Announcement

Collapse
No announcement yet.

Unconfigured Ad Widget

Collapse

ایک مجلس کی تین طلاق کا شرعی حکم

Collapse
X
 
  • Filter
  • Time
  • Show
Clear All
new posts

  • ایک مجلس کی تین طلاق کا شرعی حکم



    ایک مجلس کی تین طلاق کا شرعی حکم

    ایک ہی لفظ میں تینوں طلاقیں کو دے دینا یعنی طہر واحد میں کلمہ واحدہ کے ساتھ تینوں طلاقیں دے دی جائیں۔ مثلاشوہر بیوی سے کہے میں نے تجھے تین طلاقیں دیں، یا دس طلاقیں دی یا یوں کہے کہ میں نے تجھے طلاق دی۔ میں نے تجھے طلاق دی، میں نے تجھے طلاق ،یا طلاق ،طلاق، طلاق۔ ان سب الفاظ سے ایک ہی طلاق واقع ہوتی ہے ایسی تین طلاقوں کے بعد شوہر کو رجعت کا پورا پورا اختیار ہے دور حاضر میں اہل سنت والجماعت کی اکثریت اسی بات کی قائل ہے اب ہم ان کے دلائل کو مختصر ذکر کرتے ہیں۔

    قرآن کی رو سے پہلی دلیل

    ’’الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ ‘‘

    (البقرۃ :۲۲۹)

    ’’طلاق دو مرتبہ ہے اس کے بعد یا تو خوبی کے ساتھ رجعت کر لی جائے ورنہ شرافت کے ساتھ چھوڑ دیا جائے‘‘




    اس آیت کو بغور پڑھا جائے تو اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ طلاق ایک ہی مرتبہ یک بیک واقع نہیں ہو سکتی بلکہ ایک کے بعد دوسری واقع ہوگی۔
    حافظ ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں

    ’’لغت عربی اور دنیا کی تمام زبانوں میں مرتان سے مراد مرۃ بعد مرۃ ہے(یعنی ایک دفعہ کے بعد دوسری دفعہ نہ کہ محض لفظی تکرار) اس کی تائید قرآن مجید اور حدیث شریف اور کلام عرب سے ہوتی ہے۔

    اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے
    سَنُعَذِّبُہُم مَّرَّتَیْنِ (التوبہ:۱۰۱)اَوَلَا یَرَوْنَ اَنَّھُمْ یُفْتَنُوْنَ فِیْ کُلِّ عَامٍ مَرَّۃً اَوْ مَرَّتَیْنِ(البقرۃ:۱۲۶)یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُوا لِیَسْتَأْذِنکُمُ الَّذِیْنَ مَلَکَتْ أَیْْمَانُکُمْ وَالَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوا الْحُلُمَ مِنکُمْ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ(النور: ۵۸) لَتُفْسِدُنَّ فِیْ الأَرْضِ مَرَّتَیْْنِ

    بنی اسرائیل:۴


    ان سب آیتوں میں ’’مرۃ بعد مرۃ‘‘ (ایک مرتبہ کے بعد دوسرے مرتبہ) مراد ہے۔جس کا الگ الگ مجلسوں میں ہونا ضروری ہے ۔اور ’’ثلاث مرات‘‘کا مطلب الگ الگ تین اوقات ہیں نہ کہ ایک ہی زمانے میں تین اوقات کا اجتماع جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ’’مرتان‘‘ میں تفریق کا مفہوم شامل ہے۔





    اسی طرح حدیث شریف میں نماز کے بعد ۳۳ مرتبہ ’’سبحان اللہ‘‘،۳۳ مرتبہ’’ الحمدللہ‘‘ اور۳۴ مرتبہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہنا مشروع ہے۔اگر کوئی شخص ’’سبحان اللہ ،الحمدللہ ،اللہ اکبر‘‘ ایک ساتھ پڑھ کر کہے کہ ’’سو بار‘‘ تو تب بھی ایک ہی تسبیح شمار کی جائے گی۔ اسے الگ الگ ہر ایک تسبیح کو شمار کرنا ہوگا۔ یہ عربی زبان کا محاورہ، طرز گفتگو اور زبان کی ادائیگی کا طریقہ ہے جو ہر زبان میں بولا اور سمجھا جاتا ہے۔

    تفسیر خازن طبع مصر میں ہے
    ’’ان التطلیق الشرعی یجب ان یکون تطلیقۃ بعد تطلیقۃ علی التفریق دون الجمع والارسال دفعۃ واحدۃ‘‘

    ’’یعنی شرعی طلاق میں یہ ضروری ہے کہ متفرق طور پر ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق ہونی چاہیئے نہ کہ اکھٹی ایک ہی بار میں‘‘




    علامہ ابو بکر حصاص حنفی کا قول بھی ملاحظہ کیجئے جو انہوں نے آیت ’’ الطلاق مرتان‘‘ کے تحت لکھا ہے۔
    ’’تضمنت الامر بایقاع الاثنتین فی مرتین فمن اوقع الاثنتین فی مرۃ فھو مخالف لحکمھا‘‘

    (احکام القرآن ج۱، ص۳۸۰ طبع مصر)

    یعنی’’ الطلاق مرتان‘‘ دو طلاقوں کو دو مرتبہ میں واقع کرنے کے حکم کو شامل ہے تو جس شخص نے دو طلاق ایک ہی دفعہ میں ایک طہر میں دے دیں اس نے حکم الٰہی کی مخالفت کی۔




    علامہ سندھی حنفی فرماتے ہیں
    ’’قولہ تعالیٰ: الطلاق مرتان الیٰ قولہ ولا تتخذوا اٰیت اللہ ھزواً فان معناہ التطلیق الشرعی تطلیقۃ بعد تطلیقۃ علی التفریق دون الجمع والارسال مرۃ واحدۃ ولم یرد بالمرتین التثنیۃ ومثلہ قولہ تعالیٰ ثم ارجع البصر کرتین ای کرۃ بعد کرۃ لا کرتین اثنتین‘‘

    (حاشیہ سنن نسائی ج۲،ص۲۹، طبع انصاری دھلی)

    ’’یعنی آیت کا مطلب یہ ہے کہ شرعی طلاق متفرق طور پر ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق ہونی چاہیئے نہ کہ ایک ہی بار اکھٹی اور مرتان سے تثنیہ مراد نہیں ہے۔ اسی طرح آیت ’’ثم ارجع البصر کرتین‘‘ ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ نظر اٹھا کر دیکھنے کا حکم ہے۔





    مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کے استاذ مولانا شیخ محمد تھانوی نے بھی اس آیت کی تفسیر میں تقریباً یہی لکھا ہے اور اس کے معنی کی تعیین و تائید کی ہے۔


    ان قولہ تعالی: الطلاق مرتان، معناہ مرۃ بعد مرۃ فالتطلیق الشرعی علی التفریق دون الجمع والارسال

    (حاشیہ سنن نسائی ج۲، ص۲۹، طبع انصاری دھلی)

    یعنی آیت کا یہ مطلب ہے کہ ایک طلاق کے بعد دوسری طلاق دی جائے۔ اس لئے کہ شرعی طلاق وہ ہے جو متفرق طور پر متفرق طہروں میں دی جائے نہ کہ بیک وقت ایک مجلس میں۔



    • لفظ ’’مرتان‘‘ کی یہی تفسیر علامہ ابو البرکات عبداللہ بن احمد نسفی حنفی نے ’’مداک التنزیل‘‘ ج۲،ص۱۷۷ طبع مصر میں کی ہے۔
    • اور علامہ اثیر الدین ابو عبداللہ محمد بن یوسف المعروف بابن حیان نے’’ البحرالمحیط ‘‘ ج۲،ص۱۹۲ طبع مصر میں۔
    • اور امام رازی نے ’’تفسیر کبیر‘‘ج۲،ص۲۷۳ طبع مصر میں۔
    • اور مولانا عبدالحق صاحب نے ’’اکلیل علی مدارک التنزیل‘‘ ج۲ ،ص۱۷۱ طبع منشی نول کشور لکھنوء میں۔
    • اور بیضاوی نے اپنی تفسیر ج۱، ص۱۵۰ میں۔
    • قاضی ثناء اللہ پانی پتی میں’’تفسیر مظہری‘‘ج۲،ص۲۳۵،طبع قدیم دھلی ۱۲۷۳؁ھ میں۔


    نیز علامہ محمد آلوسی حنفی نے’’روح المعانی‘‘ ج۲، ص۳۷ طبع مصر میں اس آیت کے تحت تین قول ذکر کئے ہیں۔ اور تیسرے قول کو ہی راجح قرار دیا ہے۔ جس میں مرتان کے معنی تفریق کے ہیں:’’واذا کان معنی مرتین التفریق مع تثنیۃ کما قال بہ المحققون بناء علی انہ حقیقۃ فی الثانی ظاہر فی الاول اذلا یقال لمن دفع الی اخر درھمین مرۃ واحدۃ انہ اعطا،مرتین حتی یفرق بینھما وکذا لمن طلق زوجتہ ثنتین دفعۃ انہ طلق مرتین ،الخ‘‘

    ’’مرتین کے معنی تثنیہ کے ساتھ تفریق کے ہیں جیسا کہ محققین کہتے ہیں، اس بنا پر کہ دوسرے میں حقیقت ہے اور پہلے میں ظاہر ہے۔ لہٰذا اس شخص سے یہ نہیں کہا جائے گا جو دوسرے کو ایک مرتبہ میں دو درھم دے کہ اس نے دو مرتبہ دیئے یہاں تک کہ الگ الگ دے۔ اسی طرح جو شخص اپنی عورت کو ایک ہی مرتبہ میں دو طلاق دے اسے نہیں کہا جائے گا کہ اس نے دو مرتبہ طلاق دی‘‘۔





    اس کے بعد علامہ آلوسی نے ایک مجلس میں تین طلاق کا ذکر کرتے ہوئے علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا نام بھی لیا ہے اور ان احادیث کو نقل کیا ہے جن سے ایک مجلس میں تین طلاق کے ایک ہونے پر استدلال کیا جاتا ہے۔

    مولانا انور شاہ کشمیری مرحوم (استاذ دارالعلوم دیوبند) کی صراحت بھی ملاحظہ فرمایئے۔

    ’’قلت الایۃ: الطلاق مرتان حجۃ علیہ لا لہ فانہ لیس معنی قولہ تعالیٰ مرتان اثنتان بل معناہ مرۃ وذلک لان التثنیۃ علی نحوین الاول نحو زید ان تثنیۃ زید والثانی تثنیۃ ما فی التاء الوحدۃ ویسمی تثنیۃ التکریر کما فی قولہ تعالیٰ :فارجع البصر کرتین کالمرۃوالمرتان معناہ مرۃ بعد مرۃ فیہ معنی التثنیۃ مع مراعاۃ الواحدۃ ‘‘

    (فیض الباری ج۴،ص۳۱۱،طبع مصر)

    ’’میں کہتا ہوں کہ ’’الطلاق مرتان‘‘ آیت ان پر حجت ہے نہ کہ ان کے لئے حجت کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا قول’’مرتان، اثنتان‘‘ کے معنی میں نہیں بلکہ اس کے معنی ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ کے ہیں۔ کیوں کہ تثنیہ دو طرح کا ہوتا ہے اول: جیسے زیدان ،زید کا تثنیہ ہوا، دوسرا جس میں تائے وحدت ہوتی ہے۔ اسے تثنیہ تکرار کہتے ہیں جیسے ’’فارجع البصر کرتین‘‘ مانند’’ مرۃ ومرتان‘‘ کے۔ اس کے معنی ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ کے ہیں۔ اس میں واحد کی رعایت کے ساتھ تثنیہ کے معنی ہیں‘‘۔




    ان سب صراحتوں سے ثابت ہوتا ہے کہ لفظ ’’مرتان‘‘ کا مطلب یہ ہے کہ ’’مرۃ بعد مرۃ‘‘ یعنی ایک مرتبہ کے بعد دوسری مرتبہ متفرق طور پر طلاق دی جائے۔

    مولانا قاضی ثناء اللہ پانی پتی حنفی آیت’’ الطلاق مرتان‘‘ کے تحت لکھتے ہیں

    ’’وکان القیاس ان لا تکون الطلقتان المجتمعتان معتبرۃ شرعا واذا لم یکن الطلقتان المجتمعتان معتبرۃ لم یکن الثلاث المجتمعۃ معتبرۃ بالطریق الاولیٰ لوجودھما فیھا مع زیادۃ‘‘

    (تفسیر مظہری ج۱، ص۲۳۵،طبع قیدم دھلی۱۲۶۹؁ھ)

    ’’قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ دو مجموعی طلاقیں شرعا معتبر نہ ہوں اور جب اکھٹی دی گئی دو طلاقیں معتبر نہ ہوں گی تو تین اکھٹی بدرجہ اولی معتبر نہ ہوں گی۔ کیوں کہ وہ دونوں ایک زائد کے ساتھ تین کے اندر موجود ہیں‘‘۔




    آیت طلاق پر غور کرنے سے تو یہی معلوم ہوتا ہے کہ تین طلاقیں اکھٹی نہیں دینی چاہئیں۔ کیوں کہ مجموعی تین طلاق نص قرآنی کے خلاف ہیں۔ اس لئے نص قرآنی کی طرف لوٹا کر ایک مجلس کی تین طلاق کو ایک شمار کیا جائے۔ کیوں کہ طلاق تین بار نہیں دی گئی اس لئے آیت کا اس پر اطلاق نہیں ہوتا اورحق رجعت باقی رہتا ہے فیصلہ نبوی سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے جیسا کہ حدیثیں آ رہی ہیں۔

    یہ حقیقت ہے کہ اگر آیت کا مفہوم یہ ہوتا کہ تین طلاق ایک مجلس میں ہوں یا متعدد مجالس میں ایک بار میں ہوں یا کئی بار میں ، متفرق ہوں یا اکھٹی ہر حالت میں عورت مرد پر حرام ہو جائے گی تو آیت کے الفاظ یہ نہ ہوتے

    ’’الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔۔۔۔فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ‘‘

    بلکہ اس طرح ہوتے

    ’’الطَّلاَقُ ’’اِثْنَتَانِ‘‘فَإِمْسَ اکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ ۔۔۔۔۔۔فَإِن طَلَّقَہَا’’ثَلاَثاً‘‘ فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْرَہُ
    ‘‘

    ان الفاظ کا ہونا اور’’مرتان اور فان طلقھا‘‘ کے الفاظ ہونے کی صورت میں آیت کے صریح معنی ہیں کہ

    ’’فان طلقھا فی المرۃ الثالثۃ بعد المرتین‘‘

    یعنی اگر دو مرتبہ الگ الگ طلاق دے چکا ہے پھر تیسری مرتبہ طلاق دے تو اس وقت عورت مرد پر حرام ہو گی جیسا کہ امام ابو بکر حصاص زمخشری ،نسفی، ابو حیان اور دیگرمفسرین نے اس کا ذکر کیا ہے‘‘۔










  • #2
    Re: ایک مجلس کی تین طلاق کا شرعی حکم


    دوسری دلیل

    ’’ یَا أَیُّہَا النَّبِیُّ إِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَطَلِّقُوہُنَّ لِعِدَّتِہِنَّ وَأَحْصُوا الْعِدَّۃَ وَاتَّقُوا اللَّہَ رَبَّکُمْ لَا تُخْرِجُوہُنَّ مِن بُیُوتِہِنَّ وَلَا یَخْرُجْنَ إِلَّا أَن یَأْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ وَتِلْکَ حُدُودُ اللَّہِ وَمَن یَتَعَدَّ حُدُودَ اللَّہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ لَا تَدْرِیْ لَعَلَّ اللَّہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذَلِکَ أَمْراً ‘‘

    (الطلاق:۱)

    ’’اے نبی !جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے وقت طلاق دو اور ان کی عدت شمار کرو اور اپنے رب سے ڈرو، انہیں ان کے گھروں سے نہ نکالو اور نہ وہ خود نکلیں مگر یہ کہ وہ کھلی ہوئی بے حیائی کا ارتکاب کریں۔ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا اس نے اپنے نفس پر ظلم کیا، تم نہیں جانتے ہو سکتا ہے اللہ اس کے بعد کوئی امر پیدا کر دے‘‘۔




    اس آیت میں ’’قد ظلم نفسہ‘‘ کا تعلق مختلف امور سے ہے ، نہ کہ صرف طلاق لغیر العدۃسے۔ اور صحیح مفہوم یہی ہے کہ حدود الٰہی کی خلاف ورزی کرنے والا گنہگار اور عذاب الٰہی کا مستحق ہوگا ظلم نفس کا لفظ قرآن مجید میں عام طور سے اللہ کی نافرمانی کر کے اپنے نفس کی حق تلفی کرنے اور اسے ہلاکت میں ڈالنے کے مفہوم میں آیا ہے اور یہی مفہوم یہاں بھی ہے۔

    یہ آیت طلاق رجعی کے بارے میں ہے اور ’’امرا‘‘سے مراد رجعت ہے جیسا کہ مشہور فقیہ صحابیہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا ،امام شعبی ،عطائ، قتادہ، ضحاک، مقاتل بن حیان اور ثوری رحمہم اللہ اجمعین کہتے ہیں۔

    (تفسیر ابن کثیر، ج۷،ص۳۵، زاد المعاد ج۴ ص،۱۵۸،طبع مصطفیٰ البابی الحلبی مصر فتح الباری ج۹، ص۴۲۴، طبع بیروت)

    سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ آیت اس عورت کے متعلق ہے جس سے حق رجعت باقی ہو کیوں کہ طلاق کے بعد تو کوئی نیا امر باقی ہی نہیں رہتا۔

    (صحیح مسلم ج۱،ص۴۸۴، طبع رشیدیہ دھلی)

    امام شعبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ

    ’’لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا‘‘

    کا مطلب یہ ہے کہ شاید تو شرمندہ ہو جائے اور تیرے لئے رجعت کا راستہ پیدا ہو جائے۔

    (ابن ابی شیبہ ج۵،ص۲۶۲،۲۶۳،طبع دارالسلفیہ بمبئی)





    اور ضحاک کہتے ہیں کہ

    ’’لعل اللہ یحدث بعد ذلک امرا‘‘

    سے مراد عورت سے عدت کے اندر رجوع کرنا ہے اور یہی قول عطاء ،قتادہ اور حسن رحمہم اللہ کا ہے۔

    بہر حال اس آیت سے طلاق رجعی ثابت ہوتی ہے نہ کہ طلاق مغلظہ بائنہ۔ اس آیت میں طلاق سنی کا ذکر ہے جو ہر طہر میں دی جاتی ہے اس کی تائید مؤطا امام مالک کی اس روایت سے ہوتی ہے۔

    ’’عن عبداللہ بن دینار قال سمعت عبداللہ بن عمر قرأ یا یھا النبی اذا طلقتم النساء فطلقوھن لقبل عدتھن، قال مالک یعنی بذلک ان یطلق فی کل طھر مرۃ‘‘

    (مؤطا امام مالک باب جامع الطلاق)

    ’’سیدنا عبداللہ بن دینار فرماتے ہیں: میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کو پڑھتے ہوئے سنا’’
    یا ایھا النبی الایہ‘‘ یعنی اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو آغاز عدت کے لئے دو ۔مالک کہتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ایک طہر میں ایک مرتبہ طلاق دی جائے‘‘




    قرآن پاک میں کوئی آیت ایسی نہیں جو یک جائی تین طلاق کے وقوع پر صراحتاً دلالت کرے جن سے استدلال کیا جاتا ہے وہ عام ہیں۔ سنت نے ان کی تخصیص کر دی ہے۔

    امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں

    ’’واجیب بان ھذہ عمومات مخصصۃ واطلاقات مقیدۃ بما ثبت من الادلۃ الدالۃ علی المنع من وقوع فوق الواحِدۃ‘‘

    (نیل الاوطار ج۶، ص۲۴۶، طبع مصطفے البابی الحلبی مصر)

    Comment


    • #3
      Re: ایک مجلس کی تین طلاق کا شرعی حکم



      ایک مجلس کی تین طلاق احادیث کی روشنی میں


      صحیح احادیث کی رو سے ایک مجلس کی تین طلاقیں خواہ ایک ہی لفظ : تجھے تین طلاق یا تجھے طلاق، تجھے طلاق ، تجھے طلاق سے دی جائیں۔ ایک طلاق شمار ہوتی ہے۔ ایسی تین طلاقوں کے بعد شوہر کو عدت کے اندر رجعت کا پورا پورا اختیار ہے۔ اگر عدت کے اندر رجوع کر لیا جائے تو نئے نکاح کی ضرورت نہیں۔ مندرجہ ذیل احادیث سے یہ مسئلہ صراحت کے ساتھ ثابت ہوتا ہے۔



      پہلی حدیث


      (اخرج مسلم فی صحیحہ ،ج۱،ص۴۷۷، ۴۷۸ ،طبع رشیدیہ دھلی )

      من طریق عبداللہ بن طاؤس عن ابیہ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما قال کان الطلاق علی عہد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وسنتین من خلافۃ عمر طلاق الثلاث واحدۃ فقال عمر ان الناس قد استعجلوا فی امر کانت لھم فیہ اناۃ فلو امضیناہ علیھم فامضاہ علیھم‘‘

      (رواہ ایضا عبدالرزاق فی المصنف ج۶،ص۳۹۲،طبع بیروت واحمد فی مسندہ ج۱، ص۳۱۴، طبع پاکستان)

      ’’سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں اس کے بعد سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت کے پہلے دو سالوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا لوگ طلاق کے معاملے میں جلد بازی سے کام لینے لگے ہیں، حالانکہ اس میں ان کے لئے ڈھیل اور آسانی تھی۔ اس لئے اچھا ہے کہ ان سب کو ان پر جاری کر دیا جائے چانچہ وہ جاری کردیں
      ‘‘





      سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس حدیث میں دو حکم بیان کئے ہیں ایک حکم شرعی اور دوسرا حکم سیاسی۔

      پہلا حکم شرعی یہ ہے کہ زمن نبوی اور عہد صدیقی اور دو سال تک عہد فاروقی میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھی جس میں کسی ایک صحابی کا اختلاف بھی ثابت نہیں۔
      دوسرا حکم اس حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کاقول’’فقال عمر ‘‘ کو بھی بیان کیا ہے اور یہ تین طلاقوں کے جاری کرنے کی علت اور دلیل ہے۔
      دوسری حدیث

      ’’عن طاؤس ان ابالصھبا قال لابن عباس اتعلم انما کانت الثلاث تجعل واحدۃ علی عہد النبی صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر وثلاثا من امارۃ عمر فقال ابن عباس نعم ‘‘

      رواہ مسلم ج۱،ص۴۷۸، طبع رشیدیہ و ابو داؤد مع العون ج۲،طبع انصاری دھلی ص۳۳۸ والنسائی ج۲،ص۹۰ طبع پاکستان، وعبدالرزاق ج۶، ص۳۹۲ ،طبع بیروت والدارقطنی ج۴،ص۴۶،۴۷،۵۰،۵۱طبع پاکستان، والطحاوی، ج۲، ص۳۱، دیوبند، والبیھقی،ج۷،ص۳۳۶،طبع حیدر آباد

      ’’ابو الصہباء نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ کیا آپ کو معلوم ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں اور ابو بکر کے زمانے میں اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت کے تین سال تک تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔ تو سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا ہاں۔‘‘




      یہ حدیث پہلی حدیث کی مصدق ہے اور دوسری حدیث بھی ۔پس اس حدیث سے صاف ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔۔۔۔ اس کے خلاف یہ کہنا کہ ایک مجلس کی تین طلاقیں ہوتی ہیں بالکل غلط اور باطل ہے جس پر کوئی شرعی دلیل نہیں۔ کیوں کہ ابو الصہباء کے سوال کے جواب میں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے یہ نہیں فرمایا کہ عہد نبوی و صدیقی میں کبھی تین طلاقیں تین ہوتی تھیں بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا جواب دلیل ہے کہ ان تمام بابرکت زمانوں میں تین طلاقیں ایک ہی شمار ہوتی تھیں۔
      تیسری حدیث

      ’’عن طاؤس ان ابا الصھباء قال لابن عباس ھات من ھناتک ألم یکن الطلاق الثلاث علی عھد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وابی بکر واحدۃ فقال قد کان ذلک کان فی عہد عمر تتابع الناس فی الطلاق فاجازہٗ علیہم‘‘

      (رواہ مسلم ج۱ص۴۷۸طبع رشیدیہ دھلی دارقطنی ج۴ص۴۴طبع اثریہ پاکستان وابن ابی شیبہ ج۵ص۲۶طبع دارالسلفیہ دھلی والبیہقی ج۷ص۳۳۶طبع حیدر آباد)


      ’’ابو الصہباء نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے فرمایا کہ لائو جو آپ کے پاس علمی مسائل ہوں۔ کیا تین طلاقیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں اور ابو بکر صدیق کے زمانے میں ایک ہی نہ تھیں۔ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا بے شک ایک ہی تھیں۔ پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں جب لوگوں نے پے درپے طلاق دینی شروع کر دی تو عمر رضی اللہ عنہ نے ان پر جاری کر دیں‘‘۔







      چوتھی حدیث

      ’’عن ابن عباس قال طلق رکانۃ بن عبد یزید اخوبنی المطلب امرأتہ فی مجلس واحد فحزن علیھا حزنا شدیدا قال فسألہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیف طلقتھا قال طلقتھا ثلاثا قال فی مجلس واحد قال نعم قال فانما تلک واحدۃ فارجعھا ان شئت قال فراجعھا وکان ابن عباس یری ان الطلاق عند کل طہر‘‘

      (اخرجہ احمد ج۱ص۲۶۵طبع گوجرانوالہ پاکستان، وابو یعلی ج۴ص۳۷۹فی مسندہ طبع دارالمامون للتراث دمشق بیروت وصححہ وکذا فی فتح الباری ج۱ص۳۱۶طبع بیروت)

      ’’ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رکانہ بن عبدیزید مطلبی نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں ایک ہی مجلس میں دیں ۔پھر بہت ہی غمگین ہوئے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے دریافت فرمایا کہ تم نے کس طرح طلاق دی؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں تو تین طلاق دے چکا ۔ آپ نے فرمایا ایک ہی مجلس میں؟ کہا ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تو پھر وہ ایک ہی ہے اگر چاہو تو رجوع کر لو، چنانچہ انہوں نے رجوع کرلیا۔ ابن عباس کا یہی خیال تھا کہ ہر طلاق ہر طہر میں ہو‘‘




      حافظ ابن حجر رحمہ اللہ اس حدیث کے متعلق فرماتے ہیں

      ’’وھذا الحدیث نص فی المسئلۃ لا یقبل التاویل الذی فی غیرہ من الروایات الاتی ذکرھا‘‘

      (فتح الباری ج۹ص۳۱۶طبع بیروت)

      ’’یعنی ایک مجلس کی تین طلاق کے ایک ہونے میں یہ حدیث نص صریح ہے دیگر روایات میں جو تاویلیں کی جاتی ہیں اس حدیث میں وہ تاویلیں بالکل غیر مقبول ہیں‘‘



      اگر انصاف سے دیکھا جائے تو یہ حدیث نص صریح ہونے کے اعتبار سے سارے اختلافات کی فیصلہ کن ہے۔ اور بقول حافظ ابن حجر رحمہ اللہ صحیح مسلم کی تینوں مذکورہ احادیث اس کی زبردست تائید کرتی ہیں۔

      ’’ویقوی حدیث ابن اسحاق المذکور ما اخرجہ مسلم‘‘

      (فتح الباری ج۹ص۳۱۶طبع بیروت)یعنی ابن اسحاق کی حدیث کو مسلم شریف کی تینوں حدیثوں سے تقویت حاصل ہوتی ہے اور اس کے بعد تینوں حدیثوں کو نقل کیا ہے۔





      پانچویں حدیث


      ’’عن محمود بن لبید قال اخبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن رجل طلق امرأتہ ثلاث تطلیقات جمیعا فقام غضبانا ثم قال ایلعب بکتاب اللہ وانا بین اظہرکم حتی قام رجل وقال یا رسول اللہ الا اقتلہ‘‘

      (رواہ النسائی ج۲ص۸۹طبع السلفیہ لاھور، قال ابن القیم واسنادہ علی شرط مسلم، زادالمعاد ج۴ص۵۲وقال ابن کثیر اسنادہ جید وقال الحافظ فی بلوغ المرام رواتہ موثقون وفی الفتح رجالہ ثقات ج۹ص۳۱۵طبع بیروت)

      ’’محمود بن لبید سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو خبر دی گئی کہ ایک شخص نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں اکھٹی دے دیں۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ اللہ کی کتاب کے ساتھ کھیل کیا جاتا ہے حالانکہ میں تم میں موجود ہوں یہ سن کر ایک شخص کھڑا ہوا اور کہا کہ یار سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا میں اس کو قتل نہ کردوں؟
      ‘‘





      اس حدیث میں مذکور نہیں کہ طلاق دینے والے کی یہ تین طلاقیں واقع ہو ئیں یا نہیں۔ لیکن اس سے پہلے والی چارحدیثوں سے یہ ثابت ہو چکا ہے کہ ایک مجلس کی اکھٹی تین طلاقیں شریعت میں ایک ہی طلاق ہوتی ہے اور ان سے یہ بھی معلوم ہو چکا ہے کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ کے زمانہ مبارک میں اور دو سال تک عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں بھی یہی دستور شرعی تھا کہ اکھٹی تین طلاقیں ایک ہی ہوتی تھیں۔ تو اس حدیث میں مذکور تین طلاقیں ایک ہی واقع ہوئی ۔ ان کے تین واقع ہونے کا سوال ہی نہیں ہے۔



      Comment

      Working...
      X