئے کسی کو بھیجنا پڑتا تھا،اسی لئے حضرت جبرئیل بذات خود اللہ کا پیغام لے کر آتے تھے۔ اگر رسول اللہ آج ہوتے تو اللہ میاں حضرت جبرائیل کے ذریعے وحی بھیجنے کی بجائے رسول اللہ کو ای میل کرتے۔ حضور کے زمانے میں سواری کیلئے گھوڑا اور گدھا ہی میسر تھے، اور چونکہ آسمان کی جانب اڑنے کیلئے پروں کی ضرورت ہوتی ہے، لہذا اللہ میاں نے سرور کونین کیلئے اڑنے والا گدھا بھیجا۔ آج کے وقتوں میں اللہ میاں یقیناَ سپیس شپ یا خلائی شٹل بھیجتے۔ نبی تو در کنار،جب جبرئیل حضور کو قبیلہ بنو قریظہ پر حملہ کرنے کی صلاح دینے آتےہیں، تب وہ بھی گدھےپر سوار ہوتے ہیں اور انہوں نے کشیدہ کاری سے مزین عمامہ سر پرباندھا ہوتا ہے۔(تفصیل کیلئے دیکھئے: سیرت محمد بن اسحاق
سوال یہ ہے کہ رسول اللہ مکہ سے سیدھے ہی عرش پر کیوں نہیں گئے؟، کیا یروشلم میں عرش پر جانے کیلئے کوئی شارٹ کٹ راستہ موجود تھا؟۔ کیا وہاں پر کوئی وورم ہول تھا؟۔ اگر انبیا کی نماز کی امامت کروانی ہی مقصود تھی تو وہ مکہ میں کیوں نہیں ہو سکتی تھی؟۔ کیا سواریوں کی کمی کیوجہ سے دیگر انبیاءکرام کیلئے مکہ پہنچنا مشکل تھا؟۔ اگر اللہ میاں نے یروشلم میں وورم ہول بنایا تھا تو کیا وہ ایسا ہی وورم ہول مکہ میں نہیں بنا سکتا تھا؟۔ اور وہ سیڑھی جس پر چڑھ کر نبیؑ کریم عرش معلیٰ پہنچے،کیا ایسی سیڑھی مکہ میں نصب نہیں ہو سکتی تھی؟۔کیا اس میں کوئی تکنیکی مسائل در پیش تھے، یا اللہ میاں کو مکہ کی نسبت یروشلم زیادہ عزیز ہے؟۔
جب نبی کریم براق پرسوار ہونے لگے تو براق کیوں بھڑکنے لگا، کیا اسے یہ پتہ نہیں تھا کہ اسے کس مقصد کیلئے زمین پر بھیجا گیا ہے، کیا اسے اللہ میاں یا حضرت جبرائیل نے اس بارے میں کچھ بھی نہیں بتایا تھا؟۔ لہذا اس نے زمین پر آتے ہی اپنے زمینی بھائیوں(گدھوں) کی طرح دولتیاں جھاڑنی شروع کر دیں
جہاں رسول اللہ نے انبیاءکرام کی نماز کی امامت فرمائی، کیا وہ معبد سلیمانی تھا جو انکی پیدائش سے تقریباَ 570 سال قبل تباہ ہو چکا تھا یا مسجد اقصیٰ، جسے خاندان بنوامّیہ کے عبدالمالک بن مروان نے حضور کی وفات کے 73 سال بعد بنوایا تھا۔ کیا حضور پاک کا آسمانی گدھا ایک ٹائم مشین تھا، جو حضور کو انکی پیدائش سے 570 سال پہلے تباہ شدہ معبد میں لے گیا تھا، یا انکی وفات کے 73 سال بعد بننے والی مسجد میں۔۔۔۔۔۔۔ کیا وہ کُوڑےکا ڈھیر مسلمانوں کا قبلہ اوّل تھا؟، اور اسی کوڑےکے ڈھیر پرحضور نے انبیا کی نماز کی امامت فرمائی تھی؟۔ اور حضور مکہ کے لوگوں کو کس مسجد کے دروازوں کی تفصیل بتا رہے تھے؟۔
اللہ میاں نے پہلے مسلمانوں پر پچاس نمازیں فرض کی تھیں، حضور کا بار بار اوپر جا کر نمازیں کم کروانا، خدا اور اس کے رسول کے درمیاں مکالمے کی بجائے ایک ایسی دوکان کا سا سماں پیدا کرتا ہے، جہان ایک دوکاندار اور گاہک خاتوں کے درمیاں کسی چیز پر مول تول ہو رہاہے۔ اور بھلا ہو اس یہودی پیغمبر کا کہ اس کی وجہ سے ہمیں پچاس کی بجائے پانچ نمازوں کا حکم ہوا، وگرنہ دن بھر نمازیں پڑھ پڑھ کے ہماری تو مت ماری جانی تھی۔ یہ بھی سمجھ میں نہیں آتا کہ پچاس نمازوں کے پڑھے جانے کی جو مشکل حضرت موسیٰ نے نوٹ فرما لی تھی، وہ نہ ہی حضور کے ذہن میں آئی اور نہ ہی اللہ میاں کے۔ حضرت موسیٰ اللہ میاں اور ہمارے نبیؑ دونوں سے زیادہ عقلمند ثابت ہوئے
حضور مسجد اقصیٰ میں دو رکعت نماز کی امامت کرواتےہیں اور تمام انبیا اُن کے پیچھے ہوتے ہیں،جب حضور آسمانوں پر پہنچتےہیں، تووہ نبی پہلے سے ہی وہاں موجود ہوتے ہیں، کیا اُنکے پاس حضور سے بھی زیادہ تیز رفتارسواری تھی کہ وہ نماز پڑھنے کے بعد حضور سے پہلے ہی اپنے اپنے آسمانوں پر پہنچ جاتے ہیں؟
تمام احادیث کے مطابق نماز نبیؑ کریم کے عرش پر موجودگی کے وقت فرض ہوئی، اور جبرئیل دوسرے دن آپ اور دیگر صحابہ کرام کو نماز پڑھنا سکھاتے ہیں۔ تو پھر آپ نے عرش پر جانے سے پہلے کس قسم کی دو رکعت نماز ادا کی۔
ہو سکتا ہےمعراج نبوی کے متعلق سب حدیثیں غلط ہوں، تمام مسلمان تاریخ دانوں نے غلط بیانی سے کام لیا ہو۔ لیکن یہ معراج کا واقعہ قرآن میں کیونکر درج ہوا۔ کیا اس کا مطلب ہے، کہ وہ افواہ سچی نکلی کہ بنوامّیہ کےدور میں قراؑن میں تبدیلیاں کی گئی ہیں، کیا یہ ممکن نہیں ہے، کہ عبدالملک بن مروان کے مسجد اقصیٰ بنانے کے بعداس آیت کو قرآن میں درج کیا گیا ہو؟۔ لیکن اللہ میاں نے تو وعدہ کیا تھا کہ وہ خودقرآن کی حفاظت کریں گے ( ویسے حفاظت تو انہیں اپنی پہلی الہامی کتابوں کی بھی کرنی چاہیئے تھی)۔ توکیا اللہ میاں نے اپنا وعدہ پورا نہیں کیا؟۔ کیا اللہ میاں اپنے وعدہ سے پھر گئے؟، یا اللہ میاں سے پھر ایک بار پھر چوک ہو گئی؟
Comment