سوال : "علیکم بسنتی وسنۃ الخلاء الراشدین من بعدی "۔۔۔۔۔۔۔کیا اس حدیث سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ خلفاء راشدین کے افعال بھی حجت ہیں؟
[فتاویٰ الامارات: ٧١]
جواب : بلا شبہ اگر خلفاء راشدین کا عمل ایک چیز پہ متفق ہو جاتا ہے اور سنت کے مخالف نہ ہو تو بلا شبہ ان کا یہ عمل حجت ہے لیکن بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حدیث چاروں خلفاء میں سے کسی ایک کے قول کی حجیت ہونے پر دلالت کرتا ہے۔تو آپ علیہ السلام کے فرمان
"فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین ۔"
اس میں یا تو مضاف کو محذوف ماننا پڑے گا کہ لفظ "احد" مضاف محذوف ہے۔یا یوں کہا جائے گا"وسنة احد الخلفاء الراشدین" یا پھر خلفاء الراشدین سے پہ پہلے لفظ مجموع کو مضاف مقدر ماننا پڑے گا۔پہلا معنی اگر کر لیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ خلفاء راشدین میں سے ایک اگر منفرد ہو جائے تو اس کی بات حجت ہوگی اور دوسرے معنیٰ سے یہ مراد ہے کہ چاروں خلفاء راشدین کا ایک رائے پر جمع ہونا حجت ہوگا اور صحیح بھی یہی معنیٰ ہے۔
نبی علیہ السلام نے اس حدیث میں جن الفاظ کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔یہ اقتباس گویا کہ قرآن کریم سے اخذ کردہ ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
[٤:١١٥]
جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا،مومنوں کے راستہ کے علاوہ کسی راستہ کی تابعداری کرے گا تو ہم اسے پھیر دیں گے جس طرف بھی وہ پھرتا ہے اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔
يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ" ان الفاظ پر اگر کوئی شخص اعتراض کرسکتا ہےکہ مؤمنین سے پہلے احد کو مقدر مانو کسی ایک مومن کی مخالفت ہوگی،اس آیت میں دوسرا مطلب یہ بھی بن سکتا ہے کہ جو تمام مومنوں کے راستہ کی مخالفت کرے گا اور اصل مقصود بھی یہ ہے۔
اس لیے متقدمین میں سے امام شافعی رحمہ اللہ اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت سے مسلمانوں کے اجماع کی حجیت کی دلیل ملتی ہے۔
[فتاویٰ البانیہ : 119-120]
امام ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری السنی رحمہ اللہ نے فرمایا
اور اسی طرح ہم یہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سب سے افضل ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ہیں،پھر عمر الفاروق ہیں،پھر ذوالنورین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں،پھر امیر المؤمنین اور امام المتقین علی بن ابی طالب ہیں،اللہ ان سب سے راضی ہو۔
(صریح السنہ،ص ٢٤،فقرہ:٢٤)
اس کے متصل بعد ابن جریر سنی نے اپنی اس کتاب صریح السنہ میں خلفائے راشدین کے بارے میں سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔
خلفائے راشدین کی سنت سے کیامراد ہے؟اس کے تین حصے ہیں
اول :جس بات پر خلفائے راشدین کا اتفاق ہے یا کسی ایک خلیفہ راشد سے ثابت ہے اور دوسرے خلفاء سے اس کی مخالفت ثابت نہیں۔
دوم : جس بات پر خلفائے راشدین کا آپس میں اختلاف ہے۔
سوم : خلفائے راشدین میں سے کسی ایک خلیفہ سے ایک بات ثابت ہے،لیکن دوسرے صحابہ کرام کا اس سے اختلاف ہے۔حدیث مذکور میں صرف اول الذکر مراد ہے۔
[فتاویٰ الامارات: ٧١]
جواب : بلا شبہ اگر خلفاء راشدین کا عمل ایک چیز پہ متفق ہو جاتا ہے اور سنت کے مخالف نہ ہو تو بلا شبہ ان کا یہ عمل حجت ہے لیکن بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ حدیث چاروں خلفاء میں سے کسی ایک کے قول کی حجیت ہونے پر دلالت کرتا ہے۔تو آپ علیہ السلام کے فرمان
"فعلیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین ۔"
اس میں یا تو مضاف کو محذوف ماننا پڑے گا کہ لفظ "احد" مضاف محذوف ہے۔یا یوں کہا جائے گا"وسنة احد الخلفاء الراشدین" یا پھر خلفاء الراشدین سے پہ پہلے لفظ مجموع کو مضاف مقدر ماننا پڑے گا۔پہلا معنی اگر کر لیں تو اس کا مطلب ہوگا کہ خلفاء راشدین میں سے ایک اگر منفرد ہو جائے تو اس کی بات حجت ہوگی اور دوسرے معنیٰ سے یہ مراد ہے کہ چاروں خلفاء راشدین کا ایک رائے پر جمع ہونا حجت ہوگا اور صحیح بھی یہی معنیٰ ہے۔
نبی علیہ السلام نے اس حدیث میں جن الفاظ کے ساتھ تعبیر کیا ہے۔یہ اقتباس گویا کہ قرآن کریم سے اخذ کردہ ہے۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا
[٤:١١٥]
جو شخص ہدایت واضح ہوجانے کے بعد رسول کی مخالفت کرے گا،مومنوں کے راستہ کے علاوہ کسی راستہ کی تابعداری کرے گا تو ہم اسے پھیر دیں گے جس طرف بھی وہ پھرتا ہے اور ہم اسے جہنم میں داخل کریں گے وہ بہت برا ٹھکانہ ہے۔
يَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ" ان الفاظ پر اگر کوئی شخص اعتراض کرسکتا ہےکہ مؤمنین سے پہلے احد کو مقدر مانو کسی ایک مومن کی مخالفت ہوگی،اس آیت میں دوسرا مطلب یہ بھی بن سکتا ہے کہ جو تمام مومنوں کے راستہ کی مخالفت کرے گا اور اصل مقصود بھی یہ ہے۔
اس لیے متقدمین میں سے امام شافعی رحمہ اللہ اس طرف گئے ہیں کہ اس آیت سے مسلمانوں کے اجماع کی حجیت کی دلیل ملتی ہے۔
[فتاویٰ البانیہ : 119-120]
امام ابو جعفر محمد بن جریر بن یزید الطبری السنی رحمہ اللہ نے فرمایا
اور اسی طرح ہم یہ کہتے ہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سب سے افضل ابو بکر الصدیق رضی اللہ عنہ ہیں،پھر عمر الفاروق ہیں،پھر ذوالنورین عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ ہیں،پھر امیر المؤمنین اور امام المتقین علی بن ابی طالب ہیں،اللہ ان سب سے راضی ہو۔
(صریح السنہ،ص ٢٤،فقرہ:٢٤)
اس کے متصل بعد ابن جریر سنی نے اپنی اس کتاب صریح السنہ میں خلفائے راشدین کے بارے میں سیدنا سفینہ رضی اللہ عنہ کی حدیث سے استدلال کیا ہے۔
خلفائے راشدین کی سنت سے کیامراد ہے؟اس کے تین حصے ہیں
اول :جس بات پر خلفائے راشدین کا اتفاق ہے یا کسی ایک خلیفہ راشد سے ثابت ہے اور دوسرے خلفاء سے اس کی مخالفت ثابت نہیں۔
دوم : جس بات پر خلفائے راشدین کا آپس میں اختلاف ہے۔
سوم : خلفائے راشدین میں سے کسی ایک خلیفہ سے ایک بات ثابت ہے،لیکن دوسرے صحابہ کرام کا اس سے اختلاف ہے۔حدیث مذکور میں صرف اول الذکر مراد ہے۔
یاد رہے کہ قرآن و حدیث کے صریح خلاف ہر شخص کی بات مردود ہے چاہے کہنے والا کوئی بھی ہو،لیکن ہر ایرے غیرے کو خلاف قرار دینے کا حق نہیں بلکہ اس کے لیے سلف صالحین کی طرف ہی رجوع کرنا پڑے گا۔
[اضواء المصابیح فی تحقیق مشکوٰۃ المصابیح،ص 222-223]