Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

احکام طلاق اور شبہات کا ازالہ

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • احکام طلاق اور شبہات کا ازالہ



    بسم اللہ الرحمن الرحیم


    احکام طلاق اور شبہات کا ازالہ



    *مرد و عورت کو باہم حسن معاشرت کا حکم ہے*





    اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’ ۚ وَعَاشِرُوهُنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۔۔۔‘‘

    (النساء آیت 19)

    ’’عورتوں کے ساتھ (معروف طریقے پر) بھلائی کا معاملہ کرو۔‘‘


    ’’ وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِي عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ ۚ وَلِلرِّجَالِ عَلَيْهِنَّ دَرَجَةٌ ‘‘

    (البقرہ آیت 228)

    جیسے عورتوں پر مردوں کے حقوق ہیں ایسے ہی عورتو ں کے بھی ان (مردوں) پر دستور کے موافق حقوق ہیں ، مردوں کو عورتوں پر برتری حاصل ہے۔


    ’’ مَتَاعًا بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُحْسِنِينَ۔۔۔‘‘

    (البقرہ آیت 236)

    ’’نیک لو گوں پر حق ہے کہ (عورتوں کے ساتھ ) اچھا سلوک کریں ۔‘‘

    ان آیا ت سے بالکل واضح طور پر یہ بات سمجھی جا سکتی ہے کہ مرد و عورت میں سے ہر ایک پر کچھ حقوق اور ذمہ داریاں عائد ہو تی ہیں اور وہ ان سے عہدہ بر آ ہو کر ہی بارگاہ الہٰی میں سرخرو ہو سکتے ہیں ۔

    مز ید تفصیل کے لئے سورہ بقرہ، سورہ طلاق بمع تفسیر اور صحیح بخاری و صحیح مسلم وغیرہ کا مطالعہ کرنا چاہئے۔

    *ناچاقی کی صورت میں شرعی طریقہ کار*

    اگر قصور عورت کا ہو تو، عورت کو نصیحت کی جائے،رہن سہن میں علیحدگی اختیار کرکے تنبیہ کی جائے اور آخری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ تادیبی مار بھی ماری جا سکتی ہے جوکہ بہت زیادہ تکلیف وپریشانی او ر تنفر کا باعث نہ بنے۔

    سورہ نساء آیت ۳۴۔ترجمہ:’’اور جن عورتوں کی نافرمانی اور شرارتوں کا تمہیں خوف و خطرہ ہو تو انہیں نصیحت کردو اور ان کو اپنے بستروں سے علیحدہ کر دو اور تم انہیں تادیبی ضرب کی سزا بھی دو (اس طرح ) اگر و ہ راہ راست پر آکر تمہاری فرمانبرداری کریں تو بے جا الزام لگانے کا راستہ تلاش نہ کرو۔
    اور قصور دونوں ہی طرف سے ہو تو اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ ایک حکم (وکیل و منصف ) مرد کی طرف سے اور ایک حکم( وکیل و منصف) عورت کی طرف سے مقرر کئے جائیں تاکہ وہ مصا لحت کی بھرپور کو شش کریں کیونکہ انکی کو شش اصلاح سے ہی اللہ تعالیٰ صلح کی توفیق دے گا۔

    (سورہ نساء آیت 35)

    *عدم نباہ کی صورت میں جدائی کی شکل شرعی طلاق ہے*

    عدم نباہ کی صورت میں شوہر اور بیوی کے درمیان رشتہ مناکحت ختم کرنے کی ایک صورت طلاق ہے اور طلاق دینے کا اول حق عورت کے شوہر کا ہے۔

    ’’يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاءَ فَطَلِّقُوهُنَّ لِعِدَّتِهِنَّ ۔۔۔‘‘

    (سورہ الطلاق آیت ۱)

    ’’يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا نَكَحْتُمُ الْمُؤْمِنَاتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوهُنَّ ۔۔۔‘‘

    (سورہ الاحزاب آیت 49)

    مذکورہ آیات سے حکم طلاق بالکل واضح ہے۔بعد از نکاح معقول وجو ہات کی بنا ء پر شوہر اپنی بیوی کو شرعی طریقہ پر طلاق دے سکتا ہے۔

    *طلاق کی جائز صورت*

    ۱

    ۔صرف ایک طلاق دی جائے،یعنی شوہر بیوی سے کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی، اس پر طلاق واقع ہو جائیگی ، بس ایک ہی طلاق دینے پر اکتفا کرے۔

    (سورہ الطلاق آیت ۱)

    صحا بہ کرامؓ اس بات کو پسند فرماتے تھے کہ آدمی اپنی بیوی کو صرف ایک طلاق دے اور اسے چھوڑے رکھے یہاں تک کہ اسے تین حیض آجائیں ۔

    (فتح القدیر ابن الھمام بحوالہ ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل۔دارالسلام)

    ۲

    ۔طلاق حالت طہر میں دی جائے جس میں شوہر نے مجامعت نہ کی ہو۔

    (صحیح بخاری ، کتاب الطلاق)

    حالت حیض میں طلاق دینا جائز نہیں ہے۔

    (بخاری و مسلم ۔کتاب الطلاق)

    حالت حمل میں طلاق دی جاسکتی ہے۔

    (صحیح مسلم)


    ۳

    ۔طلاق دیتے وقت دو گواہ بنالینا مستحب ہے۔

    (الطلاق آیت ۲)


    ۴

    ۔اس طرح جب ایک طلاق دی جائیگی تو دوران عدت شوہر رجوع کرنے کا حق دار ہوتا ہے۔

    (سورہ البقرۃ آیت ۲۲۸)

    بصورت دیگر مکمل عدت گزرنے پر عورت مرد سے جدا ہو جائیگی البتہ کیو نکہ ایک ہی طلاق واقع ہو ئی ہے لہٰذا عدت کے بعد دونو ں تجدید نکاح کے ذریعہ دوبارہ ازدواجی بندھن میں جڑ سکتے ہیں ۔

    (سورۃ البقرۃ آیت۲۳۲)


    ۵

    ۔طلاق کے بعد بیوی شوہر کے گھر ہی میں عدت گزارے ، شوہر اسے گھر سے نہ نکالے اور نہ وہ خود ہی گھر سے عدت پوری ہونے سے قبل نکلے۔

    (سورہ الطلاق آیت۱)

    فی زمانہ جو طلاق کے فوراً بعد عورت کو جو گھر سے نکال دیا جا تا ہے یا وہ خود ہی نکل کھڑی ہو تی ہے یہ عمل خلاف قرآن ہو نے کی وجہ سے ناجائز ہے، جبکہ عورت کا اپنے شوہر ہی کے گھر میں رہنا اس کے جلد رجوع کا باعث ہو سکتا ہے بشرطیکہ طلاق ایک یا دو ہی (شرعی طور پر ) واقع ہوئی ہوں۔


    *عدت کا بیا ن*

    ۱

    ۔عام حالات میں مطلقہ عورت کی عدت تین حیض ہے۔

    (البقرۃ :۲۲۸)

    ۲

    ۔جن عورتوں کو حیض نہ آتا ہو انکی عدت تین ماہ ہے۔

    (الطلاق آیت:۴)

    ۳

    ۔حمل والی مطلقہ عورت کی عدت وضع حمل ہے، یعنی بچے کی پیدائش پر عدت ختم ہو جائیگی ۔

    (الطلاق آیت : ۴)

    ۴

    ۔مطلقہ غیر مدخولہ پر کوئی عدت نہیں ہے۔

    (سورۃ الاحزاب آیت:۴۹)

    *طلاق کی ناجائز صورتیں*

    ۱

    ۔حالت حیض میں طلاق دینا ۔

    (صحیح بخاری ، کتاب الطلاق)

    ۲

    ۔حالت طہر میں صحبت کے بعد طلاق دینا ۔

    (صحیح بخاری ، کتاب الطلاق)

    ۳

    ۔ایک مجلس میں تین طلاقیں ایک ساتھ دینا ۔

    (سنن النسائی ، کتاب الطلاق)

    حالت نفاس (پیدائش کے بعد آنے والے خون کی حالت ) میں بھی طلاق دینا جائز نہیں کیونکہ حیض و نفاس کا حکم ایک ہی ہے اور یہ حالت طہر (پاکی) بھی نہیں ہے۔

    *ناجائز طلاق کی ایک صورت جبری طلاق بھی ہے*

    رسول اللہ ﷺ نے فرمایا

    اللہ تعالیٰ نے میری خاطر میری امت کو غلطی ، بھو ل اور وہ کام معاف کر دئے ہیں جن پر انہیں مجبور کر دیا گیا ہو۔

    (ابن ماجہ ۲۰۴۳)

    مزید فرمایا

    زبردستی میں نہ طلاق واقع ہوتی ہے اور نہ ہی غلام آزاد ہو تا ہے۔

    (ابو داؤد ۲۱۹۳، ابن ماجہ ۲۰۴۶)


    نیز صحیح بخاری کتا ب الطلاق باب الطلاق فی الاغلاق والمکرہ والسکران۔۔۔ دیکھئے۔

    ان دلائل سے واضح ہے کہ زبردستی (جبری) طلاق جائز نہیں اور نہ ہی واقع ہوتی ہے۔

    *مروجہ طریقہ پر دی گئی ایک مجلس کی تین طلاقیں حقیقتاً ایک ہی ہوتی ہے*

    نبی رحمت ﷺ کی زندگی مبارکہ میں جب ایک شخص نے اپنی بیوی کو یکبارگی (اکٹھی) تین طلاقیں دیدیں تو آپ ﷺ سخت ناراض ہوئے او ر فرمایا
    کیا اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل ، مذاق کیا جا رہا ہے؟ (جبکہ ابھی) میں تمہارے درمیان موجود ہوں۔

    (سنن نسائی ۔کتاب الطلاق)


    *غور کیجئے ! اگر اس طرح طلاق دینا جائز ہوتا تو رسول اللہ ﷺ اس قدر ناراض کیوں ہوئے ؟
    *
    لوگ کہتے ہیں کہ تین طلاقیں ایک ساتھ دینا اور ان کا واقع ہو نا تو قرآن سے ثابت ہے یہ سراسر جھوٹ ہے کیونکہ جو بات قرآن سے ثابت ہو کیا رسول اللہ ﷺ اس بات پر ناراض ہو سکتے ہیں ؟ (جو قرآن سے ثابت ہے۔) نعو ذ باللہ من ذلک

    تو معلو م ہو ا کہ مروجہ طریقہ طلاق غیر شرعی ہے اور اس صورت میں تین کے بجائے ایک ہی طلاق واقع ہو گی ، جسکی دلیل درج ذیل ہے۔

    صحیح مسلم کتا ب الطلاق میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے عہد مبارک میں ، سیدنا ابوبکر صدیقؓ کے دور میں اور سیدنا عمر فاروقؓ کے عہد خلافت کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں ۔صحیح مسلم ہی کی دوسری روایت کے الفاظ کے مطابق تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جاتاتھا ۔اب ظاہر ہے اس سے مراد ایک ہی مجلس یا ایک ہی کلمہ کے ساتھ دی جانے والی طلاقیں مراد ہیں لہٰذا یہ کہنا کہ اس میں ایک مجلس کا ذکر کہا ں ہے ؟سراسر جہالت ہے یا دجل و فریب ہے اور اگر اسی پر اصرار ہے کہ ایک مجلس کا لفظ دکھائیں تو ذرا سنن سعید ابن منصور دیکھ لیجیے جس میں ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک قرار دینے کا ذکر ہے اور پھر مسند احمد 265/1پر حدیث سیدنا رکانہؓ دیکھ لیجئے کہ جس میں ایک مجلس کے الفاظ بالکل واضح ہیں۔


    سیدنا رکانہ بن عبد یزیدؓ نے اپنی بیوی کو ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دیدیں پھر وہ بہت غمگین ہوئے ، (راوی کہتے ہیں) نبی مکرم ﷺ نے ان سے دریافت کیا کہ تم نے کس طریقہ پر طلاق دی ؟ انہوں نے کہا میں نے تین طلاقیں دی ہیں ۔آپ ﷺ نے پوچھا ایک ہی مجلس میں ؟ انہوں نے کہا ہاں تو آپ ﷺ نے فرمایا تو پھر وہ ایک ہی ہے، چاہو تو رجوع کر لو ، چنانچہ انہوں نے رجوع کر لیا ۔

    (مسند احمد 265/1، ابو یعلی 2495-485/2)

    حافظ ابن حجر ؒ نے فرمایا

    یہ حدیث نص صریح ہے(ایک مجلس کی تین طلاقوں کے ایک ہو نے میں) ۔

    (فتح الباری )



    * سیدنا عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں: جب کہنے والا ایک ہی مرتبہ کہے کہ تجھے تین طلاق ہے، تو یہ ایک ہی طلاق ہو گی۔

    (ابو داؤ د قبل حدیث 2198)


    اس مسئلے کو سمجھنے کے لئے سورۃ البقرۃ آیت ۲۲۹ اور سورۃ الطلاق آیت ۱ بمع تفسیر مطالعہ کیجئے

    *مسئلہ طلاق ثلاثہ پر اعتراضات و شبہات اور دعاوی کی حقیقت *

    قارئین کرام ! یہاں تک تو قرآن و سنت سے معلوم ہونے والی جائز و ناجائز صورتیں لکھی گئی ہیں اب اس سلسلے میں ان اعتراضات ، شبہات اور دعوؤں کا جائزہ لیا جاتا ہے جو ’’ بعض النا س‘‘ کی طرف سے حاملین کتا ب وسنت کے موقف پر کئے جا تے ہیں۔

    * دعویٰ کیا جاتا ہے کہ ’’ایک مجلس میں دی گئی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرنے کا فتویٰ سیدنا عمرؓ نے دیا تھا ۔‘‘
    * کہا جاتا ہے کہ ’’فیصلہ عمر فاروقؓ کے بعد کسی صحابیؓ و تابعی ؒ نے سیدنا عمر سے اختلاف نہیں کیا اور نہ ہی ان کے فیصلے کے خلاف فتوی ٰ دیا ‘‘
    * مسئلہ طلاق ثلاثہ میں احناف اور ائمہ اربعہ کا مذہب برحق ہے اور یہ اجماع کے مترادف ہے۔
    * کہا جاتا ہے کہ’’ مسئلہ طلاق ثلاثہ میں اہلحدیث اجماع امت سے ہٹ کر شیعوں کے نقشے قدم پر ہیں ۔‘‘
    * کہا جاتا ہے کہ ’’ حدیث مسلم جو آپ پیش کر تے ہیں وہ سنداً اور متناً مضطرب ہے۔‘‘
    * اس حدیث کے روایت کرنے میں طاؤ س متفرد ہے، حالانکہ وہ متکلم فیہ ہے اور ابن عباسؓ سے منکر روایتیں نقل کر تا ہے۔
    * امام احمد ؒ اور امام بخاری ؒ نے اس حدیث کو ذکر نہیں کیا ۔
    * یہ حدیث منسو خ ہو گئی تھی ۔
    * ابن عباسؓ کا فتوی ٰ اس کے خلاف ہے۔

    انتہا ئی اختصار کے ساتھ ہم ان اعتراضا ت ، کہا وتوں اور دعو ؤ ں کا جائزہ علی الترتیب لیتے ہیں ۔

    * صحیح مسلم کی حدیث بالکل واضح ہے کہ نبی مکرم ﷺ کے (مکمل)عہد میں ، صدیق اکبرؓ کے (مکمل) دور خلافت میں اور خود عمرؓ کے ابتدائی دو سالوں میں تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کیا جاتا تھا ۔
    سوچنے کی بات یہ ہے کہ وہ تعامل امت زیادہ صحیح ہے جو عہد رسالت ﷺ و عہد صدیقیؓ اور عہد فاروقیؓ کے ابتدائی سالوں تک چلتا رہا یا وہ تعامل جو بعد میں شروع ہوا؟

    خود امیر عمرؓ کے پاس اگر ایسے شخص کو لا یا جاتا کہ جس نے اکٹھی تین طلاقیں اپنی بیوی کو دی ہوتیں تو آپؓ اسے کوڑے لگایا کر تے تھے۔

    (شرح معانی الآثار 59/3)

    خو د نبی مکرم ﷺ نے بیک وقت کی تین اکٹھی طلاقوں کو کتا ب اللہ کے ساتھ کھیل و مذاق قرار دیا ہے۔

    (النسائی۔کتا ب الطلاق)

    تو پھر کیا بلا وجہ اور بغیر کسی مقصد کے سیدنا عمرؓ نے تین طلاقوں کو تین قرار دینے کا فیصلہ دیا؟؟

    اس کا جواب خود صحیح مسلم ہی کے الفاظ میں یہ ہے کہ لوگوں نے مسئلہ طلاق کو بوجہ عجلت غلط انداز سے برتنا شروع کر دیا تھا اور اسی روک تھا م کے سلسلے میں امیر عمرؓ نے یہ سیاسی اور تعزیری فیصلہ صادر فرمایا تاکہ لوگ متنبہ ہو جائیں اور کثرت سے بیک وقت تیں طلاقیں دینے کے رجحان کی حوصلہ شکنی ہو۔

    *امیر عمرؓ کا فیصلہ شرعی نہیں بلکہ سیاسی اور تعزیری تھا*

    دیکھئے، حاشیہ طحطاوی علی الدر المختار 105/2، مجمع الانھر شرح منتقی الابھر :328

    (بحوالہ ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل۔دارالسلام)

    یہی وجہ ہے کہ اس فیصلے پر امیر عمرؓ نے ندامت کا اظہا ر بھی کیا تھا ۔

    (اغا ثۃاللفھان 351/1)

    *

    جہا ں تک تعلق ہے اس دعوے کا کہ امیر عمرؓ سے کسی نے اختلاف ہی نہیں کیا تو یہ دعویٰ بھی بلا دلیل ہے کیونکہ صحا بہ کرامؒ میں سے سیدنا عبدالرحمن بن عوفؓ ، سیدنا عبداللہ بن زبیرؓ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس مسئلے میں سیدنا عمرؓ سے اختلاف کیا تھا،جبکہ سیدناعبداللہ بن عباسؓ ، سیدنا عبداللہ بن مسعودؓ اور سیدنا علیؓ سے دونوں طرح کے فتوے منقول ہیں، جبکہ تابعین کرامؒ میں سے سیدنا عکرمہ ، سیدنا طاؤسؒ سے ثابت ہے کہ انہوں نے اس مسئلے میں امیر عمرؓ سے اختلاف کیا ہے۔

    ( اعلام المو قعین از ابن القیم، ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل از عبدالرحمن کیلانی)

    ان دونوں حوالہ جات میں انتہائی تفصیل سے صحابہؓ، تابعین ؒ ، تبع تابعین ؒ و دیگر ائمہ و امحدثین کے حوالے سے ثابت کیا گیا ہے کہ ان سب نے امیر عمرؓ کے فیصلے سے اختلاف کیا تھا۔

    *

    جہا ں تک تعلق ہے ’’اجماع‘‘ کے دعوے کا تو یہ بھی کوئی دلیل نہیں رکھتا کیو نکہ عہد فاروقیؓ سے قبل عہد نبویﷺو صدیقیؓ میں کم از کم ایک ہزار صحابہؓ وغیرھم کاتین طلاق (فی مجلس واحد) کے ایک ہی ہونے پر اجماع رہا ہے لہٰذا بعد کے اجماع کی کوئی حیثیت نہیں رہی ۔

    اور پھر صحیح بخاری کا ترجمۃالباب ’’من جوز طلاق الثلاث‘‘ بھی دلیل ہے کہ سلف صالحین میں سے بعض ایسے بھی گزرے ہیں جو تین طلاق کے (ایک ساتھ) وقوع کو جائز نہیں سمجھتے تھے جیسا کہ حافظ ابن حجر ؒ نے صراحت کی ہے۔

    خود علمائے احناف کے سر خیلوں میں سے علامہ عینیؒ اور علامہ طحاویؒ نے خو د اس سلسلے میں سلف کے اختلاف کا ذکر کیا ہے۔

    (دیکھئے عمدۃالقاری اور شرح معانی الآثار)

    جس مسئلے میں صحابہؓ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ ، ائمہ و محدثین کا سخت اختلاف مو جو د ہو اسے اجماعی مسئلہ قرار دینا سراسر علم سے دوری اور ہٹ دھرمی ہے۔
    تفصیل کے لئے دیکھئے ۔

    (ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل۔دارالسلام)


    *

    رہی یہ بات کہ اس مسئلے میں اہلحدیث اجماع امت سے ہٹ کر شیعوں کے نقشے قدم پر ہیں تو اس سلسلے میں ہماری بات بالکل واضح ہے کہ اس مسئلے پر اجماع امت ہے ہی نہیں ، جیسا کہ ’’اختلاف‘‘ کی بحث سے واضح ہو چکا ہے اور میں نہ مانوں کا تو کوئی علاج ہی نہیں ہے۔

    اور شیعیت کا الزام کس قدر جسارت کی بات ہے کیا وہ ہزاروں صحابہؓ، تابعینؒ ، تبع تابعینؒ جو امیر عمرؓ کے فیصلے سے اختلاف کر تے چلے آ ئے ہیں سارے شیعہ تھے؟؟ نعوذ باللہ من ذلک


    *

    اور یہ دعویٰ بھی بالکل بودا ہے کہ حدیث صحیح مسلم مضطرب ہے! کیونکہ یہ بات کسی بھی اہل علم نے ذکر نہیں کی۔

    *

    طاؤ س پر اعتراض او ر اس کے تفرد پر لب کشائی بھی کوئی حقیقت نہیں رکھتا، کیونکہ وہ فقیہ بھی ہے اور فاضل بھی ، ثقہ بھی حتیٰ کہ علامہ ذہبیؒ امام عمرو بن دینا ر سے نقل کر تے ہیں کہ میں نے طاؤ س کا مثل تو دیکھا ہی نہیں ، اور ثقہ راوی کا تفرد حدیث کے ضعف کو مستلزم نہیں ہو تا۔

    *

    اور یہ مطالبہ بھی بالکل جاہلانہ ہے کہ اس حدیث کو بخاری ؒ اور احمدؒ نے ذکر کیوں نہیں کیا ، اس لئے کہ امام بخاریؒ نے ایسا کوئی دعویٰ ہی نہیں کیا کہ میں ہر صحیح حدیث کو ’’الجامع الصحیح‘‘ میں ذکر کرونگا بلکہ طوالت کے خوف سے انہوں نے بہت سی احادیث کو چھوڑ دیا ہے۔ اور امام احمدبن حنبلؒ نے تو اسے مسند احمد میں 314/1پر ذکر کیا ہے اور کوئی اعتراض بھی نہیں کیا۔

    *

    اس حدیث کے منسوخ ہونے کا دعویٰ بھی بالکل غیر علمی ہے، کیونکہ اگر یہ منسوخ تھی تو عہد نبوی ﷺ، عہد صدیقیؓ اور خود عہد فاروقیؓ کے ابتدائی سالوں میں اس کا علم کسی کو کیوں نہ ہو سکا؟ اور پھر اس کا ناسخ کیا تھا؟ کیا قول عمرؓ ؟
    معاذاللہ کیا قول امتی بھی قول رسولﷺ کو منسوخ کر سکتا ہے؟؟

    کیا ’’تواصی بالتقلید ‘‘ پر عمل پیر ا لوگ نہیں جانتے کہ اسی حدیث کے آخری حصے پر تو ان کے ’’ فرضی اجماع‘‘ کی بنیا د ہے اگر یہ حدیث منسوخ ہے، مضطرب ہے تو پھر خو د ان
    کے ’’فرضی اجماع‘‘ کی دلیل کہا ں سے ملے گی ؟؟؟

    ( لو آپ اپنے دام میں صیاد آگیا! )




    *

    اور یہ بھی کم علمی کی علامت ہے کہ جی ابن عباسؓ (جو اس حدیث کے راوی ہیں) ان کا فتویٰ اس حدیث کے خلاف ہے ، کیونکہ یہ قاعدہ ہے کہ راوی کی روایت کا اعتبار کیا
    جائے گا اس کی رائے کا نہیں ۔(فتح الباری 97/9) جبکہ اس کا فتویٰ مرفوع روایت کے خلاف ہو۔

    اور ابوداؤد میں تو صراحت موجود ہے کہ ابن عباسؓ نے فرمایا کہ

    ’’جب کوئی یہ کہے (اپنی بیوی کو) کہ تجھے تین طلاق تو یہ ایک طلاق ہی شمار ہو گی۔‘‘

    دیکھ لیجئے کہ ابن عباسؓ نے کیا فتویٰ دیا ہے۔

    *رجوع اور تجدید نکاح وغیرہ*

    یاد رکھنا چاہیے کہ’’ عدم رجوع‘‘ کی صرف تین صورتیں ہیں!

    قرآن مجید میں طلاق کے متعلق جو آیات بیان کی گئی ہیں ان میں بالا طلاق خاوند کو رجوع کا حق دیا گیا ہے۔

    ۚ وَبُعُولَتُهُنَّ أَحَقُّ بِرَدِّهِنَّ فِي ذَلِكَ إِنْ أَرَادُوا إِصْلَاحًا ۔۔۔

    (سورۃ البقرۃ آیت:۲۲۸)

    ’’ان کے خاوند انہیں لوٹالینے کے پورے حقدار ہیں اس مدت میں اگر وہ اصلاح کا اراداہ رکھتے ہوں۔‘‘


    صرف تین صورتوں میں رجوع کی اجازت نہیں ہے۔

    ۱

    ۔وہ عورت جسے تیسری مرتبہ (شرعی طریقہ پر) طلاق دی جا چکی ہو۔

    فَإِنْ طَلَّقَهَا فَلَا تَحِلُّ لَهُ مِنْ بَعْدُ حَتَّى تَنْكِحَ زَوْجًا غَيْرَهُ ۔۔۔

    (البقرۃ آیت :۲۳۰)

    ’’پس اگر وہ(خاوند) اسے (تیسری) طلاق بھی دیدے تو پھر اس کے لئے جائز نہیں جب تک کہ وہ عورت اس کے علاوہ کسی اور شخص سے نکاح نہ کرلے۔‘‘


    ۲

    ۔وہ عورت جس نے از خود طلاق (بصورت خلع) حاصل کی ہو۔

    ترجمہ : پس اگر تمہیں ڈر ہو کہ یہ دونوں اللہ کی حدیں قائم نہ رکھ سکیں گے تو عورت جو کچھ بدلہ دے کر خود کو چھڑالے تو اس میں دونوں پر کچھ گناہ نہیں۔

    (البقرۃ آیت:۲۲۹)


    اس طرح عورت گو یا فدیہ دیکر خاوند کے حق رجوع کو ختم کر دیتی ہے۔

    ۳

    ۔وہ عورت جسے قبل از صحبت طلاق دے دی جائے۔

    ترجمہ: اے ایمان والوں! جب تم مومنات سے نکاح کرو ، پھر انہیں مس کئے بغیر طلاق دیدو تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرو انہیں کچھ دیکر اچھے انداز میں رخصت کر دو۔

    (سورہ احزاب :49)


    ان تین صورتوں کے علاوہ اور جو کوئی بھی صورت ہو فقط طلاق رجعی شمار ہو گی اب ایک ہی بار دی ہوئی تین (اکٹھی) طلاقوں کو تین شمار کر لینا اپنی طرف سے چوتھا استثناء نہیں تو اور کیا ہے؟


    (تین طلاقیں از خواجہ قاسم)


    *شوہر کے لئے رجوع کا اختیا ر*

    الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ۖ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔

    (البقرۃ آیت:۲۲۹)

    ’’طلاق دینا دو ہی با ر ہے ، پھر یا تو معروف(بھلائی) کے ساتھ روک لینا ہے یا پھر احسان(عمدگی) کے ساتھ چھوڑ دینا ہے۔‘‘

    اس آیت میں وضاحت ہے کہ دو طلاقوں تک کسی شخص کو اپنی بیوی سے رجوع کا حق رہتا ہے بشرطیکہ طلاق کی عدت ختم نہ ہو گئی ہو ۔ اسی چیز کو’’فَإِمْسَاكٌ‘‘ سے
    تعبیر کیا گیا ہے۔

    اور عدت گزرنے کے بعد بھی (ایک یا دو طلاق کی صورت میں) تجدید نکاح سے سابقہ شوہر اپنا گھر آباد کر سکتا ہے۔

    (دیکھئے سورہ بقرہ آیت ۲۳۲ بمع تفسیر و صحیح بخاری کتاب النکاح باب من قال لا نکاح الا بولی)

    البتہ تیسری شرعی طریقہ پر دی گئی طلاق کے بعد شوہر کیلئے رجوع کا حق باقی نہیں رہتا جیسا کہ سورہ البقرہ آیت ۲۳۰ میں بیا ن ہوا ہے۔

    ایسی صورت میں تجدید نکاح بھی نہیں ہو سکتا ، ہاں اگر یہ عورت عدت گزار کر کسی اور جگہ شرعی نکاح کرے اور پھر اتفاق سے وہ خاوند فوت ہو جائے یا طلاق دیدے تو عورت اسکی عدت گزار کر زوج اول سے نکاح کر سکتی ہے۔مگر ایسا معاملہ شاذو نادر ہی ہو تا ہے۔

    طلاق کے بعد رجوع کا ذکرسورہ بقرہ آیت ۲۳۱، ۲۲۸ سورہ طلاق آیت ۲ میں بھی ہو اہے۔

    یاد رہے کہ تجدید نکاح کے بعد شوہر کو صرف اسی قدر طلاق کا حق باقی رہتا ہے جتنی کہ شرعاً باقی ہیں ۔اگر ایک دی تھی تو دو کا حق اور اگر دو دی تھیں تو فقط ایک کا حق باقی رہے گا، ایسا نہیں ہے کہ تجدید نکاح سے شوہر کو از سر نو پھر سے تین طلاقوں کا حق حاصل ہو جائیگا۔

    (دیکھئے مؤطا امام مالک مع الاستذکار بحوالہ موسوعۃ شروح المؤ طا جلد ۱۵ اور تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق صفحہ 146-147)

    *مروجہ حلالہ ملعونہ*

    موجو دہ معاشرے میں کوئی شخص جب ایک ہی مجلس میں تین اکٹھی طلاقیں دیدیتا ہے تو اس پر پھر وہ نادم بھی ہو تا ہے۔اب ہو نا تو یہ چاہئے کہ اسے شرعی حکم سے آگاہ کر دیا جائے مگر افسوس کے شہوت پرست مولوی اسے ’’بدکاری اور حرام کاری‘‘ کا مشورہ دیتے ہیں اور ڈھٹائی تو یہ ہے کہ اپنے اس عمل اور فتوے کو قرآن و سنت کی ترجمانی قرار دیتے ہیں۔نعوذ باللہ من ذلک

    مشورہ یہ دیتے ہیں چونکہ تمہاری بیوی مطلقہ بائنہ ہو چکی ہے اب اس سے تمہارے نکاح کی ایک ہی صورت ہے کہ
    تم اس کی شادی عارضی طور پر (ایک دن یا اس سے زیادہ) کسی اور سے کر دو پھر وہ طلاق دیدے گا تو تمہارا اس سے نکاح جائز ہو جائے گا ۔اسی کا نام حلالہ رکھا جاتا ہے حالانکہ اس ’’فرمائشی نکاح ‘‘ کو حرامہ کہنا زیادہ موزوں ہے۔اور پھر
    ظلم در ظلم یہ کہ اس بد عمل کے لئے کرائے کے سانڈ ہمہ وقت مدارس تقلیدیہ میں مو جود رہتے ہیں۔اندھے ، لولے ، لنگڑے اور انتہائی شریف زادے مولوی؟؟؟

    نبی رحمت ﷺ نے فرمایا

    کرائے کا سانڈ حلالہ کر نے والاہے۔اللہ تعالیٰ نے حلالہ کرنے والے اور جس کیلئے حلالہ کیا جائے دونوں پر لعنت بھیجی ہے۔

    (سنن ابن ماجہ 1936)

    آپ ﷺ نے خود بھی ایسے لوگوں پر لعنت بھیجی ہے۔

    ( جامع ترمذی 123/1)

    صحابہ کرامؓ ااس مروجہ حلالے کو عہد نبویﷺ میں زنا شمار کرتے تھے۔

    (مستدرک حاکم 199/2)

    جناب عمرؓ ایسے دونوں فریق کو رجم کر دینے کے قائل تھے۔

    (مصنف ابن ابی شیبہ)

    مسئلہ طلاق میں فیصلہ عمرؓ (جو سیاسی و تعزیری تھا) کی بات کرنے والے اس شرعی فیصلے کو کیوں نہیں مانتے ؟؟؟
    علامہ ابن قیم ؒ نے تفصیلی بحث کر کے ثابت کیا ہے کہ مروجہ حلالہ متعہ سے بھی بد تر عمل ہے۔

    (دیکھئے اعلام الموقعین)


    *مروجہ طلاق اور مروجہ حلالے پر علمائے احناف کے بیانات*

    *

    مولانا شمس پیر زادہ ۔
    (بمبئی)

    اپنے مقالے میں فرماتے ہیں

    تین یکجائی طلاق کے ایقاع پر نہ قرآن کا حکم صریح موجود ہے نہ کوئی حدیث ہی ایسی ہے جس میں اس کا صریح حکم بیان کیا گیا ہو اور نہ اس پر اجماع ہی ثابت ہے۔۔۔


    *

    مولانا سید احمد عروج قادری ۔
    (ایڈیٹر ماہنامہ ’’زندگی‘‘ ۔رامپور ۔بھارت)

    سوالوں کے جوابات دیتے ہوئے فرماتے ہیں

    ’’اگر طلاق دینے والے نے اس خیال کے تحت تین کی صراحت کے ساتھ طلاق دی کہ اس کے بغیر طلاق واقع ہی نہیں ہوتی تو تین طلاقوں کو ایک ہی شمار کیا جانا چاہئے۔‘‘ نیز فرماتے ہیں کہ ’’ایک مجلس کی تین طلاقوں کے مغلظہ ہو نے پر اجماع کا دعویٰ محل نظر ہے۔‘‘


    *

    مولانا محفو ظ الرحمن قاسمی ۔
    (فاضل دیو بند)

    فرماتے ہیں

    بیک وقت تین طلاقیں دینا معصیت ہے تو کیوں نہ اس معصیت کو روکنے کا انتظام کیا جائے اور اس کا دروازہ ہی بند کر دیا جائے اور شریعت کی مصلحتوں کو طلاق کے سلسلے میں باقی رکھا جائے، علامہ فخرالدین رازی نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔

    حلالہ مروجہ کے حوالے سے فرماتے ہیں

    موطاامام مالک میں ہے ’’دونوں کے درمیان ہر حال میں تفریق کر دی جائیگی ، اگر ان کا ارادہ تحلیل کا ہے۔‘‘

    ہمارے ائمہ میں سے صرف
    امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک تحلیل سے بیوی زوج اول کے لئے حلال ہو تی ہے ورنہ امام محمد و ابو یو سف کے نزدیک دیگر ائمہ کی طرح علی وجہ التحلیل کیا ہو ا نکاح غلط ہے اور اس سے عورت زوج اول کیلئے حلال نہیں ہو تی ۔

    مزید فرماتے ہیں

    بالکل متعۃ النساء کی طرح مشروط نکاح کیا جاتاہے۔

    *

    مولانا پیر کرم شاہ ازہری آف بھیرا۔
    (بریلوی)

    اپنے مقالے ’’دعوت فکر ونظر‘‘ میں فرماتے ہیں

    تمام علمائے احناف (و علماء مالکیہ حنبلیہ) اس بات پر متفق ہیں کہ طلاق بدعی حرام ہے۔
    تینوں طلاقیں ایک طہر میں دینے کا قرآ ن میں کوئی ثبوت نہیں ۔

    اگر اجما ع ثابت ہو جائے تو بلا شبہ وہ دلیل قطعی ہے لیکن اجماع کا ثبوت محل نظر ہے۔

    مزید فرماتے ہیں

    جس مسئلہ میں ہر زمانہ کے ائمہ اسلام اختلاف کر رہے ہوں اس کہنا کہ یہ مجمع علیہ ہے بڑے دل گردے کا کام ہے۔

    مروجہ حلاے پر تبصرہ فرماتے ہوئے لکھتے ہیں

    ’’پھر وہ علماء صاحبان کی خدمت میں حاضر ہو تے ہیں جو باستثناء چند حضرات بڑی معصومیت سے انہیں حلالہ کا دروازہ دکھا تے ہیں۔اس وقت انہیں اپنے غیور رسولﷺ کی وہ حدیث فراموش ہو جاتی ہے ’’حلالہ کرنے والے پر بھی اللہ کی لعنت اور جس (بے غیرت) کیلئے کیا جائے اس پر بھی اللہ کی لعنت ۔‘‘

    ان علماء ذی شان کے بتائے ہوئے حل کو اگر کو بدنصیب قبول کر لیتا ہوگا تواسلام اپنے کرم فرماؤں کی ستم ظریفی پر چیخ اٹھتا ہو گا۔۔۔
    ایک سوال

    (کیا امام ابو حنیفہؒ کے مقلد ہو تے ہوئے اصول شریعت ہمیں اجازت دیتے ہیں کہ ناگزیر مجبوریوں میں ہم کسی دوسرے امام کے قول پر عمل کریں؟)


    اس کے جواب میں پیر صاحب فرماتے ہیں

    اصول فقہ کی کتابوں کے مطالعہ کے بعد علی وجہ البصیرت کہا جا سکتا ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔‘‘

    (تمام حوالوں کیلئے دیکھئے مجموعہ مقالات علمیہ دربارہ۔ایک مجلس کی تین طلاقیں ، طبع نعمان کتب خانہ ۔لاہور، اور ایک مجلس میں تین طلاقیں او راس کا شرعی حل از دارالسلام)

    مذکورہ حوالہ جات میں مزید کئی اور علمائے احنا ف کے بیانا ت کو بھی دیکھا جا سکتا ہے۔
    وآ خر دعواناان الحمد للہ رب العالمین۔وصلی اللہ علی نبینامحمد و علی آلہ و صحبہ و اھل طاعتہ اجمعین۔


    *** حوالہ جات ***



    ۔قرآن مجید بمعہ تفسیر ابن کثیر
    ۔صحیح بخاری و صحیح مسلم
    ۔جامع ترمذی و ابن ماجہ
    ۔سنن ابی داؤ د و النسائی
    ۔مستدرک حاکم
    ۔مصنف ابن ابی شیبہ
    ۔موطا امام مالک مع الاستذکار
    ۔تنویر الآفاق فی مسئلۃ الطلاق۔رئیس ندوی
    ۔ایک مجلس میں تین طلاقیں اور اس کا شرعی حل ۔دارالسلام
    ۔ایک مجلس کی تین طلاقیں اور ان کا شرعی حل۔عبدالرحمن کیلانیؒ
    ۔مجموعہ مقالات علمیہ دربارہ ، ایک مجلس کی تین طلاقیں ۔نعمانی کتب خانہ
    ۔اعلام الموقعین
    ۔تین طلاقیں ۔خواجہ قاسم
    ۔طلاق قرآن و حدیث کی روشنی میں۔حکیم اسرائیل ندوی
    ۔حکم طلاق الثلاث۔ڈاکٹر ابو جابر
    ۔مسئلہ طلاق ثلاث اور شبہات کا ازالہ
    ۔حلالہ کی چھری۔ابو شرحبیل


Working...
X