نماز جنازہ میں قرات جہرا و سرا دونوں طرح درست ہے البتہ دلائل کی رو سے سرا پڑھنا زیادہ بہتر اور اولیٰ ہے۔ سری پڑھنے کے دلائل یہ ہیں۔
سیدنا ابو امام سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا : '' نماز جنازہ میں سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلی تکبیر میں سورة فاتحہ آہستہ آواز میں پڑھے پھر تین تکبیریں کہے اور آخری تکبیر کے پاس سلام پھیرے '' یعنی تکبیر اولیٰ کے بعد سورۂ فاتحہ آہستہ پڑھے پھر باقی تکبیرات میں جیسا کہ دیگر احادیث میں صراحت ہے کہ دوسری تکبیر کے بعد درود پڑھے پھر تیسری تکبیر کے بعد دُعا پڑھے اور چوتھی تکبیر کے بعد سلام پھیر دے ۔ بعض صحیح روایات میں چار سے زائد تکبیرات کا بھی ثبوت موجود ہے ملاحظہ ہو ۔ احکام المنائر للشیخ البانی حفظہ اللہ، امامش افعی نے کتاب الام ۱/۲۳۹،۲۴۰ پر اور انہی کی سند سے امام بیہقی ۴/۳۹٣ پر اور امام ابن الجاوری المنتقی (۲۶۵) پر لائے ہیں کہ ابو امام کی مذکورہ حدیث میں ہے ۔ '' نماز جنازہ میں سنت یہ ہے کہ امام تکبیر کہے۔ پھر ( تکبیر کے بعد ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھے۔ پھر باقی تکبیروں میں میت کیلئے خلوص سے دعا کرے اور ان تکبیروں سے قرأ ت نہ کرے آہستہ آہستہ سلام پھیرے اور سنت یہ ہے کہ مقتدی بھی وہ عمل کرے جو اسکا امام کرے ''۔ '' یعنی اصحاب صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی مسئلے کے بارے میں کہیں کہ یہ سنت اور حق ہے تو اس کا مطلب محض یہ ہوتا ہے کہ یہ سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔ ان شاء اللہ '' ان احادیث سے معلوم ہوا کہ نماز جنازہ میں سورہ فاتحہ کی قرأت آہستہ کرنا مسنون ہے اور سرا فی نفسہ مخافتہ کے الفاظ اس مسئلہ پر صراحت سے دلالت کرتے ہیں ۔ا ور جہری قرأ ت کرنے کا استدلال اس حدیث سے ہے کہ سیدنا عوف بن مالک فرماتے ہیں : '' رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جنازہ کی نماز پڑھائی میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا سے یاد کر لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے تھے اے اللہ اس کو بخش دے اور اس پر رحم کر اور اس کو عافیت دے معافی سے نواز دے''۔ (الحدیث) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جنازہ پڑھناسے یہ دعا حفظ کی اوریہ تبھی ہو سکتا ہے جب آپ نے جہری پڑھی ہو ۔ بہر کیف سری پڑھنا حدیث سے صراحتاً اور جہری پڑھنا استدلالاً ثابت ہے، اس لئے آہستہ پڑھنازیادہ قوی و بہتر ہے